جسم انسان کا روح ابلیس کی عمل شیطان کا

0
0
فہیم حیدر ندوی
 یا رب  دل مسلم کو  وہ زندہ  تمنا  دے جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑ پا دے
آج کے اس پر فتن دور میںاسلام اور آج کا مسلمان عنوان سے جب کچھ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا جسم تو ایسا ہے جیسا ایک انسان کا ہوتا ہے سب کچھ انسانوں والا ہے لیکن اس جسم کے اندر جو روح بستی ہے جس کی وجہ سے ہم سب زندہ اور انسان کہلاتے ہیں اس روح کو ہمارے عمل کی وجہ سے یہ سننا پڑتا ہے کہ انسان کو شیطان کہہ دیا جاتا ہے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ شیطانی حرکت مت کرو‘ ہماری روح اس قدر گناہ میں ملوث ہوگئی ہے کہ ہمارا عمل ا بلیس و شیطان سے مشابہت رکھنے لگا ہے ہم اللہ کی نافرمانی کرنے میں ذرہ برابر خوف نہیں کرتے ہیںہماری روح آتما گناہ کرتے کرتے اتنی گندی اور میلی ہوگئی ہے جس کے اندر اچھی اور نیک باتیں نہیں جارہی ہے اس لئے ہم بھی شیطانوں والا عمل کرتے ہیں اور سو فیصد حقیقت بھی ہے کہ آج کے مسامان کو یہ معلوم تک نہیں ہے کہ اسلام کیا ہے دین حق کیا ہے تو حید کیا ہے حقو ق اللہ کیا ہے حقو ق العباد کیا ہے جس کی وجہ سے آج وم مسلمان اور ہمارے مسلم معاشرہ میںوہ تمام برائیا اور گناہ اس قدر عام ہو گئی ہے کہ مشرکانہ طور طریقے رسم و رواج اور مغربی تہذیب نے ہمارے گھروں اور نئی نسل کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے ذہن و دماغ میں اچھی طرح سے اپنی جگہ بنا لی ہے اس فساد اور بے راہ روی نے ہمارے معاشرہ کو تباہ و بر باد کر دیا ہے آج کا مسلمان اور ہمارے مسلم معاشرہ میں دین حق یعنی اسلام کو مکمل ضابطہ حیات سمجھنے کے بجائے محض رسم و رواج سمجھ لیا گیا ہے ہفتہ میں جمعہ کی نماز کو عبادت نہیں بلکہ ایک رواج سمجھ کر ادا کیا جانے لگا ہے عید ہو قربانی ہو ‘شب برات ہو‘بارہ وفات ہو‘رمضان کے روزے ہو یا پھر محرم ہو‘یے تمام عبادات محض رسم و رواج کے طور پر ادا کیا جانے لگا ہے بد گمانی ‘غیبت‘حسد‘راستہ پر بیٹھنا‘ چائے کی دکان پر بیٹھ کر گھنٹوں وقت کی بر بادی کرنا ‘ موبائل پر گھنٹوں وقت ضائع کرنا’ا نا پرستی ‘تکبر کرنا‘ مرد و عورت کا بازاروں کی زینت بننا ‘ اپنی اولادوںاوربیوی بچوں کی تربیت کے لئے و قت نہ دینا‘مسلم لڑکے اور لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکے لڑکیوں کے ساتھ بے خوف و خطر میل جول ‘عریانیت ‘بے حیائی ‘بے شرمی وغیرہ وغیرہ بہت سی لایعنیت نے ہمارے معاشرتی نظام کو تباہ و بر باد کردیاہے آج مسلم معاشرہ کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو مسلمان تسلیم کرنے کو تیار نہیںہے جبکہ آپ ﷺ کی حدیث مبارک ہے کہ ایک مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔آج مسلم معاشرہ اور مسلمانوں کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ان کی زندگی میں کوئی نظام نہیں ہے جب جو جی چاہا کر لیا اور جب جی چا ہا چھو ڑ دیا ان کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں رہ گیا ہے مسلم معاشرہ کے با شعور حضرات کا مشن صرف تنقید کرنا بن گیا ہے اپنی کمی کوتاہی سے کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے کوئی اچھائی کا کام کریں تب بھی تنقید اور برا ئی کریں تب بھی تنقید کرتے ہیں مسلم با شعور حضرات کا مشن اصلاح نہیں رہ گیا ہے مگر الا ما شاء اللہ ۔ جبکہ اسلام بامقصد مذہب ہے اسلام سلامتی کا مذہب ہے امن و سکون کا مذہب ہے اسلام عدل و انصاف چاہتا ہے اسلام تعلیم چاہتا ہے اسلام دنیا کی ترقی کیساتھ آخرت کی کامیابی چاہتا ہے اسلام بھائی چارگی کا مذہب ہے
اسلام اپنے چاہنے والے کو ایک عام انسان سے خاص بنا کر مسلمان بنا دیتا ہے ایک مسلمان کو مومن صفت بنا دیتا ہے بد کار کو نیک صفت بنا دیتا ہے اسلام کی تعلیمات اور احکامات پر عمل کرکے ایک جہنمی کو جنتی بن جاتاہے اسلام کی بنیاد پر ہی ایک کافر کے مقابلہ میں ایک مسلمان کو برتری اور فوقیت حاصل ہے ایک عام انسان کے مقابلے ایک مسلمان بہتر ہے ایک مسلمان کے مقابلے ایک مومن بہتر ہے جب مسلمان کی زندگی  اور اس کے معاشرہ میں کو ئی نظام shedule ہی نہیں ہے تو مسلمان اور معاشرہ کی تربیت اور فلاح کیسے ممکن ہے آج کا مسلمان مثل زندہ لاش رہ گیا ہے جس کے اندر نہ تو زندگی ہے نہ تو کوئی فائدہ ہے اور نہ اسکی زندگی کا کوئی مقصد ہے مسلم معاشرہ کے والدین ‘سر پرست اور گارجین حضرات کی بے حسی کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ ان کی اولادیں تعلیم کے نام پر مشرکانہ فعل انجام دے رہی ہیں مگر ہم والدین اور گارجین حضرات کو ذرہ برابر فر ق نہیں پڑ رہا ہے اور نہ ہم اپنی اولاد کے حرکات سے واقفیت رکھتے ہیں مسلم نو جوان لڑکیاں کالج ‘ یو نیورسیٹیوں اور دیگر کوچنگ میں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ تعلیم کے نام پرا س قدر تعلقات قائم کر لیتی ہے جن سے ان کے ایمان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے یہاں تک کہ مرتد ہو جاتی ہے اور وہ مسلمان سے غیر مسلمان بننے کو مجبور ہو جاتی ہے مگر ہم والدین اور سرپر ست حضرات کو کوئی فر ق نہیں پڑ رہا ہے ایسی تعلیم جو اللہ سے اس کے بندے کو دور کردے تو وہ فتنہ ہیں ایسی تعلیم سے جاہل رہنا بہتر ہے جس سے کہ ہمارا ایمان ہی ختم ہو جائے۔ہم زندہ قوم ہیں صرف کہہ دینے سے کافی نہیں ہے بلکہ زندہ قوم تو وہ ہوتی ہے جسے مستقبل کی فکر ہوتی ہے جسے آخرت کا ڈر ہوتا ہے جسے اللہ کا خوف ہوتا ہے جسے اپنے اہل عیال کی فکر ہوتی ہے زندہ قومیں وقت سے پہلے ہوشیار اور سمجھدار بن کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہے خاندان‘ قوم و ملت ‘سماج و گائوں اور معاشرہ میں اچھا ماحول پیدا کرنے کے لئے اپنا  احتساب کرتی ہے اپنے اہل و عیال کا احتساب کرتی ہے معاشرے کا احتساب کرتی ہے اپنے اہل و عیال اور معاشرہ کی  اصلاح کے لئے قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں ان آیات پر عمل کرتی ہے جن آیات کے اندر اسلامی معاشرہ کے بنیادی اصول کے بارے میں بتایا گیا ہے اللہ تبار ک و تعالی کا ارشاد گرامی ہے کہ ترجمہ: (سورۃ الحجرات) ’’یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں‘اگر لوٹ آئیں تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرادواور عدل کرو۔اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے یاد رکھو سارے مسلمان بھائی بھائی ہے پس اپنے دو بھائیوں میںمیل ملاپ کردو‘اور اللہ سے ڈرتے رہوتاکہ تم پر رحم کیا جائے‘اے ایمان والوںکوئی جماعت دوسری جماعت سے مسخرہ پن نہ کریں۔ممکن ہے کہ یہ اس سے بہتر ہے نہ عورتیں عورتوں سے‘ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں۔اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگائو نہ کسی کو برے لقب دو۔ایمان کے بعد گنہگاری برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیںاے ایمان والوں بہت زیادہ بد گمانیوں سے بچو‘یقین مانو بعض بد گمانیاں
 گناہ ہے اور بھید نہ ٹٹو لا کرو۔اور نہ تم میںسے کسی کی غیبت کریں‘کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے تم کو ان سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو‘بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے ‘‘ ایک مومن کو اور مسلمان کو اللہ نے بالکل سیدھی راہ دکھا دی ہے جس طرح پھول اپنے لئے نہیں مہکتا ہے چاند اپنے لئے نہیں چمکتا ہے ورج اپنے لئے نہیں نکلتا ہے اسی طرح ایک مسلمان اور مومن صرف اپنے لئے زندہ نہیں رہتا ہے بلکہ وہ قوم و ملت سماج و معاشرہ کے لئے مثل شمع روشنی پھیلاتا ہے اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ کیسے ایک مسلمان جنتی بن جائے کیسے ہمارا خاندان ہمارا معاشرہ نیک معاشرہ بن جائیں۔یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ قوم کے باوقار ‘با صلاحیت ‘مالدار‘ ادباء ‘ شعراء ‘علماء وغیرہ سے ان کی ‘قوم کی معاشرہ کی ذمہ داریوںکے بارے میں کل آخرت میں سوال کیا جائے گا آج ہم قوم کے باوقار ‘با صلاحیت ‘مالدار‘ ادباء ‘ شعراء ‘علماء وغیرہ کی عصبیت کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ محض عصبیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کا ایک محفل میں شرکت ممکن نہیں رہ گیا ہے ہرکوئی ایک دوسرے کو لعن طعن کرنے میں مشغول ہے ہمارے پاس اپنے معاشرہ کی ترقی کے لئے نہ کوئی پلاننگ ہے نہ کوئی جذبہ ہے نہ رکھتا ہے بے لوث خدمت کوئی نہیں کرنا چاہتا ہے جتنے باوقار اشخاص ہیں یے سب کسی نہ کسی منصب پر فائز ہیں لیکن معاشرہ کے مسائل اور ان کے حل پر کوئی چرچہ ان  کے روزانہ کی مشغولیات میں شامل نہیں ہوتا ہے یے سب صرف اور صرف مساجد یا مدارس کی کمیٹی کے اعلی عہدہ یا کسی معاشرتی ادارہ کے اعلی منصب پر فائز ہونا چاہتے ہیں یہی لوگ مسلم معاشرہ کے تباہی و بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہوتے ہیں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ معاشرہ میں ایسے بہت سے باوقار اشخاص ہیں جو پوشیدہ اور ظاہری دونوںطور پر قوم و معاشرہ کی فکر کرتے ہیں اور حتی الامکان جسمانی مالی اور تعلیمی تعاون پیش کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہم سبھی باوقار مالدار اشخاص کی یہ ذمہ دانری بنتی ہے کہ ہم سبھی اپنے معاشرہ گھر خاندان کی اصلاح کی اس حد تک کوشش کریں جب تک مثبت نتائج نہ آجائیں۔ ہر حال میں مثبت نطریہ رکھنے کی
 ضرورت ہے ہم اپنے مسلم بھائی سے ایسے ملیں جیسے ان کے بارے میں ہمیں کوئی جازکاری نہیں ہے ہم صرف ان کی اچھائی جانیں تب اصلاح بھی ہوگا اور مسلم معاشرہ خوشحال بھی ہوگا اس لئے اپنے معاشرہ کی رہنمائی کرتے ہوئے ہم سب پہلے پکا سچامسلمان ومومن بنیں ایسا مسلمان بنے جوہر طرح کی لعن طعن سننے کے بعد بھی امت اور قوم کی کامیابی اور اصلاح کے لئے کوشاں رہیں تاکہ آنے والی نئی نسل ہم سے استفادہ کرسکیں اور کل آخرت میں اللہ کے سامنے ہمارے پاس اس بات کی حجت ہو کہ ہمنے حتی الامکان قوم کی کامیابی اور ا مت کی اصلاح کے لئے کو شش کی تھی۔اللہ ہم سب کو نیک بنائیں۔ آمین۔
٭٭٭
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا