حضور تاج الشریعہ: ایک عبقری شخصیت (عرس پاک 16 مئی بروز جمعرات)

0
0

۰۰۰
محمد تحسین رضا نوریر پیلی بھیت
۰۰۰
نبوت کا دروازہ بند ہونے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کی رشد و ہدایت کے لئے اس سرزمین پر اولیاء ، علماء ، صلحاء کی نورانی جماعت کا آنا شروع ہوا، ہر دور میں کچھ شخصیتیں ایسی رہتی ہیں جن سے زمانہ برکتیں حاصل کرتا ہے، اْنہیں بابرکت شخصیات میں سے ایک عظیم شخصیت کا نام حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان ازہری میاں (رحم اللہ علیہ) ہے، جن کی ساری عمر شریعت کا علم پھیلانے اورطریقت کی راہ بتانے میں گزری۔ اپ کااسم گرامی محمد اسماعیل رضا جبکہ عرفیت اختر رضا ہے۔ اپ اختر تخلص استعمال فرماتے تھے۔ اپ کے القابات میں تاج الشریعہ، جانشین مفتی اعظم، شیخ الاسلام والمسلین’’زیادہ مشہور ہیں۔آپ کی پیدائش 26 محرم الحرام 1362ھ مطابق 2 فروری 1943ئ بروز منگل محلہ سودا گران بریلی شریف میں ہوئی۔ جب آپ کی عمر 4 سال 4 ماہ 4 دن کی ہوئی تو آپ کی بسم اللہ خوانی ہوئی اپ نے ناظرہ قران کریم اپنی والدہ ماجدہ شہزادی مفتی اعظم سے گھر پر ہی ختم کیا۔ والد ماجد سے ابتدائی اردو کی کتب پڑھیں۔ اس کے بعدوالدبزرگوارنے دارالعلوم منظراسلام میں داخل کرادیا۔ درس نظامی کی تکمیل اپ نے منظراسلام سے کی۔ اپ نے ناظرہ قران کریم اپنی والدہ ماجدہ شہزادی مفتی اعظم سے گھر پر ہی ختم کیا۔ والد ماجد سے ابتدائی اردو کی کتب پڑھیں۔ اس کے بعد والد بزرگوار نے دارالعلوم منظر اسلام میں داخل کرادیا۔ درس نظامی کی تکمیل ا?پ نے منظر اسلام سے کی۔
مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے 1964ء میں جامع ازہر مصر گئے اور وہاں 3 سال تعلیم حاصل فرمائی اور 1966ء میں مصر سے فارغ ہوگئے 1966ء میں جامع ازہر کا سب سے ٹاپر حضور تاج الشریعہ بنے اس خوشی میں مصر کے صدر کرنل جمال ابو ناصر نے فخر ازہر ایوارڈ سے آپ کو نوازا۔
مصر سے فراغت کے بعد آپ نے منظر اسلام میں 1967ئ سے درس و تدریس کا کام باضابطہ شروع کیا، مسلسل جد و جہد اور محنت و لگن سے پڑھاتے رہے، یہاں تک کہ 1978ء میں آپ صدر المدرسین کے عہدے پر فائز ہو گئے، تقریباً 1980 میں آپ کثیر مصروفیات کی وجہ سے منظر اسلام سے علاحدہ ہوئے، یہ وہ دور ہے جس میں سرکار مفتی اعظم ہند بیمار چل رہے تھے، اس وجہ سے تبلیغی دورے وغیرہ بھی درپیش ہو گئے تھے، 1981 میں سرکار مفتی اعظم ہند کا وصال ہوا اْس کے بعد آپکی مصروفیات اور بڑھ گئیں، مگر اپنے درس و تدریس، تعلیم و تبلیغ، تصنیف و تالیف کا کام متاثر نہ ہونے دعا،
اپ عالمی سطح پر قائد کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ اپ اعلیٰ حضرت کے نبیرہ اور حضور مفتی اعظم ہند کے سچے جانشین تھے۔ اپ باتفاق علماء ومفتیان کرام قاضی القضا فی الہند کے منصب پر فائز تھے۔ اپ نے دارالافتاء بریلی شریف کی مسند سے کثیر فتاوے جارے کئے۔ اپ کی نگرانی میں شرعی کونسل اف انڈیا بریلی شریف میں ایک عرصے سے مسلمانان ہندکی شرعی رہنمائی کے لئے متحرک ہے۔ عربی اردوانگریزی میں متعدد کتابیں تصنیف کیں۔ اپ نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز کی درجنوں کتب کا عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ نیز متعدد کتب کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ تقریباً نصف صدی پر محیط تدریسی دورمیں ہزاروں طلبائ نے اپ سے اکتساب علم کیا۔ اپ ایک صاحب طرز ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ تحقیقی ذہن و فکر رکھنے والے صاحب قلم بھی تھے،
بیعت وخلافت:____________________
اپ کو بیعت وخلافت کا شرف حضور مفتی اعظم ہند سے حاصل ہے۔ سرکار مفتی اعظم ہند نے بچپن ہی میں اپ کو بیعت کا شرف عطا فرما دیا تھا اور صرف ۹۱سال کی عمر میں آپ کو تمام سلاسل کی خلافت واجازت سے نوازا۔ علاوہ ازیں اپ کو خلیفہ اعلیٰ حضرت برہان ملت حضرت مفتی برہان الحق جبل پوری، سید العلماء حضرت سید شاہ ال مصطفی برکاتی مارہروی، احسن العلمائ حضرت سید حیدر حسن میاں برکاتی، والد ماجد مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی ابراہیم رضا خان قادری سے بھی جمیع سلاسل کی اجازت وخلافت حاصل تھی۔
حج وزیات__
حضور تاج الشریعہ رحم اللہ علیہ نے پہلی مرتبہ حج وزیارت کی سعادت 1403ھ مطابق 1983ئ میں حاصل کی۔ دوسری مرتبہ 1405ھ مطابق 1985ء اور تیسری مرتبہ 1406ھ مطابق 1986ء میں اس سعادت عظمیٰ سے مشرف ہوئے۔جبکہ چوتھی مرتبہ 1429ھ مطابق 2008ء میں آپ نے حج بیت اللہ ادا فرمایا۔ نیز متعدد مرتبہ آپ کو سرکار عالی وقار کی بارگاہ بے کس پناہ سے عمرہ کی سعادت بھی عطا ہوئی،
کرامات : حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا جہاں ایک عاشق صادق، باعمل عالم، لاجواب خطیب،اور ہے شمار کمالات کے حامل ہیں آپ با کرامت ولی بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے استقامت سب سے بڑی کرامت ہے اور حضور تاج الشریعہ کی یہی کرامت سب سے بڑھ کر ہے۔ ضمناً آپ کی ایک کرامت پیش خدمت ہے۔
مفتی عابد حسین قادری (جمشید پور، جھارکھنڈ ) لکھتے ہیں: 22/جون 2008ء محب محترم جناب قاری عبد الجلیل صاحب شعبہ قرت مدرسہ فیض العلوم جمشید پور نے راقم الحروف سے فرمایا کہ، 5/ سال قبل حضرت ازہری میاں قبلہ دار العلوم حنفیہ ضیا القرآن ،لکھنؤ کی دستار بندی کی ایک کانفرنس میں خطاب کے لئے مدعو تھے۔ ان دنوں وہاں بارش نہیں ہو رہی تھی ،سخت قحط سالی کے ایام گزررہے تھے، لوگوں نے حضرت سے عرض کی کہ حضور بارش کے لئے دعا فرمادیں۔ حضرت نے نماز استسقاء پڑھی اور دعائیں کیں ابھی دعا کرہی رہے تھے کہ وہاں موسلا دھار بارش ہونے لگی اور سارے لوگ بھیگ گئے۔ ’’ [تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ علم و ادب کا یہ روشن و تابناک آفتاب 6 ذو القعدۃ 1439ھ بمطابق 20 جولائی 2018ء بروز جمعہ المبارک مغرب کے وقت غروب ہو گیا۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے رب قدیر ہم تمام اہل سنت پہ اپنا خاص فضل فرمائے اور ہمیں اولیاے کرام کے فیوض و برکات سے ہمیشہ شادکام و بہرہ مند کرے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا