جاوید جمال الدین
ملک کی 18ویں لوک سبھا کے انتخابات کا ساتواں مرحلہ بھی مکمل ہو چکا ہے، بس اب عوام کو 4جون کا انتظار ہے، اس کے بعد ملک کا سیا سی منظر نامہ تبدیل ہو نے کے بارے میں چہ مہ گوئیاں جاری ہیں، ملک میں پیش آنے والی تبدیلی کے بارے کوئی بھی کھل کراظہار نہیں کررہا ہے، لیکن یہ طے ہے کہ بڑے پیمانے پر نہیں توجزوی تبدیلی تو پیش آئے گی۔ مذکورہ الیکشن کو جمہوریت اور ائین کے تحفظ کی لڑائی قراردیاجارہاہے۔پھر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد پہلے انتخابات ہیں،جب حزب اختلاف اور خصوصاً کانگریس لیڈرشپ نے پہلی مرتبہ آرایس ایس اور بی جے پی پر اتنا سخت حملہ کیاہے۔یہاں بی جے پی اپنے دفاع میں نظر آتی ہے۔البتہ مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کے کھولے گئے محاذاور الیکشن مہم کے دوران مودی ، امت شاہ ، یو گی ادتیہ ناتھ اور سرما کی زہر افشانی میں کوئی مداخلت نہیں کی اور خاموش تماشائی نظرآئی۔
کانگریس اور انڈیا اتحاد نے اس بار بڑے منظم طریقے سے ائین اور جمہوریت کے تحفظ کو مرکزی نکتہ بنا نے کے علاوہ پہلو بہ پہلو بیروزگاری، سرکاری ملازمت اور مہنگائی کوبھی انتخابی موضوع بنایا،لیکن مسلمانوں کے استحصال پر چپی سادھ لی۔واضح رہے کہ 18ویں لوک سبھا کا یہ انتخاب شاید ایسا پہلا انتخاب ہے کہ بی جے پی پوری انتخابی مہم کے دوران مسلمان ،مسلمان ،مسلمان کاراگ الاپ رہی تھی اور ان کی مہم نادانستہ نہیں بلکہ دانستہ طورپر مسلمانوں سے رنگی ہو ئی نظر ائی۔
موجودہ الیکشن کے دوران بی جے پی لیڈرشپ انتخابی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں قدم قدم پر اڑاتے ہوئی نظرآئی ،لیکن الیکشن کمیشن کی جانبداری اظہرمن الشمس ہے۔ مودی ، امت شاہ سمیت صف اول کے لیڈران نظرآئے،ان افراد کے خلاف شکایتوں کے باوجود کمیشن نیکوئی کارروائی نہیں کی ہے،بلکہ توازن برقرار رکھنے کے لیے بی جے پی اور کانگریس صدور کو نوٹس پکڑادیئے، لیکن یہ بی جے پی لیڈران باز نہیں آئے اور مودی سب سے آگے آگے رہے ہیں۔ اس موقع پر الیکشن کمیشن کے جاری کردہ انتخابی ضابطہ اخلاق ہی نہیں اخلاقی اقدار کی بھی دھجیاں خوب اْڑا ئی گئیں، جس کو لوگ بھول نہیں پائیں گے، الیکشن جس طرز پر لڑاگیااور فرقہ واریت کا زہر پورے سماج میں پھیلا یا گیا،وہ ہندوستانی معاشرت اور جمہوری اقدار سے میل نہیں کھا تاہے۔
مذکورہ سرگرمیوں کے دوران سابق الیکشن کمیشن ٹی این سیشن خوب یاد آئے۔ٹی این سیشن 1990ء سے 1996ئ کے دوران چیف الیکشن کمیشن کے عہدے پر فائز رہے۔ 1996ء میں انھیں سرکاری خدمات کے لیے ریمن میگسیے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ دسمبر 1932ء کو کیرالاکے پالگھاٹ ضلع کے تھرونیلئی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے مدراس کرشچن کالج سے گریجویشن کی ڈگری لی تھی۔ اس کے بعد وہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروسز کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے امریکا کی مشہور ہاورڈ یونیورسٹی میں پبلک ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ اپنی اصول پسندی اور سخت رویے کے لیے مشہور تھے۔ ملک میں انتخابی بد عنوانیوں کے خلاف ٹی این سیشن کی کارروائی سے سیاست داں پریشان ہو گئے۔ وہ ملک کے انتخابی کمیشن کے چیف رہے تھے۔ اور1990 ء سے 1996 ء تک اس عہدہ پر رہے۔ اسے ’’انتخابی جمہوریت کا سنہری دور‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ 1955 ء کے بیچ کے آئی اے ایس عہدے دار کی حیثیت سے انھوں نے ٹاملناڈو کلکٹر کی حیثیت سے مدورائی کے بشمول مرکز میں کیبھی خدمات انجام دیں۔ سبکدوش ہونے کے بعد 1997ئمیں صدر جمہوریہ کے عہدہ کے لیے انتخابی مقابلہ کیا تاہم ناکام رہے۔صدر جمہوریہ کے لیے ان کی نامزدگی کو صرف مہاراشٹر کی شیو سینا نے حمایت کی تھی۔ وہ کانگریس کی طرف سے ایک موقع پرگاندھی نگر انتخابی حلقہ سے ایل کے اڈوانی کے مد مقابل بھی کھڑیہوئے تھے، مگر وہ ہار گئے۔
سیشن کے انتخابی کمیشن کے چیف الیکشن بننے تک اس کمیشن کو ایک بغیراختیارات کی ‘فوج’ سمجھا جاتا تھا، جو حکومت کے تحت تھی،لیکن انھوں نے اس وقت تک اپنی گہری نظر رکھی اور اس وجہ سے الیکشن کمیشن درحقیقت ایک ازاد دستوری ادارہ بنا۔ اسے ازادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے وسیع اختیارات حاصل تھے۔ انتخابی بدعنوانیوں کے خلاف ان کے اقدامات سے سیاست داں پریشان ہوگئے۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور میں زبردست انتخابی اصلاحات کیں،بلکہ کمیشن کے اختیارات کے تحت اصولوں وضوابط کو نافذ کیا۔
ٹی این سیشن کی کی میعاد ۰۹۹۱ء سے ۶۹۹۱ ء تک الیکشن کمیشن ایک طاقتور اور با اثر ادارہ بن کر ابھرا۔ ہندوستانی عوام کی نظروں میں الیکشن کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ آبادی کے تناسب سے رائے دہندگان کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوا۔ سیشن کو انتخابی اصلاحات پر عمل درآمد کیلئے ۶۹۹۱ء میں بین القوامی ریمن میگ سیسے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اور یہ بالکل سچ ہے کہ الیکشن کے نظام میں اصلاحات کی ٹھوس اور موثر کوششیں صحیح معنوں میں سیشن کے دور ہی میں شروع ہوئیں۔
دھاندلی سے پاک انتخابات کیلئے ڈیڑھ سو ممنوعہ افعال کی فہرست مرتب کی گئی۔ اس دوران رائے دہندگان کو شراب اور نقد رقم کے لالچ دینے پر سختی کے ساتھ کاروائیاں ہوئیں۔ دیواروں کو بدنما کرنے والے پوسٹروں کی ممانعت سے لے کر لاوڈ اسپیکر کے بیجا استعمال پر قدغن لگایا گیا اور شب 10 بجے تک انتخابی مہم جاری رکھنے کا قانون نافذ کیاگیا۔اس درمیان نہ جانے کتنے اقدامات اٹھائے گئے۔ ان کے دور میں عوام نے بڑی راحت محسوس کی اور انہوں نے اسے اپنی طاقت بناتے ہوئے اپنے فرائض بخوبی ادا کئے۔راقم نے 1990 کے ابتدائی عشرے میں اعلی الصبح تک انتخابی جلسوں کی رپورٹنگ کی ہے،لیکن 1992 سے منظر نامی بدل گیا۔
دراصل 1982 میں وزیر اعظم اندرا گاندھی سیشن کو شعبہ جوہری توانائی سے شعبہ خلائی سائنس میں منتقل کرنا چاہتی تھیں ،لیکن اْس وقت سیشن کے اعلی افسر ڈاکٹر ہومی سیٹھنا نے ان کی مخفی فائل پر منفی ریمارکس لکھ دیئے۔ اندرا نے سیشن کو اپنے دفتر طلب کیااور دریافت کیاکہ "کیا تم سیشن ہو۔ تم سیٹھنا سے اتنی بد تمیزی سے کیوں پیش آتے ہو؟ پھرانہوں ان کے سامنے یکے بعد دیگرے ریمارکس پڑھ کر سنائے اور پوچھاکہ ’’کیا تم جارح (Aggressive) ، رگڑنے والے (Abrasive) اور دھونس جمانے والے بدمعاش (Bully) ہو؟‘‘
اس کے جواب میں سیشن نے وزیر اعظم سے کہا کہ محترمہ پہلے دو القاب سے وہ اتفاق کرتے ہیں، لیکن ایسا سب کچھ وہ کام کروانے کے مقصد سے کرتے ہیں۔ البتہ وہ بدمعاش نہیں ہیں اور کبھی کسی کمزور کو پریشان نہیں کرتے ہیں۔حقیقت میں صرف طاقتور لوگوں سے جھگڑے مول لیتے رہے ہیں ”
سیشن کو اندرا گاندھی جیسی شخصیت کے سامنے اس خود اعتمادی ہی کی بدولت ترقی کے زینے پر اوپر کی جانب قدم بڑھانے کا موقع ہاتھ آیا۔
1995 میں نیو یارک ٹائمز کے ایک مضمون میں سیشن کو ہندوستان کے گھر کی صفائی کرنے والا ‘دیو ‘بتایا گیا۔ یہ ایک طرح کی تعریف تھی۔ اختیار نے لکھا کہ ہندوستان میں سب سے مقبول شخص اور سب سے سخت گیر شخص کیلئے رائے شماری کرائی جائے تو دونوں زمروں میں ٹی این سیشن کا نام سب سے اوپر ہوگا۔ سخت حالات مشکل فیصلے کرتے رہے۔ آج کے حالات کے بالکل برعکس انھوں نے حقیقی معنی میں کمیشن کو حکومت کے کنٹرول سے باہر نکال کر اسے دستوری فرائض کی ادائیگی کی طرف گامزن کیا۔ سیشن کے سخت اقدامات کی ضرب سیاسی پارٹیوں اوررہنماؤں پر بھی پڑی۔
حال میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے متعلق ایک عرضی کی سماعت کے دوران یہ تبصرہ کیا تھا کہ آج کے حالات میں ملک کو ٹی این سیشن جیسے چیف الیکشن کمیشن کی ضرورت ہے جو کسی کے دباؤ میں نہ آسکے۔
javedjamaluddin@gmail.com
9867647741