دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں”

0
0

 

 

 

 

 

 

عارفہ مسعود عنبر
مراداباد

غزہ پر اسرائیلی تشدد کے 100 دن سے زائد گزر چکے ہیں اسرائیل کی جانب سے توسیع مملکت کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے نہتے فلسطینیوں پر ظلم کیے جا رہے ہیں۔معصوم بچے ،نوجوان ، بوڑھے مرد و خواتین سب ہی اسرائیلی تشدد کا نشانہ بناے جا رہے ہیں۔فلسطین کے شہریوں اور رہائشی علاقوں پر بمباری ہو رہی ہے۔ میزائل داغے جا رہے ہیں۔ زندگیاں لگاتار تباہ اور برباد ہو رہی ہیں۔ کتنے بچے مارے گئے۔ کتنوں کے ہاتھ پاؤں کٹ گئے۔کتنوں کی آ نکھیں جاتی رہیں۔اسرائیل نے ایک پوری نسل کو تباہ اور برباد کر دیا ہے۔ ان مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے جسے دیکھ اور سن کر جگر میں درد کی لہر سی دوڑ جاتی ہے۔چشم نمدیدہ ہو جاتی ہیں۔انکھوں میں ان معصوم بچوں کی خون سے لت پت لعشیں گھومتی رہتی ہیں۔
۔فلسطین کی اس تباہی پر حساس دل تڑپ اٹھتا ہے۔
” دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں”
اس بربریت کے لیے انسانیت شرم سار ہو رہی ہے جیسے جملے بے معنی محسوس ہوتے ہیں۔لیکن اس کے باجود ہم فلسطینی عوام کے ہمت و حوصلے کو خندہ پیشانی سے سلام کرتے ہیں جہاں نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی اپنے وطن کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے میں پیچھے نہیں ہٹ رہی ہیں۔ وہاں کی مائیں اپنے بیٹوں کو بیت المقدس کی حفاظت میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کرنے کی ہدایت دیتی ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے سب سے بڑی کامیابی اپنے وطن سے محبت اور عرض مقدس کے لیے شہید ہو جانا ہے۔ وہ تمام ظلم و ستم کو برداشت کرکے بھی اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ایک ایسی خبر نظر سے گزری جس نے ایک بار پھر سے مسلم خواتین کی ہمت و حوصلے کی تاریخ رقم کرتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں درج کروا لیا۔ خبر یہ ہے کہ حماس کے سینیئر رہنما شیخ العروی اپنے پانچ ساتھیوں سمیت اسرائیل کے ڈرون حملے میں شہید ہو گئے۔ شہید صالح العروی کا طوفان اقصیٰ کارروائی کے منصوبے سازوں میں شمار کیا جاتا تھا۔اپنے بیٹے کی شہادت پر صالح العروی کی بہادر ماں نے دین اسلام اور اور اپنے وطن کی حفاظت میں شہادت جام پینے کے لیے اپنے بیٹے کی موت پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔اور کہا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو اس شہادت پر مبارکباد پیش کرتی ہوں جس موت کی میرے لال نے خواہش کی تھی اللہ کریم نے اسے ایسی ہی موت عطاء کی ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق صالح العروی اسرائیل کی ہٹ لسٹ میں شامل تھے۔ جہاں ایک طرف اللہ کریم نے عورت کے دل کو موم سے زیادہ نرم بنایا وہیں دوسری طرف وہ ہمت اور طاقت بھی عطاء کی کہ وہ خدا کی راہ میں اپنی محبوب سے محبوب شے کو مسکراتے مسکراتے قربان کر دے۔ ایک طرف عرب ممالک بے غیرتی کا لبادہ اوڑھے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں وہیں دوسری طرف صنف نازک کہلائی جانے والی ایک خاتون اپنے لخت جگر کی قربانی پیش کر کے اسے دین کی راہ میں قربان ہونے پر مبارکباد پیش کر رہی ہے۔ آج العروی کی ماں نے تاریخ اسلام میں اپنا نام سنہری حروف میں درج کروا لیا ہے اور بیسویں صدی کی دوسری تیسری دہائی کی اپنے زمانے کی بہت زیادہ مشہور و معروف ،محترم اور دلعزیز شخصیت علی برادران کی ماں بی اماں کی یاد دلا دی۔جنہوں نے اپنی شجاعت اور بہادری کا پورے ملک سے لوہا منوایا اور تحریک آزادی میں مسلمانانِ ہند کی پہلی خاتون کی حیثیت سے تاریخ میں مقام حاصل کیا۔انہیں تاریخ بی اماں کے نام سے جانتی ہے۔رامپور کی رہنے والی بی اماں ہندستان کے افق پر پہلی خاتون تھیں جنہوں نے تحریک آزادی کے لیے نہ صرف خود کو میدان عمل میں متحرک رکھا بلکہ اپنے بیٹوں کو بھی انگریزوں کے خلاف اور آزادی کی خاطر لڑنے اور وقت پڑنے پر مال و جان کی قربانی دینا سکھایا۔۔ مسلم خواتین کی ہمت و شجاعت اور دین پر مٹنے کے سیکڑوں قصے موجود ہیں۔غزاوات میں خواتین کی بہادری کے انمٹ نقوش سے تاریخ کے سیکڑوں صفحات بھرے پڑے ہیں۔ غزوہِ خندق میں رسول اللہ نے تمام خواتین کو ایک قلعہ میں محفوظ کر دیا تھا۔ایک یہودی آیا اور قلعے کے گرد چکر لگانے لگا حضرت صفیہ نے دیکھا تو حسان بن ثابت سے کہا ” یہ دشمن کا جاسوس معلوم ہوتا ہے اس کو ٹھکانے لگا دو "انہوں نے جواب دیا "تمہیں تو معلوم ہے میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں۔ اب حضرتِ صفیہ خود اتریں اور خیمے کی ایک میخ اکھاڑ کر اس زور سے دشمن کو مارا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔مورخ ابن اثیر لکھتے ہیں یہ پہلی بہادری تھی جو ایک مسلمان عورت سے ظاہر ہوئی (اسعد الغاویہ)
غزوہِ عحد میں جب مسلمانوں کے قدم اکھڑ رہے تھے اور نبی پر کفار بڑ بڑ کر حملے کر رہے تھے اور جاں نثار آگے آکر اپنی جانیں پیش کر رہے تھے تب سیدہ ام امارہ بھی وہاں موجود تھیں اور اس بہادر خاتون کی تیغ بدست حملہ آوروں کو مار مار کر پیچھے ہٹا رہی تھی اس وقت کء زخم ان کے دشت و بازو میں اے تھے۔دیگر غزوات میں بھی انہوں نے بے مثال بہادری کے کارنامے پیش کیے صدیق اکبر کے زمانے میں بھی جنگ حمامہ کے دوران انہوں نے لاجواب بہادری کا مظاہرہ کیا اور جب تک یہ بری طرح زخمی نہ ہو گئیں مسلسل لڑتی رہیں۔۔
اسلامی خواتین کے خیر خواہ بن کر ان کو ورغلانے کی کوشش کرنے والوں سے اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ اسلام ہی وہ مزہب ہے جس نے خواتین کو تحفظ کے ساتھ آزادی عطاء کی۔اور اس آزادی کے سبب ہی مسلم خواتین ہر شعبے یہاں تک میدان جنگ میں بھی مردوں کے ساتھ خواتین بھی اپنی بہادری کے پرچم لہراتی رہی ہیں ۔ فلسطین کی خواتین نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حالات چاہے جتنے خراب ہوں لیکن ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں۔ ہمیں یقین ہے اس کالی اندھری رات کے بعد سورج پوری آب و تاب کے ساتھ پھر روشن ہوگا ۔
9649595277

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا