’’جو لوگ دوسروںکی میت کو کاندھا نہیںدیتے اُن کی میت بے گور و کفن پڑی رہتی ہے‘‘

0
47
  • ’’گوری لنکیش اور رام چندر چھترپتی کے قتل پرمسلمانوں کو آواز اْٹھانی چاہئے تھی۔ مسلم نوجوانوں کی بے خواب آنکھوں میں ویرانی ہمارے مستقبل کے لئے بڑا خطرہ ہے‘‘
  • معروف نقاد ، ادیب و شاعر شمیم طارق سے سنیئرصحافی اخترکاظمی کی بات چیت
    [divide]
  • ]بابا گرمیت رام رحیم کے خلاف ایک گمنام خط شائع کرنے والے صحافی رام چندر چھترپتی کچھ عرصہ قبل قتل کردیے گئے تھے۔ اب گوری لنکیش کو قتل کردیا گیا ہے۔ گوری ہندوتواوادیوں کے علاوہ بدعنوان لیڈروں کے خلاف بھی سخت مضامین لکھا کرتی تھیں۔ اس قسم کے کئی دوسرے واقعات بھی ہوئے ہیںجس پر ملک بھر میںرد عمل ہوتا رہا ہے۔گوری کے قتل کی مذمت میںتو امریکی سفارتخانے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل تک نے بیان جاری کئے ہیں۔ مختلف علاقوں میں تعزیتی نششتیںبھی منعقد ہوئی ہیں مگر یہ لکھتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ اْردو اخبارات میں تو ان واقعات کی یا قتل کی خبریںشاہ سرخیوںمیں شائع ہوتی ہیںمگر اخبار بیں طبقے یا اْردو داں حلقے میںاس قسم کے جرائم پر وہ ردعمل نہیںہوا ہے جو ہونا چاہئے تھا۔ ہر طرف سنّاٹا اور بے حسی ہے اگر کچھ ہلچل ہے تو ایک خاص دائرے میں دولت و عزت کے حصول یا مظاہرے کے لئے۔ یہ تو ہوا عام لوگوںکا حال، خواص بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر مسلم قیادت نام کی کوئی چیز ہے تو وہ ایسے طریقہ کار پر عمل پیرا ہے جس کا کوئی حاصل نہیںہے۔ صحافیوں، شاعروں ادیبوںکو انجمن آرائی کے علاوہ کسی کام میں دلچسپی نہیں رہ گئی ہے۔ جنہیںمفت میں ہال مل جاتا ہے وہ ایسے جلسے کررہے ہیںجن سے ایک غلط پیغام جاتا ہے۔ جمعرات ۷؍ستمبر کو میرے ایک غیر مسلم دوست نے جو صحافی ہیں اور بیشتر واقعے کی خبر رکھتے ہیں مجھ سے پوچھا کہ ممبئی کی ایک خاتون کے لئے تعزیتی نشست منعقد کی گئی اور اس کے لئے ایک درجن کے قریب NGO’sنے اپیل کی مگر ان NGO’sکے پس پشت جو لوگ سرگرم ہیںان کی کارکردگی یا وجود کے بارے میں جاننے کی کوشش کیجئے تو شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔ اس پر المیہ یہ کہ یہ جلسہ بہت بڑے اقلیتی ادارے میں ہوا۔سوال اْٹھتا ہے کہ کیا مسلم ادارے یا مسلم تنظیمیں ایسے ہی لوگوں کے رحم و کرم پر ہیں؟ کیا صاحبانِ فکر و نظر کو مسلم اقلیت نے بالکل ٹھکرادیا ہے؟ کیا مسلمانوںمیںانہی کی بازگشت سنائی دیتی ہے جو گلی گلی گھومنے اور در در دستک دینے والوںکو اپنے ساتھ رکھنے کا ہنر سمجھتے ہیں؟  ]بابا گرمیت رام رحیم کے خلاف ایک گمنام خط شائع کرنے والے صحافی رام چندر چھترپتی کچھ عرصہ قبل قتل کردیے گئے تھے۔ اب گوری لنکیش کو قتل کردیا گیا ہے۔ گوری ہندوتواوادیوں کے علاوہ بدعنوان لیڈروں کے خلاف بھی سخت مضامین لکھا کرتی تھیں۔ اس قسم کے کئی دوسرے واقعات بھی ہوئے ہیںجس پر ملک بھر میںرد عمل ہوتا رہا ہے۔گوری کے قتل کی مذمت میںتو امریکی سفارتخانے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل تک نے بیان جاری کئے ہیں۔ مختلف علاقوں میں تعزیتی نششتیںبھی منعقد ہوئی ہیں مگر یہ لکھتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ اْردو اخبارات میں تو ان واقعات کی یا قتل کی خبریںشاہ سرخیوںمیں شائع ہوتی ہیںمگر اخبار بیں طبقے یا اْردو داں حلقے میںاس قسم کے جرائم پر وہ ردعمل نہیںہوا ہے جو ہونا چاہئے تھا۔ ہر طرف سنّاٹا اور بے حسی ہے اگر کچھ ہلچل ہے تو ایک خاص دائرے میں دولت و عزت کے حصول یا مظاہرے کے لئے۔ یہ تو ہوا عام لوگوںکا حال، خواص بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر مسلم قیادت نام کی کوئی چیز ہے تو وہ ایسے طریقہ کار پر عمل پیرا ہے جس کا کوئی حاصل نہیںہے۔ صحافیوں، شاعروں ادیبوںکو انجمن آرائی کے علاوہ کسی کام میں دلچسپی نہیں رہ گئی ہے۔ جنہیںمفت میں ہال مل جاتا ہے وہ ایسے جلسے کررہے ہیںجن سے ایک غلط پیغام جاتا ہے۔ جمعرات ۷؍ستمبر کو میرے ایک غیر مسلم دوست نے جو صحافی ہیں اور بیشتر واقعے کی خبر رکھتے ہیں مجھ سے پوچھا کہ ممبئی کی ایک خاتون کے لئے تعزیتی نشست منعقد کی گئی اور اس کے لئے ایک درجن کے قریب NGO’sنے اپیل کی مگر ان NGO’sکے پس پشت جو لوگ سرگرم ہیںان کی کارکردگی یا وجود کے بارے میں جاننے کی کوشش کیجئے تو شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔ اس پر المیہ یہ کہ یہ جلسہ بہت بڑے اقلیتی ادارے میں ہوا۔سوال اْٹھتا ہے کہ کیا مسلم ادارے یا مسلم تنظیمیں ایسے ہی لوگوں کے رحم و کرم پر ہیں؟ کیا صاحبانِ فکر و نظر کو مسلم اقلیت نے بالکل ٹھکرادیا ہے؟ کیا مسلمانوںمیںانہی کی بازگشت سنائی دیتی ہے جو گلی گلی گھومنے اور در در دستک دینے والوںکو اپنے ساتھ رکھنے کا ہنر سمجھتے ہیں؟ [gap]
  • [highlight]راقم الحروف نے ان سوالوںکا جواب تو دیا مگر سچائی یہ ہے کہ وہ خود اپنے جواب سے مطمئن نہیںتھا اس لئے اس نے سوچا کہ اس اہم مسئلے میںکسی ایسے شخص سے گفتگو کی جائے جو حالاتِ حاضرہ پر بھی نظر رکھتا ہواور تاریخ کے عروج و زوال پر بھی۔ جو مذہبی ہومگر مذہبی منافرت پھیلانے کے عمل میں شامل نہ ہو۔اس لئے اس نے شمیم طارق سے گفتگو کرنے کا فیصلہ کیا۔ گفتگو کے دوران کئی ایسے مسائل سامنے آ ئے یا جملے کہے گئے جو ہمیںاپنے محاسبے کی تاکید کرتے ہیں ان باتوں کو کسی شخص یا طبقے کے خلاف سمجھنا نامناسب ہوگا۔ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم قومی زندگی میںزیادہ فعال ہوں۔ اخترکاظمی[ راقم الحروف نے ان سوالوںکا جواب تو دیا مگر سچائی یہ ہے کہ وہ خود اپنے جواب سے مطمئن نہیںتھا اس لئے اس نے سوچا کہ اس اہم مسئلے میںکسی ایسے شخص سے گفتگو کی جائے جو حالاتِ حاضرہ پر بھی نظر رکھتا ہواور تاریخ کے عروج و زوال پر بھی۔ جو مذہبی ہومگر مذہبی منافرت پھیلانے کے عمل میں شامل نہ ہو۔اس لئے اس نے شمیم طارق سے گفتگو کرنے کا فیصلہ کیا۔ گفتگو کے دوران کئی ایسے مسائل سامنے آ ئے یا جملے کہے گئے جو ہمیںاپنے محاسبے کی تاکید کرتے ہیں ان باتوں کو کسی شخص یا طبقے کے خلاف سمجھنا نامناسب ہوگا۔ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم قومی زندگی میںزیادہ فعال ہوں۔ اخترکاظمی[[/highlight]
  • سوال : ۵؍ستمبر کی شام کو ایک ۵۵؍سالہ کنڑ خاتون صحافی کو ان کے گھر میں قتل کردیا گیا، ہر طرف سے مذمتی بیان جاری ہوئے، صحافیوںنے ممبئی میںبھی ’’کینڈل مارچ ‘‘نکالا۔ جلسے ہوئے مگر اْردو داں حلقے میںیا اْردو اخبار پڑھنے والے حلقے میں  سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔آپ اس سلسلے میںکیا محسوس کرتے ہیں؟
  • سوال : ۵؍ستمبر کی شام کو ایک ۵۵؍سالہ کنڑ خاتون صحافی کو ان کے گھر میں قتل کردیا گیا، ہر طرف سے مذمتی بیان جاری ہوئے، صحافیوںنے ممبئی میںبھی ’’کینڈل مارچ ‘‘نکالا۔ جلسے ہوئے مگر اْردو داں حلقے میںیا اْردو اخبار پڑھنے والے حلقے میں  سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔آپ اس سلسلے میںکیا محسوس کرتے ہیں؟جواب: سب سے پہلے تو میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوںکہ آپ کا ذہن و ضمیر زندہ ہے اس لئے آپ نے محسوس کیا کہ اْردو داں حلقے میں زندگی کے وہ آثار نہیں یںجو زندگی کے ضامن ہوتے ہیں۔ اب تو لوگ ان موضوعات پر بات کرنا بھی پسند نہیںکرتے ہمارا حال تو یہ ہوگیا کہ ہم مُردوںکی طرف بھی اس وقت تک توجہ نہیںکرتے جب تک تعفن نہ ہو۔یہ کیا ہے اس کو وسیع تر پس منظر میںسمجھنا ہوگا۔ ہوایہ ہے کہ مسلمانوں سے خاص طور سے اْردو داں سلمانوں سے ان کا کردار چھین لیا گیا ہے۔ مسلمانوںمیںاول تو گروہی اور مسلکی اجتماعات کے علاوہ علمی،سماجی، اقتصادی موضوعات پر اجتماعات ہوتے ہی نہیںاور پھر اجتماعات پر بھی کسی ایک شخص کا تسلط ہوتا ہے۔ شہرت طلبی ، مزاج کا حصہ بن گئی ہے۔ اجتماعی شعور کہیںنظر نہیںآتااس لئے اس کی افادیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ گوری لنکیش ٹائمز آف انڈیا سمیت کئی اہم اخبارات میںکام کرنے کے بعد کنڑ ہفت روزہ کی ایڈیٹر بنی تھیں۔ اس ہفت روزہ کو اْن کے والد نے جاری کیا تھا۔ گوری نے انگریزی صحافت سے ناطہ توڑنے کے بعد کنڑ یعنی ایک دیسی زبان سے وابستگی اختیار کرکے یا اس کی ادارت سنبھال کر یہ پیغام دیا کہ دیسی زبان یا اپنی مادری زبان کی صحافت انگریزی زبان کی صحافت سے کم اہم نہیں ہے۔ اْنہوں نے دوسرا پیغام یہ دیا کہ باپ کی وراثت اگر انسانیت اور ہندوستانیت کی قدر کرنا سکھاتی ہے تو اس کی حفاظت بیٹی کا فرض ہے۔ تیسرا پیغام اْنہوں نے یہ دیا کہ ظالم کو محض اس لئے معاف یا نظرانداز نہیںکیا جاسکتاکہ وہ برسراقتدار ہے یا اس کے پاس بہت زیادہ دولت و طاقت جمع ہوگئی ہے۔ گوری لنکیش نے ہندوتووادی طاقتوں کے خلاف لکھنا شروع کیا۔بی جے پی کے دو لیڈروںنے ان پر ہتک عزت کا دعویٰ کیا۔ عدالت نے انہیں چھ مہینے جیل کی سزا سنائی۔ اْنہوںنے اعلیٰ عدالت میں سزا کے خلاف اپیل کی جس کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ فیصلہ آنے سے پہلے ہی انہیںقتل کردیا گیا۔  یہاں یہ یاددہانی ضروری ہے کہ گوری لنکیش کانگریسی لیڈروں اور وزیروں کی بدعنوانی کو بھی نشانہ بنایا کرتی تھیں۔ انہوںنے اپنے بچپن کے ایک دوست پرکاش بیل واڑی کے خلاف بھی محاذ کھولا تھا جو کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوگئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ گوری لنکیش ہندوتووادیوں کے خلاف محض اس لئے نہیںلکھتی تھیں کہ ان کی فکر ان سے الگ تھی۔ بلکہ وہ بدعنوانی اور انسانیت دشمنی کو نشانہ بناتی تھیں۔ میں مانتا ہوں کہ اْردو داں طبقے یا دوسرے لفظوں میں مسلمانوں میں کردار اور صلاحیت کی کمی نہیں ہے مگر غلبہ اْن لوگوں کا ہے جو ’’چلو تم اْدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ میں یقین رکھتے ہیں یا پھر جاہلانہ جسارت کے مالک ہیں۔ یا پولس اور مافیا دونوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنی زبان اور صحافت کو حقیر سمجھتے ہیں۔ان کی معراج یہ ہے کہ جائز یا ناجائز طریقے سے اخبار میں اپنی تصویر یا نام دیکھ لیں۔ لہٰذا ان کے ضمیر کی لو بجھتی جارہی ہے۔ اْن کو اس حال میںپہنچا دیا گیا ہے کہ اب وہ ملت یا انسانیت کے لئے کچھ اچھا کرنا بھی چاہتے ہیںتو بْرا ہوتا ہے۔ اْن سے توقع ہی نہیںکی جاسکتی کہ یہ کچھ ایسا کریںگے کہ گوری لنکیش کے مشن سے ان کی وابستگی ظاہر ہو۔ وہ جمع ہوتے ہیں یا کچھ بولتے ہیں تو گروہی مفادات و تعصبات کے نام پر یا پھر شخصیت پرستی کے نتیجے میں۔ اْنہوںنے رام چندر چھترپتی کے قتل کے بعد بھی کوئی آواز نہیں اْٹھائی تھی لیکن دنیا نے دیکھا کہ ایک تنہا شخص نے جو چار صفحہ کا ہندی اخبار نکالتا تھاکس طرح گرمیت کا مافیا منہدم کردیا۔ ہماری زبان میں ایسے بیشتر اخبارات اْصول کی بنیاد پر نہیں’’وصولی ‘‘کے مقصد سے نکالے جاتے ہیں۔ زہر افشانی اور اشتعال انگیزی کرتے ہیں۔
  • سوال: کیا آپ سمجھتے ہیںکہ مسلم مسائل کے حل میںمسلمانوںکا موجودہ طرز عمل معاون ثابت ہوتا ہے؟
  • جواب: بالکل نہیں! مسلم مسائل میں ہمارے سماجی ، اقتصادی ، ثقافتی معاملات بھی شامل ہیںاور مذہبی اور عائلی معاملات بھی۔ مسلمانوں نے سماجی ، اقتصادی اور ثقافتی معاملات میں شاید ہی کہیں دلچسپی لی ہو۔ عائلی اور مذہبی معاملات میںجو ہورہا ہے اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ بابری مسجد کے سلسلے میں دوسروںکو تو چھوڑیئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر بھی جو بول رہے ہیںوہ سنگھ پریوار کی زبان ہے۔ طلاق ثلاثہ کے بارے میںسپریم کورٹ کے جج حضرات نے جو فیصلہ سنایا اس میںاگرچہ اختلاف ہے مگر وہ فیصلہ ان آراء سے بہتر ہے جو مسلم پرسنل لاء  بورڈ کے بعض ممبران ظاہر کرتے رہے ہیں۔ کئی ایسے لوگ بھی مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میں، اسٹیج پر، میٹنگوں میں دیکھے جاتے رہے ہیں جو شریعت پر حملہ کرنے والوں کے لئے دعائے خیر اور دعائے مغفرت کرتے رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملت دو طبقوں میں بٹتی جارہی ہے۔ ایک شریعت بچاؤ کے نام پر کچھ اور کررہا ہے دوسرا ’’دنیا حاصل کرو‘‘ میںلگا ہوا ہے۔دونوںصورتوںمیںنقصان مسلمانوںکا ، ملت کا ہی ہورہا ہے۔  مسلمانوں کے اجتماعات ، اپنا کردار اور اپنی مقصدیت کھوتے جارہے ہیں۔ مسلم ادارے وہ ذہن و کردار پیدا کرنے میںناکام ہیں جو ایک مخلوط معاشرہ میں رہنے کے لئے ضروری ہے۔ اپنی شخصیت کو مسلط کرنے والے دوسروں کو کام بھی نہیںکرنے دیتے۔ آپ کی بھیونڈی کی ہی مثال ہے کچھ نوجوانوںنے قرآن اور ادب کے حوالے سے سمینار اور خواتین کے مسائل پر ، خواتین کے اجتماعات منعقد کئے، ایسے ادبی اجتماعات بھی منعقد کئے جن میںغیر مسلم بھی شریک ہوئے مگر اس سلسلے کو ایسے لوگوںنے ناکام بنانے کی کوشش کی جن کو یہ فکر رہتی ہے کہ میرے بغیر کوئی کام کیسے ہورہا ہے۔ اب غیر مسلموںکا ایک مشاعرہ بھی ہوا ہے اس سلسلے میںابھی اور کام کرنے ہیں، خدا کرے یہ سلسلہ جاری رہے۔ مسلمانوںکو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ جو دوسروں کی میت پر نہیں روتے اْن کی میت بے گور و کفن پڑی رہتی ہے۔ اْنہیںگوری لنکیش اور رام چندر چھترپتی کے قتل پر احتجاج کرنا چاہئے تھا۔
  • سوال: حکومت اور حکومتی ادارے جو کام کررہے ہیں، کیا اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ 
  • جواب: حکومت کا کام قانون بنانا اور نافذ کرنا ہے۔ آج ہمارا معاملہ یہ ہے کہ قانون ہی نہیں انسانی رشتے اور فطرت کے بنائے ہوئے اصولوںکو بھی پامال کیا جارہا ہے۔ اس لئے ہر معاملے میں حکومت کی طرف دیکھنامسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہمیں غیر حکومتی سطح پر بھی ہر شب کو سحر کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
  • سوال: اس کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ سوال: اس کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟
  •  جواب: مسلمانوںمیںاس وقت جو چھوٹی بڑی جماعتیں سرگرم ہیں ان میں ایک تو وہ جماعتیں ہیں جو ایک آواز پر لاکھ پچاس ہزار کا مجمع اکٹھا کرلیتی ہیں مگریہ مجمع بصیرت اور ضابطہ کی پابندی کرنے والوںسے عاری ہوتا ہے۔یہ مسائل کو سمجھتے نہیںمگر جلسے جلوس میں اس لئے جمع ہوجاتے ہیںکہ وہ جلسہ یا جلوس کسی خاص شخص یا جماعت جن سے اْن کو عقیدت ہوتی ہے کے کہنے پر منظم کیا گیا ہوتا ہے۔  ایسے مجمعے بابری مسجد کے تحفظ کے لئے منعقد کئے جاتے رہے اور بابری مسجد شہید کردی گئی، ایسے مجمعے شریعت کے تحفظ کے نام پر منعقد کئے جاتے رہے مگر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنادیا۔ اس قسم کے جلسے جلوس اور کسی مسلم قائد کے Shio of Strengthنے ان علاقوںمیںبھی فسادات کے لئے راہ ہموار کردی جہاں۱۹۴۷ء میںبھی فسادات نہیں ہوئے تھے۔ یہاں میں عرض کردوں کہ فسطائی عناصر کے مذموم ارادے اور فسطائی طریقۂ کار سے میںناواقف نہیں ہوں۔ پوری عمر ان سے لڑتے ہوئے گزری ہے لیکن ان کے مذموم مقاصد کے حصول میں ہماری جو نادانیاں ان کی معاون بنتی ہیں وہ بھی میری نگاہ میں ہیں۔’’گڑیا ‘‘ اور’’عمرانہ‘‘ کے معاملوںمیںجس قسم کی بیان بازی کی جاتی رہی اس نے پوری ملت کو شرمندگی سے دوچار کیا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ چند مولوی نما وضع قطع کے لوگ اسی لئے ٹی وی پر بلائے جاتے ہیں کہ وہ مسلمانوںکو رسوا کریں۔ شاید اس کے لئے ان کو روپیہ بھی ملتا ہوگا۔ ایک دوسرا گروہ وہ ہے جو علماء پر ہی نہیں مذہب و شریعت پر بھی حملہ کرتا ہے اس کو طلاق ثلاثہ پر ہی نہیںقربانی اور ختنہ سے بھی بیر ہے جو لوگ سمجھتے ہیںکہ حمید دلوائی ختم ہوگیاغلط سمجھتے ہیں۔ حمید دلوائی شخص مرگیاذہنیت زندہ ہے۔ اس کی ذریت زندہ ہے۔ آر ایس ایس ہی نہیں سیکولر پارٹیاںان کی پرورش کرتی رہی ہیں، کانگریس سے ان کو ٹکٹ دلوانے کے لئے مولوی نما ٹولہ ہوائی جہاز سے دہلی کا سفر کرتا ہے۔ آر ایس ایس کا راشٹریہ مسلم منچ قرآن و سنت کی تعلیمات کو آر ایس ایس کے ایجنڈے کے تابع کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ قربانی کے خلاف منظم سازش ہورہی ہے۔ کمیونسٹوںکی کئی جماعتیںہیں ، کچھ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ’’میرے اسلام کو قصۂ ماضی سمجھو‘‘اور کچھ مجازؔ کے اس شعر پر عمل پیرا ہیں کہ      کفر و الحاد سے نفرت ہے مجھے
  • اور مذہب سے بھی بیزار ہوں میں کچھ جماعتیں(زیادہ صحیح یہ ہے کہ ان کو ٹولہ کہیں) اپنے عمل سے یہ ثابت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیںکہ ’’پیسہ دو حمایت کروالو‘‘ اور ’’روپیہ دو تعاون لے لو‘‘ کچھ نوجوان بھیج دے الٰہی کوئی محمود اور خلافت یا نیشنلزم جیسے روایتی اور حکومت و عوام میںغلط فہمی پیدا کرنے والے نعرے لگانے میں مصروف ہیں۔ عمومی حیثیت میںملت میںاکثریت ان کی ہے جو اپنی ذات اور اپنی ضرورت کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے۔ ان میںمنظم ٹولہ وہ ہے جو قبرستان اور اوقاف کو بیچ رہا ہے، ٹرسٹ میں خردبرد کررہا ہے ان میں سے بہتوں کے تعلقات پولس اور انڈرورلڈ دونوںسے ہیں۔ قربانی، زکوٰۃ، دینی فرائض میں لوٹ مچانے والے پیدا ہوگئے ہیں۔بے شک وہ تمام علماء اور مکاتب و مدارس چلانے والے قدردانی کے مستحق ہیںجنہوں نے ملک بھر میںمکاتب و مساجد کا جال پھیلا دیا ہے۔ مگر اْن کو اپنی آنکھ کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔ چند کی غلط کاریوں کے سبب ان کی بھی بدنامی ہورہی ہے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ان مدارس کے طلباء دین کی روشنی میںدنیا کے تقاضوںکو پورا کرسکتے ہیںیا نہیں؟ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت مسلم معاملات کو سمجھتی ہی نہیں، سمجھنے میں اس کی دلچسپی بھی نہیںہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہم ملک کے دستور کو سمجھنے، مخلوط معاشرے میںرہنے کے آداب اور تقاضوںکو سمجھتے، اپنے دین اور ضروریات دین کو سمجھتے اور ترجیحات طے کرنے کے ساتھ طریقۂ کار بھی منتخب کرتے مگر یہ کام ہم نے خود کیا اور نہ کسی دوسرے نے بتایا۔ سبھی نے ہمیں استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اب ہمیںخود یہ اعلان کرنا چاہئے کہ ہم دیندار ہیں مگر دین و شریعت کے نام پر اشتعال انگیزی کرنے والوںکے خلاف ہیں۔ ہم اقتصادی اور سماجی انصاف کا نعرہ بلند کرنے والوں و پسند کرتے ہیں مگر اس بہانے مذہب کو نشانہ بنانے کے عمل کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم میںدینی اور دنیوی ، اقتصادی، سماجی ، شرعی ضرورتوںکو بیک وقت پورا کرنے کی صلاحیت ہے اور ہم اپنی صلاحیت کو جس پلیٹ فارم سے بھی بروئے کار لاسکتے ہیں اْس پلیٹ فارم پر جائیں گے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ نظم و ضبط کے ساتھ اجتماعی شعورکو بھی عام کیا جائے۔ شرعی تقاضوںکو پورا کرتے ہوئے ظلم، جبر، بدعنوانی اور اقرباء پروری کے خلاف جدوجہد کا حصہ بنا جائے۔ ایسا نہیں ہوااس لئے رام چندر چھترپتی اور گوری لنکیش وغیرہ کے لئے ہماری آنکھوں سے آنسو نہیں گرے۔
  • سوال: نریندر دابھولکر اور کلبرگی وغیرہ بھی ہمارے تعاون کے مستحق ہیںکیا؟
  •  جواب: ان کی حیثیت کے دو پہلو ہیں۔ ایک طرف تو وہ توہم اور ضعیف الاعتقادی کے نام پر مذہب کی ہی مخالفت کررہے تھے ہم ان کی اس فکر میںاْن کا ساتھ نہیںدے سکتے تھے۔ آئندہ بھی نہیںدیں ے مگر مذہب کے دائرے میں ضعیف الاعتقادی کا خاتمہ تو کرہی سکتے ہیں۔ اسلام نام ہی ہے تاریکی ،توہم اور بے یقینی سے نجات کا۔ ان کا دوسرا کام انسانیت کا اکرام تھا وہ انسانوں کے انسانی حقوق سے محروم کردیے جانے کے خلاف جدوجہد کررہے تھے۔ ہمیں اس کام میںان کا ساتھ دینا چاہئے تھا۔ گوری لنکیش اور رام چندر چھترپتی تو صحافی تھے اور وہ ان کے خلاف لڑرہے تھے جو مذہب کے نام پر حکومت اور اقتدار ہی نے انسان کے شعور و لاشعور پر بھی قبضہ کرلیتے ہیں۔ ہمیں ان کے لئے تو آنسو بہانا ہی چاہئے تھا۔
  •  سوال: انسانی حقوق، آزادی نسواں ، فرقہ وارانہ یکجہتی کے نام پر آج کل کئی اہم اشخاص اور جماعتیںسرگرم ہیں۔
  •  جواب: اس میںکافی فراڈ بھی ہے۔ ان کے یہ نعرے فیشن کا درجہ رکھتے ہیں۔یہ انسانی حقوق اور انسانی فرائض کے توازن کو نہیںسمجھتے۔ یہ آزادی اور آوارگی کے فرق سے ناواقف ہیں۔ ان کو یہ بھی نہیںمعلوم کہ فرقے ہی نہیں ہوںگے تو فرقہ وارانہ یکجہتی کہاںسے پیدا ہوگی۔؟ فرقہ وارانہ یکجہتی یہ نہیںہے کہ مذہب کو ہی چھوڑ دیا جائے۔ فرقہ وارانہ یکجہتی یہ ہے کہ مذہب کے نام پر جبر نہ کیا جائے۔ کسی کو اپنا مذہب چھوڑنے اور دوسرے کا مذہب قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ میں آزادیٔ نسواں اور انسانی حقوق کو بہرحال باقی رکھنے کا حامی ہوں مگر آزادی اور آوارگی میں فرق کرتا ہو اورازدواجی تعلق کے لئے رفاقت کو ضروری سمجھتا ہوں، رقابت کا جذبہ آزادیٔ نسواںکا ضامن نہیںہوسکتا۔
  • سوال : پھر تبلیغ کا کیا ہوگا؟
  •  جواب : تبلیغ کرنا یا نیکی کا حکم کرنا اور بدی سے روکنا جبر نہیں ہے۔ تبلیغ اپنی اصلاح سے شروع ہوتی اور دوسروں کو اصلاح کی طرف راغب کرتی ہے۔تبلیغ کا مطلب جبر یا لالچ سے کسی کا مذہب تبدیل کرنا نہیں ہے۔یہ بھی غلط فہمی ہے کہ تبلیغ صرف مذہبی لوگ یا جماعتیں کرتی ہیں ۔تبلیغ کا سہارا مذہب دشمن بھی لیتے ہیںکسی سیاسی نظرئیے کو مذہب کا درجہ دینے والے بھی تبلیغ کا ہی سہارا لیتے ہیں اور ان کی تبلیغ میں لالچ اور خوف کو حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
  • سوال: آج ہندوستانی مسلمانوںکا سب بڑا مسئلہ کیا ہے؟
  • جواب: بے خبری۔بے عملی۔ وہ طرح طرح کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ۔مگر نہیں جانتے کہ مسائل حل کیسے ہونگے۔ وہ مافیا کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ گلیمر والوں سے امید لگاتے ہیں ‘خیال وخواب یا اشتعال کی حالت میں رہتے ہیں۔ انھیں کوئی چیز اگر نہیں بھاتی تو وہ سنجیدہ اور معقول گفتگو ہے۔آج مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت کو نہ تو دین کی فہم ہے اور نہ دنیا کی۔ سیاست اور مذہب دونوںکو شو مین کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے یہ طرز عمل خود مذہب کے خلاف ہے۔مسلمان یہ طے کرنے میں ناکام ہیں کہ ایک مخلوط معاشرے میں اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے قومی تحریکوں ‘مثلاً بے روزگاری ‘بد عنوانی ‘فرقہ واریت کے خلاف تحریکوں میںکس طرح اپنا کردار ادا کریں ۔ مسلم خواتین کے خلاف کونسا ایجنڈہ پیش کریں جو دین و شریعت کے خلاف نہ ہو اور آج کے تقاضوں کو پورا کرے۔
  • سوال: مگر ایجنڈہ یا منشور تو ہر جماعت اور تنظیم کا ہے اور وہ اسی کو پورا کرنے کے لئے لوگوںکو مدعو کرتی ہیں ۔
  • جواب: یہ دعویٰ ہو سکتا ہے حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ تنظیمیں اور جماعتیں یہ نہیں جانتیںکہ کھانے‘ پہننے اور ہم بستری کرنے کے علاوہ بھی انسان کی ضرورتیں ہیں ۔ دینی جماعتیںیہ نہیں سمجھتیں کہ بھوکے شخص سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اللہ کی عبادت میں انہماک کا مظاہرہ کریگا۔انسان ہو یا ملت ترقی تب کرتی ہے جب وہ مادی ‘روحا نی اور سیاسی قوت سے آراستہ ہوں اور ان میں توازن قائم رکھنا جانتی ہوں۔یہ توازن نہیں رہ گیا ہے۔ دولت مند افراد کی اولاد اور غریب لوگوں کی اولاد کی زندگی اور طرز فکر میں بہت زیادہ فرق ہے۔دونوں ایک دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک خاموش کشمکش ہے جو اکثر ظاہر ہو جاتی ہے۔انڈر ولڈ دونوں سے اپنا کام نکالتا ہے۔شاعروں اور ادیبوں نے خود کو تفریح کا سامان بنا دیا ہے۔وہ سخن شناس عوام کی داد اور صاحب حیثیت لوگوں کی عطا سے محروم ہونے کے خوف سے اپنا ضمیر تک بیچ دینے کے لئے تیار ہیں۔یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میںمخبر اور دلال قسم کے لوگوں کو جورسوخ اور خوشحالی حاصل ہے وہ غیر فلمی ادیبوں اور شاعروں کو حاصل نہیں ہے۔ہم میں بلیک میلر ہیں‘گوری لنکیش اور رام چندر چھتر پتی نہیں ہیں ۔
  • سوال: مسلم تعلیمی ادارے تو ایک ذہن، ایک کردار عطا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ جس ادارے سے وابستہ ہیں ،انجمن اسلام سے۔ وہاںگزشتہ کئی سال سے دینیات کے مقابلے منعقد ہورہے ہیں۔ اور ان کے اچھے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ 
  •  جواب: بے شک۔ دوسرے ادارے بھی اچھے کام کررہے ہیں، انجمن اسلام تو تاریخی ادارہ ہے جو ادارے نئے قائم ہوئے ہیںاْن کی پیش رفت کا بھی اعتراف کیا جانا چاہئے مگر اس ملک میںنصاب ، تاریخ، ثقافت کو بدلنے کا جو کام ہورہا ہے اور اس کام کو جس طرح ایک خاص تنظیم کے ادارے ، اسکول اور سرکاری اداروںپر قابض لوگ انجام دے رہے ہیںاس کے ازالے کی کوئی منظم کوشش مسلم اقلیتی تعلیمی اداروں میںنہیںہورہی ہے۔ حالانکہ عیسائی تعلیمی اداروںمیںایسی کوشش ہوتی رہی ہے اس کا اثر قومی زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر ابھی چند روز پہلے کیرالا کے مسٹر الفانسو نے مودی حکومت میںوزیر کا عہدہ سنبھالا ہے۔ جس دن انہوںنے چارج لیا اْسی روز بیان دیا کہ ’’حکومت کسی کے کھانے پر پابندی عائد نہیںکرسکتی۔ کیرالا کے لوگ پہلے بھی بیف کھاتے تھے اور آئندہ بھی کھاتے رہیں گے۔‘‘ ان کے خلاف کسی گئو رکھشک نے کوئی آواز نہیں اْٹھائی۔ وہ اپنے مذہب سے بھی واقف ہیں اور ملک کے قانون سے بھی۔ اپنے ہم مذہب لوگوںکے مزاج سے بھی۔ اس کے برعکس مسلم وزیر کا معاملہ ہے‘ مسلمانوںکے خلاف تشدد کے ہر واقعے کی وہ نفی کرتا ہے۔ وزیر داخلہ جس کو شرمناک بتاتے ہیں وہ کہتا ہے ہوا ہی نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر مسلموںمیںحتیٰ کہ بی جے پی میںراج ناتھ سنگھ جیسے سنجیدہ لوگ ہیں مگر مسلمان گھر میںپیدا ہونے والوںمیں ایسے نہیںہیںجو سچ بولنے میںیقین نہیںرکھتے ہوں۔
  •  سوال: آپ کا نوجوانوں و کیا مشورہ ہے؟
  • جواب: قانون سے واقفیت، قانون کا احترام، قانونی لڑائی لڑنے کی سکت۔مسلم نوجوانوںکو جو علماء سے سیکھنا ہے وہ سیکھیںجو دانشوروں اور سماجی علوم کے ماہرین سے سیکھ سکتے ہیں اْن سے سیکھیں۔ مل جل کر رہنا اور تعمیری خطوط پر کام کرنا سیکھیں۔
  • سوال: مل جل کر رہنے کا کیا مطلب ہے‘ کیا مذہبی کام بھی مل جل کر ادا کئے جائیں ۔؟
    جواب: بالکل نہیں۔ ہم نہ تو دوسروںکی پوجا میںشریک ہوںگے اور نہ اپنی نماز میں شرکت کا اْن سے مطالبہ کریںگے۔ ہاںآزادی، مساوات ، بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے جو لڑائی ہے یا ملک کی تعمیر کے لئے جو جدوجہد ہے اس میں سب کو شریک ہونا چاہئے۔ ہمیں تمام اہل وطن کو خاص طور پر رام چندر چھترپتی اور گوری لنکیش جیسوںکو آواز دینا چاہئے کہ اپنا مذہب اور عقیدہ چھوڑو مت، ہمارا عقیدہ یا مذہب چھیڑو مت۔ باقی کاموں میں مل جل کر کام کرو۔
  • سوال: اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آپ کے ذہن میںکسی تحریک کا کوئی خاکہ ہے۔؟
  • جواب: نہیں۔ میں ادب سے تعلق رکھتا ہوں۔ ادب کا تعلق زندگی اور معاشرے کے ہر شعبے اور طبقے سے ہے۔ ہماری پشت پناہ صرف سچائی ہے۔ جتنا ہوسکتا ہے کررہاہوں۔ جو کررہا ہوں آپ جیسے باخبر لوگ جانتے ہیں۔ جو لوگ صرف ان کاموںکی خبر رکھتے ہیں جن سے ان کی تشہیر ہوتی ہے ان کو میں باخبر کرنا بھی نہیںچاہتا بلکہ ایسے لوگوں سے عوام کو خبردار کرتا ہوں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا