قیصر محمود عراقی
ہمارے معاشرے کی ستم ظریفی ہے کہ اس میں بیٹی کی شادی جیسا مقدس فریضہ بھی والدین پر بوجھ بن چکا ہے، لڑکے والے منھ مانگے جہیز کے منتظر ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے والدین بیٹی کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کے جہیز کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ باپ اور بھائی پندرہ سے بیس سال محنت کرکے ایک بچی کے جہیز کے سامان کی بمشکل صورت بنا سکتے ہیں، ہوتا یوں ہے کہ والدین کی کُل زندگی بچیوں کی رخصتی کی نذر ہوجاتی ہے ، لیکن پھر بھی سب والدین کیلئے ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ والدین اور بھائی انتہائی کوشش کے باوجود لڑکے والوں کی ضرورت کے مطابق جہیز تیار نہیں کرسکتے، یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ مایوس ہوکر والدین یا بھائی خودکشی کرلیتے ہیں اور بعض اوقات تو لڑکی خود کو خاندان پر بوجھ سمجھ کر خودکشی کرلیتی ہے۔
ان حالات میں گذشتہ کچھ سالوں سے بہت سے شہروں میں اجتماعی شادیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، ہمارے شہر کولکاتا میں بھی ایک فعال اور متحرک ادارہ ہے جو بیت المال کیلا بگان کے نام سے جانا جاتا ہے ، یہ ادارہ بھی کئی برسوں سے اجتماعی شادیاں کرواتی چلی آرہی ہے ، اس اجتماعی شادیوں کیلئے مخیر حضرات اپنے وسائل کے مطابق اجتماعی شادیاں کروانے والے اداروں کی مالی امداد کرتے ہیں، پھر وہ ادارے فی سبیل اللہ غریب خاندان کی بچیوں اور بچوں کیلئے اجتماعی شادی کا اہتمام کرتے ہیں، جو غریب ، یتیم اور مسکین لوگ شادی کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے ان کیلئے اجتماعی شادی کا اہتمام کرنا کسی عظیم نیکی سے کم نہیں ۔ بہت سے ایسے افراد ہیں جو اپنے خاندان کی بچیوں کی شادی کرنا چاہتے ہیںلیکن ان کے پاس اخراجات نہیں ہوتے کہ وہ شادی بیاہ کی تقریبات کا خرچ ادا کرسکیں، وہ ان اداروں سے رابطہ کرتے ہیں۔ ہمارے مسلم معاشرے میں شادی کی تاریخ کی لاتعداد وجوہات ہیں، بہت سی لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں تو وہ کچھ نہ کچھ بننے کی کوشش کرتی ہیں، بعض اوقات اعلیٰ تعلیم ، اعلیٰ ڈگری اور روزگار کے مواقع حاصل کرنے کیلئے اپنی عمر بھی گذار بیٹھتی ہیں ، بہت سی لڑکیا ں ایسی ہیں جو اعلیٰ تعلیم کرتی ہیں تو پھر وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ رشتے کی خواہش کرتی ہیں، جس کی بناپر اچھے رشتے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، یعنی پڑھے لکھے رشتوں کی تلاش میں لڑکیوں کی عمر زیادہ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح شادی میں تاخیر کے مختلف نقصانات بھی ہیں، ایک حد تک نوجوان اور کنواری لڑکی کا گھر میں رہنا اس کیلئے مناسب ہوتا ہے، رشتے آنے کی ایک عمر ہوتی ہے، لڑکیاں نخروں اور زیادہ اچھے رشتوں کی تلاش میں رہ کر اپنے آپ کا بہت نقصان کر لیتی ہیں، گذرتے لمحات کے ساتھ ساتھ بڑی عمر کی لڑکیوں میں احساس کمتری پیدا ہوجاتی ہے، خاندان والوں کی پریشانی بڑھ جاتی ہے، نوجوانوں میں جذبات اور خواہشات ابھر تے ہیں جو شیطانی وسوسے پیدا کرتے ہیں، اسلام میں شادی کو سنت قرار دیا گیا ہے، اس کے بغیر زندگی گذارنا بہت مشکل ہے اور آخر کب تک نوجوان بچیاں اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھی رہینگی، شادی میں تاخیر کی وجہ سے جسمانی نقصانات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں، خواتین میں افزائش نسل کی صلاحیت کمزور ہوجاتی ہیں، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کمزور ہوتی جاتی ہیں۔
قارئین محترم! ہمارے معاشرے میں شادی کے مسائل پرروز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، آج کل لڑکے والے بھی خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہوتے ہیں ، اکثر لوگ پڑھی لکھی لڑکیوں کو پسند ہی نہیں کرتے، ان کی سوچ بہت پرانی ہوتی ہے، وہ سمجھتے ہیں پڑھی لکھی لڑکیاں گھر سے باہر جاب کرنا پسند کرتی ہیں، ان کو گھر کے کام کاج نہیں آتے ، وہ کہتے ہیں باہر کام کرنے والی لڑکیوں نے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی ہوتی ہیں، ان کی سوچ اور خیالات آزاد ہوتے ہیں، دفتروںمیں غیر محرموں کے ساتھ کام کرتی ہیں، ان کا اٹھنا بیٹھنا اکثر غیر محرموں کے ساتھ ہوتا ہے، چاہے نوجوان لڑکیاں مجبوری میں نوکری کرتی ہوں ، یہی باتیں نوجوان لڑکیوں کی شادیوں میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیںاور نوکری کرنے والی نوجوان لڑکیاں غیر شادی شدہ رہ جاتی ہیں۔ ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں نوجوان لڑکیوں کی بہت بڑی تعداد شادی کئے بغیر زندگی گذارتی ہیں، حد تو یہ ہے کہ غریب ترین علاقوں میں رہنے والی لڑکیاں دنیا کی سب سے زیادہ پسماندہ مخلوق ہیں، جنہیں اپنی بقاء اور ترقی کیلئے منفرد رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے اور ایسا سلوک صرف اس لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ لڑکیاں ہیں اور غیر شادی شدہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بہت سی ایسی لڑکیاںہیں جنہیںایک ایسے مستقبل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن پر ان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا ، خاص طور پر لڑکیاں یہ نہیں جانتیں کہ کس شخص سے ان کا بیاہ رچایا جائے گا اور کتنی عمر میں وہ بچے کی ماں بن جائیگی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک طرف غریب لڑکیاں یہ سمجھنے لگی ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کا کوئی حق نہیں رکھتی ہیں تو دوسری جانب ان میں کچھ لڑکیوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح حقوق حاصل کرنے کی مستحق نہیں ہے۔
محترم قارئین! ایسی بچیاں جو شادی کے اخراجات کی وجہ سے اپنے گھروں میں بیٹھی رہتی ہیں ، اپنے گھر کی اصل خوشیوں سے محروم ہوتی ہیں ، ایسی بچیوں کی شادیوں میں مدد کروا کے ایک عظیم نیکی میں حصہ ڈالیں۔ آج کل امداد کرنے کیلئے مالی ادارے قائم کئے گئے ہیں، یہ کارِ خیر ادارے ضرورت مند کنواری لڑکیوں کا ڈاٹا اکھٹا کرتے ہیں اور مناسب رشتہ تلاش کرکے ان سب بچیوں کی ایک ساتھ اجتماعی شادی کا اہتمام کرتے ہیں، ہر بچی کو اپنا گھر بسانے کیلئے جہیز بھی فی سبیل اللہ دیا جاتا ہے اور باراتیوں کے کھانے کا بہترین انتظام کردیا جاتا ہے، اس طرح سینکڑوں جوڑے ان مخیر حضرات کی کاوشوں سے رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں ۔ یہ ایک نیکی کا عظیم سلسلہ جاری وساری ہے، یہ اجر عظیم اور ثواب کا کام ہے، اجتماعی شادیوں کے تصور سے اب غریب بچیوں کو سالہا سال کنواری نہیں رہنا پڑتا اور ان کے والدین ان کارِ خیر کے اداروں سے رابطہ کرکے اپنے بچیوں کی شادی کا بندوبست کرواتے ہیں۔ کسی بھی جوڑے کی شادی کا بندوبست کروانا ، شادی فی سبیل اللہ کروانا ایک صدقہ جاریہ ہے جس کا ثواب رہتی دنیا تک ملتا رہتا ہے۔ ہمارے ملک کے کئی شہروں میں بے شمار مذہبی ادارے اس فرض کو بخوبی نبھارہے ہیں ، جن میں ہمارے شہر کولکاتا کا بیت المال کیلا بگان ادارہ کئی نامور ادارے میں شامل ہے۔
ہمارے ملک ہندوستان میں لاکھوں لڑکیوں کی شادی صرف اس وجہ سے نہیں ہورہی ہے کیونکہ ان کے غریب والدین اپنی بچیوں کی شادی کا اہتمام نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان کے لئے جہیز خرید سکتے ہیں۔ ان حالات میں اجتماعی شادیوں کا رجحان نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ آخرت سنوارنے کا بھی ایک عظیم ذریعہ ہے ، اس رجحان کو پروان چڑھانے کیلئے میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور اس کے فروغ کی ترغیب دینی چاہئے، اس کے علاوہ جو لوگ عمرہ یا حج ایک بار کر آتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ دوبارہ حج یا عمرہ کرنے کی بجائے اجتماعی شادیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور زیادہ سے زیادہ مالی امداد کرکے غریب خاندان کے افراد کی مدد کریں، جو لوگ صرف اور صرف نمود ونمائش کیلئے اپنی بیٹی کی شادی میں پانچ سے دس لاکھ روپئے پانی کی طرح بہا دیتے ہیں انہیں چاہئے کہ اپنی بیٹی کی شادی میں خرچ کرتے وقت کسی غریب کی بچی کا بھی خیال رکھیں اور غریب ونادار گھرانوں کو ان کے اس فریضہ کی ادائیگی میں مکمل عملی ومالی تعاون فرماکر ہزاروں غریب مستحقین کے چہروں پر خوشیاں لوٹانے کی کوشش کریں۔
آخر میں یہ بتاتا چلو کہ ہمارے شہر کولکاتا میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے دیگر کئی شہروں میں بھی اجتماعی شادیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، کئی تنظیمات نے مقامی وسائل سے ایسی غریب اور نادار بچیاں جن کے والدین ان کے رخصتی کیلئے جہیز کا سامان نہیں کرسکتے ان کیلئے اجتماعی شادیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے ، ان اجتماعی شادیوں کی چند بنیادی معلومات اور تفصیلات درج ذیل ہیں۔مثلاً : دلہا اور دلہن دونوں طرف کے چند مہمانوں کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے، دولہا اور دلہن دونوں کے مہمانوں کی بھرپور خاطر ومدارت کی جاتی ہے اور ان کے بیٹھنے کیلئے عالیشان انتظام کیا جاتا ہے، اس بات کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی بھی سطح پر دلہا ، دلہن یا ان کے رشتہ داروں کو احساسِ محرومی نہ ہو اور وہ عزت کے ساتھ اس پروگرام میں شریک ہوں ۔ اس موقع پر گیفٹ بھی نو بیاہتے جوڑے کو دیا جاتا ہے، الغرض ایک بچی کی شادی پر تقریباً ایک لاکھ روپئے خرچ تو ضرور بالضرور آتا ہے ، لہذا مخیر حضرات اس نیک اور عظیم اجتماعی شادیوں میں حصہ لیکر ثوابِ دارین حاصل کریں۔
کریگ اسٹریٹ، کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸