انتخابی نعروں کا حکومت بنانے اور بگاڑنے میں اہم کردار رہا ہے

0
69

پریاگ راج// دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں انتخاب کے دوران حساس’انتخابی نعروں’ کی بدولت ووٹروں کو اپنا ہم نوا بنا کر ہاری بازی کو جیت میں اور جیتے ہوئے میدان کو ہار میں تبدیل ہوتے ہوئے حکومتوں کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔
ہندوستانی سیاست میں انتخابی نعروں کا اہم کردار رہا ہے۔ نعرے، رائے دہندگان کو اپنی جانب مائل کر اپنا ہم نوا بنا کر ووٹ کرنے کی حساس اپیل ہے۔ جو لگاتار قائم ہے۔نعرے ایک شخص یا نظام کے بارے میں کچھ بھی بتانے کی اہمیت رکھتے ہیں۔
سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر کے کے سریواستو نے کہا کہ کئی ایسے انتخابات ہوئے ہیں جو صرف نعروں پر مبنی تھے۔ انتخابی نعرے اتنے موثر ہیں کہ ہوا کا رخ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ’ جب تک سورج اور چاند رہے گا، اندرا تیرا نام رہے گا،راجا نہیں فقیر ہے، ملک کی تقدیر ہے،نسبندی کی تین دلال، اندرا، سنجے بنسی لال، دوار کھڑی عورت چلائے، میرا مرد گیا نسبندی میں، میرے انگنے میں تمہارا کیا کام ہے ،چھورا گنگا کنارے والا جیسے نعروں نے سورماؤں کو دھول چٹایا تو سر پر تاج بھی پہنایا۔
انہوں نے بتایا کہ سال 1952،1957اور1962 میں کانگریس کا ہی دبدبہ تھا۔ اس وقت تک جو بھی الیکشن ہوئے اس میں کانگریس کے پاس دو بیلوں کی جوڑی۔ جبکہ جن سنگھ کا الیکشن نشان دیپک اور پرجا سوشلسٹ پارٹی کا انتخابی نشان جھونپڑی تھا۔ اسی کو لے کر تمام نعرے بنے جو بہت کارگر نہیں تھے کیونکہ اس وقت پنڈٹ جواہر لال نہرو کا جادو قائم تھا۔
نعروں کے اعتبار سے اندرا گاندھی کادور بہت دلچسپ تھا۔ ان کے سرگرم ہونے کے دوران کئی نعرے خوب سرخیوں میں رہے۔ ابتدا میں یہ نعرہ بہت گونجتا تھا۔ جن سنگھ کو ووٹ دو، بیڑی پانی چھوڑ دو، بیڑی میں تمباکو ہے، کانگریس پارٹی ڈاکو ہے، یہ نعرہ الگ۔ الگ لفظوں کے استعمال کے ساتھ لگایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ انڈیا از اندرا اینڈ اندرا از انڈیا، نعرہ بھی خوب چلا تھا۔
ایمرجنسی کے دوران کئی نعرے گونجے تھے۔ کانگریس کا سب سےمعروف نعرہ رہا ہے۔ کانگریس لاؤ۔غریبی ہٹاؤ یہ نعرہ ہر الیکشن میں لگتا رہا اور پھر اپوزیشن نے اس کے کاونٹر میں’اندرا ہٹاو۔ملک بچاؤ’نعرہ دیا۔ نسبندی کو لے کر بھی کانگریس کے خلاف خوف نعرے چمکے جس سے کانگریس کومنھ کی کھانی پڑی۔
ملک میں نسبندی کو لے کراندرا گاندھی کے خلاف ناراضگی کا ماحول تھا۔ اس دوران نعروں نے حکمراں جماعت کی بازی پلٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اس دوران’نسبندی کے تین دلال اندرا، سنجے، بنسی لال،دورا کھڑی عورت چلائے، میرا مرد گیا نسبندی میں، آکاش سے نہر کریں پکار ، مت کر بیٹی پر اتیاچار، نعروں نے اندرا گاندھی کا تختہ پلٹ دیا اور جنتا پارٹی کی حکومت میں مورار جی دیسائی 1977 سے 1979 تک وزیر اعظم رہے۔
انہوں نے بتایا کہ سال 1980 لوک سبھا الیکشن میں ایک بار پھر انتخابی نعروں نے اپنا اثر دکھایا۔ کانگریس کی حمایت میں نعرہ دیا گیا’ذات پر نہ پات پر-اندرا جی کی بات پر، مہر لگے گی ہاتھ پر۔اپوزیشن نے اس نعرے کو پلٹ دیا۔ ذات پر نہ پات پر، اندرا جی کی بات پر، چینی ملے گی سات پر، جلدی پہنچو گے گھاٹ پر’۔
اندرا گاندھی کے قتل کے بعد 1984 میں جب تک سورج چاند رہے گا، اندرا تیرا نام رہے گا، کا حساس نعرے نے پور ملک میں کانگریس کی لہر کو سونامی میں بدل دیا اور 400 سے زیادہ سیٹیں حاصل کر کے راجیو گاندھی کو وزیر اعظم بنایا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا