مفتی محمودزبیرقاسمی حیدرآباد
حضورا کی ہر بات قابل قدر اورلائق عمل ہے، کیوں نہ ہو ؛نبی جو ہیں،ساتھ ہی آپ ا نے بڑی اہم بات یہ بھی ارشاد فرمائی کہ آپ کو جوامع الکلم سے نوازا گیا ،بات مختصر ہو؛ لیکن بڑے اہم اور وسیع مضمون کا احاطہ کرتی ہو،حدیث کے ایک طالب علم کو اس نوع کی روایات بہت مل جاتی ہیں، جن میں حضور اکی یہ شان جلوہ گر ہوتی ہے، اسی طرح کی ایک روایت جو موجودہ دور کے انسانی مزاج ومذاق سے بہت قریب ہے امام ترمذی نے اپنی جامع سنن میں ذکر فرمائی ہے فرماتے ہیں: ابوکبشہ انماری ص سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ا سے سنا، آپ فرمارہے تھے: تین باتیں ہیں جن پر میں قسم کھاتا ہوں اور ایک بات کہتا ہوں تم لوگ اس کو یاد کرلو؛ وہ تین باتیں جن پر میں قسم کھاتا ہوں یہ ہیں۔۱۔اللہ کسی بندہ کا مال صدقہ سے کم نہیں کرتا، ۲۔کسی بندے پر ظلم کیا گیا اور وہ بندہ اس پر صبر کر گیا تو اللہ رب العزت اس کی عزت میں اضافہ فرمادیتے ہیں، ۳۔جو کوئی بندہ مخلوق سے سوال کرنے لگتا ہے اللہ اس پر فقر اور تنگدستی کے دروازے وا کردیتے ہیں، اور جو بات میں تم سے بیان کرنا چاہتا ہوں جس کو تمھیں یاد رکھنا چاہیے یہ ہے: دنیا میں چار قسم کے لوگ ہیں، ۱۔ایک وہ بندہ جسے اللہ نے مال دیا اور علم دیا؛ پس وہ اپنے مال میں اللہ سے ڈرتا ہے، صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے حق کے مطابق تصرف کرتا ہے، یہ سب سے بہتر مقام پر ہے، ۲۔دوسرا بندہ جسے اللہ نے علم عطا فرمایا اور مال نہ دیا؛ مگر اس کی نیت سچی ہے، وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں (نیک اور سخی) بندے جیسا عمل کرتا، پس ان دونوں کا اجر برابر ہے۔۳۔ایسا بندہ جسے اللہ نے مال دیااور علم نہیں دیا، بس وہ ناواقفیت کے ساتھ، خدا سے بے خوف ہو کر اندھا دُھند اپنے مال کو خرچ کرتا ہے، نہ اس کے ذریعہ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس کو صحیح جگہوں میں خرچ کرتا ہے؛ تو یہ بدترین مقام پر ہے، ۴۔ایسا بندہ جسے اللہ نے نہ مال دیا اور نہ علم؛ پس وہ کہتا ہے کہ اگر اللہ مجھے مال دیتا تو میں بھی فلاں (برے اور عیاش) شخص کی طرح صرف کرتا، یہ اس کی نیت ہے اور ان دونوں کا گناہ برابر ہے۔اس مبارک حدیث میں رسولِ اکرم ا نے تین باتوں پر قسم کھائی اور چار طرح کے لوگوں کی اور خدا کے یہاں ان کے محبوب یا مبغوض ہونے کی وضاحت فرمائی، قسم کہانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ رب العزت کے ایسے اٹل اور یقینی فیصلے ہیں کہ ان کی حقیقت پر قسم کہائی جاسکتی ہے، مضمون کو مو¿کد کرنے اور بات کی اہمیت سے سامع کو واقف کروانے کے لیے گفتگو کے دوران قسم کا سہارا لیا جاتا ہے، اندازہ فرمائیں کہ یہ باتیں کس قدر کام کی اور اہم ہیں، آپ نے فرمایا:۱۔کسی کا مال صدقہ کرنے سے کم نہیں ہوتا، ظاہر میں آنکھیں یہ دیکھتی ہیں کہ مال ہمارے جیب سے نکل کر کسی اور ملکیت میں جارہا ہے، جس سے ہماری مملوکہ چیزوں میں فرق آرہا ہے؛ پر اللہ کے رسول فرماتے ہیں کہ راہِ خدا میں دینے سے کبھی مفلسی وناداری نہیں آتی؛ بلکہ اس کے مال میں برکت ہوتی ہے اور جس خدا کے نام پر اور جس عظیم ذات کی راہ میں وہ صدقہ دے رہا ہے وہ اپنے خزانہ¿ غیب سے اس کو دیتا رہیگا۔۲۔دوسری بات آپ نے فرمائی کہ مظلوم کے صبر پر اللہ دنیا ہی میں اس کی عزت میں اضافہ فرمادیتے ہیں، یہ بات روز مرہ کی زندگی میں بارہا دیکھی جاتی ہے کہ کمزور اور مظلوم کے ساتھ دنیا والوں کی ہمدردیاں اور دلجوئیاں شامل ہو جاتی ہیں اور وہ اس کی مظلومیت، بے چارگی اور صبر پر اس کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں،یہ اور بات ہے کہ اس کی نصرتپر کمر بستہ نہ ہوں اور ہمت نہ جٹا پائیں مگر اس کی محبت اور عزت سے دل لبریز ضرور ہوتے ہیں۔۳۔آپ نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں سے مانگنے لگتا ہے تو اللہ رب العزت بھی اس پر فقروفاقہ کو کھول دیتے ہیں، جو شخص خدا کے علاوہ مخلوق کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے، بے نیاز مولیٰ سے مانگنے کے بجائے محتاجوں کے در کا سوالی بنتا ہے،جو مانگنے پر دیتا ہے اس سے تو منہ موڑا ہوا ہے اور جو ہر لحاظ سے محتاج ہے اس کی گداگری کرتا پھرتا ہے،اللہ اس سے توجہ ہٹالیتے ہیں،جس کے نتیجہ میں محرومی اس کا مقدر ہوتی ہے اور اللہ رب العزت اس پر فقر وتنگدستی اس پر مسلط فرمادیتے ہیں۔پھر آپ ا نے مال میں تصرف کے طریقہ سے متعلق دنیا کے لوگوں کی چار قسمیں بیان فرمائیں۔۱۔ایسا شخص جسے اللہ نے مال بھی دیا اور اپنے راہ میں خرچ کرنے کا سلیقہ بھی سکھایا، وہ اللہ کے بتائے ہوے اصولوں کے مطابق خدا کی راہ میں، اپنے اہل وعیال ، رشتہ داروں ، غربا، مساکین اورمحتاجوں میں اس کو خرچ کرتا ہے، جس سے اس کا مقصود خدا کی رضا کا حصول ہوتا ہے؛ تو آپ ا نے فرمایا کہ ایسا شخص انسانیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہے، یہاں ذرا رک کر حدیث کے اس مضمون کے آخری ٹکڑے پر ہمارے ان بھائیوں کو متوجہ کرنا ضروری ہے جو مال کو شجر ممنوعہ تصور کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ مال کا کسب اور اس کے حصول کی کوشش اللہ کو پسند نہیں، وہ خود بھی باوجود لیاقتوں اور صلاحیتوں کے تنگدستی کی زندگی گزارتے ہیں اور اپنے ماتحتوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کرتے ہیں اور ان تمام پر دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ مال گندی اور خدا کے یہاں مبغوض چیز ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے ماتحت یا تو مال چھوڑنے پر راضی رہیں یا ان کی واہی تباہی باتوں سے دین سے بیزار رہیں، اللہ کے حبیب ا نے یہاں فیصلہ فرمایا کہ مال کا حصول بھی ہو اور خدا کی راہ اور پسندیدہ جگہوں پر اس کا صرف بھی ہو، یہ خدا کو محبوب ہے اور ایسے لوگ انسانیت کے برگزیدہ ہیں اور اعلیٰ مقام پر فائز ہیں،مال کی محبت بری چیز ضرور ہے، اور اس کے نہ ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو حدا کی راہ میں قربان کیا جاتا رہے،جن افراد بغیر ایمان کی مصبوطی اور بڑوں سے مشورے کے بغیر اپنا اور اپنے ماتحتوں کا معاش تنگ کر رکھا ہے اورلوگ ا کی رکت کو جانتے بھی ہیں تو یہ دین کی سرخروئی کے بجائے اس کی بدنامی کا سامان کر رہا ہے،پہلے مزاج بنایا جائے،پھر اختیاری قربانیاںاپنائی جائیں ۔۲۔دوسری بات آپ نے فرمائی کہ جس کے پاس مال تو نہ ہو؛ البتہ سچا جذبہ ہو؛ اور وہ دل ہی دل میں خدا سے یہ فریاد بھی کرتا ہو کہ اگر اس کو مال دیا جاتا تو وہ بھی خدا کی مرضیات میں اس کو لگاتا اور اس مال کے ذریعہ خدا کے تقرب اور قوم کی خدمت کا شرف حاصل کرتا،اہل وعیال، رشتہ دار ، دوست احباب اور محتاجوں کی دادرسی کرتا ،آپ ا نے فرمایا کہ اس کے جذبات کی قدر کی جائیگی اور اس کو بھی پہلے والے اور اس برگزیدہ مقام والے جیسا اجر دیا جائیگا۔۳۔آپ نے فرمایا کہ ایسا بندہ جسے اللہ نے مال تو دیا؛ لیکن اس کے خرچ کا سلیقہ نہ دیا، وہ شخص فضول خرچی اور عیش وطرب میں اپنا پیسہ برباد کرتا ہے، نہ اس کو اپنے گھروالوں کا خیال نہ اعزہ واقارب کا پاس،نہ غربا اور محتاجوں کا خیال،ایسا شخص انسانیت کے بدترین مقام پر ہے، یہاں ان مالداروں کے لیے لمحہ¿ فکر ہے، جن کے مال کا فائدہ صرف ان تک محدود رہتا ہے، نہ غریب کو وہ حق دیتے ہیں اور نہ اپنے اعزہ واقارب کی وہ خبر گیری کرتے ہیں؛ بلکہ عیش کوشیوں میں مصروف، جام پر جام لیے جا رہے ہیں، ایسے لوگ سب سے گرے ہوے اور خبیث تر لوگ ہیں، جوخدا کے مال کو اپنا مال سمجھتے ہیں،جو مال انہیں ان کے کمزوروں کی رعایت میں دیا گیا تھا اس مال کو وہ عیش کو شیوں اور حرام کاریوںکا ذریعہ بناتے ہیں،جنہیں نہ تو خرچ کرنے میں خدائی احکامات کا خیال ہوتا ہے نہ کمانے میں اس کے اصولوں کا لحاظ،یہ لوگ انسانیت کے برے لوگ ہیں۔۴۔چوتھا وہ شخص جس کے پاس مال نہیں پر تیسرے قسم والوں کے جذبات ہیں، وہ عملی طور پر نہ سہی؛ پر جذبات اور عزم وارادہ میں ان کا شریک ہے،اس کے پاس کرنے کے لےے تو کچھ نہیں؛ لیکن ظلم اور گناہ کے پروگرام ضرور ہیں،اس کا جسم محروم ہی سہی؛ لیکن اس کے عزائم اورجذبات حرام لذتوں کے آرزوںمند ہیں، فرمایا: وہ گناہ میں بھی کرنے والوں جیساشریک ہوگا، واضح رہے کہ یہ وعید خیال پر نہیں بلکہ عزم پر ہے۔اس مبارک حدیث میں جہاں صدقہ کرنے والوں اور ظلم پر صبر کرنے والوں کے لیے بشارت ہے، وہیں مخلوق کے آگے ہاتھ پھیلانے والوں کے لیے سامانِ عبرت بھی ہے۔مالداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کا اور ناداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے جذبات کا اس حدیث کی روشنی میں تجزیہ کریں ،اپنے اعمال اور جذبات کو اس کی روشنی میں ڈھالنے کی فکر کریں۔