سرینگر جموں شہراہ بند ہوتے ہی کالا بازاری شروع یہاں کون ہے تیرا مسافر جائے گا کہاں

0
0

شگفتہ خالدی

وادی کے یمین و یسار میں برفباری کے بعد کشمیر کا بیرونی دنیا سے رابطہ مسلسل کئی روز تک بند رہا ۔سرینگر جموں شاہراہ پر ہزاروں گاڑیاں درماندہ ،بیشتر رابطہ سڑکیں بھی بند۔وادی کشمیر میں موسم سرما آتے ہی عوام بنیادی مسائل جن میں بجلی، پانی کی نایابی ،اشائے خوردنی کی قلت،مہنگائی قابل ذکر ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کئی کئی دنوں تک بند ہوجاتی ہے سڑک ناقابل آمدہ رفت ہونے سے مسافر یا تو جموں میں درماندہ ہوتے ہیں یا جموں و دیگر ریاستوں کے لوگ سرینگر میں درماندہ ہوتے ہیں جس کا فائدہ ہوٹل مالکان خوب لیتے ہیںدرماندہ مسافروں کو دونوں ہاتھو ںسے لوٹنے کا کام شروع ہوتا ہے ۔درماندہ مسافر دانے دانے کے لیے محتاج بن جاتے ہیں ،کیونکہ ہماری پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ بیرون ملک یا بیرون دنیا کے ساتھ زمینی سطع پر رابطے کا صرف ایک ہی وسیلہ دستیاب ہوتا ہے سرینگر جموں شہراہ کے نام سے مشہور اس شہراہ نے آج تک ہزاروں انسان کو نگل لیاکئی خاندان حادثات کی وجہ سے ازجان ہوگئے ،وقتی طور اس المناک حادثات پر تلاطم ضرور پیدا ہوا لیکن تدارک کے لیے اقدامات نہیں ہوئے ۔  وادی کے یمین و یسار میں برفباری کے بعد کشمیر کا بیرونی دنیا سے رابطہ مسلسل کئی روز تک بند رہا ۔سرینگر جموں شاہراہ پر ہزاروں گاڑیاں درماندہ ،بیشتر رابطہ سڑکیں بھی بند۔وادی کشمیر میں موسم سرما آتے ہی عوام بنیادی مسائل جن میں بجلی، پانی کی نایابی ،اشائے خوردنی کی قلت،مہنگائی قابل ذکر ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کئی کئی دنوں تک بند ہوجاتی ہے سڑک ناقابل آمدہ رفت ہونے سے مسافر یا تو جموں میں درماندہ ہوتے ہیں یا جموں و دیگر ریاستوں کے لوگ سرینگر میں درماندہ ہوتے ہیں جس کا فائدہ ہوٹل مالکان خوب لیتے ہیںدرماندہ مسافروں کو دونوں ہاتھو ںسے لوٹنے کا کام شروع ہوتا ہے ۔درماندہ مسافر دانے دانے کے لیے محتاج بن جاتے ہیں ،کیونکہ ہماری پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ بیرون ملک یا بیرون دنیا کے ساتھ زمینی سطع پر رابطے کا صرف ایک ہی وسیلہ دستیاب ہوتا ہے سرینگر جموں شہراہ کے نام سے مشہور اس شہراہ نے آج تک ہزاروں انسان کو نگل لیاکئی خاندان حادثات کی وجہ سے ازجان ہوگئے ،وقتی طور اس المناک حادثات پر تلاطم ضرور پیدا ہوا لیکن تدارک کے لیے اقدامات نہیں ہوئے ۔ جنت بے نظیر کشمیر آج چکی کے دوپاٹوں کے بیچ پستے پستے بے حال ہے ۔یوں تو یہاں منتخبہ جمہوری حکومت بھی ہے جس کا اپنا نظام بھی ہے ۔جو کہ جمہوری طرز پر کام کرتا ہے جس کے بارے میں مغرب کے سیانے کہتے ہیں کہ یہ عوام کی حکومت عوام کے ذریعہ اور عوام کیلئے ہے ۔ لیکن عوامی پریشانی اور ان کے مسائل دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کوئی نظام ہے ہی نہیں اگر کہیں کوئی نظام ہے جس کی بات کی جاتی ہے تو وہ ہے صرف استحصالی نظام ۔جہاں عوام کا خصوصا غریبوں کا استحصال کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا ۔وادی کشمیر ایک جانب نامساعد حالات سے پچھلے ستر برسوں سے نبر آزما ہے جس میں پچھلی کچھ دہائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔دوسری جانب ان نا مساعد حالات کا فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ اشیائے ضروری کی قلت پیدا کرکے اس کی قیمتوں میں اضافہ کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں ۔یہ مہنگائی اور اس پر بیروزگاری میں اضافہ نے عوام کی زندگی کو اس جنت نظیر وادی میں بھی جہنم بنا رکھا ہے ۔آپ مختلف دوکانوں اور منڈیوں میں چلے جائیں ۔ہر جگہ داموں میں واضح فرق نظر آئے گا ۔ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کوئی حکومت نہیں کوئی نظام نہیں ۔جس کی جو مرضی میں آرہا ہے وہ وہی کررہا ہے ۔آس پاس کے دو مختلف اشیاءکی قیمتوں میں فرق پر آپ کیاکہیں گے ۔عوام مخالف اس مہنگائی اور کالا بازاری کو فروغ حکومت کی تساہلی اور عدم دلچسپی سے مل رہا ہے ۔اگر حکومت چست درست ہوتی اسے عوامی مسائل کا ادراک اور اس کی فکر ہوتی تو وادی میں عوامی مسائل کا ہمالہ پہاڑ نہیں کھڑا ہوتا۔کہنے کو حکومت ہے اس کا محکمہ ناپ تول بھی ہے لیکن پتہ نہیں وہ کہاں ہے۔کون سے کھوہ اور غار میں حکومت کا یہ محکمہ سو رہا ہے ۔آخر انہیں عوامی ٹیکس کے پیسوں سے ہی تو تنخواہ دی جاتی ہے اور اگر انہیں عوامی ٹیکس کی رقم سے ہی انکی تنخواہ دی جاتی ہے تو پھر وہ بازار میں اس افراتفری کو کیوں نہیں قابو میں لاتے ۔اگر ان کے بس کا نہیں ہے یا حکومت میں طاقت نہیں ہے کہ وہ بازار میں اس طرح قیمتوں کے تضادات کو کنٹرول کرے تو اسے اس محکمہ کو ختم کردینا چاہئے تاکہ اس پیسے سے کوئی دوسرا کام کیا جائے جو عوام کے مفاد میں ہو ۔صرف کسی کو بٹھا کر سرکاری خزانہ سے مشاہرہ دینے کا کیا فائدہ ہے جبکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نہ تو سمجھتا ہو اور نہ ہی اس پورا کرنے کی قوت رکھتا ہو ۔ اس محکمہ کے خاتمہ سے کم از کم ایک فائدہ تو ہوگا کہ عوام کو یہ امید ہی نہیں رہے گی کہ کوئی محکمہ ہے جو اس کی دیکھ ریکھ کرتا ہے ۔پھر یا تو عوام خود اس سے نپٹ لیں گے یا پھر صبر کرکے بیٹھ جائیں گے ۔حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت یا اس کے مذکورہ محکمہ نے دوکانداروں کو عوام کو لوٹنے کی چھوٹ دے رکھی ہے ۔بھلا جب کوئی کہیں کنٹرول کرنے والا ہی نظر نہیں آتا تو اور کیا سمجھا جائے اور کیاکہا جائے ۔ مہنگائی کا کالا بازاری اور ملاوٹ سے گہرا ربط ہے ۔جہاں مہنگائی ہوگی وہاں اس کی دواور بہنیں کالا بازاری اور ملاوٹ ضرور ہوں گی ۔وادی میں بھی ایسا ہی کچھ ہے ۔بازار میں دستیاب اشیائے ضروریہ کے بارے میں آپ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اس میں ملاوٹ نہیں ہے ۔عوام بھی ملاوٹی اشیاءکھاتے کھاتے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ نہ تو انہیں اب خالص اشیاءہضم ہو پائے گی اور نا ہی وہ اصل کی پہچان کر پائیں گے ۔جس طرح آپ اندھیرے میں رہتے رہتے عادی ہو جاتے ہیں ۔وہاں سے نکل کر اچانک اجالے میں جائیں گے تو آپ کی آنکھیں چندھیا جائیں گی ۔ٹھیک اسی طرح ملاوٹی اشیاءکھاکر لوگ اس کے عادی ہو چکے ہیں ۔اس طرح کی ملاوٹی اشیاءکھانے سے لوگوں کو کئی طرح کے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔اس سے عوام مبتلائے آلام ہیں لیکن حکومت محو خرام ہے ۔اسے کوئی فکر نہیں کہ اس کی ریاست میں عوام کن کن مسائل سے دو چار ہیں ۔عوام پریشان ہیں تو ہیں حکومت کی بلا سے ۔حکومت کو صرف ایک ہی مسئلہ نظر آتا ہے کہ لوگ پانچ سو روپیہ لے کر سلامتی دستوں پر پتھر بازی کرتے ہیں ۔یہ محض عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش بھر ہے ۔جہاں جہاں حکومت جذباتی مسائل خصوصا ً حب الوطنی کا فلسفہ بیان کرنے میں مسابقت کرے سمجھ لیجئے کہ وہ عوامی مسائل سے چشم پوشی کرنا چاہتی ہے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت جلد ہی خواب خرگوش سے بیدار ہو کر مہنگائی ،کالا بازاری اور ملاوٹ جیسے جرائم و مسائل سے وادی کے عوام کو نجات دلانے کی کوشش میں اپنی قوت صرف کرے گی ۔کیوں کہ اور بھی غم ہیں زمانے میں سیاست کے سوا!ضرورت اس امر کی ہے کہ فرضی دعوے کرنے کے بجائے عملی سطع پر اقدامات کئے جائیں اور خراب موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط پالیسی مرتب کی جائے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا