حامد اکمل:ہاں وہی شخص جو خود سے بھی ہے بیگانہ

0
192

ڈاکٹرعبدالحی(دربھنگہ)

حامد اکمل سرزمین دکن اور ریاست کرناٹک کے اس شہر سے تعلق رکھتے ہیں جو ادب و ثقافت اور صدیوں کی روایات کا امین رہا ہے۔ یہ شہر گلبرگہ جہاں سلطان القلم خواجہ بندہ نواز گیسو دراز جیسے صوفیا ئے کرام کے لیے مشہور ہے وہیں اسے گنبدوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں گلبرگہ بہمنی سلطنت کا پایہ تخت بھی رہا اورصوفیوں، بزرگان دین اور اولیائے کرام کا مرکز بھی رہا ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی یہ شہر شعر وادب، علوم و فنون کا گہوارہ رہا ہے۔ بہمنی سلطنت کے دور میں شعرو ادب کو کافی عروج حاصل ہوا تھا۔ اردو ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے میرے نزدیک اس شہر کی عظمت اور رفعت مزید بڑھ جاتی ہے کہ اس شہر نے اردو زبان و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔مرزا فرحت اللہ بیگ کا بھی یہاں طویل عرصے تک قیام رہا تھا۔ مہاراجہ کشن پرشاد شاد، ابراہیم جلیس،سلیمان خطیب، مجتبیٰ حسین،وہاب عندلیب، حمید سہروردی، حامد اکمل، انیس صدیقی،غضنفر اقبال، منظور وقار، محمد افتخارالدین اختر، منظور احمد دکنی ، بی بی رضا خاتون،مسعود علی تماپوری جیسے ادیبوں شاعروں نے اردو زبان و ادب کی آبیاری کرکے اس شہر کی جاہ ومنزلت میں اضافہ کیا ہے۔ ان شخصیات میں تین چار نام ایسے ہیں جو میرے لیے بہت محترم ہیں اور میری تربیت میں ان کی شفقت اور محبت کا حصہ رہا ہے۔ ان کی تحریروں سے ان کے مضامین سے مجھے آگہی ملتی رہی ہے۔ یہ نام مجتبیٰ حسین، حمید سہروردی، وہاب عندلیب ،غضنفر اقبال اور حامد اکمل کے ہیں۔ باقیوں کا تذکرہ پھر کبھی فی الحال مجھے سرزمین دکن کے معروف صحافی و شاعر حامد اکمل پر باتیں کرنی مقصود ہے۔ان سے میری پہلی ملاقات شاید 2012 میں ہوئی تھی جب میرا سفر شہر گلبرگہ اورحمید سہروردی کی خدمت میں حاضری کے لیے ہوا تھا۔ غضنفر اقبال نے دوران قیام گلبرگہ کی چند اہم ادبی شخصیات سے ملاقات کرائی تھی جن میں حامد اکمل کا نام نامی اس لیے اہمیت کا حامل ہے ان سے وہ پہلی ملاقات آخری نہیں ثابت ہوئی اور دوبارہ ملاقات بھی ہوئی اور فون پر گاہے گاہے رابطہ ہوتا رہا۔جب میں ان سے ملا تھا تو اس وقت وہ کے بی این ٹائمز کے مدیر تھے اور ان کے دفتر میں ان سے جب ملا تو ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہوگیا۔وہ بہت شفقت سے پیش آئے اور قومی اردو کونسل میں میری تقرری پر مجھے مبارکباد پیش کی اور اپنی دعائوں سے نوازا۔اس وقت میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ یہ عام سا دکھائی دینے والا شخص اپنے اندر کیسا بالیدہ ادبی ذوق رکھتا ہے اور اتنی اپنائیت اور محبت سے ملنے والا بظاہر اردو کا روایتی صحافی نظرآنے والا شخص بطور شاعر وکہنہ مشق صحافی، خاکہ نگار وکالم نگار ایک مستحکم شناخت بناچکا ہے اور جس کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے شہریار نے کہا تھا کہ اس کی شاعری میں دم ہے۔فاروقی صاحب نے بھی حامد اکمل کے لیے کہا تھا کہ ان کی نظمیں موضوع اور اظہار دونوں اعتبار سے منفرد ہیں۔ اس مختصر ملاقات کا جادو برسوں میرے دماغ میں قائم رہا۔ ان سے دوسری ملاقات بھی یادگار ثابت ہوئی اور یہ قصہ بھی کم دلچسپ نہیں۔پہلی اور دوسری ملاقات کے درمیان تقریباًپانچ برسوں کا وقفہ رہا ہے لیکن اس دوران کسی نہ کسی بہانے وہ مجھے فون کرتے رہتے تھے۔کبھی خبروں کی اشاعت کے متعلق تو کبھی کسی سمینار و مشاعرے کے حوالے سے تو کبھی اپنے بچوں کی شادی میں شرکت کی دعوت کے بہانے۔ شاید یہ ہم دونوں جانتے تھے کہ اتنی دورکا سفر طے کرکے شادی میں شرکت کرنا مشکل ہے لیکن پھر بھی وہ مجھے صرف اس لیے دعوت دیتے تھے کہ ہم اپنی ملاقات اور رابطے کی تجدیدکرسکیں اور رشتوں کی حرارت باقی رہے۔اس بات پر گفتگو یا بحث کی گنجائش ہے کہ وہ عظیم شاعر ہیں یا عظیم صحافی لیکن اس بات سے یکسر اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ وہ عظیم انسان ہیں اور اپنے سینے میں دردمند دل رکھتے ہیں ، چھوٹوں اور بڑوں دونوں کی عزت کرتے ہیں اور اور رابطوں کو رشتوں کو برقرار رکھنا انہیں بخوبی آتا ہے اور یہی وہ خوبیاں نہیں جو کسی شخص کو امتیازی شناخت عطا کرتی ہیں۔ان سے دوسری ملاقات2017 میںہوئی جب میں شولا پور میں قومی اردو کونسل کے ذریعہ منعقدہ کتاب میلے میں گیا ہوا تھا۔اس کتاب میلے کے دوران تقریبا دوہفتوں تک میرا قیام شولا پور میں رہا۔یوں تو یہ سفر میری ملازمت کا ایک حصہ تھا لیکن میرے لیے اس سفر اور وہاں قیام کا حاصل حمید سہروردی، حامد اکمل، آصف اقبال، سلطان اختر، عبدالرشید باغبان، جی ایم پٹیل جیسے ادیبوں شاعروں سے ملاقاتیں رہیںؤؤ۔کتاب میلے میں میری شرکت کی اطلاع میں نے برادر مکرم غضنفر اقبال کو دے دی تھی اور انھوں نے حامد اکمل صاحب کو بھی بتادیا۔ حامد اکمل صاحب نے ایک گاڑی ریزرو کی اورپروفیسر حمید سہروردی سمیت تین چار ساتھیوں کو لیا اور مجھ سے ملاقات کے لیے روانہ ہوگئے اور گلبرگہ سے شولا پور تک کا سفر طے کرکے مجھ سے ملنے پہنچے اور یہی نہیں بلکہ انھوں نے وہاں میری شال پوشی کرکے میری حوصلہ افزائی بھی کی۔مجھے یہ علم نہیں کہ اتنی عظیم شخصیت کو مجھ میں کون سی خوبی نظر آئی جو انھوں نے مجھے اتنی عزت دی اور ہمیشہ اپنی شفقت و محبت نچھاور کرتے رہتے ہیں۔ بہار میں بحیثیت اُردواستاد میری تقرری سے وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے فون پر مبارکباد دی۔بہار میں ملازمت جوائن کرنے کے کچھ دنوں بعد ہی پورے ملک میں کورونا جیسی وبا پھیل گئی اور لاک ڈائون کردیا گیا۔اس دوران غضنفر اقبال صاحب سے فون پر رابطہ رہا اور انھوں نے بتایا کہ وہ حامد اکمل کی شخصیت و خدمات پر ایک کتاب ترتیب دے رہے ہیں ۔انھوں نے اس کتاب کے لیے مجھ سے بھی ایک مضمون کی درخواست کی۔ ساتھ ہی مجھے حامد اکمل کی کچھ غزلیں اور ان پر شائع کچھ مضامین بھی ارسال کیے اور کہا کہ آپ اپنا مضمون جلد بھیج دیں لیکن میری سہل پسندی اور کوتاہی کہ میں انھیں مضمون نہیں بھیج سکا۔ ان دنوں میں کچھ دیگر مسائل میں الجھا ہوا تھا اس لیے لکھنا پڑھنا سب بند تھا اور کورونا میں عزیز و اقارب کی پے درپے اموات سے بھی کافی رنجیدہ تھا۔اس لیے ان کے اصرار کے باوجود میں مضمون نہیں لکھ سکا اور اب جب میں حامد اکمل پر شائع شدہ کتاب ’’حامد اکمل: جہات و جستجو ‘‘دیکھی تو دل مسوس کر رہ گیا اور اپنی سہل انگاری پر افسوس ہوا کہ میں اس اہم کتاب کا حصہ نہ بن سکا۔716 صفحات پر مشتمل یہ کتاب حامد اکمل کی شخصیت اور فکر وفن کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔کہنے کو تو یہ ایک کتاب ہے لیکن کتاب کے ہر صفحے پر غضنفر اقبال اور اہل گلبرگہ و دیگر ادبا وشعرا کی ان سے محبت و عقیدت نظر آرہی ہے۔یہ کتاب غضنفر اقبال کی طرف سے حامد اکمل کے لیے ایک ایسا تحفہ ہے جو ان کے نام کو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ اس کتاب میں کل گیارہ حصے ہیں۔پہلے حصے پیام عشق میں خاکے، مضامین اور تاثرات ہیں۔ اس حصے میں مجتبیٰ حسین ، وہاب عندلیب، شمیم طارق، رئوف خوشتر، منظور وقار، انیس صدیقی وغیرہ کے مضامین وخاکے ہیں۔ دوسرا حصہ منظوم خراج تحسین پر مشتمل ہے جس کا عنوان جلال و جمال رکھا گیا ہے۔اس میں فضل گلبرگوی،صغریٰ عالم،حمید سہروردی، رفیق جعفر، عاصم شاہنواز شبلی،مقبول احمد مقبول، شاز رمزی وغیرہ کی نظمیں اور قطعات ہیں۔ تیسرا حصہ آواز غیب حامد اکمل سے لیے گئے انٹرویو پر مشتمل ہے جس میں عارف اقبال، سید فاضل حسین پرویز، صادق کرمانی، محمد عمران و غضنفر اقبال کے انٹرویو شامل ہیں۔ذوق نظر میں مشاہیر ادب کے خطوط اور حامد اکمل کی شخصیت اور فن پر ان کی آراء کو شامل کیا گیا ہے۔اس حصے میں شمس الرحمن فاروقی،سلیمان اطہر جاوید، مصحف اقبال توصیفی، اکرام باگ، رئوف صادق، احمد جلیس وغیرہ کی بیش قیمتی آرا اپنی روشنی بکھیر رہی ہیں۔ایجاد معنی کے زیر عنوان حامد اکمل کی غزلیہ شاعری پر تنقیدی مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔ اس میں عتیق اللہ، حمید الماس،مناظر عاشق ہرگانوی، نورالحسنین، رئوف خیر، مجید بیدار، نذیر فتح پوری، احمد محفوظ، کوثر مظہری، آفتاب احمد آفاقی، ارتکاز افضل، معین الدین عثمانی،قمر سلیم، سلیم محی الدین،سردار سلیم، کلیم ضیا، محبوب خاں اصغر جیسے قابل قدر ناقدوں، صحافیوں کے مضامین شامل اشاعت ہیں۔نظم تنقیدکا حصہ ماہ نو کے عنوان سے ہے جس میں حمید سہروردی، علیم صبا نویدی، ساجد حمید، آفاق عالم صدیقی، رضی شہاب، فاروق اعظم قاسمی وغیرہ کے مضامین ہیں۔ حامد اکمل کی تخلیقی و غیر تخلیقی نگارشات پرمضامین کو ذکر وفکر کے زیر عنوان شامل کیا گیا ہے۔اس حصے میں محمد عبدالحمید اکبر، مقبول احمد مقبول، اختر صادق، خالدہ بیگم، اقبال جاوید جیسی شخصیات جلوہ افروز ہیں۔حامد اکمل کی صحافتی خدمات کا جائزہ سیر فلک کے تحت لیا گیا ہے۔ اس حصے میں سید احمد قادری، محمد اعظم شاہد، ایم اے ماجد، محمود شاہد، محمد طیب انصاری، سلیمان اطہر جاوید، منظور وقار و غضنفر اقبال وغیرہ کے مضامین ہیںحامد اکمل کی مرتبہ کتابوں پر تنقیدی جائزہ ’’نگاہ شوق‘‘ میں لیا گیا ہے۔آزادی افکار کے تحت حامد اکمل کی نظموں رات، بابا صاحب کے لیے ایک نظم،اظہار اور افسانہ پانچویں کنکری کے تجزیے پیش کیے گئے ہیں۔اس حصے میں خالد سعید، رئوف صادق، عظمت الحق، احمد رشید علیگ اور زرینہ بیگم چودھری کی گراں قدر تحریریں ہیں۔گیارہواں اور آخری حصہ جلوہ حسن کے عنوان سے ہے جس میں ان کی تحریروں و تخلیقات کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ اس حصے کے بعد نشان حیات تصویری البم پر مشتمل ہے جس میں حامد اکمل کی 93 یادگار تصاویر کو شامل کیا گیا ہے۔کل ملاکر یہ کتاب حامد اکمل کے فکروفن پر ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے اور حامد اکمل پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک توشہ خاص ہے۔ حامد اکمل اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ وہ جدید شاعری میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں گہرائی وگیرائی ہے۔بطور صحافی ان کے مضامین اور اداریے اپنی امتیازی شناخت رکھتے ہیں۔ حامد اکمل نے بطور ادیب و شاعر اور صحافی مولانا ظفر علی خاں، حسرت موہانی، مولانا ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر جیسے صحافیوں اور ادیبوں کی روایت کی پاسداری کی ہے۔حامد اکمل کی زندگی ایک مثالی زندگی ہے۔ انھوں نے سادگی اور ایمانداری کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ کبھی دولت کے پیچھے نہیں بھاگے ۔ آج کے صحافی محض چند روپیوں کی خاطر اپنے ضمیر کو دائوں پر لگادیتے ہیں لیکن حامد اکمل نے جو بھی کیا اپنے دم پر کیا اورکبھی ضمیر کا سودا نہیں ہونے دیا۔وہ اردو کے ایک مثالی صحافی کہے جاسکتے ہیں۔میں ان کے فکر و فن پر اس کتاب کے مرتب ڈاکٹر غضنفر اقبال اور مجلس ادارت و اشاعت سے وابستہ صادق کرمانی اور ڈاکٹر بی بی رضا خاتون کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ یہ کتاب حامد اکمل کی ستر ویں سال گرہ اور ان کی ادبی و صحافتی خدمات کے پچاس برس مکمل ہونے پر انھیں لافانی خراج تحسین ہے اور یہ کتاب اکمل شناسی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا