"کبھی عشق کیا ہے؟”

0
119
( آزاد نظم )
از
شکیلا سحر
وہ پوچھتے ہیں ہم سے
تم نے کبھی عشق کیا ہے ؟
ہم اقرار کرتے ہیں اور جواب دیتے ہیں
ہر روز نصیب ہوتی ہے ،ہمیں یہ نعمتیں،
شاید یہ میری  محبت یکطرفہ  ہو !
ہاں، ہمیں ایک نظر میں ہی عشق ہوجاتا ہے
آنکھ مچولی کھیلتے بچوں سے
آسمان میں اڑتے بادلوں سے
درختوں پر بیٹھے پرندوں سے
باغوں میں مہکتے رنگین پھولوں سے
پانی میں تیرتے ہوئے گلابی کنول سے
ہو جاتا ہے عشق، جس میں نہ فریب ہوتا ہے نا دھوکہ۔۔
غالب کی خوبصورت عشقیہ غزل سے
دور تک پھیلے شام کے اندھیروں سے
گھروں میں اجالے پھیلاتے ہوئے چراغوں سے
بوڑھی نانی کے قصے کہانیوں سے
جھرنے سے گرتے ہوئے سفید پانیوں سے
پیڑ پر پکے امرود، آموں سے
کمھار کے بنائے گئے مٹی کے گھڑوں سے
کھیتوں سے گزرتی ہوئی پگڈنڈیوں سے
یہ عشق ہے خدا کی بنائی ہوئی
اس حسین کائنات سے ،
جسے دیکھ کر ہمیں عشق ہو ہی جاتا ہے
شکیلا سحر

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا