مریض کی مزاج پْرسی!!عیادت کیجئے بیمارکو پیام اجل نہ سنایئے!

0
0

ایم شفیع میر
جموں و کشمیر

[ہمارے دین ااسلام نے مریض کی عیادت کرنے پر بڑا زور دیاہے۔ انحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں حکم دیا’’مریض کی عیادت کرو‘‘،پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’جب بھی کوئی مسلمان صبح کو کسی مسلمان کی عیادت کرتا ہے تو شام تک پچاس ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں اور اگر شام کو عیادت کرتا ہے توصبح تک پچاس ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں اور جنت میں اس کے لیے چنے ہوئے پھل ہوں گے‘‘۔لیکن موجود وقت میں عیادت داروں کی طرزِ عیادت مریض کیلئے وبال جان بن گئی ہے۔محلہ میں کوئی بیمار پڑ جائے اور یہ خبر عام ہوجائے عیادت داروں کی قطاریں لگ جاتی ہیں، نہ انے کاکوئی پتہ نہ جانے کی خبر،جب مرضی ائی بغیر سوچے سمجھے عیادت کیلئے مریض کے کمرے میں کر مہمان بن جانا ،گھنٹوں بیٹھ کر خوب گپیں چھوڑنا،بحث و مباحثے کرنا ایک معمول بن گیا ہے ادھر عیادت داروں کی اچانک سے لمبی لمبی قطاریں مریض کیلئے وبال جان بن جاتی ہیں ،مریض اچانک سے بدلی ہوئی اِس صورتحال کو دیکھ کر خوف کا شکار ہو جاتا ہے، مرض سے کم اور عیادت داروں کے ہجوم سے مریض زیادہ تکلیف کا شکار ہو جاتا ہے۔مریض پوری طرح سے یہ یقین کر لیتا ہے کہ ہونہ ہو میری زندگی کا اب خاتمہ ہونے والا ہے،اب بچنے کی کوئی اْمید باقی نہیں ہے۔مریض کے من میں یہ سوالات ضرور ابھر تے ہونگے کہ اخر وجہ کیا ہے ؟ کوئی تو معاملہ ہے ؟ورنہ لوگ یونہی قطار در قطار عیادت کرنے کیوں اتے؟ جس شخص کو برسوں سے اپنے گھر میں اتے نہیں دیکھااج وہ بھی میراحال جاننے اپہنچا ہے ،دہائیوں کے بھولے بسرے رشتہ دار اچانک سے انکھوں کے سامنے گردش کرتے دکھائی دے رہے ہیں، یہ ملاقاتیں،یہ اچانک سے اْمڈ انے والی اپنائت اورمحبت یہ سب کیا ہے؟یہ معافی تلافی ؟یہ نرم لہجوں بھریکلام؟یہ کلام کہیں اخر سلام تو نہیں؟کہیں میں (مریض)کسی لاعلاج مرض کا شکار تو نہیں؟ کہیں ڈاکٹروں نے میری زندگی کے اخری ایام کااشارہ تو نہیں دیا ہے ؟؟یہ ساری کی ساری صورتحال ایک مریض کیلئے کس قدر اذیت ناک ثابت ہوتی ہیاِس پر عیادت داروں کا خیال کبھی جاتاہی نہیں ہے۔بہت سے عیادت کرنے والوں میں یہ ‘بیماری بھی ہوتی ہے کہ وہ مریض سے اس کے لاحق مرض کی تفصیلات سننا چاہتے ہیں،اس لیے وہ مریض سے اس کی خیر خیریت لینے کے ساتھ اگلے ہی سانس میں اس کی بیماری کی ساری تفصیلات کریدنے لگتے ہیں، کیا ہوا تھا؟ کیسے ہوا؟ کہاں ہوا؟ پھر اس کے بعد کیا ہوا؟ اور اب کیا ہوگا؟کچھ عیادت دار تو اِس قدر بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ کمرہ? مریض میں ہی سگریٹ کے کش لگانے میں گریز نہیں کرتے،ہمارے یہاں کشمیری کلچر میں تو حقہ بھی خوب پھونکا جاتا ہے۔عیادت دار مرد ہوں تو کمرہ مریض گویا سنسد ہوجاتا ہے، عیادت دار خواتین ہوں توکمرہ مریض گویا پنگھٹ بن جاتا ہے۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہاں دراصل ہم کسی کی خیر خیریت دریافت کرنے ائے ہوئے ہیں، پھر ہم کسی کی شادی، کسی کی منگنی یا کسی گھر کی ساس بہو کے تنازعہ پر تبصرہ کرنے میں لگ جاتے ہیں ،یاد رہییہ امر نہایت غیر اخلاقی ہے، ایسی گفتگو پھر کسی اور وقت کے لیے رکھ لینی چاہیے، چاہے یہ کتنی ہی اہم، انوکھی اور نئی بات کیوں نہ ہو۔اگر عیادت داروں کو اپسی گفتگو سے فرصت ملی تو مریض کی مزاج پرسی اِس طرح سے کی جاتی ہے کہ جیسے ہر نے والا عیادت دار مریض کیلئے موت کا فرشتہ ہو جو بار بار ’پیام اجل ‘لیکر اتاہے اور بار بار یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ نہیں اب تیرا اِس دنیا میں رہنا ممکن نہیں۔عیادت دار مریض کو بیماری سے متعلق اذیت ناک سوالات کرتے ہیں یہ فکر کئے بغیر کہ ان بے ہودہ اور غیر مناسب سوالات کا مریض پر کیا اثر پڑے گا۔چند روز قبل کا واقعہ ہے کہ راقم بھی حسبِ روایت ایک مریضہ کی عیادت کیلئے گیا،گھر کے اندر داخل ہوتے ہیں کمرہ مریض پہنچا تو کمرہ مریض عیادت داروں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا ،چند ہی سکینڈ کھڑا رہنے کے بعد مریض کیساتھ بیٹھے تیمادار وں(اہل خانہ )نے خوب او بھگت کی اور تشریف رکھنے کو کہا،اِس دوران پہلے سے بیٹھے عیادت دار اِدھر اْدھر کھسکے بیٹھنے کیلئے تھوڑی سی جگہ نصیب ہوگئی۔ چند منٹ بیٹھنے کے بعد مریض کے قریب جانے کا موقعہ ملا، میں نے بھی حسبِ روایت مریضہ سے حال دریافت کیا۔
دو تین منٹ بیٹھنے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ اب اِس سے زیادہ وقت یہاں پر بیٹھنا مناسب نہیں ہے لیکن پہلے سے بیٹھے عیادت داروں کی مصروف ترین گپ خوری کو دیکھ کر میں کافی حیران ہوا لیکن مریضہ کیلئے اِس اذیت ناک صورتحال کا مکمل جائزہ لینے کیلئے راقم نے بھی ٹھان لی کہخر معلوم کیا جائے کہ گھنٹوں بھر یہ عیادت دار مریض کے پاس بیٹھ کر اخر کرتے کیا ہیں؟اِتنی دیر میں ایک خاتون مریضہ کے قریب ائی اور اپنی انکھیں نم دیدہ کرتے ہوئی مریضہ سے گویا ہوئی کیا کریں اپا جان۔۔۔!!اخر کار مرنا ہی ہے ،مریضہ کو ہمت ،حوصلہ اور دلاسہ دیتے ہوئے کہ ’’مرض بہت چھوٹا ہے اور وہ شخص اس سے بہت بڑا اور ہمت والا ہے‘‘کہنے کے بجائے یہ فرمانی لگی کہ ’’یہ بیماری بھی کوئی چھوٹی بیماری نہیں ہے،ڈاکٹروں سے سنا ہے جس کو یہ بیماری لگ جاتی ہے اْس کا بچ پاناتو مشکل ہی ہے،مریضہ محترمہ کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر بڑے ہی انہماک سے یہ سارا بھاشن سن رہی تھی۔اب مریضہ یہی بھاشن سن کر تکلیف سے دو چار تھی کہ دروازے پر عیادت دار کی صورت میں ایک اور نمونے نے دستک دی،سلام دعا کی اور اکر بیٹھے گئے ، دو تین منٹ سہارا لینے کے جلد ی جلدی اپنا بھاشن شروع کیا، مریضہ سے پوچھا کیا حال ہے اور فوراً انکھیں میں انسووں کا پانی چھلکا کر رنجیدہ امیز لہجے میں مریضہ سے فرمانے لگے چچی جان ’’امی جان‘‘ نے سلامی کہی ہے اور کہہ رہی تھی کہ اگر مجھ سے کسی قسم کی گستاخی ہوئی ہو تومعاف کرنا،زندگی کاکیا بھروسہ ملاقات ہو نہ ہو،یہ طرز عیادت دیکھ کون پتھر دل خاموش رہتا، دیگر عیادت داروں نے بھی رونے والی شکلیں بنا لیں،یوں کمرہ مریض میں بیٹھنے دشمنان مریض ’عیادت داروں‘کی انکھوں سے انسوں چھلک پڑے۔ بستر پر پڑا مریض اور اِس کے اہل خانہ ’’تیمادار‘‘بھی اہیں، سسکیاں بھرنے لگے،اذیت ناک عیادت داری کی اِس صورتحال کے باعث کمرہ مریض جیسے ماتم کدہ بن گیا۔لیکن کیا کیجئے،ہر گھر، ہر محلے اور ہر علاقہ میں کچھ ایسے نمونے پائے جاتے ہیں جن کا نہ انا ہی بہتر ہوتا ہے۔اس وقت بغیر سوچے یہ جی چاہتا ہے کہ ایسے عیادت کرنے والوں کے منہ پر ہی کچھ خاطر مدارات کر دی جائے،کیونکہ ایسے عیادت دار بیمار کو مزید تکلیف پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے عیادت داروں کی غیر مناسب باتوں سے مریض وقت سے پہلے مرنے کو ترجیح دیتے ہیں،نہ موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور نہ اِس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ مریض کی دلجوئی کرنے اور اہل خانہ کو حوصلہ دینے ائے ہیں یا پھر اْن کو ڈرانے دھمکانے؟بالکل بھی یہ خیال نہیں رکھا جاتا کہ میرا بے ہودہ کلام مریض اور اہل خانہ کیلئے پریشانی اور فکر کا باعث بن سکتا ہے۔عیادت داری کے بھی کچھ اصول اور اداب ہوتے ہیں جس سے ہم سبھی لوگ مکمل طور یا تو ناواقف ہیں یا پھر غفلت برت رہے ہیں۔
بیمار و علیل احباب کیساتھ ہماراعیادت کرنے کا طریقہ بالکل غلط ہے ، اب صورتحال ایسی ہے کہ بہت سے علیل یا بیمار احباب یہ کہنے لگے ہیں کہ ‘مجھے میرے ‘عیادت داروں سے بچاو?!لہٰذا عیادت کے اداب ملحوظ نظر رکھیئے۔مریض کی کیفیت کو سمجھئے اْس کے بعد اْس سے کلا م کیجئے۔عیادت کیلئے کس وقت جانا زیادہ بہتر رہے گا اِس کا خاص خیال رکھیئے،کم از کم وقت میں عیادت داری کیجئے،گھنٹوں بھر کمرہ مریض میں بلا وجہ بیٹھنے سے گریز کیجئے،اپسی گفتگو اور گپ خوری سے پرہیز کریں،مریض کو کہانیاں نہ سنائیں بلکہ کوشش کریں کہ مریض سے کچھ نہ کچھ سنیں یا سمجھیں،مریض سے سوالات کرنے کے بجائے مریض کی باتوں کا جواب دیں،منفی مثالیں نہ دیجئے ،طریقہ علاج میں نقائص نہ نکالئے اورمعالج پر تنقید نہ کیجیییا اْس کے عیب نہ تلاشیئے،بیمار کومثبت اطلاعات دیجیے،اہل خانہ کو خوش دلی کیساتھ سہارا دیجئے، اپنے اندازِ گفتگو میں سنجیدگی لائیے جس سے بیمار اور تیمادار کو سکون حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں عیادت داری کے نام پر مریضوں اوربیماروں کیلئے پریشانی کا باعث نہ بنائے،ہم میں وہ شعور عطا کرے جس سے ہم بحیثیت عیات دار بیمار مریض کیلئے باعث راحت ثابت ہو سکیں، اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو
M.7780918848,

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا