نئی دہلی؍؍ہندوستانی کرکٹ میں یوں توسوربھ گانگولی اور وراٹ کوہلی کا شمار جارح کپتانوں میں ہوتا ہے لیکن ٹیم انڈیامیں جارحانہ کپتانی کے آغاز کا سہرا منصور علی خان پٹودی کے سر ہے ۔ جنہوں نے ایک آنکھ سے معذوری کے باوجود غیرملکی سرزمین پر ہندوستان کوپہلی مرتبہ فتح سے ہمکنار کرایا تھا۔ نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے منصور علی خان پٹودی کی آج 79ویں سالگرہ ہے ۔5جنوری 1941 کو بھوپال میں پیدا ہوئے بلے باز نے محض 21 سال کی عمر میں ہندوستانی ٹیم کی کپتانی سنبھالی تھی۔انہوں نے اسکول کی تعلیم دہرادون میں حاصل کی جہاں انہوں نے انگلینڈ کے سابق کھلاڑی اور کوچ فرینک وولی سے کرکٹ سیکھا۔بعد میں انہوں نے انگلینڈ کے ونچسٹر کالج میں اپنی تعلیم مکمل کی۔16سولہ سال کی عمر میں انہوں نے سسکیس کی طر ف سے فرسٹ کلاس میں قدم رکھا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا جب کسی ہندوستانی کھلاڑی نے آکسفورڈ ٹیم کی کپتانی کی۔ ٹائیگر ایک جارحانہ کھلاڑی کے طور پر معروف تھے ۔ اپنے زمانے کے معروف فیلڈر کولن بلینڈ نے کہا تھا کہ میری نظر میں ٹائیگر کور پوائنٹ میں جوہنٹی روڈ سے بھی بہترین فیلڈرہیں۔وہ فیلڈنگ کرتے وقت گیند کو جس انداز میں پکڑتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ‘ٹائیگر’ اپنے نا شکار کو دبوچ رہا ہو۔21سالہ کپتان کی قیادت میں ٹیم انڈیا نے پہلی مرتبہ غیرملکی سرزمین پر نیوزی لینڈ کے خلاف 1968 میں ٹسٹ سیریزجیتی تھی۔ اس وقت کے سب سے نوجوان کپتان نے کل 46 میچ کھیلے ، جس میں40 میچوں میں کپتانی کی۔ ان میں سے 9 میچوں میں کامیابی ، 19 میں شکست اور 19 میچ ڈرا رھے ۔ ملک کے باہر پہلی جیت دلانے کا کریڈٹ بھی کپتان پٹودی کو ہی جاتا ہے ۔نواب منصور علی خان پٹودی کے والد نواب افتخار علی پٹودی اپنے دور کے معروف کرکٹرتھے ۔ تب وہ انگلینڈ کی جانب سے کھیلتے تھے ۔- ٹائیگر پٹودی کے والد کا انتقال انہی کے جنم دن کے موقع پر ہواتھا۔ اس وقت ان کی عمر محض گیارہ سال تھی۔ان کے والد افتخار علی خان کا انتقال 41 سال کی عمر میں دہلی میں پولو کھیلنے کے دوران ہو ا تھا۔منصور علی خاں کی عمر جب 11 سال رہی ہوگی، تب ان کے والد کادہلی میں انتقال ہوا۔ اس کے بعد منصور انگلینڈ چلے گئے ۔ جولائی 1961 میں برطانیہ کے ھوو میں کار حادثہ میں ان کی ایک آنکھ خراب ہوگئی تھی۔ اس حادثہ میں کار کی ٹوٹی ونڈشیلڈ کا ایک ٹکڑا ان کی آنکھ میں لگ گیا تھا جس سے ان کی دائیں آنکھ ہمیشہ کے لئے خراب ہوگئی ۔اس حادثہ کے بعد انہیں ہر چیز ڈبل نظر آنے لگی تھی جس کے بعد لوگوں کو لگا کہ ان کا کرکٹ کیریئر ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ہے ۔پٹودي نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اسی کار حادثے نے انہیں مضبوط بنایا۔ پٹودی نے اپنی سوانح حیات میں بھی لکھا کہ کرکٹ کھیلنا تودور کی بات تھی ایک آنکھ گنوانے کے بعد انہیں گلاس میں پانی ڈالنے اور سگریٹ جلانے جیسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے بھی خاصی محنت کرنی پڑتی تھی ۔اسکے بعد پٹودی نے اپنے کھیل میں تبدیلی کی، جس کی بدولت وہ میڈیم یا تیزکسی بھی رفتار کے گیندباز کا مقابلہ کر سکتے تھے ۔سال 1961میں جس سال ان کی ایک آنکھ خراب ہوئی تھی اسی سال انہوں نے انگلینڈ کے خلاف دہلی میں پہلا ٹسٹ کھیلتے ہوئے ڈیبیو کیا تھا۔ اس کے بعد 1962میں ویسٹ انڈیز دورہ کے دوران انہیں ٹیم کا نائب کپتان بنایا گیا۔اسی سال مارچ میں ویسٹ انڈیزدورے میں وہ ٹیم انڈیا کے کپتان بن گئے ۔اس وقت ان کی عمر محض 21سال 77دن تھی اور دنیا کے سب سے کم عمر کے کپتان بن گئے ۔ پٹودی صرف ایک آنکھ سے ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے خطرناک گیند بازوں کا آسانی سے سامنا کیا۔ 8 فروری 1964 میں دہلی میں انگلینڈ کے خلاف کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز میں نواب پٹودی نے ڈبل سنچری بنائی۔ اس میچ میں انہوں نے 203 رنز بنائے . ٹائیگر نے اپنے کیریئر میں کل 46 ٹیسٹ میچ کھیلے ، جن میں سے 40 میچ ان کی کپتانی میں کھیلے گئے ۔ ٹائیگر نے اپنے کیریئرمیں چھ سنچریوں کی مدد سے کل 2،793 رنز بنائے ۔نواب پٹودی کا خیال تھا کہ ہندوستانی کرکٹ ٹیم تبھی جیت سکتی ہے جب وہ اپنے طاقت کا بھرپور استعمال کریں جوکہ اسپن گیندبازی ہے ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پٹودی کی قیادت میں حالات کے برعکس بھی ٹیم میدان پر تین اسپنروں کے ساتھ اترتی تھی۔وہ دائیں ہاتھ کے بلے باز اور میڈیم تیز گیند باز تھے ۔ 20سال کی عمر میں کرکٹ کیریئر آغاز کرنے والے پٹودی نے ہندوستان کے لئے 1961 سے 1975کے درمیان کرکٹ کھیلا ۔1962 میں پٹودی نے ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی سنبھالی۔انہوں نے 1970 میں کپتانی چھوڑی اور 1975 میں کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لیا تھا۔1964 میں پٹودی کو ارجن ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ اس کے علاوہ 1967 میں حکومت ہند کی جانب سے انہیں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔اس کے بعد انہوں نے سیاست کا بھی رخ کیا۔ سال 1991میں منصور علی خاں نے کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا الیکشن لڑا۔ الیکشن میں خودسابق وزیراعظم اور کانگریس صدر راجیو گاندھی نے ان کے لئے چناؤ پرچار کیا تھا اور راجیو گاندھی نے ہی انہیں بھوپال سے الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا تھا۔…..کرکٹ کے میدان پر ‘ٹائیگر’ کہے جانے والے منصور علی خان پٹودی کی زندگی کسی فلم سے کم نہیں۔ حادثے میں ایک آنکھ کی روشنی کھو جانا، نوابوں والی شان شوکت کے ساتھ زندگی جینا اور اپنے دور کی مشہور اداکار شرمیلا ٹیگور سے عشق لڑانے کے لئے بھی وہ کافی مشہور ہوئے ۔ان دنوں شرمیلا ٹیگور کی گنتی سب سے زیادہ خوبصورت اداکارہ کے طور پر ہوا کرتی تھی۔ منصور علی خان پٹودی کے کرکٹ کیریئر کی کہانی جتنی دلچسپ ہے ، اتنا ہی مزہ ہے بالی ووڈ اداکارہ شرمیلا ٹیگور کے ساتھ ان کی محبت کا قصہ۔ رپورٹوں کے مطابق، شرمیلا اور منصور علی کی پہلی ملاقات دہلی میں ہوئی تھي ۔پھلي ہی ملاقات میں پٹودی شرمیلا ٹیگور کو دل دے بیٹھے ، لیکن محبت کی راہ یہاں بھی مشکل تھی کیونکہ ٹائیگر پٹودی نواب خاندان سے تھے اور شرمیلا بالی ووڈ اداکارہ۔ دونوں کے مذہب مختلف تھے ، لیکن عشق بدستور جاری تھا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ رشتہ چلے گا نہیں لیکن دونوں نے دنیا کو غلط ثابت کیا اور رشتہ نکاح تک پہنچا۔ ایک قصہ بھی مشہورتھا کہ کرکٹ کے میدان میں منصور علی خان شرمیلا ٹیگور کا استقبال چھکے سے کیا کرتے تھے ۔کہا جاتا ہے کہ شرمیلا ٹائگور جہاں بھی بیٹھتی تھیں منصور علی خان اسی سمت میں چھکا مارا کرتے تھے ۔ 27 دسمبر سال 1969 میں دونوں کا نکاح ہوا۔ ان کا ایک بیٹا معروف اداکار سیف علی خان اور دو بیٹیاں اداکارہ سوہا علی خاں اور مشہور ڈیزائنر صبا علی خاں ہیں۔22 ستمبر 2011کو پھیپھڑوں کے انفیکشن کی وجہ سے 70 سال کی عمر میں ٹائیگر پٹودی کا انتقال ہوگیا لیکن آج بھی ‘ٹائیگر’ مداحوں کے دل میں زندہ ہیں۔