آج پوری امت اللہ کے عذاب کی زد میں ہے ،کیوں؟

0
0

 

 

 

 

قیصر محمود عراقی

مسلمان دنیا کی عام قوم نہیں ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد قوم ہے جس کی بنیاد رنگ ، نسل، علاقہ یا زبان نہیں بلکہ کلمہ توحید’’لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ‘‘ہے۔ یہ وہ قوم ہے جسے دنیا کی کسی دوسری قوم پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ مسلمان گزشتہ ۱۴۴۵سال سے اس زمین پر اللہ کی نمائندہ امت ہیں، یہ واحد قوم ہے جو اس وقت روئے ارضی پر اللہ کی نمائندگی کررہی ہے، بلا شبہ یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ رب کائنات کا ہم سے وعدہ ہے کہ اگر ہم بحیثیت مسلمان اپنا کردار صحیح ادا کرتے رہے، یعنی اللہ اور اس کے رسولﷺ اور اس کے دین کے وفادار بن کر رہے تو نہ صرف یہ کہ اپنی اصل زندگی یعنی آخرت میں ابدی کامیابی اور اللہ کی نعمتوں سرفراز ہونگے، بلکہ اس دنیا میں بھی اللہ نے ہمیں عزت اور سر بلندی یعنی غلبہ واقتدار نوازے گا۔ سورہ آلِ عمران آیت نمبر ۱۳۹میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اگر تم مومن (صادق )ہو تو تم ہی غالب رہوگے‘‘یعنی مسلمان قوم کو اللہ نے دنیا وآخرت دونوں کی کامیابی اور ہر مرحلے پر نصرت پر وحمایت کی بشارت وضمانت دی ہے۔ جس قوم کو اللہ نے یہ اعزاز بخشا کہ اسے خیر امت کا لقب عطا فرمایا ، جس کو یہ اعزاز عطا ہوا کہ وہ رحمت العالمین کی امت قرار پائی ، جسے یہ بتا کر کان بھی کھول دیئے کہ : ’’اگر تم منھ پھیروگے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہونگے‘‘(سورہ محمد آیت نمبر۳۸)۔ اللہ کی وعید تاریخ میں پہلی بار آٹھویں صدی ہجری میں پوری ہوئی ، جب عباسی خلافت اور پورا عالم اسلام بحیثیت مجموعی طائوس ورباب کہ کلچر میں رنگا گیاتو ان پر تاتاریوں کا سیلاب اللہ کا قہر بن کر نازل ہوگیا، جس کے نتیجے میں کروڑوں مسلمان قتل ہوئے اور عباسی خلافت کا خاتمہ ہوا، خلیفۃ المسلمین کو نہایت ہی بے دردی سے قتل کیا گیا، یہی وہ وقت تھاجب عالم اسلام کی قیادت کا منصب عربوں سے چھین کر ترکوں کو دے دیا گیا۔
قارئین محترم! اللہ کا یہ قانون اور سنت الہیٰ کو چھوڑ کر مسلمان قوم کی عظیم اکثریت جب اللہ کے دین سے بے وفائی اختیار کرتی ہے تو ان پر ذلت ومسکنت اور بے چارگی وبے بسی کا عذاب مسلط کردیا جاتا ہے، مزید برآں اللہ کی نعمتوں کی ناقدری پر اس پر بھوک اور خوف جیسے عذاب مسلط کردئے جاتے ہیں۔ آج پورا عالم اسلام اللہ کے ان ہی عذابوں کی زد میں ہے۔ یہ تفصیل کا موقع نہیں ہے، صرف اشارات میں بات کرونگا۔ آج پوری امت بحیثیت مجموعی اللہ کی عذاب کی زد میں ہے، پوری دنیا میں مسلمان سب سے زیادہ ذلیل وخوار ہیں، ہر جگہ ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، دنیا کی کل آبادی ایک ارب سے بھی زائد ہونے اور تیل کی دولت سمیت بے شمار وسائل رکھنے کے باوجود مسلمان دنیا میں کسی شمار وقطار میں نہیں ہیں ، نہ تین میں نہ تیرہ میں، کسی عالمی فارم پر ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ عملاً صورتحال یہ ہے کہ ’’برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘‘ مسلمان پوری دنیا میں بدترین دہشت گردی کا شکار ہیں، فلسطین ، کشمیر، عراق، افغانسان اور چیچینیا میں ان کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے، اس کے پہلے کوسود ، بوسینیااور فلیپائن میں مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے گئے اور اب شام اور میانمار اور ہندوستان میں ان کا خون بہایاجارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس مظلومیت اور زبوں حالی کا سبب کیا ہے؟ ان کے ساتھ ایسا کیا ہورہا ہے؟ کیا (معاذ اللہ )اللہ کی خدائی امریکہ اور یہود کے سامنے بے بس ہے؟ ہر گز نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس زبوحالی کے ذمہ دار ہم خود ہیں، ہم خود مجرم ہیں اور آج ہمیں ہمارے جرائم کی سزا دی جارہی ہے۔ مسلمان بحیثیت مجموعی اپنا دینی مشن اور فرض منصبی بھول کر ، آخرت کو فراموش کرکے ، دنیا پرستی اور دولت پرستی کی دلدل میں غرق ہوچکے ہیں۔ اللہ کے دین سے ان کی بے وفائی کا یہ عالم ہے کہ دنیا میں چھپن سنتاون اسلامی ممالک میں سے کسی ایک جگہ بھی آج اللہ کا دین قائم وغالب نہیں ہے بلکہ اجتماعی سطح پر آج ہم شعوری طور پر اللہ کے دیئے ہوئے عادلانہ اور پاکیزہ نظام کو چھوڑکر اللہ کے باغی ، شیطان کے وضع کردہ بے حیا سماجی نظام اور سودی سرمایہ دارانہ سیکولر نظام کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں ۔ ہم نے بحیثیت مسلمان اللہ کے ساتھ وعدہ خلافی اور بد عہدی کی اللہ کے دین کے ساتھ بے وفائی بلکہ غداری کی ، یہی نہیں غداری میں دنیا کے تمام اقوام کو پیچھے چھوڑ دیا۔
چنانچہ آج اللہ کا کون سا عذاب ہے جو کسی نہ کسی صورت میں ہم پر مسلط نہیں ہوا ، ذلت ومسکنت کا عذاب ، بھوک وفقر کا عذاب، سیلابوں کا عذاب ، زلزلوں کا عذاب ، خانہ جنگی کا عذاب ، اس وقت مسلم معاشرہ ان تمام عذابوں کا مجموعہ بن چکی ہے۔ مسلمانوں کو اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ قابل نفرت سمجھا جاتا ہے، پچھلے چھہتر سال کے بعد ہمیں کم از کم اتنا بالغ ہوجانا چاہئے کہ ہم حقائق کا سامنا کرسکیں، کبوتر کی طرح انکھیں بند کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ اس سے ہمارا ہی نقصان ہوگا، اگر بغور دیکھا جائے تو ہمارے بڑے بڑے قومی جرائم دو ہیں، اول ، چھہتر سالوں میں ہم نے اللہ کے دین اور اس کی شریعت کو قائم ونافذ نہیں کیا بلکہ شیطانی معاشرے اور شیطانی معیشت اور سیکولر ازم پر مبنی شیطانی سیاست کو گلے سے لگائے رکھا ہے۔ دوئم، ہم نے نہ صرف اللہ سے اور اس کے دین سے بے وفائی کی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر شیطانی اور ابلیسی طاقتوں کی صف میں جاکر کھڑے ہوگئے۔ ان جرائم کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، سات آٹھ قسم کے عذاب کو گنواچکا ہوں، ان میں ایک اور کا اضافہ کرلیںیعنی بدترین حکام کا مسلط ہوجانا ، نریندر مودی ہم مسلمانوں پر ایک عذاب ہی کی صورت میں مسلط ہے۔ ہمارے اندر لالچ اتنی بڑھ گئی ہے کہ آج ہوس نے ہم مسلمانوں کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ مسلمان اپنے مسلمان ہونے پر شرمندہ نظر آتا ہے، کفار کے سامنے مسلم حکمرانوں کا رویہ معذرت خواہانہ ہے ، کافر کفر اور شرک کرکے بھی مسلمانوں کے سامنے کسی وضاحت کا محتاج نہیں اور مسلمان اسلام اور دین حق پر اول تو عمل کرنے کا روادار نہیں اور اگر ہے تو معذرت خواہانہ لب ولہجہ سے ، اور یہی مسلمانوں کی پستی اور زوال کی علامت ہے۔
قارئین محترم!ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ ہمارے یہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کررہی ہے لیکن نیکی منظم نہیں ہے، نیک لوگ موجود ضرور ہیںمگر منتشر ہیں، ان کے اندر کوئی رابطہ اور تعلق نہیں ہے، کوئی تعاون اور اشتراک عمل نہیں ہے، کوئی لائحہ عمل اور کوئی مشترک آواز نہیں ہے، کبھی کوئی اللہ کا بندہ اپنے گرد پیش کی برائیوں کو دیکھ کر چیخ اٹھتا ہے، مگر جب کسی طرف سے کوئی آواز اس کی تائید میں نہیں اٹھتی تو مایوس ہوکر بیٹھ جاتا ہے، کبھی کوئی شخص حق اور انصاف کی بات اعلانیہ کہہ بیٹھتا ہے مگر منظم بدی زبردستی اس کا منہ بند کردیتی ہے اور حق پسند لوگ بس اپنی جگہ چپکے سے اس کو درد دیکررہ جاتے ہیں، کبھی کوئی شخص انسانیت کا خون ہوتے دیکھ کر صبر نہیں کر سکتا اور اس پر احتجاج کرگزرتا ہے، مگر ظالم لوگ ہجوم کرکے اسے دبا لیتے ہیںاور اس کا حشر دیکھ کر بہت سے ان لوگوں کی ہمتیں پست ہوجاتی ہیں جن کے ضمیر میں ابھی کچھ زندگی باقی ہے۔ بہر حال اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہم مسلمان خدا کے عذاب میں مبتلا ہوں اور اس عذاب میں نیک وبد سب گرفتار ہوجائیںتو ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر اس اخلاقی وباء سے بچے رہ گئے ہیں وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنہ کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کے طرف لے جارہا ہے۔
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا