بےنام گیلانی
ابھی ابھی گزشتہ روز ریاست اترا کھنڈ میں یو سی سی(یونیفارم سول کوڈ ) بل کا صوتی ووٹ سے پاس ہونا جس جانب اشارہ کر رہا ہے شاید اسے عام مسلمانان سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یا اگر سمجھتے بھی ہیں تو دانستہ اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔اسے ہی تغافل عارفانہ کہا جاتا ہے۔ اس بل کے پاس ہوتے ہی وہاں سے مسلم پرسنل لاء کا خاتمہ ہو گیا۔حالانکہ جس اجلاس میں یہ قانون پاس ہوا ہے اس اجلاس کو ہی غیر آئینی قرار دیا دے رہے ہیں۔لیکن اس کا وہاں کی حکومت پر کیا اثر مرتب ہوگا اس سے ہندوستان کا ہر ذی فہم و شعور انسان واقف ہے ۔ویسے اس قانون کے پاس ہونے کے متعلق اترا کھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
"اترا کھنڈ کے لئے آج خاص دن ہے ۔میں اسمبلی کے سبھی اراکین اور عوام کا شکر ادا کرتا ہوں۔ان کی حمایت سے ہی ہم آج یہ قانون بنا پائے۔میں وزیر اعظم مودی کا بھی شکر ادا کرتا ہوں ۔یہ قانون مساوات کے لئے ہے ،یہ قانون ہم کسی کے خلاف نہیں لائے ہیں بلکہ ان مائوں اور بہنوں کا حوصلہ بڑھائے گا جو کسی قدامت پسندی یا بری روایت کی وجہ سے ظلم کا شکار ہوتی تھیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ”ملک کی دیگر ریاستوں سے بھی ہماری امید رہےگی کہ وہ اس سمت میں آگے بڑھیں۔واضح رہے کہ اترا کھنڈ اسمبلی میں آج جو یو سی سی بل پاس ہوا ہے ،اس میں شادی ،طلاق،اور گود لینے سے جڑے معاملوں کو ہی شامل کیا گیا ہے ۔دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان معاملوں میں ،خصوصاً شادی کو لے کر جو ضابطے بنائے گئے ہیں ان میں زات یا مذہب کی رسوم و رواج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ۔اس قانون کے نافذ ہونے سے شادی کے طریقوں میں مذہبی عقیدوں پر کوئی فرق نہیں پڑےگا۔انہوں نے کہا کہ یہ بل پی ایم مودی کے ایک بھارت سریشٹھ بھارت کے ویژن کو مضبوط بنائےگا۔”
درج بالا سطور سے یہ تو واضح ہو ہی گیا کہ اترا کھنڈ سے یونیفارم سول کوڈ کا کھیل شروع ہو گیا ہے۔گرچہ اسے فی الوقت محدود طور پر رکھا گیا ہے۔اس کے دائرے میں ابھی کچھ ہی امور لائے گئے ہیں ۔لیکن ان کچھ امور کی اہمیت اور لازمیت کو سرے سے خارج کر دیا ہے جو مسلم پرسنل لا میں شامل امور ہیں۔مثال کے طور پر شادی،طلاق،وراثت اور گود لینا شامل ہے۔یہ تمام چیزیں مسلم پرسنل لا میں شامل ہیں۔ان معاملوں کا فیصلہ دار القضا میں میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ہوا کرتا تھا۔اس ایک تیر سے دھامی حکومت نے بیک وقت مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دار القضا یعنی امارت شرعیہ دونوں کو ہی مسترد دیا ۔اب وہ حضرات کیا کریں گے جو امارت شرعیہ کو اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنانے کے لئے تنزلئ اخلاقیات کی تمام حدود پار چکے ہیں ۔حتیٰ کہ امارت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔امارت شرعیہ ہی ایک ایسا ادارہ تھا کہ جس میں تمام مسالک کے افراد شریک تھے اور اس کے ہر فیصلے کو تسلیم کرتے تھے ۔اب تو اسی کی جان ہلاکت میں مبتلا ہو گئی ہے ۔کیا اس امارت شرعیہ کے عہدیداران و اراکین اس قانون کے خلاف عدالت عظمیٰ کے دروازے پر دستک دیں گے۔یا اناللہ مع الصابرین کہ کر خاموشی کا لبادہ اوڑھے سو جائیں گے۔
آر ایس ایس کی دیرینہ سازش تھی کہ کسی بھی صورت میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ختم کیا جائے ۔یہ اس لئے نہیں تھی کہ مسلمانان دینی ضوابط کی پابندی ترک کردیں۔وہ تو کھلی نگاہوں سے مشاہدہ کر رہا ہے کہ مسلمانان کس حد تک اسلام کے پابند ہیں۔نام بےشک عبد الغفار اور عبد الشکور ہے لیکن ان کے اعمال و کردار منافقانہ ہی نہیں بلکہ کسی حد تک کافرانہ و مشرکانہ بھی ہو چکے ہیں ۔ایسے میں آر ایس ایس کو مسلمانوں کی مذہبی تبدیلی کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ ان کی صفوں کے انتشار کے چراغوں کو روغن و ہوا دیتے رہنے کی ضرورت ہے ۔چونکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانوں کا مشترکہ اسٹیج ہے۔اس پر مسلمانوں کے تمام مسالک کے افراد متفق ہیں۔یعنی اس مقام پر مسلمانوں میں اتحاد نظر آتا ہے ۔یہی مسلمانوں کا اتحاد آر ایس ایس کی نگاہوں کا کانٹا ہے۔جسے وہ منتشر کرنے کے لئے اس مدتوں سے کوشاں ہے ۔چنانچہ اس نے اس کی اہمیت و افادیت کو ختم کرنے کی غرض سے یونیفارم سول کوڈ نافز کرنے کو بیتاب نظر آ رہا تھا۔اچنانچہ اس نے آزمائش کے طور پر اترا کھنڈ میں سب سے پہلے اسے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔کیونکہ وہاں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہے۔اس لئے کم از کم اس ریاست میں مزاحمت کا کوئی خاص اندیشہ نہیں ہے ۔لیکن مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کے اتحاد کا ایک مرکز ہے ۔یہی اتحاد اسے کسی بھی طرح قبول نہیں ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ اسے یقین ہے کہ اگر مسلمانان متحد ہو گئے تب اسے ختم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔یہ آر ایس ایس والے جاہل نہیں ہیں۔ان کا مطالعہ وسیع ہے ۔خصوصاً تاریخ اسلام کا انہوں نے بڑی ہی عمیق نگاہ سے مطالعہ کیا ہے ۔اس مطالعہ سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر یہ مسلم قوم باہمی متحد رہی تو اس پر فتح پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔کیونکہ یہ ایک جانب بہت ہی امن پسند قوم ہے لیکن جب بھی اس کے تشخص پر بن آئے تب اس سے بڑی سر فروش قوم کوئی اور نہیں ہے۔ آر ایس ایس اس کے تجربے بھی کر چکا ہے اور مشاہدہ بھی۔چنانچہ بیک وقت اسے اس پوری قوم کو للکارنے کی ہمت نہیں ہے۔یہی سبب ہے کہ یہ فرقہ وارانہ فساد کہیں کہیں کرواتا ہے نہ کہ کل ہند پیمانے پر ۔یہ مسلمانوں کو قسطوں میں ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے تا کہ یہ بین الاقوامی معاملہ بھی نہ بنے اور اس کے خلاف نہ شدید مزاحمت و احتجاج ہو اور نہ ہی کوئی انتقامی کاروائی عمل پزیر ہو ۔چنانچہ آر ایس ایس نے اترا کھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کر کے ایک تیر سے کئی نشانہ لگانے کا کام انجام دیا ہے ۔جسے مسلمانوں کو بہت گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت در پیش ہے ۔مسلم پرسنل لاء تو اس یونیفارم سول کوڈ سے بے معنی ہو ہی گیا ۔دار القضاء کی بھی اس کے بعد کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ۔یہاں قابل فہم امر یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا کے پلیٹ پر مسلمان کسی حد تک متحد تھے ۔دار القضا کے پلیٹ فارم پر مسلمانان ہند متفق تھے۔یہی مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق آر ایس ایس کو قبول نہیں۔چنانچہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار کے لئے مسلمانوں کے متذکرہ بالا دونوں ہی پلیٹ فارم انہیں قبول نہیں ۔اس طرح مسلمانوں کو غیر متحد و غیر متفق کرنے کی زبردست سازش اس یونیفارم سول کوڈ کے ذریعے کی جا رہی ہے ۔لیکن مسلمانان ہند کچھ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔اس کی زندہ مثال مفتی ازہری کی گرفتاری ہے ۔جس پر مسلکی اختلاف کے باعث خود مسلمان ہی مفتی موصوف پر لعن طعن کرتے نظر آ رہے ہیں۔انتہا تو یہ ہے کہ یہ مغلظات پر اتر آئے ہیں۔انہیں اس امر کا بھی احساس نہیں ہے کہ معاشرے میں ان کی حیثیت کیا ہے ۔انہیں اپنی ریش اور وضع قطع کا بھی احساس نہیں۔انہیں اس امر کا بھی احساس نہیں کہ ان کا یہ عالم دیکھ کر اغیار پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔انہیں دیکھ اغیار تو یہی کہیں گے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہی سنسکرتی ہے۔جب مسلمانوں کے دھرم گرئوں کا یہ عالم ہے تو عام مسلمان کا کیا عالم ہوگا ۔اس طرح مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنے میں ان مسلکی منافرت رکھنے والے صاحبان ریش کا اہم کردار ہے۔معلوم نہیں یہ کب اس دلدل سے باہر نکلیں گے۔ ممکن ہے کہ انکے اس دلدل سے نکلتے نکلتے کہیں ان کا خاتمہ ہی عمل پزیر نہ ہو جائے ۔یہ مسلکی جنونی وطن عزیز کے حالات سے غافل صرف اپنا تقدم ثابت کرنے کے لئے خود کو ہی ہلاکت میں ڈالے جا رہے ہیں ۔جو چیز دشمنان اسلام چاہ رہے ہیں وہی کام یہ انجام دے رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم تو بہت بڑا کام انجام دے رہے ہیں۔ جس کے عوض وہ بغیر حساب کتاب داخل خلد بریں کر دئے جائیں گے ۔
اتنا کچھ گزر رہا ہے ۔مسلمانوں کے خلاف اتنی ساری سازشیں رچی جا رہی ہیں۔پے بہ پے مسلمانوں کی دلآزاری کی جا رہی ہے ۔لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانان ہند افیون کی گولی کھا کر مدہوش پڑے ہوئے ہیں۔اس قوم کو توڑنے اور کمزور کرنے میں سدا خود اسی قوم کے افراد کا ہاتھ رہا ہے ۔قاری چاہیں تو اسپین کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں۔جو سقوط سلطنت عثمانیہ کا باعث ہوا ۔یا پھر شاہ سعود کی شکل میں عرب کا ۔مسلمانوں کی جتنی بھی تواریخ ہیں ۔یہی داستان بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔وہ خواہ ٹیپو سلطان کی تاریخ ہو یا پھر نواب سراج الدولہ یا نواب واجد علی شاہ کی تاریخ ہو ۔ حتیٰ کہ مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کی تاریخ۔سبھوں کے ساتھ قدر مشترک یہی ہے کہ متذکرہ سبھوں کی پشت پر خنجر زنی خود اپنوں نے ہی کی ہیں،پرایوں نے نہیں ۔ان تمام واقعات سے مسلمانوں نے نہ عبرت حاصل کی اور نہ کوئی سبق ہی لیا ۔انہیں تو آج بھی صرف زاتی مفاد عزیز ہے۔وہ بھی کوئی بہت بڑا مفاد نہیں۔بس معمولی مفاد ہی ۔ایسا مفاد جس کے ذریعے یہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی کفالت ماہ دو ماہ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ایسے معمولی مفاد کے لئے یہ وہی غیرتمند اور خودار کہی جانے والی مسلم قوم اپنا ظرف و ضمیر حتیٰ کہ اپنی نسلوں کا مستقبل بھی دائو پر لگا کر مسرت و حظ محسوس کرتی ہے۔اب ضروری یہ ہے کہ مسلمانان اب مسلکی اختلافات کو ترک کریں اور اتحاد بین مسلک کی راہ اختیار کریں ۔جیسا کہ ایران نے کیا ہے۔ہندوستان کے مسلکی جنونی نے کبھی اس امر پر غور و فکر کرنے کی سعی کی ہے کہ فلسطین ایک سنی ملک ہے لیکن اس کی حفاظت اور آزادی کے لئے کون کوشاں ہے۔وہ ممالک ہیں ایران اور لبنان۔یہ دونوں ہی ممالک اہل تشیع ہیں۔اگر ایران اور لبنان والے مسلکی حدود سے باہر نکل سکتے ہیں تو ہندوستانی مسلمان مسلکی حدود سے کیوں باہر نہیں نکل سکتے ہیں جبکہ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے
benamgilani@gmail.com