غزل

0
29

ابراہیم سنگے

زخم جو تو نے دیے بول بھلاتا کیسے
میں گلے تجھ کو مسرت سے لگاتا کیسے
ایک مدّت سے چھپا رکھے ہیں آنسو میں نے
تیری رسوائی کا خدشہ تھا بہاتا کیسے
نقش پا میرے حوادث نے مٹا ڈالے سبھی
ڈھونڈنے کوئی مجھے اپنا بھی آتا کیسے
درد ہوتا ہے تو آنکھوں سے چھلک پڑتا ہے
زخم دل بزم تبسم میں چھپاتا کیسے
میرے اپنے ہی میرے خون کے پیاسے نکلے
جان غیروں سے بھلا اپنی بچاتا کیسے
اس نے ہی دی تھی مرے حق میں گواہی جھوٹی
وہ مرے سامنے نظروں کو اٹھاتا کیسے
بندشیں مجھ پہ لگائی تھی انا نے میری
گھر کے حالات زمانے کو بتاتا کیسے
آئنے جیسی صفت مجھ میں خدا نے رکھی
جو حقیقت ہے اسے جھوٹ بناتا کیسے
دل بہلتا تھا میرے بچوں کا جن سے راجاؔ
چھت پہ بیٹھے میں پرندوں کو اڑاتا کیسے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا