افسانہ چبھن

0
0

سیدہ تبسم منظور ناڈکر۔ممبئی
9870971871

شدید گرمی کے بعد کی پہلی ہلکی ہلکی بارش کی سرمئی بھیگی بھیگی شام تھی۔۔۔۔۔۔گھر میں چہل پہل تھی۔۔۔۔۔ہال کی صفائی کی گئی تھی۔پردے اور صوفے کے غلاف تبدیل کئے گئے۔۔۔۔۔ابا تھکے تھکے سے ابھی ابھی کچھ چیزیں بازار سے خرید کر لوٹے تھے۔ساری چیزیں امی کے سپرد کیں۔
’’دیکھو۔۔۔۔۔کسی چیز کی کمی نہ رہ جائے۔۔۔۔۔‘‘
اَمی کے چہرے سے بھی خوشی جھلک رہی تھی۔۔۔۔۔۔اور وہ ایک پل میں ہی سب کچھ سمجھ گئیں۔ یہ تیاریاں صرف اس لئے ہو رہی تھیں کہ آج پھر کوئی اسے دیکھنے آرہا تھا۔۔۔۔۔۔
پھر ایک بار سج سنوار کر نیچی نظریں کر کے بہت ساری چبھتی نگاہوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان چبھتی نظروں کا جوسیدھے دل پر وار کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔ہمیشہ ہی آنے والے لوگوں کی باتیں اس کے کانوں میں گونجتی رہتی تھیں۔۔۔۔۔کوئی کہتا رنگ سانولاہے۔۔۔۔ قد چھوٹا ہے۔۔۔ ناک موٹی ہے۔۔۔۔ بہت دبلی ہے۔۔۔۔۔اور جانے کیا کیا۔۔۔۔۔جیسے دکان سے کوئی چیز خریدی جارہو۔ پھر لڑکا کالاہو ،ناٹا ہو۔۔۔۔شرابی ہویاان پڑھ ہو۔ چاہے سو عیب ہوں۔۔۔۔۔۔لیکن لڑکی پڑھی لکھی اور خوبصورت ،گوری چاہئے ہوتی ہے۔ ان ساری باتوں سے اور ہر بار انکار سے نزہت کا معصوم دل جل کر خاک ہو جاتا۔
مگر اس کے والدین پر ان سب باتوں کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ وہ برابر اس کے لئے رشتے دیکھتے رہے۔اور ہمیشہ اسے سجا سنوار کر ان کے سامنے پیش کیاجاتا۔۔۔۔۔۔ لیکن ہر بار وہ ریجیکٹ کی جاتی رہی۔وہ اتنی بھی بد صورت نہیں تھی۔۔۔۔۔سانولے رنگ کی نمکین چہرے والی لڑکی تھی۔
وہ جانتی تھی کہ اس قدر نکتہ چینی کی وجہ کیا ہے۔۔۔۔اصل میں لوگوں کی نظریں گھر کر سامان پر ہوتیں۔۔۔۔گھر کیسا ہے۔۔۔۔۔فرنیچر کیسا ہے۔۔۔۔لگے ہوئے پردے کتنے مہنگے ہیں۔۔۔۔۔ لڑکی سے زیادہ ان سب چیزوں کو دیکھا جاتا۔۔۔۔۔۔ان سب سے وہ گھر کی مالی حالت کا اندازہ لگا لیتے۔ جب انہیں اپنے حساب سے کچھ نہ دکھائی دیتا تو لڑکی میں عیب گنا کر چلے جاتے۔ پھر امی ابو کے مایوس چہرے دیکھ کر اسے اور تکلیف ہوتی۔ نزہت سوچتی کہ کاش کہ اللہ تعالی غریبوں کے گھر بیٹیاں ہی نہ دیتا۔ یا پھر اتنی تو دولت دیتا کہ ان کے چہرے پر اپنی بیٹیوں کی وجہ سے مایوسی کے سائے نہ لہرائے۔۔۔۔۔ وہ اپنی بیٹیوں کی وجہ سے پریشان نہ ہوتے۔
نزہت اپنے تصورات میں گم تھی کہ امی نے اسے جوڑا تھماتے ہوئے کہا۔۔۔۔
’’بیٹی! اسے پہنو اور جلدی سے تیار ہو جائو۔۔۔۔۔ مہمان آتے ہوںگے۔‘‘
’’امی! آپ کب تک اس طرح کرتی رہیں گی۔۔۔۔۔ کب تک لوگوں کے سامنے میرا تماشہ ہوتا رہے گا۔۔۔۔۔دو چار دن میں کوئی نہ کوئی آتا ہے اور مجھے ٹھکرا کر چلا جاتا ہے۔۔۔۔ میں اب بالکل بھی نہیں جانا چاہتی کسی کے سامنے۔۔۔۔۔ایسا لگتا ہے جیسے میں دکان میں رکھی کوئی چیز ہوں۔۔۔۔۔نہیں امی!!!!! نہیں ہوتا مجھ سے اب۔۔۔۔۔۔میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔‘‘وہ روہانسی ہوگئی۔
’’ نزہت! بیٹیاں ماں باپ کے لئے بوجھ نہیں ہوتیں۔۔۔۔۔لیکن جب جوان لڑکی گھر میں ہو تو ماں باپ کی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے۔۔۔۔تم نہیں سمجھو گی۔۔۔۔ اور اللہ کی بہت عنایت ہے ہم پر کہ اس نے پانچ بیٹیوں سے نوازا ہے۔۔۔۔۔۔تم دیکھ رہی ہو تمہارے ابا کے کاندھے جھکے جارہیں ہیں۔۔۔۔۔۔بس تمہارا رشتہ کہیں ہوجائے تو تمہاری بہنوں کے لئے بھی رشتے دیکھے جائیں۔۔۔۔۔ ایک ایک کر کے سب کا بیاہ کرنا ہے۔ تمہارے لئے تھوڑا تھوڑا کر کے کچھ بنایا ہے۔۔۔۔۔ آگے بھی تو دیکھنا ہوگا تمہاری بہنوں کا۔۔۔۔۔۔ بیٹی ضد نہ کرو اور تیار ہو جائو۔۔۔۔۔ ‘‘
اَمی کی آواز میں بے پناہ درد تھا۔۔۔۔۔ان کے کہنے پر نہایت بے دلی سے تیار ہونے چلی گئی۔ ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ دو عورتیں گھر میں داخل ہوئیں۔۔۔۔۔وہ چھپ کر آنے والی عورتوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔بلانے پروہ چپ سے آکر بیٹھ گئی تھیں۔۔۔۔نہ اِدھر اْدھر کمرے میں نظر ڈالی نہ ہی اس کے بارے میں کچھ پوچھا۔۔۔۔۔نزہت کو بہت حیرت ہوئی۔ نزہت کو ان کے سامنے لایا گیا تو وہ انہیں ایک نظر میں پسند اگئی۔انہوں نے کہا کہ لڑکی ہمیں پسند ہے۔۔۔۔مگر جو بھی ہے صاف صاف بات کر لی جائے۔۔۔۔۔۔ ہمیں آپ لوگوں سے کچھ نہیں چاہئے۔۔۔۔۔ اللہ کا دیا بہت ہے۔۔۔۔۔ بہت بڑا بزنس، گاڑی، بنگلہ، نوکر چاکر۔۔۔۔۔۔ہمیں صرف ایک جوڑے میں لڑکی چاہئے۔ ہمارا بھائی ہاشم ہمار اکلوتا بھائی ہے۔جس کے لئے آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگ رہیں ہیں۔۔۔۔۔لیکن وہ پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس کی بیوی مر چکی ہے۔۔۔۔۔اس سے ایک بیٹی زیبا ہے۔۔۔۔۔اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو نزہت۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
امی ابا کے چہرے غصے سے لال ہوگئے۔۔۔۔۔۔ ایک لمحے کے لئے ساکت ہوگئے۔۔۔۔۔
’’بہن جی! ہماری لڑکی ہم پر بوجھ نہیں ہے کہ ہم اپنی معصوم بچی کا ہاتھ ایک بیٹی کے باپ کے ہاتھ میں دیں۔۔۔۔آپ اپنے بھائی کے لئے اور لڑکی تلاش کرلیں۔‘‘
نزہت کی آنکھوں کے سامنے اس کے امی ابو کا چہرہ گھومنے لگے جو اس کے رشتے کے لئے پریشان تھے۔۔۔۔ اس کے پیچھے اس کی چار بہنیں۔۔۔۔۔باپ کی اتنی کمائی نہ تھی کہ پانچ بیٹیوں کے جہیز جمع ہوتا۔۔۔۔۔ اس نے سوچا اگر میری شادی اس گھر میں ہو جائے تو امی ابا کی بہت ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔۔۔۔۔ اور میں اپنے ماں باپ کی مدد بھی کر پائوں گی۔۔۔۔۔اس نے سوچا اگر میری ایک قربانی سے گھر کے حالات سنبھل جائیں تو کیا برا ہے۔ اور نزہت نے اپنا فیصلہ سنادیا۔
’’امی ابا! میں اس رشتے کے لئے تیار ہوں۔ ‘‘
نزہت کے ماں باپ نے جب یہ فیصلہ سنا تو خاموش ہوگئے۔اس طرح وہ بڑی سادگی کے ساتھ نکاح کر کے ہاشم کی دلہن بن کر ہاشم کے بنگلے میں پہنچ گئی۔ہاشم کی بیٹی کو جب اس نے دیکھا تو وہ اسے بہت اچھی لگی۔۔۔۔بہت ہی پیاری اور معصوم تھی۔۔۔۔۔اس نے اسے پیار کرنا چاہا مگر وہ پیچھے ہٹ گئی۔
’’ مجھے ہاتھ مت لگانا۔۔۔‘‘
’’کیوں ہاتھ نہ لگائوں ؟‘‘
’’کیونکہ تم سوتیلی ماں ہو۔۔۔۔۔تم مجھے مارتی رہوگی۔۔۔۔۔پاپا سے میری شکایت کروگی۔۔۔۔۔ میرے پاپا کو مجھ سے چھین لوگی۔۔۔۔۔اور مجھے رلاتی رہوگی۔ مجھ سے کام کراتی رہوگی۔۔۔۔۔ کھانا بھی نہیں دوگی۔اور روز پاپا سے میری شکایت کروگی۔‘‘
اس نے آگے بڑھ کر اس کے نرم گلابی رخساروں کو تھپتھپایا۔۔۔۔۔
’’میری گڑیا رانی !یہ سب تم سے کس نے کہا۔۔۔۔۔۔میں سوتیلی ضرور ہوں لیکن تمہاری ماں ہوں۔۔۔۔۔صرف ماں۔۔۔۔تم کو بہت پیار کروں گی۔‘‘
’’ سچی!!! ‘‘زیبا نے پوچھا۔۔۔۔۔’’تم مجھے پیار کروگی۔۔۔۔۔تو کیا میری سہیلی جھوٹ بول رہی تھی؟‘‘
’’کون سہیلی؟؟؟؟کیا کہہ رہی تھی؟ ‘‘
’’ کہ میرے پاپا اب میرے نہیں رہیں گے۔۔۔۔وہ پیار بھی نہیں کریں گے۔ سوتیلی ماں مجھے بہت مارے گی۔۔۔بالکل پیار نہیں کرے گی۔۔۔۔لیکن تم تو بہت اچھی ہو۔۔۔۔ مجھے بہت پیار کروگی نا ماں!! ‘‘
’’ ماں! ‘‘اس لفظ میں نزہت نے بے پناہ مٹھاس محسوس کی تھی۔۔۔۔۔
’’ہاں میری بچی۔۔۔۔۔‘‘اس نے زیبا کو اپنے آپ سے ایسے لپٹایا کہ پھر کبھی جدا کیا ہی نہیں۔ لوگ نزہت کی ممتا اورشفقت کی مثالیں دیا کرتے تھے۔زیبا کوبھی اپنی ماں کا اتنا ہی خیال رہتا ہے۔۔۔۔۔۔وہ ہر جگہ نزہت کی تعریف کرتی۔۔۔۔۔
وقت پر لگا کر اڑتا رہا۔ کئی موسم آئے۔۔۔۔۔ کتنی رْتیں بدلی۔۔۔۔۔۔ زیبا اب ایک باشعور اور خوبصورت لڑکی تھی۔۔۔۔اپنے دونوں بچوں کے ساتھ نزہت کی زیادہ توجہ زیبا کے لیے مخصوص تھی۔۔۔۔وہ اسے بے حد چاہتی تھی۔۔۔۔جب کبھی لوگ سوتیلے رشتے کے لیے کچھ کہتے تو زیبا اس بحث میں حصہ لیتی اور اپنی ماں کی دل کھول کر تعریف کرتی۔
ایک دن باتوں ہی باتوں میں زیبا کی دوست نے کہا۔۔۔۔۔
’’چلو مان لیا تمہاری ماں سوتیلی ہونے کے باوجود ایک مثالی ماں ہے۔ ان کی عظمت ہے کہ انہوں نے تمہیں بچپن سے لے کر آج تک کبھی احساس نہیں ہونے دیا۔۔۔۔ یہاں تک کہ اپنے بچوں سے بھی زیادہ تم کو پیار کیا۔۔۔۔دنیا میں ایسی ماں بہت کم ہوتی ہیں۔۔۔۔۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان سوتیلے رشتے پر سگے رشتے کو ترجیج دیتا ہے۔۔۔۔۔۔کہنا تو بہت آسان ہوتا ہے مگر کرنا بہت مشکل۔۔۔۔واقعی تم بہت خوش قسمت ہو۔ایک بات کہوں زیبا۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں کہو ماریہ۔۔۔۔۔‘‘
’’خدانخواستہ اگر کبھی تم خود تمہاری ماں جیسی صورتِ حال میں پہنچو تو کیااتنا بڑا دل کر سکتی ہو کہ سوتیلے بچے کے لئے اپنی خوشیاں قربان کردو اور اپنے بچوں سے بھی زیادہ سوتیلے بچے کو پیار کرو۔۔۔۔ نہیں نا۔۔۔۔؟ ‘‘
اور ایک زور دار قہقہہ فضا میں بکھر گیا جو ساری سہیلیوں نے مل کر لگایا تھا۔
دن ،ہفتے، مہینے یوں ہی گزرتے رہے۔۔۔۔ زیبا کی پڑھائی ختم ہو چکی تھی۔۔۔۔اچانک سے ایک دن زیبا کے خالہ زاد بھائی جاوید ان کے گھر آئے۔۔۔۔۔ان کی بیوی کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوا تھا۔۔۔۔ ان کا ایک دو سال کا بیٹا تھا۔۔جس کا نام عارف تھا۔۔۔۔۔جاوید بھائی کے چہرے پر ہمیشہ اداسی رہتی۔۔۔۔۔جیسے تیسے آفس جاتے۔۔۔۔عارف کی دیکھ بھال بھی ان کے ہی ذمے تھی۔۔۔اور بچے کی دیکھ بھال بہت بڑا مسئلہ تھا۔۔۔۔رشتے دار شادی کے لئے اصرار کر رہے تھے۔۔۔۔ مگر جاوید بھائی بچے پر سوتیلی ماںکا سایہ نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ اس لئے شادی کے مشورے کو ہر بار ٹال دیتے۔ وہ کچھ دن کی چھٹیاں لے کر یہاں آئے تھے۔
موسم بہار کی ایک خوبصورت سنہری شام تھی۔۔۔۔جب سارے جہاں پر سورج اپنا سونا لٹا کر کہیں دور وادیوں کے پیچھے چھپ رہا تھا۔۔۔۔۔جاوید گیلری میں کھڑے ہوکر ڈوبتے سورج کا نظارہ دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ زیبا چپکے سے ان کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔۔۔ اس نے عارف کو گود میں اٹھا لیا۔۔۔۔معصوم سا عارف اسے بہت پسند ایا۔۔۔۔۔زیبا نے اسے گود میں اٹھا کر پیار کیا۔۔۔۔۔ کچھ لمحے یوں ہی چپ چاپ گزر گئے۔
’’آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے۔۔۔؟‘‘
جاوید مسکرائے۔۔۔۔۔ ’’ عارف کے بارے میں بھی سوچنا ہے۔۔۔۔۔۔ میں شادی تو کرلوں پر دوسری بیوی کیا اسے ماں کا پیار دے سکتی ہے؟‘‘
’’ ایسا سوچنا غلط ہے۔۔۔۔کیا سوتیلی ماں پیار نہیں کر سکتی۔۔۔؟ اب امی کو ہی دیکھ لیں۔۔۔ انہوں نے مجھے ماں سے بڑھ کر پیار کیا۔۔۔۔۔میری امی اور آپ کی خالہ کے انتقال کے بعد۔۔۔۔۔میری اس سوتیلی ماں نے مجھے جو پیار دیا وہ شاید میری سگی ماں ہوتی تو وہ بھی نہ کرتی۔۔۔۔۔‘‘
زیبا اپنی بات کہتی رہی۔۔۔۔۔پھرجاوید نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
’’اس کے لئے بہت بڑا دل چاہیے۔۔۔۔ قربانی کا جذبہ چاہیے۔۔۔۔۔ وہ اور ہی لوگ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جو دوسروں کے لئے اپنی خوشیاں قربان کر دیتے ہیں۔۔۔‘‘
جاوید نے اس کے شانوں پر اپنے مضبوط ہاتھ رکھ دیئے۔
’’زیبا!!!! کیا تم عارف ذمہ داری کو نبھا سکتی ہو۔۔۔۔۔ ؟‘‘
زیبا حیرت سے جاوید کو تکتی رہ گئی۔۔۔ اس نے تو ایسا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔۔ اس کے اپنے ارمان تھے۔۔۔۔۔ بے شمار خواہشیں تھیں۔۔۔۔۔ایک ہینڈ سم خوبصورت نوجوان اس کا آئیڈیل تھا۔۔۔۔۔۔یہ سب چھوڑ کر ایک سنجیدہ اور شادی شدہ انسان کو اپنا جیون ساتھی بنانے کی بات تو اس نے کبھی سوچی بھی نہیں تھی۔جاوید نے ایک پل کے لئے اسے غور سے دیکھا۔۔۔۔۔ اور زور دار قہقہہ مار کر ہنس دیا۔ زیبا کو یوں محسوس ہوا جیسے ایک قہقہے میں بہت سارے قہقہے شامل ہوں۔۔۔۔ بہت سارے قہقہے جو اس کا مذاق اڑا رہے ہوں۔۔۔۔۔ اسے لگا جیسے در و دیوار بھی اس پر ہنس رہے ہیں۔ وہ گھبرا گئی۔۔۔۔۔ مگر جاوید کی بات سیدھی اس کے دل میں اتر گئی۔۔۔۔۔ اچانک اس کے دل میں ایک کلی سی کھلی اوراس نے شدتِ جذبات سے عارف کو گلے لگا لیا۔۔۔۔ کمرے کے پر سکون ماحول میں ایک سرگوشی ابھری۔۔۔
’’مجھے عارف کی ماں بننا منظور ہے۔‘‘
اور پھر جاوید کی بانہوں کا حلقہ اس کے گرد تنگ ہوتا چلا گیا۔۔۔۔زیبا بالکل خاموش تھی۔۔۔۔۔ ایک دم پر سکون۔۔۔۔۔جاوید نے پوچھا۔۔۔۔۔’’ کیا سوچ رہی ہو؟ ‘‘
وہ خواب ناک لہجے میں بولی۔۔۔’’میں اْن جذبوں کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔۔۔۔ جو انمول اور جاوداں ہوتے ہیں۔۔۔جو روح کی گہرائیوں میں بستے ہیں۔۔۔۔ذہن میں پرورش پاتے ہیں۔۔۔۔ اور جو دل کے کسی کونے میں پوشیدہ رہتے ہیں۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔اور میں اِن لمحات کو منجمد کرنے کی سوچ رہی ہوں۔‘‘
نزہت کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے اس رشتے کی مخالفت کی۔۔۔۔۔ زیبا کو بہت سمجھایا۔۔۔۔۔لیکن زیبا ہمت کرکے کہہ اٹھی۔۔۔
’’امی!!! آپ نے بھی تو اتنے سالوں سے مجھے سنبھالا ہے۔۔۔ بے پناہ پیار دیا ہے۔۔۔۔ سوتیلی ماں ہوتے ہوئے بھی کسی چیز کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں لوگ سوتیلے بچوں سے نفرت نہ کریں۔۔۔۔ انہیں اپنا سمجھیں۔۔۔۔۔ انہیں اپنے سگے بچوں جیسا پیار دیں۔۔۔۔۔ اور اس کے لئے قربانی کی ضرورت تو ہوتی ہے نا!!! ایک دن آپ نے بھی تو ایسی ہی قربانی دے کر مجھے اپنے دامن میں چھپا لیا تھا۔‘‘
’’زیبا!!!! وہ میری مجبوری تھی۔۔۔۔۔ مجھے اپنی بہنوں کی خاطر قربانی دینی پڑی۔۔۔۔۔ تم یہ سب کیوں کر رہی ہو؟‘‘
’’امی!!! کچھ مجبوری نہیں۔بس مجھے آپ کے نقشِ قدم پر چلنے دیں۔‘‘
نزہت بھلا اب کیا جواب دے سکتی تھی۔۔۔۔۔ اسے تو صرف زیبا کی خوشی عزیز تھی۔
لال جوڑے میں سجی ہوئی ،پھولوں کی خوشبو میں لپٹی ہوئی۔۔۔۔۔ زیبا دلہن بن کر جاوید کے گھر آگئی۔۔۔۔۔۔ دن ہنسی خوشی گزرنے لگے۔۔۔۔۔عارف زیبا کی والہانہ محبت سے اس کا اسیر ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔ اسی طرح وقت گزرتا گیا۔۔۔۔۔۔۔پھر ان کے آنگن میں ایک اور ننھے منے بچے کی کلکاریاں گونجنے لگیں۔۔۔۔۔اس کا نام عابد رکھا گیا۔ اب زیبا کی ذمہ داریاں بھی بڑھنے لگیں۔۔۔ دونوں کو سنبھالنا پڑتا۔۔۔ مگر اس نے عارف اور عابد میں کبھی فرق نہیں محسوس ہونے دیا۔۔۔۔ لوگ اب زیبا کیقصے سناتے تھے۔۔۔۔۔ اسے بڑا فخر محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔ دونوں بچے کانونٹ اسکول میں پڑھتے تھے۔۔۔۔ جو شہر کا سب سے بڑا اسکول مانا جاتا۔۔۔۔۔۔زیبا کہتی۔۔۔۔ میرا عارف وکیل بنے گا۔جاوید اسے چڑاتے۔۔۔۔۔ دیکھ لینا میرا عابد ڈاکٹر بن کر وکیل صاحب کی چھٹی کر دے گا۔۔۔۔۔زیبا عابد سے زیادہ عارف سے پیار کرتی تھی۔۔۔۔دونوں بچے ساتھ اسکول جاتے۔۔۔۔۔ساتھ کھیلتے۔۔۔۔۔ ساتھ کھاتے۔۔۔۔کبھی دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوا۔
وقت کبھی رکتا ہے جو رکے گا۔۔۔۔وقت بہت تیزی سے گزر رہا تھا۔۔۔۔ کہ اچانک ایک طوفان آگیا۔۔۔۔۔اور اپنے ساتھ ساری خوشیاں بہا لے گیا۔ جاوید کا آفس سے لوٹتے وقت اچانک
ایکسیڈنٹ ہوگیا اور وہ جگہ پر ہی اپنے مالکِ حقیقتی سے جا ملے۔۔۔۔۔۔زیبا کی دنیا اندھیری ہوچکی تھی۔۔۔۔۔کئی دنوں تک تو اسے اپنا بھی ہوش نہیں تھا۔چپ چاپ سی ہوگئی۔۔زندگی کوئی ہموار سڑک نہیں ہے جو انسان اس پر یکساں رفتار سے چلتا رہے۔۔۔۔۔۔ اس میں کئی خطرناک نشیب و فراز بھی آتے ہیں۔۔۔۔اور کئی ناگریز حادثے بھی۔۔۔۔ لیکن کوئی حادثہ، کوئی غم، کوئی صدمہ۔۔۔۔ ایسا دل شکن بھی نہیں ہونا چاہیے کہ آدمی مایوس ہو کر بیٹھ جائے۔۔۔۔۔۔ حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں۔۔۔ ان کا دامن تھام کر رہ جانا کوئی دانشمندی تو نہیں۔
وقت ہر قسم کے زخموں کا بہترین مرہم ہوتا ہے۔۔۔۔ دھیرے دھیرے زیبا بھی نارمل ہو گئی۔۔۔۔ تو اسے بہت ساری ضرورتوں کی فکر ہونے لگی۔۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ مرد عورت کی زندگی میں سائبان کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔۔جس کے سایہ تلے عورت خود کو محفوظ سمجھتی ہے۔۔۔۔۔ اور خود کو ہر فکر سے آزاد بھی سمجھتی ہے۔ بینک میں مسلسل گھٹتے ہوئے بیلنس نے زیبا کو بد حواس کر دیا۔۔۔۔۔ روپیہ انسان کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے زیبا کو اسکول میں سروس کرنی پڑی۔ پھر بھی گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے اس کی تنخواہ نا کافی ہو رہی تھی۔ گھر کا خرچ۔۔۔۔۔ بجلی کا بل۔۔۔۔۔ دونوں بچے کانونٹ اسکول میں پڑھتے تھے ،ان کی فیس۔۔۔۔۔۔کئی سارے اخراجات اس نے کم کر دیئے پھر بھی یہ سارے اخراجات اس کی محدود تنخواہ میں پورے نہیں ہو پا رہے تھے۔۔۔۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا اور کونسا خرچہ گھٹائے۔۔۔۔۔جو تھے وہ سب چیزیں ضروری تھی۔ مگر اسے اخراجات میں سے کچھ نہ کچھ کم کرنا ہی تھا۔۔۔۔۔یہ سوچتے سوچتے کئی ہفتے گذر گئے۔۔۔۔ اور پھر ہمیشہ فخر سے بلند رہنے والاسر ندامت سے جھک گیا۔۔۔۔۔۔اپنی سہیلیوں کی طرف سے دیئے گئے چیلنج کو وہ ہار گئی۔پہلی بار عارف اس کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا تھا۔۔۔۔۔عارف کو اس نے کانونٹ اسکول سے نکال کر محلے کے سرکاری اسکول میں داخل کرا دیا۔
ایڈیٹر رسالہ غزلوں کا سفر
ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال اسٹار نیوز ٹیلی ویڑن
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا