پروفیسرسید احمدشمیم ادبی میدان کے بڑے کھلاڑی ہیں۔: عارف نقوی

0
85

پروفیسر سید احمد شمیم صا حب کی ادبی خدمات پر ایک خاص پروگرام ہونا چاہئے:پروفیسرکوثر مظہری
شعبہئ اردو،سی سی ایس یو میں ادب نما کے تحت ”پروفیسر سید احمدشمیم کی ادبی خد مات“ موضوع پرآن لائن پروگرام کا انعقاد
میرٹھ
میرا ان سے زیادہ قریبی رشتہ نہیں رہا لیکن وہ ادبی میدان کے بڑے کھلاڑی ہیں۔ان کی شاعری میں نظام کائنات شامل ہے، ان کی شاعری کو تنگ نظری کے ساتھ نہیں دیکھنا چاہے بلکہ ان کی شاعری میں خوبصورتی اور نئے الفاظ کے استعمال کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ یہ الفاظ تھے جرمنی سے معروف ادیب عارف نقوی کے جو شعبہئ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور بین الاقوامی نوجو ان اردو اسکالرز انجمن (آیوسا) کے زیر اہتمام منعقد”پروفیسر سید احمد شمیم کی ادبی خدمات“ موضوع پر اپنی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغازسعید احمد سہارنپوری نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ہدیہئ نعت ایم۔اے سال دوم کی طالبہ فرحت اختر نے پیش کیا اورپروگرام کی سرپرستی عارف نقوی،جرمنی اور صدر شعبہئ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے فرمائی۔صدارت کے فرائض ایو سا کی صدر پروفیسر ریشما پروین نے انجام دیے۔ مہمان خصوصی کے بطور معروف ناقد و شاعر پروفیسر کوثر مظہری (جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی)اورمقررین کے بطور جمشید پور سے ڈاکٹر احمد بدر اور معروف فکشن نگار ڈاکٹر تنویر اختر رومانی نے شر کت کی۔جب کہ مقالہ نگار کے بطوردہلی سے ڈاکٹر پرویز شہر یار نے شرکت کی۔ تعارف ڈاکٹر ارشاد سیانوی اورنظامت کے فرائض ریسرچ اسکالر عظمیٰ سحر نے انجام دیے۔
موضوع کا تعارف پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے کہا سیّد احمد شمیم ادبی دنیامیں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔اپنے عہد کے بڑے ناقدین نے آپ کی فن کا را نہ صلاحیت اور ادبی خدمات پر خوب تحریریں رقم کی ہیں، سید امین اشرف، شمس الرحمن فاروقی، حقا نی القاسمی وغیرہ نے ان کی ناقدا نہ صلاحیت اور شاعری کی تمام جہتوں پر کافی طبع آزمائی کی ہے۔
پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ سید احمد شمیم میرے استاد بھی ہیں۔ ان کی ناقدا نہ صلاحیت اور شعری انفرادیت اور خاص طور سے بحیثیت شاعر ان کی عظمت کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔ آپ نے بہت سے خاکے بھی لکھے ہیں۔”بندآ نکھوں کا تماشا“ مجمو عہ بے انتہامقبول ہوا۔ ان کی غزلوں میں پایا جانے والا رومان احمد فرازجیسے شعرا کے یہاں ملتا ہے وہ جتنے اچھے شاعر ہیں اتنے اچھے نثر نگار بھی ہیں۔
ڈاکٹر پرویز شہر یار نے کہا کہ سیداحمد شمیم کا مطالعہ وسیع رہاہے۔ ان کی نظمیں اور موضوعات کائنات کی لا محدود وسعتوں سے متعارف کراتی ہیں۔ آپ کے کلام میں پاکیزگی اور صاف گوئی کا جذبہ ملتا ہے۔ ان کے یہاں بکھرتی تہذیب کا المیہ اور تہذیب و تمدن کی عمدہ قدریں بھی موجود ہیں۔سید احمد شمیم کی غزلوں اور نظموں سے عشق حقیقی اورمکمل خود سپردگی کا احساس ملتا ہے۔ آپ نے اپنی ادبی زندگی کو سیدھے سادھے طریقے سے گذارا ہے سیّد احمد شمیم صاحب نے قدیم وجدیدادب کا گہرا مطالعہ کیا۔ آپ کا حافظہ بھی تیز ہے۔ جتنے خوبصورت شعر کہتے ہیں اتنی ہی خوبصورتی کے ساتھ نثر نگاری بھی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر احمد بدر نے کہاکہ سید احمد شمیم کے یہاں خواب بھی ہیں اور تھکن بھی، صحراؤں کی پیاس ہے۔ اس عمل میں ان کا شعری وجدان ان کو بھٹکاتا نہیں۔ وہ عشق و عاشقی کے منور شاعر ہیں۔ ان کی پوری شاعری میں ایک لفظ”بدن“ ابھر کرآ تا ہے۔ اس طور لوگ ان کو عشق مجازی کا شاعر تسلیم کرتے ہیں۔
پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ آپ بے حد نفیس اور پڑھے لکھے انسان تھے۔ آپ بہت بے با کانہ گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی شاعری اور خاکوں کے علاوہ نظموں کے انتخاب میں گلوب کا خصوصی مطالعہ ملتا ہے۔ میری درخواست ہے کہ پروفیسر سید احمد شمیم صا حب کی ادبی خدمات پر ایک خاص پروگرام ہونا چاہئے۔
معروف فکشن نگار و ناقد ڈاکٹر تنویر اختر رومانی نے کہا کہ سید احمد شمیم عالمی پیمانے پرجانے جاتے ہیں۔ آپ اختر آزاد، اسلم جمشیدپوری اور میرے استاد محترم ہیں۔ آپ ایک اچھے ناقد،محقق اور شاعر کے ساتھ ساتھ اچھے استاد بھی ہیں۔ آج وہ بہت بیمار ہے اللہ ان کو شفا عطا فرمائے لیکن آپ کی خدمات کوکبھی فرا موش نہیں کیاجاسکتا۔
اس موقع پرڈاکٹر شاداب علیم،نزہت اختر،لائبہ،سیدہ مریم الٰہی، محمد شمشاد، وغیرہ آن لائن جڑے رہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا