دیہی علاقوں کے تدریسی وتعمیری نظام کیسے بدلے گا؟

0
67

 

 

 

نثار احمد گنائی
منڈی، پونچھ

تعلیم نے ترقی کے ہر شعبے میں معاشرے کی تقدیر وتعمیر میں اپنا حصہ ہی نہیں ڈالا بلکہ تقدیر کوبھی بدل دیا ہے۔ اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی شرح خواندگی پر باریک نظر ڈالیں تو خود بخود احساس ہو جائے گا کہ کسی قوم کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ دنیا کے تعلیمی میدان میں بالادستی قائم رکھنے والے ممالک امریکہ،انگلینڈ، اسٹریلیا، کنیڈا، فرانس اور جرمنی وغیرہ ہیں، جہاں کی شرح خواندگی لگ بھگ 98 فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔ وہیں وطن عزیز ہندوستان بھی تعلیم و ترقی کے میدان میں ٹیکنالوجی کے اس دور میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ حالانکہ 2001 میں ہوئی مردم شُماری کے مطابق ہندوستان کی شرع خواندگی صرف 64.8 فیصد بتائی گئی تھی۔ جبکہ 2011 میں ہوئی مردم شُماری میں خواندگی کی یہ شرح 74 فیصد کو عبور کر گئی مگر یہ شرح مجموعی طور پر لی گئی ہے۔ چونکہ ہندوستان کی 65 فیصد آبادی کا حصہ دیہات میں رہائش پذیر ہے جہاں ہر طرح کی سہولیات میسر نہیں ہے۔ تعلیمی میدان میں بھی گاؤں بہت پیچھے ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک اس ضمن میں جو بھی اقدامات اُٹھائے گیے ہیں ان کے خاطر خواہ نتائج اب تک برامد نہیں ہو سکے ہیں۔اس سلسلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ثانوی اور اعلی ثانوی درجات کے معاملات میں بعض ایسے اصلاحی اقدامات کیے گئے جن سے اس کی تعلیمی صورتحال کسی حد تک اطمنان بخش ہو گئی ہے۔لیکن بنیادی سطح کی تعلیم کے لیے ابھی بھی ایسے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات درکار ہیں۔ جو مجموعی طور پر تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں۔
دیگر ہندوستانی ریاستوں کے مقابلے میں جموں وکشمیر کا تعلیمی نظام ترقی میں بہت پیچھے اور سست رفتار ہے ۔ اسی سست اور ناقص تعلیمی نظام نے بہت سارے مسائل پیدا کیے ہیں جو طلبہ اور معاشرے کو متاثر کر رہے ہیں۔2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر کی خواندگی کی شرح 67.16فیصد ہے، اس میں سے مردوں کی شرح خواندگی 76.75 فیصد اور خواتین کی شرح خواندگی 56.43 فیصد ہے۔ جموں و کشمیر میں پرائمری، ایلیمنٹری، سیکنڈری اور سینئر سیکنڈری تعلیم کے لیے 14000 سے زائد اسکول ہیں۔ 142 سے زیادہ گورمنٹ ڈگری کالج اور 12 یونیورسٹیاں بھی ہیں اور دو مرکزی یونیورسٹیاں ہیں۔ اس وقت جموں و کشمیر میں 8 میڈیکل کالج، 7 انجینئرنگ کالج اور 3 لاء کالج ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے ادارے ہونے کے بعد بھی جموں و کشمیر کی تعلیمی حالت اتنی اچھی کیوں نہیں ہے؟اس سلسلے میں سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل مہنڈر سے تعلق رکھنے والے و شعبہ اردو سے وابستہ افطار حسین کہتے ہیں کہ خطہ پیر پنجال کے تعلیمی اداروں میں ناقص انفراسٹرکچر خاص طور پر پبلک سیکٹر کے ذریعے چلائے جانے والے ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ناقص فزیکل سہولیات جیسے اکثر اسکولوں میں طلباء کے لیے بیت الخلا ئ، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی اور ناکافی کلاس روم، کلاس روم میں ڈیسک کا نہ ہونا وغیرہ اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی دیہی علاقوں کے اسکولوں میں طلباء برآمدے میں ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔کہیں اسکولوں میں کلاس روم کی دیوار اور چھت بوسیدہ ہوچکی ہیں۔ جن اسکولوں میں طلبہ کو درس و تدریس کے شعبے میں مندرجہ بالا پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کا مستقل کیا ہوگا؟ کیا وہ ملک کی دیگر ریاستوں کے طلباء کے ساتھ تعلیمی میدان میں مقابلہ کر سکیں گے؟
وہیں تحصیل منڈی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن 46سالہ فاروق احمد خان نے کہا کہ منڈی کی عوام کی دیرینہ مانگ پر 2014 میں کالج منظور کیا گیا تھا۔ چونکہ یہاں کے بچوں کو روزانہ 35 سے 40 کلومیٹر کا سفر طے کر کے راجوڑی کالج پہنچنا نہ پڑے۔2016 میں JKPCC کی جانب سے گیارہ کروڑ روپے کا ٹینڈر اور 50 کنال پر مشتمل آراضی مختص کر دی گئی مگر آج تک نہ تو کالج کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا اور نہ ہی طلبہ کی تعلیمی کمی کو مکمل کرنے کا بندوبست کیا گیا۔ پنچایت کی ایک بلڈنگ جس کو سٹور کے لئے استعمال کیا جاتا تھا اس بلڈنگ میں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جہاں نہ تو درس و تدریس کا ضروری سامان رکھنے کی جگہ ہے اور نہ ہی اچھے کلاس روم و لیکچر ہال ہیں۔ زمین مالکان نے 50 کنال آراضی بھی وقف کر دی تھی اور 11کروڑ روپے کا ٹنڈر بھی پاس ہو گیا تھا۔مگر آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کالج کے لئے واگزار کیا گیا 11 کروڑ روپیہ کہاں گیا؟ اُنہوں نے مزید کہا کہ منڈی کے سیاسی و سماجی نمائندگان بارہا انتظامیہ خاص کر ڈپٹی کمشنر پونچھ و ایل جی گورنر سے گوھار لگا چکے ہیںتاہم معاملہ جوں کا توں ہی رہا۔راجوری سے تعلق رکھنے والی شمیم اختر جو ایک پرایوئٹ اسکول میں انگریزی کی استاد ہیں، کہتی ہیں کہ اسکول میں بچے کچھ سیکھتے ہیں یا نہیں اِس سے ان کے والدین کو غرض نہیں ہوتا ہے، کچھ والدین اپنے بچوں کو صرف مفت کتابیں اور وظیفہ حاصل کرنے کی غرض سے داخلہ کرواتے ہیں۔ اسکول سے چٗھٹی ہونے کے بعد وہ گھر کا کام کرواتے ہیں مگر وہ والدین جو معاشی مجبوری یا دیگر معقول و نامعقول اسباب کی بنا پر اولاد کے روشن مستقبل کا سودا کرتے ہیں۔ انہیں کون سمجھائے گا؟ وہیں اوما چودھری جو ایک پرایویٹ اسکول میں انگریزی کی استاد ہیں، کہتی ہیں کہ دیہی علاقوں کے اسکول وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ اکثر ان اسکولوں میں سیکھنے کے وسائل بنیادی طور پر نصابی کتب تک ہی محدود ہیں۔ان میں ضمنی مواد کی کمی ہے، جیسے لائبریری کی کتابیں، جرائد، رسالے، اخبارات، اور سمعی و بصری امداد، جو سیکھنے کے تجربے کو تقویت دے سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی پر مبنی وسائل کی کمی بھی ہے، جیسے کہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ای لرننگ پلیٹ فارمز، اور ڈیجیٹل مواد، جو دلچسپ اور ذاتی نوعیت کے طریقے سے سیکھنے میں سہولت فراہم کر سکتے ہیںاور رسائی اور مساوات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ان تمام وسائل کی کمی طلباء کے سیکھنے کے نتائج اور کامیابیوں کے ساتھ ساتھ تعلیم میں ان کی دلچسپی اور مشغولیت کو متاثر کرتی ہے۔
انہوں نے سرکار سے حسب ذیل کمیوں کو پورا کرنے کی تجویز پیش کی:(۱) دیہی اور پسماندہ علاقوں میں زیادہ سے زیادہ اسکول اور کالج قائم کیے جائیں اور ان میں درس و تدریس کا ضروری سامان مہیا کیا جائے ۔(۲) اسکولوں میں اساتذہ کی خالی اسامیوں پر نئے، ماہر تعلیم و قابل اساتذہ کی بھرتی کی جائے۔
( ۳) ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو دیہی علاقوں کے اسکولوں کا دورہ کر کے طلبہ کی کارکردگی کا جائزہ لے اور اساتذہ کرام کی مکمل حاضری کو یقینی بنائے۔(۴) دیہی علاقوں کے اسکولوں کی بوسیدہ عمارتوں کی مرمت کی جائے اور نئی عمارتوں کی تعمیر عمل میں لائی جائے۔(۵) اساتذہ کرام کے لیے زیادہ سے زیادہ تربیتی پروگرام منعقد کیے جائیں تاکہ وہ حالیہ واقعات سے باخبر رہیں اور طلبہ کو جدید تدریسی طریقے سے معیاری علم فراہم کر سکیں۔بہرحال، تعلیم میں مستقبل کے چیلنجز کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لیے صرف اسکیم بنا دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے دیہی علاقوںکے مطابق حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے شعبے کو اولین اہمیت دے اور جلد از جلد زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرے، دور دراز کے قصبوں اور دیہاتوں میں جدید اسکولوں کی تعمیر کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ’سمارٹ کلاس‘ کے تصور کو بڑے پیمانے پر فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دیہی علاقوں کے تدریسی وتعمیری نظام کو تبدیل کیا جائے تاکہ دیہی علاقوں کے بچے بھی تعلیم کے شعبوں میں شہر کے بچوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔(چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا