سوا دو مہینے انتخابی جنگ اورمودی کی نفرت انگیز ی

0
0

ؑٓعارف شجر
تلنگانہ

سوا دو مہینے تک تاریخ کا سب سے طویل چلنے والا 2024 کا لوک سبھا انتخابات آخر کار ساتویں مرحلے کے بعد ختم ہو گیا۔ ایک جانب اس تھکا دینے والا لوک سبھا انتخابات کا ووٹ فیصد کم ہونا اس بات کو واضح کر تی ہے کہ الیکشن کمیشن ووٹروں کو باہر نکالنے میں پوری طرح ناکام رہی جسکا اعتراف ملک کا مین اسٹریم میڈیا کے علاوہ مختلف سوشل میڈیا نے بھی کیا ہے۔ وہیں دوسری جانب ان سوا دو مہینوں کے درمیان سیاسی جماعتوں کے قائدین کی نفرت انگیز اور ناقابل قبول بیانات نے ملک کے لوگوں کو پریشان، ہراساں، بے چین اور ذہنی سکون کو جس طرح سے جھنجھوڑ کر رکھا وہ یقینا تاریخ کے اوراق کے سیاہ صفحات پر لکھے جانے کے قابل ہے۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ اس طویل لوک سبھا الیکشن میں جس طرح پی ایم مودی نے مسلمانوں اور سیکولر سیاسی جماعتوں کے خلاف زہر اگلا اسے پوری دنیا نے دیکھا۔ نریندر مودی نے ملک میں مسلم دراندازی، منگل سوتر، مٹن، مچھلی اور مجرا کا اپنے انتخابی ریلیوں میں استعمال کرکے نہ صرف ملک کی ایک بڑی اقلیتی آبادی کے لوگوں کے دلوں پر ضرب کاری کی بلکہ پی ایم جیسے عظیم عہدے پر بھی داغ لگا دیا۔ جیت ہار اپنی جگہ لیکن پی ایم مودی نے پہلے مرحلے کے بعد سے ہی اپنا اصل چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کر دیا انکے اندر آر ایس ایس کا ملک میں لوگوں کے بیچ تفریق کرنے کا جوکیڑا پل رہا تھا وہ زندہ ہو گیا اور پھر انہوں نے اپنے انتخابی ریلیوں میں اہندو مسلم کرنے پر پورا زور دیا کیوں کہ ان کے پاس ان دس سالوں کے دوران کئے گئے کاموں کو گنانے کے لئے ہاتھ خالی تھے تو پھر انہوں نے ہندووں کے مذہبی جذبات بھڑکانے کا کام شروع کر دیا۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی جہاں بھی انتخابی میدان میں پھنسی ہے وہ مذہبی مدعے کو اپنا ڈھال بنایا ہے چاہے وہ 2014 کا لوک سبھا الیکشن ہو یا پھیر2019 کا اگر آپ جائزہ لیں گے تو بی جے پی نے مذہبی جذبات بھڑکا کر ہی مرکز کی کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس بار کے انتخابات میں پی ایم مودی نے ایسا ہی کرنے کوشش میں اپنا پورا انتخابی سیشن نکال دیا اور دھیان کرنے کے بہانے گوفہ میں جا کر بیٹھ گئے ۔
اس طویل چلنے والے لوک سبھا انتخابات میں جو مدعے خصوصی طور سے گردش کرتے رہے ان میںفری ریواڑی، ترقی یافتہ ہندوستان(وکست بھارت)، انسداد بدعنوانی مہم، آئین اور جمہوریت کو خطرہ -مہنگائی، خاندان پرستی، تعلیم اور صحت ، بے روزگاری ، ہندوتو اور قیادت شامل ہیں۔ اگر ہم فری ریواڑی کی بات کریں تو فری ریواڑی ایک ایسا موضوع تھا جو کسی نہ کسی شکل میں تمام پارٹیوں کے وعدوں میں شامل تھا۔ بی جے پی نے اگلے پانچ سالوں تک مفت راشن دینا جاری رکھنے کا وعدہ کیا۔ اس کے علاوہ مختلف قومی اور علاقائی جماعتوں نے اپنے منشور اور عوام سے کیے گئے وعدوں میں بہت سی چیزیں مفت فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ وہیں انتخابات کے آغاز سے آخر تک جس چیز پر اپوزیشن نے وزیر اعظم نریندر مودی پر سب سے زیادہ حملہ کیا وہ یہ تھا کہ آئین اور جمہوریت خطرے میں ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے یہ بات ملک کے کونے کونے تک ملک کے لوگوں کے بیچ ذہن نشیں کر دی گئی کہ اگر بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے اور مودی دوبارہ وزیر اعظم بنتے ہیں تو یہ آخری الیکشن ہوں گے اور ہندوستان پر بھی روس اور شمالی کوریا کی طرح حکومت ہو گی۔ اور یہ بات اپوزیشن کی لوگوں کے بیچ اتنی اثر کر گئی کہ پہلے مرحلے سے لوگ مودی کے خلاف ہو گئے اب یہ بات دعوے کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی ہے ووٹ میں اپوزیشن جماعت کے حق میں تبدیل ہوئے ہیں یا نہیں لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ عوام کے بیچ غصہ ضرور دیکھا گیا وہ لوگ جو آئین سے محبت کرتے ہیں وہ نہیں چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کے ذریعہ بنائے گئے آئین کو ختم کرنے کی سازش رچی جائے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اپوزیشن کی جانب سے آئین پر حملہ والے مدعے کو لے کر اسے بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پسماندہ اور نچلی سطح پر اس کا بہت اثر ہوا۔اس الجھن کو دور کرنے کے لیے حکمراں جماعت کی طرف سے کوئی کوشش نہیں کی گئی یعنی ایک طرح سے کہیں کہ حکمراں جماعت چاروں خانے چت ہو گئی جس کی وجہ سے بی جے پی کے لیے نقصان کا امکان دیکھا گیا۔ تاہم اس معاملے کے حوالے سے اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ آئین اور جمہوریت کو کوئی تباہ نہیں کر سکتا اور اگر کسی نے ایسی کوشش کی تو عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ لوگوں نے کہا کہ زرعی قوانین کو واپس لینے والی مودی حکومت عوام کی طاقت کو سمجھ چکی ہے اور جانتی ہے کہ پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر آمریت یا من مانی نہیں کی جا سکتی۔ وہیں دوسری طرف ملک بھر میں انسداد بدعنوانی مہم کے حوالے سے اپوزیشن نے الزام لگایا کہ اسے ہراساں کیا جا رہا ہے اور سرکاری اداروں کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن نے ED-CBI کے غلط استعمال کا الزام لگاتے ہوئے عوام سے حمایت مانگی۔ اس الیکشن میں مہنگائی بھی ایک بڑا مدعا بن کر ابھرا اگر دیکھا جائے تو اس سلسلے میں بی جے پی کو بعض مقامات پر دفاعی رویہ اپنانا پڑا۔ تاہم بی جے پی کے بنیادی ووٹ بینک کو اس سے زیادہ فرق نظر نہیں آیا اور کہا کہ جب آمدنی بڑھی ہے تو مہنگائی بھی بڑھی ہے۔ بے روزگاری کا موضوع بھی اس الیکشن میں حاوی رہا۔ پیپر لیک کے بڑھتے ہوئے مسئلے اور مہارت کی کمی جیسے مسائل بھی اس موضوع سے منسلک تھے۔ کانگریس نے ‘پہلی نوکری کی تصدیق’ جیسا بڑا وعدہ کیا تھا۔ اس الیکشن میں سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا خراب معیار، سہولیات کی کمی، شہری علاقوں کے اسکولوں میں داخلے کا مسئلہ، پرائیویٹ ٹیوشن سینٹرز کی فیسوں پر بھاری جی ایس ٹی، دیہی علاقوں میں اسپتالوں کی کمی، میڈیکل چیک اپ سینٹرز کی کمی، حکومت ہسپتالوں میں ادویات کی قلت، بازار میں مہنگی ادویات اور ڈاکٹروں کی کمی جیسے مسائل نے لوگوں کی بڑی تعداد کو متاثر کیا۔ اگر ہم قیادت کی بات کریں تو قیادت کا یہ وہ مسئلہ تھا جس کا پورے الیکشن میں سب سے زیادہ اثر ہوا۔ ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت ہے اور دوسری طرف اپوزیشن کی قیادت کون کرے گا یہ سوال پورے انتخابات میں ایک جیسا ہی رہا۔ وزیراعظم نے اپنے جلسوں میں کہا کہ اپوزیشن نے پانچ سال میں پانچ وزرائے اعظم دینے کا منصوبہ بنایا ہے جس کا عوام میں بہت اثر ہوا۔ ملک نے پچھلے دس سالوں میں واضح اکثریت والی حکومت کی کارگردگی دیکھی ہے اور اس سے پہلے مخلوط حکومت کی مجبوریوں میں ملک کو کچلتے دیکھا ہے، اس لیے ایک بات واضح رہتی ہے کہ واضح اکثریت والی حکومت ہی ہوتی ہے۔ ملک میں تشکیل دیا جا رہا ہے. کئی بار ایسا بھی محسوس ہوا کہ اپوزیشن نے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار نہ دے کر بہت بڑی غلطی کی ہے کیونکہ عوام دیکھ رہی ہے کہ ایک طرف مودی ہیں اور دوسری طرف امیدوار کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔ عوام کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ نئی حکومت ملک کے لیے کام کرنے کے بجائے وزیر اعظم کے عہدے کی لڑائی میں پھنسی رہے۔
بہر حال! مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ اس الیکشن میںراہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے اپنی اچھی ذہانت اور بہترین قیادت کو پختہ کار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ۔ بھلے ہی حکمراں جماعت انکی پختہ قیادت سے انکار کرے لیکن حکمراں جماعت بی جے پی کو اس الیکشن میں راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے پریشان تو کر ہی دیا ہے۔ اگر اہم علاقائی پارٹیوں کی قیادت کی بات کریں تو سماجوادی پارٹی صدر اکھلیش یادو اور راشٹریہ جنتا دل اور بہار کے سابق ڈپٹی سی ایم تیجسوی یادو نے پی ایم مودی کو سیاسی ضرب تو یقینا دیا ۔یہی وجہ تھی کہ پی ایم مودی انکی بڑھتے ہوئے سیاسی قد سے بوکھلا گئے اور بوکھلاہٹ میں شہزادے کہنے لگے اور اقتدار میں آنے کے بعد انہیں جیل بھیجنے کی بات بھی کہنے لگے۔ بہر کیف آخری مرحلہ ختم ہو گیا اب4 جون کو اصل میں پتہ چل پائے گا کہ عوام نے کس کے سر پر جیت کا سہرا باندھا ہے اور پھر کون لال کوٹھری جائے گا۔
ختم شد
8790193834

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا