پاکستان سے مصرتک دہشت کی ایک داستان

0
70

آخرانتہا پسندوں کے نشانے پر صوفیہ کے مزارات کیوں ؟

گزشتہ دنوںمصرکی ایک ایسی مسجد پر دہشت گردانہ حملہ ہوا ،جہاں تصوف میں یقین رکھنے والے مسلمان، نمازجمعہ ادا کرنے جمع ہوا کرتے تھے۔اس حملے میں سینکڑوں کی تعداد میں امن پسند مسلمان شہید اور زخمی ہوئے۔ یہ مصر میں لبرل صوفی کمیونٹی پر سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ ہے۔یہ حملہ کس نے کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ملنا باقی ہے مگر میڈیا کی خبروں کے مطابق اس کے پیچھے آئی ایس کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ تاہم، یہ پہلی بار نہیں ہے ،جب دہشت گرد گروہ نے صوفی برادری کی مسجد کو نشانہ بنایا ہو۔ پاکستان، شام، اردن، یمن اور مصر سمیت بہت سے ممالک میں، دہشت گردوں نے لبرل صوفی مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔علااوہ ازیں ان کے نشانے پر شیعہ مسلمان بھی رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انتہاپسند جماعتیں اہل تصوف اوراہل تشیع کو مسلمان نہیں سمجھتی ہیں۔ وہ اپنی شدت پسندی کے راستے میں صوفیوں کے معتدل نظریات کو ایک خطرہ سمجھتی ہیں۔ تصوف میں یقین رکھنے والے اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ کی مخلوقات کو نقصان پہنچایا جائے یا خالق کی زمین پر خون خرابہ کیا جائے، جب کہ دہشت گرد تنظیموں کے نظریات اس کے خلاف ہیں۔اگر شدت پسند جماعتیں نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں تو اہل تصوف انھیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دہشت گردتنظیموں کا عام رویہ رہا ہے کہ وہ اولیاء کرام کے مزارات کو نشانہ بناتی ہیں جب کہ ان بزرگوں سے عقیدت رکھنے والے ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ یہ بتانا برمحل ہوگا کہ سعودی عرب میں موجودہ حکومت کے قیام کے وقت سینکڑوں صحابہ، تابعین، تبع تابعین ، اہل بیت اطہار اور صوفیہ کے مزارات کو محض اس لئے منہدم کردیا گیا تھا کہ برطانیہ کی مدد سے اقتدار پانے والے ان مزارات کو مقام شرک تصور کرتے تھے۔ تب بہت سے مسلمانوں کو قتل بھی کیا گیا تھااور دیگر قسم کے مظالم ڈھائے گئے تھے۔  بہرحال حالیہ ایام میں ایسے حملوں میں اضافہ ہوا ہے جن میں مزارات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پاکستان میں ایک نئی قسم کی دہشت گردی دھیرے دھیرے فروغ پارہی ہے۔خود کو صوفیہ کا پیروکار بتانے والے بھی اب اپنے تحفظ کے لئے ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہیں۔گزشتہ دنوںمصرکی ایک ایسی مسجد پر دہشت گردانہ حملہ ہوا ،جہاں تصوف میں یقین رکھنے والے مسلمان، نمازجمعہ ادا کرنے جمع ہوا کرتے تھے۔اس حملے میں سینکڑوں کی تعداد میں امن پسند مسلمان شہید اور زخمی ہوئے۔ یہ مصر میں لبرل صوفی کمیونٹی پر سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ ہے۔یہ حملہ کس نے کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ملنا باقی ہے مگر میڈیا کی خبروں کے مطابق اس کے پیچھے آئی ایس کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ تاہم، یہ پہلی بار نہیں ہے ،جب دہشت گرد گروہ نے صوفی برادری کی مسجد کو نشانہ بنایا ہو۔ پاکستان، شام، اردن، یمن اور مصر سمیت بہت سے ممالک میں، دہشت گردوں نے لبرل صوفی مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔علااوہ ازیں ان کے نشانے پر شیعہ مسلمان بھی رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انتہاپسند جماعتیں اہل تصوف اوراہل تشیع کو مسلمان نہیں سمجھتی ہیں۔ وہ اپنی شدت پسندی کے راستے میں صوفیوں کے معتدل نظریات کو ایک خطرہ سمجھتی ہیں۔ تصوف میں یقین رکھنے والے اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ کی مخلوقات کو نقصان پہنچایا جائے یا خالق کی زمین پر خون خرابہ کیا جائے، جب کہ دہشت گرد تنظیموں کے نظریات اس کے خلاف ہیں۔اگر شدت پسند جماعتیں نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں تو اہل تصوف انھیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دہشت گردتنظیموں کا عام رویہ رہا ہے کہ وہ اولیاء کرام کے مزارات کو نشانہ بناتی ہیں جب کہ ان بزرگوں سے عقیدت رکھنے والے ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ یہ بتانا برمحل ہوگا کہ سعودی عرب میں موجودہ حکومت کے قیام کے وقت سینکڑوں صحابہ، تابعین، تبع تابعین ، اہل بیت اطہار اور صوفیہ کے مزارات کو محض اس لئے منہدم کردیا گیا تھا کہ برطانیہ کی مدد سے اقتدار پانے والے ان مزارات کو مقام شرک تصور کرتے تھے۔ تب بہت سے مسلمانوں کو قتل بھی کیا گیا تھااور دیگر قسم کے مظالم ڈھائے گئے تھے۔  بہرحال حالیہ ایام میں ایسے حملوں میں اضافہ ہوا ہے جن میں مزارات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پاکستان میں ایک نئی قسم کی دہشت گردی دھیرے دھیرے فروغ پارہی ہے۔خود کو صوفیہ کا پیروکار بتانے والے بھی اب اپنے تحفظ کے لئے ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہیں۔جوانیاں لٹائینگے۔۔ ’’جوانیاں لٹائیں گے، مسجدیں بچائیں گے‘‘’توہین رسالت کی ایک سزا، سرتن سے جدا‘ ‘ ان دنوں پاکستان کے ایک خاص طبقے کے مسلمانوں میں یہ نعرے بے حدمقبول ہورہے ہیں اور بچوں سے لے کر بڑوں تک کی زبان پر ہیں۔یہ نعرے لگانے والا وہ طبقہ ہے جو خود کو صوفیہ کے پیام امن کا حامل بتاتا ہے مگر ان نعروں کے بعدامن پسندی کے ان کے دعوے غیرضروری محسوس ہوتے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ دیوبندی، وہابی اور اہل حدیث گروہوںکے بعد اب پاکستان میں بریلوی بھی تشدد کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تویہ پاکستان کے مستقبل کے لئے کس قدر خطرناک ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ آخر یہ طبقہ تشدد کی جانب کیوں بڑھ رہا ہے؟    پاکستان میں دہشت گردی کی روایت پاکستان میں دہشت گردی کی ابتدا،افغانستان میں سویت روس اور امریکہ کی مداخلت کے ساتھ ہوئی۔ جہاں ایک طرف سویت روس نے افغانستان پر قبضہ کرکے ایک غیرضروری مسئلے کو جنم دیا ،وہیں امریکہ نے پاکستان کے راستے، جنگ کا دروازہ کھول کر نہ صرف اپنے حریف کے خلاف سردجنگ کو آگے بڑھایا بلکہ پاکستان میں بھی دہشت گردی کی بنیاد رکھ دی۔ یہاں روس کے خلاف لڑنے والے’’مجاہدین‘‘ کی فوج تیار ہونے لگی اور اسی کے نتیجے میںجہاں افغانستان میں کچھ جنگجو گروہ پیدا ہوئے، وہیں پاکستان میں بھی لشکرطیبہ، حزب المجاہدین،سپاہ صحابہ،لشکر جھنگوی،جنداللہ،جیش العدل ،تحریک طالبان ،جیش محمد ،جنودالحفصہ کے نام سے کچھ گروپ سامنے آئے جنھوں نے افغانستان میں کم اور پاکستان میں زیادہ اپنی تخریبی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ جماعتیں، سلفی، وہابی اور دیوبندی نظریہ رکھتی ہیں۔ ان جماعتوں کے نشانے پر پاکستان میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں ہی رہے۔ انھوں نے کبھی شیعہ اور بریلوی مسلمانوںکو تشدد کا نشانہ بنایا تو کبھی غیرمسلم قادیانیوں اور اقلیتی ہندووں کے خلاف برسرپیکار نظر آئے۔ یہ بات بھی میڈیا میں آتی رہی ہے کہ دہشت گرد گروہوں کو بڑے پیمانے پر سعودی عرب،بحرین،کویت وغیرہ کا مالی اور اخلاقی تعاون حاصل رہاہے۔ اسی کے ساتھ امریکہ کے اپنے بین الاقوامی مفاد تھے جن کے سبب انھیں اسلحے فراہم ہوتے رہے اور جنرل ضیاء الحق کی پالیسیاں انھیں سرپرستی فراہم کرتی رہیں۔ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیوں؟ پاکستان، پہلے ہی کئی قسم کے تخریب کار گروہوں کے نشانے پر ہے اور ’’جہاد‘‘ کی دعویدار جماعتیں پاکستانی معاشرے کو تباہ وبرباد کر رہی ہیں،اسی بیچ اب خبر ہے کہ پاکستان میں بریلوی بھی مسلح ہونے لگے ہیں۔ بریلویوں کے ہتھیار اٹھانے کے پیچھے کا سبب سلفی اور دیوبندی دہشت گردجماعتوں کے حملے بتائے جارہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے بریلوی حلقوں کی طرف سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ پینتالیس ہزار سے زائد سنی صوفی، بریلوی مسلمان مسلح گروہوں کی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔’’ تعمیر پاکستان‘‘ کے سابق مدیر عبدل نیشاپوری نے پاکستان میں سنی صوفی نسل کشی پر نہایت عرق ریزی سے ایک تفصیلی فہرست یا ڈیٹا بیس تیار کیا ہے جس میں ایسے سینکڑوں حملوں کو گنوایا گیا ہے جو دہشت گردوں کی طرف سے بریلوی مسلمانوں پر یا درگاہوں پرہوئے ہیں۔ ہم ذیل میںصرف چند حملوں کا سرسری ذکر کرتے ہیں۔ درگاہوں اورصوفی مسلمانوں پر حملے مئی، 2001ء کوسندھ کراچی میں سلیم قادری بانی وسربراہ سنّی تحریک، سپاہ صحابہ کے ہاتھوں قتل کردئے گئے۔ مارچ، 2005ء کو پیر راخیل شاہ کے مزار واقع جھل مگسی بلوچستان پر خود کش بمبار نے دھماکہ کردیا جس سے موقعہ پر ہی 36 صوفی سنّی بلوچ مارے گئے۔ مئی ،2005ء کو سپاہ صحابہ کے ایک خود کش بمبار نے اسلام آباد میںبڑے امام سرکار کے مزار پر خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں 14 لوگ ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔جنوری، 2006ء کو  بلوچستان میں حضرت شاہ بخاری کے مزار پر حملہ ہوا اور ہینڈ گرینڈ پھینکے گئے۔ جنوری 2006ء میں بلوچستان میں ہی حاجی شاہ ترنگزئی لاکڑو کے مزار پر حملہ کیا گیا۔ اپریل 2006ء میں نشتر پارک کراچی میں عید میلاد النبی کے جلوس کے اختتام پر نماز ادا کی جارہی تھی تو خود کش بم دھماکہ ہوا جس میںسینکڑوں افراد کی جان گئی یا زخمی ہوئے۔ دسمبر، 2007ء میں خیبر ایجنسی میں جی ٹی روڈ پر واقع عبدالشکور ملنگ بابا کے مزار پر حملہ کرکے مزار کو تباہ کردیا گیا ۔ اس حملے میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے۔  دسمبر 2008ء میں سوات میں پیر سمیع اللہ کو قتل کرنے کے بعد لاش کی بے حرمتی کی گئی۔ مارچ 2008میں خیبر ایجنسی میںچار سو سال پرانے حضرت ابو سید بابا کے مزار کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔اس دوران جھڑپ میں دس افراد ہلاک ہوگئے ۔مارچ ، 2008ء میں پشاور میں ابو سعید بابا کے مزار پر راکٹ فائر کیا گیا، جس میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ مارچ، 2009میں پشاور کے مضافات میں پشتو کے مشہور صوفی شاعر حضرت عبدالرحمن بابا کے مزار کے ستونوں کے ساتھ دھماکہ خیز مواد رکھ کر مزار کو تباہ کردیا گیا۔  جون، 2009ء میں خود کش حملوں کے خلاف فتوی دینے والے بریلوی عالم ڈاکٹر سرفراز نعیمی اور دوسرے پانچ افرادکو ایک خود کش بمبار نے حملہ کر مارڈالا۔ جنوری، 2010ء میںکزئی ایجنسی میں سات مزارات پر حملہ کیا گیا اور زائرین کو تاوان لے کر اس وعدے پر چھوڑا گیا کہ وہ اپنے بریلوی عقائد سے تائب ہوجائیں گے۔ اپریل، 2010ء میں خیبر ایجنسی میں واقع ایک مزار پر حملہ کیا گیا ، جس میں 10 افراد کو ہلاک اور 20 کو زخمی کردیا گیا۔ یکم جولائی 2010کو لاہور کے مشہور صوفی اور اسلام کے مبلغ داتا گنج بخش کے احاطہ مزار میں تین خودکش دھماکے ہوئے، جس کے نتیجے میں 50 زائرین شہید اور 200 زخمی ہوئی۔اکتوبر 2010میں حضرت سید عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر دو خودکش حملے ہوئے جس کے نتیجے میں 20 افراد شہید اور 50 زخمی ہوئے۔ جولائی 2010ء میں دو خود کش بمباروں نے لاہور میں داتا گنج بخش کے مزار کے احاطے میں خود کو اڑا لیا ،اس اس دھماکے میں بھی 50 ہلاک اور 200 زخمی ہوئے۔ 7 اکتوبر 2010ء کو کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر خود کش بم دھماکہ کیا گیا ، جس میں 10 ہلاک اور 50 زخمی ہوئے۔اکتوبر 2010ء کوپنجاب کے شہر پاک پتن میں معروف صوفی بابا فرید گنج شکر کے مزار پر دھماکہ ہوا جس میں 5 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوگئے۔ دسمبر 2010 ء میں پشاور میں پیر غازی بابا کے مزار پر حملہ کیا گیا جس میں 35 افراد ہلاک ہوگئے۔ مارچ 2011ء میںاخوند پنجو بابا کے مزار کے احاطے میں واقع مسجد میں بم دھماکے سے 10 لوگ ہلاک اور 30 زخمی ہوگئے۔ اپریل 2011ء کو  پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں سخی سرور کے مزار پر خود کش بم دھماکہ کیا گیا جس میں 42 افراد ہلاک اور 100 زخمی ہوگئے۔جنوری، 2014ء میںکراچی کے حضرت ایوب شاہ بخاری کے مزار پر 6 عقیدت مندوںکو ذبح کردیا گیا اور کہا گیا کہ جو بھی مزار پر آئے گا اس کا یہی حشر ہوگا۔فروری 2014ء میںکراچی کی درگاہ پیر مہربان شاہ پر دھشت گردوں کی فائرنگ میں8 افراد ہلاک اور 16 سے زائد زخمی ہوگئے۔  اوپر ہم نے صرف چند دہشت گردانہ واقعات کا ذکر کیا ورنہ اس قسم کے سینکڑوں دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں دنیا کو پیامِ امن دینے  والے صوفیہ کی درگاہوں کو نشانہ بنایا گیا یا ان کے عقیدت مندوں پر حملے کئے گئے۔ ان چند واقعات کے ذکر سے سمجھا جاسکتا ہے کہ خود کو صوفیہ کی تعلیمات کا پیرو بتانے والے آخر ہتھیار اٹھانے پر کیوں مجبور ہوئے ہیں؟ظاہر ہے کہ مزارات مقدسہ کی تباہی اور بریلوی مسلمانوں پرپے در پے حملوں نے بریلویوں کو اپنی سلامتی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیاہے۔واضح ہوکہ ان کے علاوہ ہزاروں شیعہ بھی دہشت گروں کے حملوں کا شکار ہوئے ہیں۔ گروہی تفرقوں نے کہاں پہنچادیا پاکستان کو؟ مسلمانوں میں مسلکی گروہوں کی موجودگی اور ان کے بیچ ایک دوسرے کے خلاف تعصب کا احساس، ایک حقیقت ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ یہ مختلف گروپ ایک دوسرے کو کافر، مرتد، فاسق اور گمراہ بھی قرار دیتے رہے ہیں مگر اس تفرقے کا تشدد کی حد تک پہنچ جانا ہلاکت خیز ہوچکا ہے، جس کا پاکستانی معاشرہ سامنا کررہا ہے۔پاکستان میں سنّی مسلک کی اکثریتی شکل وہ ہے جسے عرف عام میں بریلوی کہا جاتا ہے اور ان کی جانب سے کبھی بھی شیعوں کے خلاف دہشت گردی اور انتہا پسندی کی کوئی باقاعدہ روایت دیکھنے کو نہیں ملی ،حالانکہ یہ دونوں طبقات بھی ایک دوسرے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اب خبر ہے کہ جس سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے پاکستان میں پہلے دیوبندی اور سلفی گروہوں کو مسلح کیا تھا، وہی بریلویوں کو بھی ہتھیار فراہم کر رہی ہیں۔ بریلویوں نے 1960 کی دہائی میں پہلی بار منظم ہونے کی کوشش کی تھی اور ’’مسجد بچائو تحریک‘‘ چلائی تھی۔ اس تحریک کا مقصد تبلیغی جماعت کے قبضے سے بریلویوں کی مساجد کو بچانا اورواگزارکرانا تھا۔ جمعیۃ علماء پاکستان کی یہ تحریک آج بھی زندہ ہے مگر اس کی سرگرمیاں کم ہوگئی ہیں۔ اسی کے ساتھ ،حالیہ دنوں میں’’ سنی تحریک‘‘ کے نام سے بریلوی علماء سرگرم ہوئے ہیں اور اس تحریک کو قوت دی ہے ’’عاشق رسول ‘‘ممتاز قادری کی سزائے موت نے۔ واضح ہوکہ ممتاز قادری نے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کا قتل کردیا تھا کیونکہ سلمان نے’’ توہین رسالت‘‘ کے خلاف قانون پر تنقید کی تھی۔ اس کے بعد ممتاز قادری کی حمایت میں کروڑوں افراد سڑکوں پر اتر آئے تھے۔بہرحال پاکستان میں اگر ایک نیا مسلح گروپ ابھرتا ہے تو یہ پاکستان کے وجود کے لئے کوئی اچھی علامت نہیں ہے کیونکہ یہاں پہلے ہی سے مسلک، علاقہ اور زبان کی بنیاد پر بہت سے تخریب کارگروہ سرگرم ہیں۔ حالانکہ یہ سوال بھی کم اہم نہیں کہ یہ طبقہ اگر ہتھیار نہ اٹھائے تو اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے کیا کرے؟ کیونکہ اب تک حکومتیں بھی اسے تحفظ کی گارنٹی دینے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا