ٰؓاین ڈی اے کا اشتہار : اب کی چار سو پار

0
73

پروفیسر اسلم جمشیدپوری
میرٹھ

این ڈی اے کی حکومت کودس سال کا زمانہ ہو گیا ۔ان دس برسوں میں این ڈی اے نے نئے نئے معاملات کو سر انجام دیا ہے۔ہر اہم عہدے پر اب این ڈی اے نے اپنے مہرے بٹھا دئے ہیں۔
الیکشن کمیشن ، سپریم کورٹ ،سی بی آئی ،ای ڈی ،سی آئی ڈی ،مہیلا کمیشن ،اقلیتی کمیشن ،فنانس کمیشن ،گورنرز،صدر جمہوریہ،سنٹرل یونیورسٹیز کے چانسلر،وائس جانسلرز،مرکز کے زیر انتظام اداروں کے ڈائرکٹرز ،سے لے کر نگر نگم کے چیرمین ،میئر ،بورڈ کے صدور ،گائوں کے پردھان اور مکھیا ،ہر چھوٹے بڑے عہدے پر ان کا آدمی ہے یا پھر ان کی مداخلت ہے۔غرض ہر طرف بی جے پی کے لوگ پھیلے ہوئے ہیں۔ایسے میں این ڈی اے والے رات میں خواب دیکھیں یا دن میں ،تعبیر حاصل کرنے کے ان کی منصوبہ بندی کی کامیابی کے ۹۰ فی صد امکانات ہوتے ہیں۔اس پارلیامانی انتخاب میں این ڈی اے والوں نے چار سو پلس کا خواب دیکھا ہے۔
این ڈی اے کا یہ خواب مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ہاں ! اس خواب کو پورا کرنے کے لئے این ڈی اے کو جی توڑ محنت کرنی ہوگی۔بوتھ سطح پر کام کرنا ہوگا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بوتھ سطح پراین ڈی اے سے مضبوط کوئی دوسری سیاسی جماعت نہیں۔این ڈی اے کی مرکزی پارٹی، بی جے پی نے گذشتہ سبھی طرح کے انتخابات میں خود کو ثابت کیا ہے۔فتح و شکست تو ہوتی رہتی ہے۔بی جے پی کسی ریاست میں اگر واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے ،تو حکومت بنانے کے عمل میں اپنا ہر طرح کازور لگا دیتی ہے۔ایسی کئی مثالیں ہیں جب بی جے پی حکومت بنانے کے آس پاس بھی نہیں تھی ،مگر بلآخر بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔خواہ اسے کانگریس کے علاوہ کسی بھی پارٹی سے ہاتھ ملانا پڑے۔حتیٰ کہ کسی بھی پارٹی کو توڑنا پڑے۔وہ پیسے کے بل پر کچھ بھی کر جاتی ہے۔
این ڈی اے کی سیاسی طاقت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ ۲۰۲۳ میں ہندوستان کی ۱۲ ریاستوں میںاس کی حکومت تھی ۔ان میں اتر پر دیش، اترا کھنڈ،بہار،راجستھان ،مدھیہ پر دیش ،چھتیس گڈھ اورآسام شامل ہیں۔یہ وہ ریاستیں ہیں جو عام انتخابات میں ملک کی تقدیر بناتی یا بگاڑتی ہیں۔این ڈی اے کے زیر انتظام والی ریاستوں میں ملک کی نصف سے زائد آبادی رہتی ہے۔اگراین ڈی اے ۳۵سے ۴۰ فی صد ووٹ بھی حاصل کر لیتی ہے تو کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔جس میں کوئی شک نظر نہیں آتا۔ہاںیہ ضرور ہے کہ کانگریس اور اس کی حلیف جماعتیں کتنا اتحاد کا مظاہرہ کرتی ہیں۔جس کا ابھی امکان بہت کم ہے۔انڈیااتحاد کی مضبوط کڑی،ترنمول کانگریس نے بنگال کی ہر سیٹ پر اپنے امیدواروںکا اعلان کر دیا ہے۔انڈیا اتحاد کو ملنے والی کامیابی ،این ڈی اے کے کامیابی کے گراف کو کم سکتی ہے ،لیکن بالکل ختم نہیں کر سکتی۔
این ڈی اے کی اصل طاقت ان کے اندر اعتماد اور جوش ہے۔یہ کسی بھی پارٹی کو فائدہ پہچاتا ہے۔بی جے پی کو اپنے کاموں اور اپنی طاقت ( جس میں اقتدار اور پیسہ شامل ہے)پر پورا بھروسہ ہے۔دراصلاین ڈی اے نے بڑی دور رسی سے اس بات کو بہت پہلے سمجھ لیا تھا،کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے ،جہاں غریب اور مسکین خاصی تعداد میں رہتے ہیں۔بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان میں ایسے لوگوں کی تعداد نصف سے زائد ہے۔یوں بھی ہندوستان میں فری کی چیز یا مال لینے والوں کی کثیر تعداد ہے،فری میں ملنے والی چیز کے لئے ایسے لوگ بھی قطار میں لگ جاتے ہیں ،جو ٹھیک ٹھاک کما لیتے ہیں۔بی جے پی نے اس نکتے کو پا لیا ہے ،اسی لئے اس نے غریبوں کو مفت راشن دینے کی اسکیم ہندوستان سطح پر لاگو کی۔یہ اسکیم کووڈ ۱۹کے وقت سے اب تک جاری ہے ۔ایک اندازے کے مطابق ۸۰ کروڑ لوگ اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اب وہ شخص جو بی جے پی کا نمک کھاتا ہو ،وہ اس کے ساتھ نمک حلالی تو کرے گا ہی ۔۸۰ میں سے نصف فی صد تو اس کو ووٹ کریں گے ہی؟
این ڈی اے کا دوسرا بڑا کام شاہراہوں کی تعمیر ہے۔پورے ہندوستان میں سڑکوں کا ایک جال ہے ،جو پھیلا ہے۔شاید ہی کوئی ریاست ایسی بچی ہو ،جس کو شاہراہ کے ذریعہ دوسری ریاست نہ جوڑا گیا ہو۔چوڑی ،کشادہ سڑکیں ،سبزہ اور ناشتے اورکھانے کے ریسٹورینٹ ،ملک کی شان بڑھاتے ہیں۔اس کام کے لئے مرکزی وزیر نتن گڈکری کی تعریف کر نی ہو گی کہ انہوں نے بغیر مذہب و ملت کی تفریق ،اس کام کو ملک گیر پیمانے پر کیا۔آج پورا ہندوستان بہترین سڑکوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اب عام لوگوں پر جی ایس ٹی کے علاوہ ٹول ٹیکس کا بوجھ بھی بڑھ گیا ہے۔اور ٹول پلازہ والے من مانی کرتے ہیں۔عام لوگوں کے پاس معلومات ہے نہ فرصت کے وہ ٹول پلازہ والوں سے الجھیں۔ہر ٹول پلازہ پر ٹول وصول کرنے کی مدت بڑے بڑے حرفوں میں لکھی ہونی چاہیے،بہت سے ٹول پلازہ والے مدت ختم ہونے کے بعدبھی ٹیکس وصولتے رہتے ہیں۔اس طرف وزیر ِ موصوف کو دھیان دینا چاہیے۔
ائر پورٹ کشادہ اور جدید سہولتوں سے آراستہ ہوئے ہیں۔ائر پورٹس اور جہازوں کی فلائٹس کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جن شہروں سے اب تک ہوائی راستے اور ائر پورٹس نہیں تھے۔اب وہاں سے بھی جہازوں کی پروازیں شروع ہو گئی ہیں۔یہی نہیں ٹرین کی تعداد اور رفتار میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ٹرین کا Privitisation بھی ہوا ہے ۔نمو بھارت ٹرین چلی ہے جن میں ہوائی جہاز جیسی سہولیات ہیں۔ لیکن ایک بات ہے جو زور سے کھٹکتی ہے کہ ان پروازوں اور ٹرینوں کے کرائے اتنے مہنگے ہیں کہ عام آدمی کہ بس کی بات نہیں ہے۔
بی جے پی کا انتخابات سے قبل آدھے ادھورے رام مندر کا افتتاح ہندئوں کی نظر میں ایک بڑا کارنامہ ہے ۔ایسا کر کے انہوں نے انتخابی چال چلی ہے ،انہیں پورا یقین ہے کہ رام مندر مدا(مدعا) ہر بار کی طرح اس بار بھی کام کرے گا۔اس سے ملک کی اکثریت این ڈی اے کی حمایت میں ایک جٹ ہو گی۔اور اگر ایسا ہوا تو این ڈی اے کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔یہی نہیں این ڈی اے کے پاس مودی جیسا لیڈر موجود ہے ،جو جیت کے لئے کچھ بھی،کر سکتے ہیں ۔ابھی انہوں نے وکست بھارت اور مودی کی گارنٹی ،جیسی اسکیمیں شروع کی ہیں۔ہر ریاست کا دورہ کر کے وہاں کچھ نا کچھ ایسا کیا ہے کہ ان کی ایک بار پھر جیت ہو جائے ۔بی جے پی کے پاس امت شاہ جیسا حاضر دماغ بھی ہے۔جو بر وقت ماحول اپنی طرف کرنے کا ماہر ہے۔جو بی جے پی کے لئے بہترین منصوبہ بندی کرنے کے لئے جانا جا تا ہے۔نئے نئے سیاروں کی کامیاب لینڈنگ ،چاند کے بعد سورج کی طرف پیش قدمی نے دنیا میں ہندوستا ن کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔
ان سب کے باوجود این ڈی اے کے خوابوں کے پورا ہونے کے درمیان بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ یہ رکاوٹیں نہیں بڑے بڑے پہاڑ ہیں۔ملک کے ۲۰کروڑ مسلمان ( جو ہر حال میں بی جے پی کے مخالف ہیں) راہل گاندھی اور ان کی ریلیوں میں امڈنے والی بھیڑ،اکھلیش یادو ،لالو یادو ،تیجسوی یادو ،کیجری وال ،ممتا بنرجی ،ہیمنت سورین ،ادھو ٹھاکرے ،کھڑگے ،اویسی ،فاروق عبد اللہ ،محبوبہ مفتی ،بدرالدین اجمل ،سائوتھ کے لیڈر ،ریانتھ ریڈی ،جگ موہن ریڈی ،سدا رمیا،ستیہ پال ملک ،راکیش ٹکیت جیسے پہاڑ این ڈی اے کے خواب اور تعبیر کے درمیان کھڑے ہیں۔پھر مہنگائی ،بے روز گاری ،تعلیم ،غلط پالیسیاں ،ہندو مسلم منافرت ،فرقہ واریت کو بڑھاوا،بیلٹ پیپر سے ووٹ کرانے کی مانگ ،سکھوں کی ناراضگی ،کسانوں کا غصہ ،حزب ِ مخالفین کا اتحاد ،ٹکٹ نہ ملنے والیاین ڈی اے کے باغی ،وغیرہ بھی بی جے پی کے لئے مشکل ثابت ہو سکتے ہیں ۔
اب دیکھنے کی بات ہے کہ این ڈی اے آنے والے پارلیمانی انتخابات میں اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے کیا حربے استعمال کرتے ہیں۔کیوں کہ اقتدار کا نشہ بہت برا ہوتا ہے ،یہ ایک بار چڑھ جائے تو پھر آسانی سے اترتا نہیں ہے۔ انسان سے وہ سب کروا دیتا ہے جو کسی نے سوچا نہیں تھا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ این ڈی اے کا خواب پورا ہوتا ہے یاانڈیا کے لئے راہل گاندھی کی محنت رنگ لا تی ہے۔؟

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا