محمدفداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
گلشن ِ اعلی حضرت کی جو جان ہے
میرے تاج الشریعہ کی کیا شان ہے
مسلکِ اعلی حضرت کی پہچان ہے
میرے تاج الشریعہ کی کیا شان ہے
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں و بیاں ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی رشد و ہدایت اور مذہبِ اسلام کی نشر واشاعت کے لیے آدم علیہ السلام سے لے کر ہم سب کے آقا و مولی جناب احمد مجتبی محمد مصطفی ﷺ تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام و رسولانِ عظام علیہم السلام کو اس خاکدان گیتی پر مبعوث فرمایا۔ اور جتنے بھی انبیاء کرام و رسولانِ عظام علیہم السلام اس روے زمین پر جلو ہ گرہ ہوے سبھی نے اپنی قوم کے لوگوں کو راہِ حق پرگامزن کرنے کے لیے دن و رات محنت کرتے رہیں اور اپنی قوم کے باشندوں کو خدائے لم یزل کے دین سے آشنا کراتے رہیں۔ پھر جن لوگوں نے ان انبیاء کرام و رسولانِ عظام علیہم السلام کی دعوت پر لبیک کہا وہ فلاح و بہبودی کی اعلی ترین منصب پر فائز ہوے اور دارین کی سعادتوں سے مالا مال ہوئے۔ اور جن حضرات نے ان کی دعوت سے منھ موڑ ا اوراپنا راستہ ان سے منقطع کرلیاوہ لوگ ضلالت و گمراہی کے دلدل میں پھنستے چلے گئے او رآخر کا ران کانام تاریخ کے اوراق سے محو کر دیاگیا۔
اب تو انبیاء کرام ورسولانِ عظام علیہم السلام کے آمد کا سلسلہ تو منقطع ہوچکاہے مگر اللہ رب العزت کے مقرب ا ور برگزیدہ بندے اس دارِفانی مین تشریف لاتے رہتے ہیں اور لوگوں کے دلوں کواللہ کی محبت سے مسخر کرتے رہیں۔انہیں نفوسِ قدسیہ میں سے کوئی اپنے زمانے کا امام غزلی الطوسی ؒبن کر چمکاتو کوئی فخر الدین رازی بن کر روشن ہوا تو کوئی امام جلال الدین سیوطی بن کر ظاہر ہواتو کوئی جلال الدین رومی بن کر رونماہوا تو کوئی ابن العربی بن کر تزکیۃ القلوب کا بڑے پیمانے پر کام سر انجام دیا تو کوئی شیخ الاسلام والمسلمین حسان الہند امام احمد رضا فاضلِ بریلوی بن کرتمام تر ابھر تے ہوے فتنوں کاازالہ کیا اور خدائے لم یزل کے دین کی خوب آب یاری کی تو کوئی امام الفقہاء شارخ بخاری مفتی شریف الحق امجدی بن کر ہند و پاک میں پھیلی تمام تر خرافات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکاتو کوئی مفتئی اعظم بن کر وہابیوں اور نجدیوں کا دندانِ شکن جواب دیا تو کوئی صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی بن کر بہارِ شریعت جیسی ضخیم اور آسان فہم کتاب اس امتِ مسلمہ کو عطا فرمائی جس سے لوگ کل بھی مستفید ہورہے تھے،آج بھی مستفید ہورہے ہیں اور تابروزِ قیامت اس عظیم کتاب سے مستفید ہوتے رہیں گے۔بالکل اسی طرح ہندوستان کی مقدس زمین پر انہیں بزرگانِ دین اور عظیم ہستیوں میں سے ایک عظیم المرتبت ہستی حضورتاج الشریہ بدرالطریقہ مرجع عالم فقیہ اعظم شیخ الانام یادگار حجۃ الاسلام حضرت العلام الحاج الشاہ مفتی محمد اختر رضا خان ازہری قادری برکاتی بریلوی ؒ کی ہے۔
آپ جہاں گوناگوں اوصاف و کمالات کے حامل اور مختلف علوم و فنون کے حسین امتزاج تھے کشف و کرامات کے جبل شامخ اور علم و عمل کے بحر بیکراں بھی تھے۔اللہ رب العزت نے آپ کو ذہانت و فطانت جیسی عظیم نعمت سے نوازا تھا۔آپ جہاں ایک بے مثال فقیہ و محدث تھے وہیں بانئی مدارسِ کثیرہ بھی تھے اور ایک عدیم النظیر مفسر و مدبر بھی تھے۔آپ کی حیات طیبہ پر قلم فرسائی کی ہمت اس ناقص العلم کو کہاں تاہم اپنی سستی اور کوتاہ علمی کے اعتراف کے باوجود چند اہم پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اس امید کے ساتھ کہ ’’ذکر الانبیاء عبادۃ و ذکر الصالحین کفارۃ‘‘۔ ترجمہ: کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرنا عبادت ہے اور صالحین کا تذکرہ کرنا گناہوں کا کفارہ ہے۔
ولادت با سعادت: آپ کی ولادت کا شانہ رضا محلہ سوداگران بریلی میں 41ر ذی قعدہ 1361ھ/ 23/ نومبر1942ء بروز منگل ہوئی۔ پاسپورٹ کے مطابق ولادت کی شمسی تاریخ یکم فروری 1943 ہے۔اس لحاظ سے تاریخ قمری25محرم الحرام1326ھ بروز پیر ہے۔ بعض صاحبان نے آپ کی تاریخ ولادت24/ ذی قعدہ 1326ھ /23 نومبر1943ء اور26 محرم الحرام1326ھ/ 2 فروری 1943ء اور25/صفر1361ھ / 1642ء لکھا ہے۔ مؤخر الذکر تاریخ ولادت،صاحب تذکرہ کی کتاب’’الصحابۃ نجوم الاہتدائ‘‘اور ’’حقیقۃ البریلویہ‘‘ کے تعریف بالمؤلف میں بایں الفاظ مذکور ہے۔ ولد الشیخ الامام اختر رضا خان الحنفی القادری الازہری یوم الخامس والعشرین (25) من شہر صفر لعام 1361 ہ لموافق 1942ء بمدینۃ بریلی فی شمال الہند۔صحیح تاریخ ولادت ۴۱ رذی قعدہ ۱۶۳۱ھ ۳۲ نومبر ۲۴۹۱ء ہی ہے۔
نام و نسب: آپ حضرت مفسر اعظم ہند حضرت علامہ محمدابراہیم رضا علیہ الرحمہ کے فرزند ارجمند ہیں، دستور خاندان کے مطابق آپ کا پیدائشی نام محمد رکھا گیا۔ چونکہ والد ماجد کا نام محمد ابراہیم رضا ہے اس نسبت سے آپ کا نام اسمعیل رضا تجویز ہوا، عرفی نام اختر رضا ہے اور اسی نام سے مشہور ہیں۔ اختر ہے قادری مشربا اور از ہری علماً نام کے آگے تحریر کرتے ہیں، آپ افغانی النسل ہیں۔ شجرہ پدری و مادری سے نجیب الطرفین بڑھیچی افغانی پٹھان ہیں۔ شجرہ پدری تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا بن مفسر اعظم ہند محمد ابراہیم رضا علیہ الرحمۃ ابن حجت الاسلام محمد حامد رضا علیہ الرحمۃ ابن امام اہل سنت اعلی حضرت مفتی محمد احمد رضا علیہ الرحمۃ ابن خاتم المتکلمین مفتی محمد نقی علی خاں علیہ الرحمہ الخ – شجرہ مادری تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا ابن نگار فاطمہ عرف سرکار بیگم بنت مفتی اعظم ہند مفتی محمد مصطفی رضا علیہ الرحمۃ ا بن اعلی حضرت مولانا امام احمد رضا علیہ الرحمۃ الخ۔ محمد نام پر آپ کا عقیقہ ہوا، والدین اور نانی و نانا جان کے سایہ عاطفت میں پرورش ہوئی، حضور تاج الشریعہ کی کتاب زندگی ایسے ماحول میں اور ایسی تہذیب و تمدن میں کھلی جو چوطرفہ خالص اسلامی شرعی تھا۔ داد یہاں و نانیہال دونوں خانوادہ ہی میں ہے اور حسن اتفاق کہ سسرال بھی خاندان ہی میں رہی، اس لیے حضرت کی نگاہ نے ہر وقت وہ ماحول دیکھا جو کہ دائرہ شرع میں پروان چڑھتا ہے۔ اس کا اثر حضرت کی ذات و شخصیت نے خوب قبول کیا اور خود کو شریعت اسلامی کے اندر ڈھال لیا اور زبردست مبلغ اسلام بن کر ابھرے۔
تعلیم و تربیت: والد ماجد نے روحانی وجسمانی، ظاہری و باطنی ہر طرح کی تربیت فرمائی اور شاندار تربیت کا انتظام فرمایا، بڑے ناز و نعم سے پالا اور تمام ضرورتوں کو پورا فرمایا، جب آپ ۴ رسال، ۴/ ماہ ۴ / دن کے ہوئے تو والد ماجد نے تسمیہ خوانی کا اہتمام کیا۔ دارالعلوم منظر اسلام کے طلبہ و مدرسین کی دعوت فرمائی، عزیز و اقارب و معززین شہر کو بھی مدعوفر مایا۔ مفسر اعظم ہند حضرت علامہ ابراہیم رضا علیہ الرحمہ نے اپنے خسر محترم و چا جان جانشین اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں عریضہ پیش کیا کہ اختر میاں‘‘ کی تسمیہ خوانی کی تقریب ہے حضور شرکت فرما ئیں اور تسمیہ خوانی بھی کروائیں چنانچہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے تسمیہ خوانی کروائی۔ آپ نے والدہ ماجدہ سے ناظرہ کیا اور ابتدائی کتب خود والد نے پڑھائیں۔ اس کے بعد دارالعلوم منظر اسلام میں داخلہ کرا دیا۔ محنت ولگن کے ساتھ مروجہ درس نظامی کی تکمیل یہیں کی، آپ کو شروع ہی سے مطالعہ کا بے حد شوق رہا، اس سلسلے میں تین ہم عصر قد آور شخصیتوں کے تاثرات مارہرہ سے بریلی تک‘‘ سے نقل کرتے ہیں۔ امام علم وفن حضرت خواجہ مظفر حسین علیہ الرحمہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم چرہ محمد پور، فیض آباد فرماتے ہیں: حضور ازہری میاں کو میں نے طالب علمی کے زمانے میں دیکھا مطالعہ کے بے حد شوقین حتی کہ کبھی کبھار مسجد میں آتے تو دیکھتا کہ راستہ چلتے جہاں موقع ملا کتاب کھول کر پڑھنے لگتے‘‘۔
اسی طرح حضرت مفتی غلام مجتبی اشرفی قدس سرہ شیخ الحدیث منظر اسلام، بریلی فرماتے ہیں کہ: حضرت تاج الشریعہ کو کتابوں سے بہت شغف ہے، زمانہ طالب علمی سے ہی نئی نئی کتابیں دیکھنے، پڑھنے کا بہت زیادہ شوق حتی کہ راستہ چلتے بھی کتاب پڑھتے اور اب میں دیکھ رہا ہوں وہ شوق دن دونا رات چوگنا ہے۔ عمدۃ المحققین حضرت علامہ قاضی عبدالرحیم بستوی علیہ الرحمہ تو ہمیشہ آپ کے مطالعہ اور قوت حافظہ کا ذکر کرتے تھے، بعض دفعہ کسی کسی واقعہ کا بھی ذکر فرماتے تھے۔
ابتدائی کتب پہلی فارسی، دوسری فارسی، گلزار دبستاں اور بوستاں، جناب حافظ انعام اللہ خاں تسنیم حامدی سے پڑھیں، ۲۵۹۱ء میں فضل الرحمن اسلامیہ انٹر کالج، بریلی میں داخل کیے گئے، جہاں ریاضی، ہندی،سنسکرت، انگریزی وغیرہ میں تعلیم حاصل کی۔ آٹھویں کلاس پاس کرنے کے بعد دار العلوم منظر اسلام میں داخل ہوئے، دوران تعلیم ہی آپ کے اندر انگریزی،عربی بولنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی، فضیلۃ الشیخ مولانا محمد عبد التواب مصری جو کہ منظر اسلام کے استاذ۔ کے استاذ تھے، عربی ادب کی تعلیم دیا کرتے تھے، حضور تاج الشریعہ علی الصبح انہیں ہندی، اُردو اور انگلش کے اخبارات کو عربی میں ترجمہ کر کے سنایا کرتے تھے اور آپ ان سے بلا تکلف گفتگو کر لیا کرتے تھے۔ انہیں صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے شیخ مصری نے کہا کہ انہیں جامعہ از ہر قاہرہ بغرض اعلی تعلیم بھیج دیا جائے۔
اساتذہ کرام: حضور تاج الشریعہ نے جن اساتذہ کرام سے اکتساب علم کیا اور تاج الشریعہ، مفتی اعظم ہند، قاضی القضاۃ جیسے معلی القاب سے ملقب ہوئے وہ آفتاب علم وفضل مندرجہ ذیل ہیں:
(1) حضور مفتی اعظم ہند حمد مصطفی رضاخاں نوری علیہ الرحمہ، بانی دار العلوم مظہر اسلام، بریلی شریف۔ (2) حضرت مولانا محمدابراہیم رضا خاں جیلانی میاں علیہ الرحمہ مہتم دار العلوم منظر اسلام مفسر اعظم ہند، بریلی۔ (3) حضرت مفتی محمد افضل حسین مونگیری ثم پاکستانی شیخ الحدیث دارالعلوم منظر اسلام، بریلی۔ (4) حضرت والدہ ماجدہ نگار فاطمہ عرف سیر کار بیگم، مبلغہ اسلام، بریلی۔ (5) حضرت مولانا حافظ محمد انعام اللہ خان تسنیم حامدی، بریلی۔ (6) حضرت مولانا شیخ محمد سامی شیخ الحدیث والتفسیر، جامعہ ازہر، قاہرہ، ہمصر۔ (7) حضرت مولانا شیخ عبدالغفار، استاذ الحدیث جامعہ ازہر، قاہرہ،مصر۔ (8) حضرت مولاناعبدالتواب مصری، شیخ الادب، منظر اسلام، بر پلی۔ (9) صدر العلماء حضرت مفتی محمد تحسین رضا خاں، صدر المدرسین و شیخ الحدیث جامعۃ الرضا، بریلی۔ (10) حضرت مولانامحمد احمد جہانگیر خاں اعظمی، استاذ و مفتی دارالعلوم منظر اسلام، بریلی۔
حضور تاج الشریعہ کے مذکورہ بالا اساتذہ کی فہرست ناقص ہے۔ اس میں ان تمام اساتذہ کا ذکر نہیں ہے جو دارالعلوم منظر اسلام میں استاذ اور جامعہ ازہر مصر میں حضرت کے استاذ رہے اور اسلامیہ انٹر کالج بریلی کے شعبہ عصریات کے ٹیچرس استاذ رہے۔ ہاں یہ ان کی فہرست ضرور کہی جاسکتی ہے۔ جن سے حضرت نے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔
علوم وفنون کی مہارت: حضور تاج الشریعہ مندرجہ ذیل علوم وفنون میں مہارت رکھتے ہیں: (۱) علوم قرآن۔ (۲) اصول تفسیر۔ (۳) علم حدیث۔ (۴)اصول حدیث۔ (۵) اسمائالرجال۔(۶) فقہ حنفی۔ (۷) فقہ مذاہب اربعہ۔ (۸) اصول فقہ۔ (۹) علم کلام۔ (۰۱) علم صرف۔(۱۱) علم نحو۔ (۲۱) علم معانی۔ (۳۱) علم بدیع۔ (۴۱) علم بیان۔ (۵۱) علم منطق۔ (۶۱) علم فلسفہ قدیم و جدید۔ (۷۱) علم مناظرہ۔ (۸۱) علم الحساب۔ (۹۱) علم ہندسہ۔ (۰۲) علم ہیت۔ (۱۲) علم تاریخ۔ (۲۲) علم مربعات۔ (۳۲) علم عروض وقوافی۔ (۴۲) علم تکسیر۔(۵۲)علم جفر۔ (۶۲) علم فرائض۔ (۷۲) علم توقیت۔(۸۲) علم تقویم۔(۹۲) علم تجوید وقرائت۔ (۰۳) علم ادب (نظم و نثر عر بی نظم ونثر فارسی، نظم و نثر انگریزی، نثر ہندی نظم و نثر اردو)۔ (۱۳) علم زیجات۔ (۲۳) علم خطاطی۔ (۳۳) علم جبر و مقابلہ۔ (۴۳) علم تصوف۔(۵۳) علم سلوک۔ (۶۳) علم اخلاق۔ حضرت قرآت عشرہ کے ماہر ہیں۔ تلاوت قرآن مصری لہجے میں لا جواب کرتے ہیں۔ اور کئی زبانوں پر مہارت رکھتے ہیں۔ عربی، فارسی، انگریزی، اُردو میں تو آپ کے ادبی شہ پارے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندی، سنسکرت، میمنی، گجراتی، مراٹھی، پنجابی، بنگالی، تیلگو، کنڑا، ملیالم، بھوجپوری بولتے اور سمجھتے ہیں۔ حضرت اسلام کی ترویج و اشاعت اور ردّ بدعات و منکرات میں اونچا مقام رکھتے ہیں۔ جس موضوع اور مسئلہ پر قلم اٹھاتے ہیں بے تکلف لکھتے چلے جاتے ہیں۔ جس مسئلہ کی تحقیق کرتے ہیں دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں۔ امام احمد رضا کا نفرنس بریلی ۵۲۴۱ھ میں محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ امجدی نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ’’علامہ از ہری کے قلم سے نکلے ہوئے فتوی کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے کہ ہم اعلی حضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالی عنہ کی تحریر پڑھ رہے ہیں۔ آپ کی تحریر میں دلائل اور حوالجات کی بھر مار سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔
حضرت کی فن خطاطی کے بابت مولانا شہاب الدین لکھتے ہیں کہ: حضرت تاج الشریعہ فن خطاطی میں مہارت رکھتے ہیں اس لیے آپ کے مکاتیب، مضامین و مقالات اور فتاوی حسن تحریر کے لحاظ سے بے مثال ہیں ان تحریرات کو دیکھتے ہی دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ علم وفضل کے ساتھ ساتھ یہ خوبی بہت کم علما و مفتیان عظام میں پائی جاتی ہے۔حضرت کا طرز خطاطی عہد و زمان کے اعتبار سے بدلتا رہا ہے۔ مگر ہر زمانہ کی تحریریں اپنے آپ میں اعلی نمونہ اور بے مثال خطاطی کی آئینہ دار ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موتیوں کی لڑیاں بکھری ہوئی ہیں۔ در حقیقت حسن تحریر سے خود شخصیت کا وہ جمال مخفی بے حجاب ہو جاتا ہے جس تک رسائی بہت مشکل ہے، حضرت کے مکاتیب کے حسن ظاہری سے حسن معنوی آشکار ہوتا ہے۔ راقم السطور کے پاس حضرت کی تحریرات عہد بعہد موجود ہیں۔ زمانہ طالب علمی، بعد فراغت عہد درس و تدریس، عہد دار الافتا، عہد جانشینی، زمانہ شباب، اور موجودہ وقت کی تحریرات موجود ہیں۔ اس سے حسن تحریر اور فن خطاطی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اور حضرت کی ایک خصوصیت ہے کہ فل اسکیپ کے کاغذ پر بغیر کچھ نیچے رکھے لکھتے جاتے ہیں۔ اور مجال ہے کہ کوئی لائن ذرا سی بھی ٹیڑھی ہو جائے۔ تصانیف و تراجم: حضور تاج الشریعہ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود قلم سے اٹوٹ رشتہ بنائے ہوئے ہیں۔ آپ نے متعدد موضوعات پر کتابیں تصنیف کی ہیں اور بہت سی کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ہے ذیل میں ہم ان کی اجمالی فہرست درج کرتے ہیں اس کے بعد جائزہ پیش کریں گے۔
شرح حدیث نیت، ہجرت رسول، آثار قیامت، سنو چپ رہو، ٹائی کا مسئلہ، تین طلاقوں کا شرعی حکم، تصویروں کا حکم، دفاع کنز الایمان۔ ۲ جزئ، الحق المبین القول الفائق بحکم اقتداء الفاسق، حضرت ابراہیم کے والد تارخ یا آزر، کیا دین کی مہم پوری ہو چکی؟، جشن عید میلادالنبی، متعدد فقہی مقالات، سعودی مظالم کی کہانی اختر رضا کی زبانی، المواہب الرضویۃ فی الفتاوی الازہریہ، سختہ الباری فی شرح البخاری، تراجم قرآن میں کنز الایمان کی فوقیت، ور حامیم کیلر کے سوالات کے جوابات (کفر ایمان تکفیر)، الصحابۃ نجوم الاہتدائ، شرح حدیث الاخلاص، سد المشارع علی من یقول ان الدین یستعمی عن الشارع، تحقیق ان لا ابراہیم تارح لا آذر، مبذۃ حیاۃ الامام احمد رضا، مرأۃ النجدیۃ بجواب البریلویہ (حقیقۃ البریلویۃ)، حاشیۃ الازہری علی صحیح البخاری، حاشیۃ المعتقد والمستند، سفینہ بخشش (دیوان)، انوار المنان فی توحید القرآن، المعتقد المنتقد مع المعتمد المستند، الزلال الانقی مع بحر سبقۃ الاتقی،ھلاک الو بائین علی تو بین القبور المسلمین، شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام، الہاد الکاف فی حکم الضعاف، برکات الامداد اہل الاستمداد، عطایا القدر فی حکم التصویر، تیسیر الماعون للسکن فی الطاعون، قوارع القہار فی ردالمستہ الجار، سبحان السبوح، قمع المبین لا مال المکند بین، حاجز البحرین، شہنشاہ ان القلوب بید محبوب بعطاء اللہ، ملفوظات تاج الشریعہ، تقدیم تحلبیۃ السلم فی مسائل نصف العلم. ترجمہ قصیدتان رائعتان،از ہر الفتاوی، ٹائی کا مسئلہ، فضیلت نسب (ترجمہ اراء الادب الفاضل النسب)، ایک غلط فہمی کا ازالہ، حاشیہ انوار المنان، الفردہ فی شرح قصیدۃ البردہ، رویت ہلال، چلتی ٹرین پر نماز کا حکم، افضلیت صدیق اکبر و فاروق اعظم اور نغمات اختر۔
مذکورہ بالا تصانیف کے علاوہ بشکل آڈیو، قیمتی باتیں، بخاری شریف کا اردو میں درس انٹر نیٹ پر ہر اتوار کو بعد نماز عشا آن لائن،عربی سوال کا عربی میں انگلش سوال کا انگلش میں، اردو سوال کا اردو میں جواب، انٹرنیٹ پر موجود ہے، اللہ تعالٰی اہل علم عقیدت مندوں میں سے کسی کو توفیق بخشے اور اسے تحریر کا جامہ پہنا کر منظر عام پر لے آئے۔
جن کتابوں کا آپ نے ترجمہ فرمایا ہے خواہ عربی میں ہوں یا اردو میں ان پر آپ کا حاشیہ بھی ہے، میں نے صرف المعتقد مع المعتمد المستید اور انوار المنان کے حاشیے کا تصانیف میں تذکرہ کیا ہے، ان حواشی کو بھی آپ کی تصانیف میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ دوران مطالعہ مرکزی دارالافتا میں، میں نے دیکھا کہ وہ کتابیں جو مولانا ازہری کے زیر مطالعہ رہی ہیں ان میں سے بعض کتابوں پر آپ کی تعلیقات و حواشی ہیں، انہیں میں نے تحریرات مولانا از ہری میں شمار نہیں کیا ہے۔
آپ نے جو خطوط لکھے ہیں بعض کی کاپیاں دار الافتا میں تھیں انہیں میں نے پڑھا ہے، وہ زبردست علمی کاوشیں ہیں، اگر حضرت کے خطوط مل جائیں اور مساجد، مکاتب تنظیم تحریک جن کا تعلق اہل سنت سے ہے، ان کے معائنے یا سر پرستی قبول کرنے کی تحریریں، یا تعاون کے سلسلے میں مولانا کی بابرکت تحریریں بھی اس قدر ہیں کہ انہیں یکجا کیا جائے تو نشریات اردو میں شاہکار ثابت ہوں گی۔ انہیں یکجا کر دیا جائے تو وہ بھی مستقل ایک کتاب کی حیثیت رکھیں گے۔
آپ نے علمائے اہل سنت کی کتابوں پر جو تقریظیں تحریر کی ہیں وہ کثیر تعداد میں ہیں انہیں بھی یکجا کیا جائے تو اردو نثر میں اضافہ ہوگا۔ مدارس، مساجد، مکاتب تنظیم تحریک جن کا تعلق اہل سنت سے ہے، ان کے معائنے یا سر پرستی قبول کرنے کی تحریریں، یا تعاون کے سلسلے میں مولانا کی بابرکت تحریریں بھی اس قدر ہیں کہ انہیں یکجا کیا جائے تو نشریات اردو میں شاہکار ثابت ہوں گی۔
آپ کے کارنامے: یوں تو آپ کی ذات مجمع البحرین تھی وقت کے جید علما و فضلا نے آپ کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ طے کیا اور آپ کے علم و فضل سے لاتعداد علماے عرب و عجم نے استفادہ فرمایا۔آپ جہاں اپنی علمی جواہر پاروں سے بے شمار لوگوں کو رشد و ہدایت اور راہ راست پر گامزن فرمایا وہیں دشمنان اسلام اور اعداے دین کا قلع قمع کیا۔ رب تعالیٰ نے آپ کو حق گوئی و بے باکی کا نایاب تحفہ بھی عطا فرمایا تھا جس کے ذریعہ آپ نے مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ فرمایا اگر چہ وقت کا وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو اور احقاق حق و ابطال باطل کا مظاہرہ فرمایا جیسا کہ نس بندی کے خلاف فتوی نویسی،مزارات پر عورتوں کی حاضری کا ممانعتی پیغام،تحفظ پرسنل لا کی تحریک، بابری مسجد کے تئیں جد و جہد اور حالات حاضرہ کے شرعی تقاضے کی شاندار رہنمائی وغیرہ قابل فخر کارنامے ہیں۔ان کے علاوہ آپ نے متعدد ادارے قائم کرکے امت مسلمہ پر احسان عظیم فرمایا جو آج بھی دین و سنیت کے کاموں میں مصروف عمل ہیں۔وفات پر آہِ حسرت: حضرت تاج الشریعہ کی ذات گرامی مسلک اعلی حضرت کا معیار ہے جس پر چلنا صراط مستقیم پر چلنا ہے۔ آپ کی ذات آج ہمارے لئے منارہ نور ہے جس کے جلوے از کراں تا کراں نظر آتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کا سایہ کرم تادیر قائم رکھے۔
حضور تاج الشریہ بدرالطریقہ مرجع عالم فقیہ اعظم شیخ الانام یادگار حجۃ الاسلام حضرت العلام الحاج الشاہ مفتی محمد اختر رضاخان قادری برکاتی بریلویؒ کی وفات ۷ ذی القعدہ ۱۴۳۹ ہجری مطابق ۲۰ جولائی ۲۰۱۸ کو بریلی شریف میں ہوئی اور آپ کامزار مبارک وہیں اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے بازو میں ہے۔
ایک سروںکاسمندر بریلی میں تھا
میرے مرشد کا جس دم جنازہ اٹھا
آج بھی عقلِ انسان حیران ہے
میرے تاج الشریعہ کی کیا شان ہے
9037099731