سےاسی عدم استحکام کا علاج ضروری ہے

0
0

عارف عزےز (بھوپال)

09425673760

ہندوستان مےں دستور کے نفاذ کو ۸۶سال کا طوےل عرصہ ہورہا ہے پولٹےکل سائنس کی کتابوں مےں دعویٰ کےا جاتا ہے کہ ہمارے آئےن مےں دنےا کے دستوروں کی تمام اچھی باتوں کو شامل کےا گےا ہے لےکن حقےقت یہ ہے کہ دنےا کے دستوروں کی اہم خصوصےات کو منتخب کرنے کے باوجود عملی طور پر ہمارا آئےن انگلےنڈ کے دستور کی نقل ہے اور اسی لئے ہمارے یہاں کے ماہرےن آئےن اکثر وبےشتر پارلےمانی جمہورےت کے وےسٹ منسٹر ماڈل کا حوالہ دےتے ہےں جو ہندوستان کی آب وہوا سے کس قدر مطابقت رکھتا ہے اس کے ثبوت کے لئے یہی کافی ہے۔ ۲۶برسوں کے دوران ہمارے دستور مےں۰۹ کے قریب تبدےلےاں ہوچکی ہےں پھر بھی آئے دن اےسے مواقع آتے ہےں جب ہماری مقننہ (قانون ساز اداروں) کو عدلیہ کی طرف دےکھنا پڑتا ہے کئی بار یہ مجبوری اس لئے بھی پیش آتی ہے کہ انتظامیہ فےصلہ کرنے کی اپنی صلاحےت کے فقدان کی وجہ سے کوئی حل نکال نہےں پاتا اور معاملہ سپرےم کورٹ کے سامنے پہونچ جاتا ہے جو اپنی دستوری بنچ تشکےل دےکر اس پر فےصلہ صادر کرتا ہے۔ پرےس کونسل کے سابق چےئرمےن جسٹس پی بی ساونت نے اسی نظام پر انگلی اٹھاتے ہوئے ایک مرتبہ سوال کےا تھا کہ کسی مستقل دستوری بےچ کے نہ ہونے سے اےک چےف جسٹس کی خواہش پر تشکےل پانے والی دستوری بےنچ کا کےا جواز ہے؟ ان کا کہنا تھا دستور مےں تبدےلی کے امکانات بڑھتے جارہے ہےں اور اےسے معاملے مسلسل سامنے آرہے ہےں لہذا اس کام کو انجام دےنے کے لئے اےک مستقل دستوری بےنچ تشکےل دی جائے جو سپرےم کورٹ کے ہی مساوی ہو لےکن اس سے آزاد رہے ےعنی اےک آزاد بےنچ دستور کو لے کر وقتاً فوقتاً اٹھنے والے سوالوں کا جواب تلاش کرتی رہے اور نظام مےںکسی طرح کی بنےادی تبدےلی بھی رونما نہ ہونے دے۔ اس معتدل انداز فکر کے برعکس بعض لوگوں کا خےال ہے کہ ہندوستان مےں پارلےمانی جمہورےت بالخصوص وےسٹ منسٹر ماڈل ناکام ہوچکا ہے اس لئے ہمےں سنجےدگی کے ساتھ صدارتی نظام اپنانے کی سمت قدم بڑھانا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے بھی اےک نےا دستور اور اس کے نفاذ کے طرےقہ کار پر ازسر نو غور کرنا پڑے گا۔ اور ان تمام تجربات کا لحاظ رکھنا ہوگا جو پارلےمانی جمہورےت کے ۸۶ برس مےں ہمےں ہوتے رہے ہےں نےز اس مےں تبدےلی اب ناگزےر ہوگئی ہے۔ اس تبدےلی کے لئے پہلی دلےل تو یہ دی جاتی ہے ملک کا موجودہ دستور اپنی جڑوں سے نہےں ابھرا بلکہ اوپر سے تھوپا گےا ہے۔ تقرےباً ۰۳ برس کے دوران تو تجربہ مےں یہ آےا کہ علاقائی جماعتیں طاقتور ہورہی ہیں اور پانچ سال قبل تک بار بار کے پارلےمانی الےکشن کے باوجود معلق پارلےمنٹ ہی وجودآتی رہی ہے ۔ ۶۹۹۱ءمےں اےک جماعت کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی تو وہ تےرہ دن برسراقتدار رہنے کے باوجود اکثرےت ثابت نہےں کرسکی۔ اور اس کے بعد تےن سرکارےں بنی وہ بھی وقتی ثابت ہوئےں اس سے زےادہ خراب حالت ملک کی سب سے بڑی رےاست اترپردےش کی رہی ہے۔ جہاں درمیان کے پندرہ بیس برس مےں سوائے موجودہ کے کوئی مستحکم سرکار قائم نہےں ہوسکی۔ آخری ماےاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کی حکومت اور سماجوادی پارٹی کی حکومت نے پانچ سال مکمل کئے ہیں لیکن علاقائی جماعتےں ملک کو نہ پہلے سےاسی استحکام سے ہمکنار کرسکےں، نہ آگے ان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے، اترپردےش اور دوسری رےاستوں مےں بھی علاقائی پارٹےوں کا دخل بڑھنے اور ووٹوں کی ذات برادری کی بنےاد پر صف بندی کا عمل جب تک جاری رہے گا ، کرناٹک کی طرح حکومتوں کے عدم استحکام کے نظارے دکھائی دےتے رہےں گے اور اس کے علاج کے لئے گروہی ونسلی سےاست سے بلند ہوکر غور وفکر ہونا چاہئے تبھی کچھ مثبت نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا