گیارہویں تراویح میں پڑھی جانے والی سورت کی تفہیم

0
124

۰۰۰
ضیاء صطفی نظامی
جنرل سکریٹری آل انڈیا بزم نظامی
۰۰۰
اللہ کے نام سے شروع جوبہت مہربان رحمت والا۔سورہ انبیاء مکیہ ہے اس میں ایک سوبارہ(112) آیتیں اور سات(7)رکوع اورایک ہزارایک سوچھیاسی(1186)کلمے۔ چارہزاراآٹھ سونوے (4890)حروف ہیں۔
یہ سورت سترہویں پارہ سے شروع ہوتی ہے اس کا نام سورہ الانبیاء ہے، اس میں تقریباً سولہ انبیائے کرام علیھم الصلۃ والتسلیمات کا تذکرہ ہے۔حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا تفصیلی بیان ہے۔ حضرت یونس، حضرت ایوب علیہما السلام کی دعاؤں اور مناجات کا بھی ذکر ہے۔ اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں نے راہ حق میں نہایت جرت، دلیری اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، توحید، رسالت، آخرت کے احکام کو لوگوں پر واضح کیا ایسے میں دنیاوی مصائب یا امراض نے پریشان کیا تو ان کے ثبات و استقلال میں کچھ بھی کمی واقع نہ ہوئی اور یہ صرف اپنے رب ہی سے رجوع کرتے رہے۔
وہ رسول اکرم کو جادو گر سمجھتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ وہ خواب کی باتیں یا من گھڑت باتیں بتاتے ہیں یا وہ شاعر ہیں، پہلے بھی انبیائے کرام علیہم السلام تشریف لائے تھے اور ان کے ساتھ بھی لوگوں نے یہی معاملہ کیا تھا، پھر وہ لوگ ہلاک کیے گیے۔ وہ لوگ اس بات پر بھی اعتراض کرتے تھے کہ یہ نبی، بشر ہیں۔ کھانا بھی کھاتے ہیں اور دنیا میں ہمیشہ نہیں رہتے۔ جب منکرین کی بستیاں تباہ کر دی گئیں تو انہیں نادم ہونا پڑا، لیکن اب کوئی فائدہ نہ تھا۔ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو تو رات دی گئی جو پرہیز گاروں کو نصیحت تھی۔ وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور قیامت کا خوف بھی کرتے ہیں اب ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہے کہ انہیں ابتدائی عمر ہی سے ہدایت حاصل تھی وہ اپنے والد اور اپنی قوم کوبتوں کی پوجا سے بچانا چاہتے تھے۔ اور وہ کوئی کھیل کی بات نہیں بتا رہے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کے بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا، ایک بڑا بت چھوڑ دیا۔ ان لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا آپ نے ایسا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انہی بتوں سے پوچھو۔ آخر آپ ہی کو ان کافروں نے بت شکن سمجھا۔ آپ نے فرمایا کہ تم ایسوں کو کیوں پوجتے ہو جو بے بس ہیں اور کوئی نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ نمرود اور اس کی قوم نے آپ کو آگ میں پھینک دیارب تعالیٰ نے حکم دیا اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا۔ ابراہیم علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کو نجات بخشی۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کو اسحٰق علیہ السلام جیسا فرزند اور یعقوب علیہ السلام جیسا پوتا دیا اور وہ سب امام تھے۔ لوط علیہ السلام کو حکومت اور علم دیا گیا اور اس قوم سے نجات دلائی گئی جو گندے کام کرتی تھی۔ نوح علیہ السلام اور ان کے گھر والے بھی سخت کرب سے محفوظ رکھے گیے اور دوسرے نافرمانوں کو غرق کر دیا گیا، داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے واقعات سے ہدایت حاصل کرو۔ سلیمان علیہ السلام کو بھی حکومت اور علم عطا کیا گیا۔ داؤد علیہ السلام کے ساتھ پتھر اور پرندے بھی اللہ کی تسبیح کرتے تھے، داؤد علیہ السلام کو زرہ بنانا سکھایا گیا۔ سلیمان علیہ السلام کیلیے تیز ہوا مسخر کر دی گئی۔جن بھی آپ کے مطیع وفرماں بردارتھے۔ ایوب علیہ السلام کو یاد کرو، ہم نے ان کی تکلیف دور کردی اور ان کے گھر والے اور ساتھی ہماری رحمت سے مستفید ہوئے۔ اسماعیل علیہ السلام اور ادریس علیہ السلام اور ذوالکفل علیہ السلام بھی صبر والوں میں سے تھے۔ یونس علیہ السلام کو بھی یاد کرو جب وہ قوم کی نافرمانی سے ناراض ہوئے اور جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے تو ہم کو یاد کیا اور ہم نے ان کو غم سے نجات دی۔ زکریا علیہ السلام نے اولاد کی خواہش کی تو یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اور وہ خشوع وخضوع والے تھے۔ حضرت مریم کی پاکبازی تھی کہ ہم نے ان کو اور ان کے بیٹے کو سارے جہاں کے لیے ایک نشانی بنادیا۔ ان تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے ایک ہی دین کی تبلیغ فرمائی ہے۔اور میں ہی تمہارا رب ہوں۔ لوگوں نے دین میں اختلاف پیدا کرکے ٹکڑے کر لیے لیکن سب کو ہماری طرف آنا ہے اور قیامت کے قریب یا جوج و ماجوج ہر بلندی سے اتریں گے اور قیامت کے روز کافروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور اس وقت ان کو اپنی غفلت کا احساس ہوگا۔
سورہ حج مدنیہ ہیاس میں اٹھتر(78) آیتیں اور دس(10)رکوع اورایک ہزاردوسواکیانوے(1291)کلمات اورپانچ ہزارپچھتر(5075)حروف ہیں۔ سترھویں پارہ کے ساتویں رکوع سے آخر تک ہے۔ سورت کا نام تیسرے رکوع کی آیت ’’واذن للناس بالحج‘‘ سے لیا گیا ہے۔ یہ اعلان حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا۔ اس سورت میں قیامت کی ہولناکیوں، توحید والوں کی نجات، اور اہل شرک کی سزا کا بیان ہے۔ مسجد حرام (بیت اللہ) کی مرکزیت اور تقدس کا ذکر بھی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے مناسک حج کا تذکرہ بھی۔
’’ارشاد ہے کہ اپنے رب سے ڈرو۔ قیامت آکر رہے گی۔ وہ بڑی سخت ہو گی۔ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے کو بھول جائے گی، اسقاط ہو جائیں گے، عذاب الٰہی سے لوگوں کے ہوش جاتے رہیں گے۔ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ سے نہیں ڈرتے اور شیطان کے پیروکار ہیں۔ لوگ دیکھیں وہ کس طرح پیدا ہوئے اور کس طرح پلے اور بڑھے، کس طرح جیئے بوڑھے ہوئے یا پہلے ہی مر گیے۔ اللہ تعالیٰ کس طرح مرجھائی ہوئی کھیتی کو سرسبز کرتا ہے، جوڑے بناتا ہے، زندہ کرتا ہے، مارتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ یہ سب اسے پہچاننے کے لیے نشانیاں ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کو حرم کا صحیح ٹھکانا بتا دیا گیا اور انہوں نے اس کی تعمیر کی تاکہ قریب اور دور کے لوگ وہاں طواف، اعتکاف اور رکوع و سجود کریں۔ قربانی، احرام کے آداب وغیرہ پورے کریں، بتوں سے دور ہوں، جھوٹ سے بچیں، ایک اللہ کے ہو جائیں اور اللہ کے شعائر کی تعظیم کریں تاکہ دل کا تقویٰ حاصل ہو سکے۔ اور ہر امت میں قربانی تھی جو اللہ کے نام پر کی جاتی تھی۔ اور تواضع والوں کے لیے بشارت ہے کہ جب اللہ کا ذکر ان کے سامنے ہوتا ہے تو ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں، جو افتاد پڑے اسے برداشت کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے (اللہ کے لیے) خرچ کرتے ہیں۔ اور قربانی بھی شعائر اللہ میں سے ہے جس میں تمہارے لیے خیر ہے۔ اور اللہ کو ہرگز ان کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔ بیشک اللہ ٹال دیتا ہے مسلمانوں کی بلائیں اور دغا باز ناشکرے کافر کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اجازت دیتا ہے جنگ کرنے کی ان مسلمانوں کو جن سے کفار لڑتے ہیں اور اللہ ان کو ضرور مدد دینے پر قادر ہے۔ وہ لوگ تو صرف اس لیے نکالے گیے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر ان مسلمانوں کو مدافعت کی صلاحیت نہ دی جاتی تو اللہ کا نام لینا مشکل تھا۔ اللہ بیشک اس کی مدد فرمائے گا جو دین کی مدد کرے گا۔
سور مومنون مکی ہے اس میں ایک سواٹھارہ(118) آیتیں اور چھ6 رکوع اورایک ہزار آٹھ سو چالیس(1840) کلمے اورچارہزارآٹھ سودو(4802)حروف ہیں۔ اٹھارھواں پارہ اسی سورہ مبارکہ سے شروع ہوتا ہے۔ سورت میں مومنوں کی صفات اور ان کی کامیابی کا بیان ہے۔ سورت کا آغاز ہی مومنوں کی کامیابی کے اعلان سے ہوتا ہے۔ اس کی ابتدائی آیات کی تلاوت کرنے والے کے لیے کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔ کسی بھی معاشرے کی تطہیر اور افراد کی تعمیر سیرت کے لیے سورہ مومنون میں بیان کردہ صفات بہترین ہیں۔ سور مبارکہ میں انبیاء کے واقعات بیان کر کے بھی اہل ایمان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ نوح علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا۔ لیکن ان کی قوم کے سرداروں نے اعتراض کیا کہ یہ تو انسان ہیں، رسول نہیں ہو سکتے۔ نوح علیہ السلام نے بہت سمجھایا لیکن وہ لوگ ایمان نہ لائے۔ پھر اللہ نے ان کے لیے کشتی بنوائی جس میں ہر جاندار کا ایک ایک جوڑا بٹھایا گیا۔ نوح علیہ السلام (اور ان کی اہلیہ) اور وہ جو ایمان لائے تھے وہ بھی بٹھائے گیے۔ باقی غرق کر دیئے گیے۔ پھر اور قومیں آئیں اور ان کے پاس بھی اللہ کے رسول آئے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام تشریف لائے۔ فرعون اور اس کے سرداروں نے بھی تکبر کیا اور یہی کہا کہ یہ دونوں ہماری طرح انسان ہیں، پھر وہ سب ہلاک کیے گیے۔ عیسیٰ علیہ السلام کو بھی ایک نشانی بنا کر بھیجا تھا۔ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی اچھائی سے دوسروں کی برائی کو دور کریں اور خود اللہ کی محافظت چاہیں۔ جب صور پھونکا جائے گا تو نہ کوئی رشتہ کام آئے گا اور نہ کوئی کسی کی بات پوچھے گا، لیکن جن کے اعمال اچھے ہیں اور تول میں زیادہ ہیں وہی بامراد ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہی دعا کریں کہ اے اللہ، بخش دے، رحم فرما دے، اور تو ہی سب سے برتر رحم کرنے والا ہے۔
سورہ نور مدنیہ ہے۔ اس میں چوسٹھ(64)آیتیں اورنو(9) رکوع ایک ہزار تین سو سترہ(1317)کلمات اورپانچ ہزارپانچ سوچھیانوے (5,596)حروف ہیں۔اٹھارھویں پارہ کے ساتویں رکوع سے شروع ہوکرسولہویں تک جاتی ہے۔ اس سورت کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے نور کا بیان ہے۔ یہ آیت سورت کے پانچویں رکوع میں ہے، اور اس کا نام ہی ’’آیت نور‘‘ ہے۔ اسی سورت میں مشہور واقعہ ’’افک‘‘ کا بھی تذکرہ ہے۔ کہ جب مدینہ کے منافقوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا پر بہتان باندھا تھا تو اللہ تعالیٰ نے قرآنی آیات کے ذریعہ اعلان برت کیا اور بہتان لگانے والوں کو دنیا و آخرت میں ملعون قرار دیا۔ اس سورت میں اسلامی معاشرت کے اصول اور تہذیب و تمدن کے احکامات بیان کیے گیے ہیں۔ خصوصاً حجاب کا حکم، گھروں میں داخل ہونے کے آداب، صراحت سے مذکور ہیں۔
جو شخص کسی پارسا مرد یا عورت پر بدکاری کی تہمت لگائے اور چار گواہ معائنہ کے نہ لا سکے تو اسے اسِّی کوڑے لگائے جائیں۔ اور قیامت میں زبانیں، ہاتھ اور پاؤں سبھی گواہی دیں گے اور اس دن اللہ ان کی سزا پوری پوری دے گا۔ اے ایمان والو! بغیر اجازت کے دوسرے کے گھروں میں نہ جاؤ اور بغیر سلام کیے ہوئے بھی نہ جاؤ۔ بلکہ مکان میں اجازت دینے والا نہ ہو تب بھی مالکوں کی اجازت کے بغیر نہ جاؤ اور اگر تم کو واپس چلے جانے کو کہا جائے تو واپس چلے آؤ۔ مسلمان مردوں کو چاہئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرم کی چیزوں کی حفاظت کریں اور انہی باتوں کا مسلمان عورتیں بھی خیال رکھیں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں۔ مگر اپنے شوہر یا باپ پر یا شوہر کے باپ یا اس کے یا اپنے بیٹے یا بھائی، بھتیجے یا بھانجے پر۔ اور یہ روشن آیتیں اور عبرت آموز واقعات ڈرنے والوں کے لیے نصیحت ہیں۔ اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا اور نور سے وہ گھر روشن ہوتا ہے جس میں صبح و شام اللہ کا ذکر ہو۔ اور جسے اللہ نور نہ دے تو وہ تہ بہ تہ تاریکیوں میں رہتا ہے۔ اور کائنات کی تمام چیزیں اپنے اپنے طریقے پر اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اسی طرح بادل، بارش، رات دن، مختلف چوپائے وغیرہ۔ کسی کے گھر جاؤ تو سب سے پہلے سلام کرو اور جب حضوراکرم کے ہاں حاضر ہو تو ان کو عام لوگوں کی طرح نہ بلاؤ اور بغیر اجازت کے باہر نہ نکلو۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا