کمسن بچیوں کے ساتھ عصمت دری

0
23

سزاہوگی ’سزائے موت‘۔ حکومت نے آرڈیننس منظور کرلیا
یواین آئی

جموں جموں وکشمیر حکومت نے کمسن بچیوں کے ساتھ عصمت دری کرنے والوں کے لئے سزائے موت کی تجویز والے آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے۔ اس آرڈیننس کا نام ’فوجداری قانون (ترمیمی) آرڈیننس 2018‘ رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کے لئے مزید ایک آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے۔ اس کا نام ’جموں وکشمیر پروٹکشن آف چیلڈرن فرام سکچول وائلنس آرڈیننس 2018‘ رکھا گیا ہے۔ متذکرہ آرڈیننسز کو منگل کے روز یہاں ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی صدارت میں منعقد ہونے والی ریاستی کابینہ کی میٹنگ میں منظوری دی گئی۔ کابینہ سے منظوری ملنے والے آرڈیننسز کو ریاستی گورنر نریندر ناتھ ووہرا کے پاس بھیجا جائے گا جن کی منظوری ملنے کے ساتھ ہی بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے اور کمسن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کے لئے مختلف سزاو¿ں بشمول سزائے موت کے قوانین ریاست جموں وکشمیر میں نافذ ہوں گے۔ ریاست میں قانون وانصاف کے وزیر عبدالحق خان اور خزانہ، تعلیم اور محنت و روزگار کے وزیر سید محمد الطاف بخاری نے کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں متذکرہ آرڈیننسز اور میٹنگ میں لئے گئے دوسرے فیصلوں کے بارے میں میٹنگ کو بریفنگ دی۔ عبدالحق نے کہا کہ ’فوجداری قانون (ترمیمی) آرڈیننس 2018‘کے نفاذ کے لئے رنبیر پینل کوڈ میں تبدیلی لائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس آرڈیننس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ 12 سال سے کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے قصورواروں کو موت کی سزا دی جائے گی۔متذکرہ آرڈیننس کا مسودہ مرکزی حکومت کی طرف سے جاری کردہ آرڈیننس کے طرز پر ہے۔ آرڈیننس میں التزام ہے کہ 12 سال سے کم عمر کی بچی کے ساتھ عصمت دری کرنے والے مجرم کو عمر قید کی سزا یا سزائے موت دی جائے گی۔ 13 سے 16 سال تک کی عمر کی بچی کے ساتھ عصمت دری کرنے والے مجرم کو 20 سال یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ آرڈیننس میں التزام ہے کہ 12 سال سے کم عمر کی بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے مجرم کو پھانسی کی سزا دی جائے گی۔ 13 سے 16 سال تک کی عمر کی بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے مجرم کو عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ آرڈیننس کے مطابق بچیوں اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے تمام واقعات کی تحقیقات خاتون پولیس عہدیدار کی سرپرستی میں ہوگی۔ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی تحقیقات دو ماہ کے اندر مکمل کرنی ہوگی۔ عدالتوں کی جانب سے ٹرائل چھ ماہ کے اندر مکمل کرلی جائے گی۔ جبکہ اپیل کے لئے بھی چھ ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ ایسے تمام واقعات کی ٹرائل کیمروں کی نگرانی میں ہوگی۔ ضمانت کے شرائط کو سخت کردیا گیا ہے اور کسی ملزم کو آسانی سے ضمانت نہیں ملے گی۔ آرڈیننس کے مطابق مجرموں کی جانب سے ادا کیا جانا والا جرمانہ متاثرین کو دیا جائے گا۔ یہ جرمانہ اس وقت سرکاری خزانے میں جمع ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ جموں کے ضلع کٹھوعہ میں رواں برس جنوری میں پیش آئے دل دہلانے والے آٹھ سالہ کمسن بچی کی عصمت دری اور قتل واقعہ کے خلاف دنیا بھر میں بالعموم جبکہ ملک میں بالخصوص ناراضگی دیکھی گئی۔ تاہم کٹھوعہ واقعہ پر ناراضگی کی شدید لہر کے باوجود گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آئے جس کے بعد مرکزی حکومت نے ایسے واقعات کے قصورواروں کو سخت سے سخت سزا دینے والا قانون بنانے کا اعلان کیا۔ صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے اتوار کے روز آبروریزی کے بڑھتے جرائم کو روکنے کے لئے سخت دفعات والے فوجداری قانون ترمیمی آرڈیننس کو منظوری دی جس کے ساتھ ہی اسے نافذکر دیا گیا۔ مرکزی کابینہ نے آرڈیننس کو ہفتہ کے روز منظوری دی کر اسے صدر کے پاس بھیجا تھا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا’ریاست کو دفعہ 370 کے تحت خصوصی پوزیشن حاصل ہے۔ اس کے چلتے مرکزی قوانین ریاست میں براہ راست نافذ نہیں ہوتے ہیں۔ ریاست کا اپنا کرمنل پروسیجر کوڈ بھی ہے۔ اس کے پیش نظر ریاستی حکومت کو اپنا الگ آرڈیننس لانا پڑا‘۔ ریاست میں قانون و انصاف کے وزیر عبدالحق خان نے بتایا کہ آرڈیننس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ 12 سال سے کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے قصورواروں کو موت کی سزا دی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ آرڈیننس کو توثیق کے لئے گورنر کے پاس بھیجا جائے گا۔ قانون و انصاف کے وزیر مسٹر خان نے پریس کانفرنس میں منظور کئے گئے آرریننسزکی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا ’آج ہم نے دو آرڈیننسز کو منظوری دی ہے۔ ان کے نام فوجداری قانون (ترمیمی) آرڈیننس 2018اور جموں وکشمیر پروٹکشن آف چیلڈرن فرام سکچول وائلنس آرڈیننس 2018 رکھا گیا ہے۔ ان میں قصورواروں کے لئے سزاو¿ں کا تعین اور بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کے الترامات شامل کئے گئے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ فوجداری قانون (ترمیمی) آرڈیننس 2018کے لئے رنبیر پینل کوڈ میں تبدیلی لائی جائے گی۔ مسٹر خان نے فوجداری قانون آرڈیننس کے التزامات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ’ 13 سے 16 سال تک کی عمر کی بچی کی عصمت دری کے قصوروارو کو 20 سال یا عمر قید کی دی جائے گی۔ عمر قید کی سزا کا مطلب یہاں یہ ہے کہ قصوروار کو اپنی باقی زندگی جیل میں گذارنی ہوگی‘۔ انہوں نے کہا ’12 سال کی عمر تک کی بچی کی عصمت دری کے مجرم کو عمر قید یا سزائے موت دی جائے گی‘۔ عبدالحق خان نے کہا کہ 13 سے 16 سال کی عمر کی بچی کی اجتماعی عصمت دری کے مجرم کو عمر قید کی سزا دی جائے گی جبکہ 12 سال تک کی عمر کی بچی کی عصمت دری کے مجرم کو سزائے موت دی جائے گی۔ مسٹر خان نے کہا کہ عصمت دری کے تمام کیسوں کی تحقیقات اور ٹرائل فاسٹ ٹریک بنیادوں پر ہوگی۔ انہوں نے کہا ’عصمت دری کے واقعات کی تحقیقات ایک خاتون پولیس افسر کی سرپرستی میں ہوگی۔ تحقیقات دو ماہ کے اندر مکمل ہوگی۔ عدالتوں کی جانب سے ٹرائل چھ ماہ کے اندر مکمل کرلی جائے گی۔ اپیل کے لئے بھی چھ ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ ایسے واقعات کی ٹرائل کیمروں کی نگرانی میں ہوگی‘۔ وزیر موصوف نے کہا کہ مجرموں کی جانب سے ادا کیا جانا والا جرمانہ متاثرین کو دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ’ایسے واقعات میں جب عدالتیں جرمانہ عائد کرتی تھیں تو وہ جرمانہ سرکاری خزانے میں جمع ہوتا تھا۔ لیکن اب یہ جرمانہ متاثرین کی بازآبادکاری کے لئے استعمال میں لایاجائے گا۔ پہلے کیا ہوتا کہ متاثرین کو صرف معاوضہ دیا جاتا تھا لیکن اب متاثرین کو جرمانہ بھی فراہم کیا جائے گا‘۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان کی ضمانت کے شرائط کو سخت کردیا گیا ہے اور کسی ملزم کو آسانی سے ضمانت نہیں ملے گی۔ مسٹر خان نے ’جموں وکشمیر پروٹکشن آف چیلڈرن فرام سکچول وائلنس آرڈیننس 2018‘ کے التزامات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ’یہ قانون 16 سال تک کی عمر کے بچوں کے لئے ہے۔ اس کے تحت جنسی تشدد کے واقعات کی تحقیقات اور ٹرائل چیلڈ فرنڈلی ہوگی۔ جب کوئی بچہ جس کی عمر 16 برس سے کم ہوتی ہے عدالت میں آتا ہے اور پولیس کے پاس جاتا ہے، تو اس کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچوں سے پوچھ گچھ یا بیان لینا مطلوب ہوگا تو پولیس کے عہدیدار متاثرہ بچے کے گھر جاکر پوچھ گچھ یا بیان لیں گے ‘۔ انہوں نے کہا کہ آرڈیننسز کی رُو سے ملزمان کو ثابت کرنا ہوگا کہ انہوں نے جرم نہیں کیا ہے۔ واضح رہے کہ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کٹھوعہ واقعہ کے تناظر میں کہا تھا کہ اُن کی حکومت ایک نیا قانون لائے گی جس میں معصوم بچوں کی عصمت دری میں ملوث افراد کے لئے موت کی سزا لازمی ہوگی ،تاکہ کٹھوعہ کی معصوم بچی کے بعد کوئی دوسری بچی درندگی کا شکار نہ بنے اور یہ اس نوعیت آخری واقعہ ہو۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ معصوم بچی کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل میں ملوث افراد ،جنہوں نے انسانیت کو شرمسار کرنے والا جرم انجام دیا ہے،کو سخت سے سخت اور مثالی سزا دلائیں گی۔ محترمہ مفتی نے اپنے دو سلسلہ وار ٹویٹس میں کہا تھا ’میں پوری قوم کو یقین دلانا چاہتی ہوں کہ میں نہ صرف کٹھوعہ کی کمسن بچی کو انصاف دلانے کے لئے وعدہ بند ہوں بلکہ میں اس دردناک واقعہ میں ملوث افراد ،جنہوں نے انسانیت کو شرمسار کرنے والا جرم انجام دیا ہے،کو سخت سے سخت اور مثالی سزا دلاوں گی‘۔ انہوں نے کہا تھا ’ہم کبھی بھی دوسرے بچوں کو اس طرح کے حالات سے گزرنے نہیں دیں گے۔ہم ایک نیا قانون لائیں گے جس میں معصوم بچوں کی عصمت دری میں ملوث افراد کے لئے موت کی سزا لازمی ہوگی ،تاکہ معصوم آصفہ کے بعد کوئی دوسری بچی درندگی کا شکار نہ بنے اور یہ اس نوعیت آخری واقعہ ہو‘۔ نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر عمر عبداللہ نے محترمہ مفتی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا ’یہ بہت اچھا ہے کہ محبوبہ مفتی اپوزیشن جماعتوں کی تجاویز کو سننے کے لئے تیار ہیں۔ میرے ساتھی دیویندر سنگھ رانا (نیشنل کانفرنس صوبائی صدر جموں) نے بچوں کی عصمت دری کے ملوثین کو موت کی سزا دلانے والے قانون کے لئے اسمبلی میں بل پیش کرنے کا اعلان کیا تھا۔ محترمہ مفتی نے اس تجویز کو قبول کرتے ہوئے باضابطہ اعلان بھی کیا ہے‘۔ وزیر اعلیٰ نے گذشتہ روز بچیوں کی عصمت ریزی کے قصورواروں کو موت کی سزا دینے کے مرکزی کابینہ کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے ملک میں خواتین اور کمسن بچیوں کے خلاف جرائم پرقابو پانے میں کافی حد تک مدد ملے گی۔ انہوں نے مرکزی کابینہ کی طرف سے موجودہ قوانین میں سخت ترامیم کرنے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے عصمت دری کے معاملات کی تحقیقات اور تیز تر پیروی ممکن ہوسکے گی اور قصورواروں کو بھی سخت سزا دی جاسکے گی۔ محبوبہ مفتی نے خواتین کے خلاف جرائم کا حصہ نہ بننے کے لئے سماجی بیداری پیدا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کو عزت دینے اور ان کے حقوق کے بارے میں بیداری پیدا کی جانی چاہئے تا کہ خواتین اور لڑکیوں کو جرائم سے پاک ماحول فراہم کیا جاسکے۔ وزیر اعلیٰ نے اس عزم کو دہرایا تھا کہ اُن کی حکومت ریاست میں بھی اسی طرح کے قوانین لانے کا ارادہ رکھتی ہے تا کہ خواتین کے خلاف جرائم کا خاتمہ کیا جاسکے۔ نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے حال ہی میں کہا تھا کہ اُن کی جماعت نیشنل کانفرنس نے کٹھوعہ جیسے واقعات کے مرتکب ملزمان کے لئے موت کی سزا کا بل ریاستی اسمبلی میں لانے کا فیصلہ کیا ہے اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بل کو جلد سے جلد منظور کروانے کے لئے اسمبلی کا خصوصی اجلاس بالایا جائے۔انہوں نے کہا تھا ’ ہم ایک بل لائیں گے جس کی رُو سے ایسے واقعات کے مرتکب ملزمان کے لئے سزائے موت ہوگی۔ محترمہ مفتی کو اس کے لئے اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلانا چاہیے۔ سزائے موت کا قانون بنے گا تو ایسے واقعات پیش نہیں آئیں گے‘۔ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاو¿ں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری کو اُس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نذدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولیس نے گذشتہ ہفتے واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔ کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا ہے کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گاو¿ں کے کچھ افراد نے عصمت ریزی کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ جموں وکشمیر کرمنل پروسیجر کوڈ (ترمیم شدہ) کی رُو سے خصوصی جرائم جیسے ریپ کے واقعات کی ٹرائل چھ ماہ کے اندر مکمل کی جانی چاہیے۔ تاہم وزیر اعلیٰ نے جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے گذارش کی ہے کہ وہ کٹھوعہ واقعہ کی فاسٹ ٹریک ٹرائل کے لئے فاسٹ کورٹ تشکیل دیں تاکہ کیس کو ٹرائل کو تین ماہ کے اندر مکمل کرلیا جائے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا