*صحافت نشہ نہیں،جمہوریت کا چوتھا ستون ہے* صحافت میں ایمانداری جمہوریت کو مضبوط بناتی ہے.

0
0

 

 

 

راجا شکیل

دنیا کے ہر ملک میں صحافت کا اپنا انداز لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کس جمہوری ملک میں صحافت کا درجہ اونچا ہے. ہماری ملک میں صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے. لیکن چوتھی ستون کا فرض نبھانا ایک صحافی کو بھی انا چاہیے. صحافت میں سچائی ایمانداری دیانت داری ہی جمہوریت کی چوتھی ستون کو مضبوط بنا سکتی ہے
جب جمہوریت کا چوتھا ستون یعنی صحافی بھی ہر کام میں اپنا فائدہ سوچنے لگے تو سوچ لینا کے جمہوریت کا جنازہ نکلنے والا ہے۔
جیسے کے آپ جانتے ہیں اس وقت دنیا بھر میں ہر شخص کی نظریں صحافیوں پر ہے اور ہر شخص کی آس صحافیوں پر ہی ہوتی ہے۔ وہیں اگر دیکھا جائے تو کچھ منہ بولے صحافیوں نے صحافت کو مذاق بنا دیا ہے۔ جس کو بھی مرضی آیا وہ اپنے موبائل میں یوٹیوب چینل بنا لیتا ہے اور اپنے آپکو صحافی بولنے لگتا ہے اور ہاتھ میں مائک لے کے سڑکوں پر نکالتا ہے اور صحافت کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانے لگتے ہیں۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو صحافت کا درجہ سب سے اونچے پائے کا درجہ ہے لیکن آج اگر خصوصی ملکہ ہند کی بات کئی جائے تو کچھ صحافیوں کی وجہ سے ایک فتنہ مچا ہوا ہے،جس میں ہر شخص پس رہا ہے ، اْنہوں نے صحافت کو سیاست بنا دیا ہے۔
بیچاریآج کل کے کچھ صحافیوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ خبر ہوتی کیا ہے لیکن وٹس ایپ گروپوں اور فیسبوک کی مہربانی کی وجہ سے یہ گلے میں پریس کارڈ رکھ کر اپنے آپکو صحافی کہنے لگتاہے۔
بد قسمتی سے ہم یہ آج تک طے ہی نہیں کر سکے کہ صحافی اصل میں کہتے کسے ہیں۔ صحافت تو جمہریت کا چوتھا ستون ہے۔ میڈیا کی اخلاقیات کیا ہوتی ہیں، ہمیں ان تمام باتوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔
پورے ہندوستان کی آگر بات کئی جایا اس وقت وٹس ایپ گروپ چلانے والا شخص اپنے آپکو صحافی کہلاتا ہے، اور صحافت کو اپنے فائدہ کے لئے استعمال کر رہا ہے. صحافت کوئی نشہ نہیں ہے کہ ہم نشہ کرجائے پھر ہمیں کسی چیز کا خیال بھی نہ رہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔
خدارا صحافت پر رحم کریں جس چیز کا علم ہی حاصل نہیں کیا ہو تو اس پر ناز ہی کیوں کرنا اور اگرچہ اپ کو علم بھی ہو تو اس کو کس طرح زمینی سطح پر لاگو کرتے ہو یہ اپ کے لیے بہت بڑا سوال پیدا ہوتا ہے۔
حالات اور واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے وقتی حالات و تقاضے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ صحافت اس اواز کو کہتے ہیں جو اواز اس جگہ سے پیدا ہو جہاں سے کبھی کسی کو یقین ہی نہ ہو سکے۔
مْجھے صحافت کا کام کرتے ہوئے کچھ ایسے حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ میں ان پر کبھی بھی توجہ نہیں دیتا مگر میرے ضمیر نے مرجانا گوارہ نہیں کیا اور اس قدر جوش تھا کہ میں پرسکون نہیں رہتا جب تک نہ میں ان حالات کو عوام اور انتظامیہ کے سامنے لاتا۔میرے اس تحریر لکھنے کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ زمینی سطح کے حقائق اور لازمی توازن کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کی مسائل کو لازمی طور سے ذہن نشین کرنا انتہائی اہم ہے۔
اس حوالے سے میری بات چناب خطہ کے علاقہ بھلیسہ سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اشتیاق ملک صاحب سے ہوئی جو 15سالوں سے اس پیشے کے ساتھ وابستہ ہیں انہوں نے کہا کہ صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے اور صحافت کے کردار کو نظر انداز کیا جائے تو باقی تین ستون بھی کمزور پڑ جائیں گے. یہ ایک معتبرک پیشہ ہے جو سماج میں ہورہی تبدیلیوں پر کڑی نظر رکھتا ہے اور ایک صحافی پسماندہ و بے سہارا لوگوں کی فریاد کو ارباب اقتدار تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور صحافی معاشرے کی زبان ہوتا ہے. میں پچھلے پندرہ برسوں سے اس پیشہ کے ساتھ وابستہ ہوں. اس دوران ہم نے بھی بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے، ڈیجٹلائزیشن کے اس دور میں جہاں دنیا تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے وہیں صحافت میں بھی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے بعد اب سوشل میڈیا کو کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور دنیا کے کسی بھی کونے کی خبر چند اسکینڈوں میں عوام تک پہنچ جاتی ہے. جہاں کم عرصے میں سوشل میڈیا نے عالمی سطح پر اپنا لوہا منوایا وہیں اسے بڑے پیمانے پر تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی وجہ ناتجربہ کاری، فیک نیوز کی بھرمار و سماج میں امن کے بجائے انتشار پھیلانے کی کوشش ہے اور صحافت کے اصول و قواعد کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہورہی ہے جبکہ ایک صحافی کو اپنی ذمہ داریاں ایمانداری، دیانتداری، صاف گوئی کے ساتھ نبھانے کی ضرورت ہے. یہ بات بھی درست ہے کہ صحافی بننا آسان نہیں ہوتا ہے اسے کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے فرائض میں کوتاہی نہیں کرتا ہے اور قلیل سے مشاہرہ پر اپنی خدمات انجام دیتا ہے. ایک اچھا اور بیباک صحافی بننے کے لئے انسانی اقدار، اخلاقیات و انسانی پہلو کو اجاگر کرنا لازمی ہے اور ایک معیاری صحافت و صحافیانہ اقدار کی پاسداری کرنا بھی ضروری ہے۔
صحافت کا تقدس اور گہرائی کو جاننے کے لیے ہم نے ضلع کشتواڑ سے تعلق رکھنے والے معروف وکیل و صحافت کے ساتھ ساتھ سیاست میں مہارت رکھنے والی شخصیت شیخ ناصر صاحب سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ صحافت کو پہلے دور میں لوگوں تک معلومات پہنچانا یا لوگوں کو باخبر کرنے کے ساتھ نالج اور اویرنس کے طور پر کیا جاتا تھا لیکن اج کے دور میں صحافت انٹرٹینمنٹ بن گئی ہے، اگر صحافت کے بنیادی اصول کی ہم بات کریں تو پہلے دور میں صحافت کی مثال اس طرح سے تھی "اگر کتا انسان کو کاٹے یہ خبر نہیں ہے کیونکہ کتے کا کام ہے کاٹنا اگر انسان نے کتے کو کاٹا تو وہ خبر ہے” لیکن موجودہ صحافت کی اگر ہم بات کریں تو اج کی مثال اس طرح سے ہے کہ "انسان نے کتے کو کاٹا یہ خبر نہیں ہے اگر کتا انسان کو کاٹے وہ خبر ہے” اس طرح کی خبریں آج ہر روز دیکھنے کو ملتی ہیں،اس سب کا ذمہ دار سوشل میڈیا ہے کیوں کہ سوشل میڈیا نے صحافت کے بنیادی مقصد کو ہی تبدیل کر ڈالا۔
شیخ ناصر صاحب کی باتیں اس قدر دلچسپ اور حقیقت پر مبنی تھی کہ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ صحافت کا جنازہ لگ بھگ اٹھ ہی گیا ہے اب صرف چار کندھا دینے والے ہی باقی ہیں۔
آج صحافت کس حال سے گزر رہی ہے اس پر ضلع ڈوڈہ کے علاقے بھالیسہ سے تعلق رکھنے والے ایک اہم شخصیت محمد اسحاق عارف صاحب سے بات کی جن کا ادب، صحافت اور تعلیم کے میدان میں قابل احترام نام ہے
انہوں نے کہا کہ موجودہ دور کی صحافت بے وقعت ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ سوشیل میڈیا ہے جس نیاخبارات اور ٹیلی ویڑن کی اہمیت کو بہت حد تک ختم کر دیا ہے۔ کوئی بھی واقعہ پیش آ جائے وہ فوراً سوشیل میڈیا پر آ جاتا ہے اور ٹی وی پر نشر ہونے یااخبارات میں شائع ہونے تک خبر پرانی ہو چکی ہوتی ہے۔ چند برس پہلے تک صحافت پیشہ افراد عوامی مسائل کو صحافتی اصولوں کے مطابق مؤثر انداز میں اربابِ اقتدار تک پہنچاتے تھے جب کہ موجودہ دور میں ہر انسان اپنامسئلہ سوشیل میڈیا پر ڈال دیتا ہے اور اس دوران وہ تمام اخلاقی حدود کو بھی پامال کر دیتا ہے۔
اربابِ اقتدار بھی حقیقی صحافت کے ذریعہ ابھارے گئے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہ دے کر صرف تشہیری صحافت کو فروغ دے رہے ہیں۔
موجودہ دور میں صرف ایسے چاپلوس صحافیوں کی عزت افزائی کی جاتی ہے جو اربابِ اقتدار کی مدح سرائی کو ہی صحافت سمجھتے ہیں اور جو عوامی مسائل اور معاشرتی برائیوں کی طرف توجہ دلائے اْس کی تضحیک کی جاتی ہے۔
موجودہ دور میں صحافی اْسے سمجھا جاتا ہے جو چاپلوسی اور چمچہ گیری میں طاق ہو اور اپنے حقیر مقاصد کے لئے اس پیشے کی عظمت کو خاک میں ملا رہا ہو۔ آج اکثریت ایسے صحافیوں کی پائی جاتی ہے جو نہ تو صحافت کی الف بے سے واقف ہیں اور نہ ہی کسی زبان پر اْن کو قدرت حاصل ہے۔ اْنہیں اگر کسی فن پر عبور حاصل ہے تو وہ چاپلوسی، مدح سرائی اور بلیک میلنگ کا فن ہے۔
عوامی سطح پر بھی ایسے لوگوں کو پذیرائی حاصل ہوتی ہے جو اخلاقی حدود کو تار تار کرنے والے اور عوام کے جذبات سے کھیلنے والے ہوں۔ صحافت کے اصولوں اور زبان و بیان اور اسلوب کی ندرت اور خیالات کی بلندی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
اسی موضوع کو لے کر میرے دوست چناب ٹائمز کے بانی اور مدیرِ اعلیٰ صحافی انظر ایوب اپنے پیشے کی موجودہ حالت پر افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صحافت، جو کبھی عوام کی آواز تھی، اب ایک مسخرا ہوا مذاق بن گئی ہے، جو سچ کی بجائے پروپیگنڈا اور بلیک میل فروخت کرتی ہے۔ وہ ان اخلاقی صحافیوں کا اعتراف کرتے ہیں جو حق کی لڑائی لڑتے ہیں، لیکن ان "چرنلزم” پر نوحہ کرتے ہیں جنہوں نے خبروں کے اداروں کو متاثر کیا ہے، وہ اصل رپورٹنگ کی بجائے دوبارہ استعمال کیا گیا مواد تیار کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا، ایک دوطرفہ تلوار، نے فوری اطلاع تو پہنچائی ہے لیکن ساتھ ہی خطرناک غلط معلومات کے پھیلاؤ کو بھی ہوا دی ہے۔ ایوب کی سخت یاد دہانی شور کے اس دور میں، اخلاقی صحافت کی جدوجہد کبھی بھی اتنی نازک نہیں رہی ہے۔ان سب لوگوں سے گفتگو کرنے کے بعد میں ہونٹوں پر انگلی رکھ کر سوچتا رہا کہ جس جذبے اور شوق سے میں نے اس صحافت کے میدان میں قدم رکھا تھا اس شعبے کی عظمت کو سمجھ کر کام شروع کیا تھا اج بڑے افسوس سے اسی شعبے پہ سوال اٹھانے پر میں مجبور ہوں کہ جس صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے وہ اتنا بکھر چکا ہے کہ اب سمیٹنا مشکل ہو رہا ہے،صحافیوں کا کام عوام کے مسائل ارباب اقتدار تک پہنچانے کا تھا اور ان سے سوال پوچھنے کا تھا لیکن اج حالات کچھ مختلف ہی ہو چکے ہیں.
اب ان لوگوں کو سامنے انا چاہے جو صحافت کو بنیادی طور پر سمجھتے ہیں کیونکہ جو نقصان ان کے چپ رہنے سے ہوگا اس چیز کا ہم سب سے کال سوال پوچھا جائے گا اور سرکار کو بھی اس بڑھتے ہوئے زہر کے خلاف کچھ نہ کچھ حال نکالنا ہوگا اور جمہوریت کیاِس چوتھے ستون یعنی صحافت کو فال بنانا ہوگا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا