ابراہیم آ تش
گلبرگہ کرناٹک
ساری دنیا میں مسلمانوں پرجس طرح ظلم ڈھایا جا رہا ہے اس کے باوجود اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے مسلمان طاقتور ہیں تو پھر اسے دنیا کے حالات کا علم نہیں ہے آج دنیا میں مسلمان قوم جتنی کمزور ہوئی ہے شاید اس سے پہلے اتنی کمزور نہیں ہوئی عراق,افغانستان, شام ,لیبیا,فلسطین,کوسوو,بوسینیا,اور میانمار میںلاکھوں مسلمان قتل کر دئے گئے اسلامی تاریخ کا سب سے بدترین دو ر کہا جا سکتا ہے اور اس سے پہلے شاید عالم اسلام اتنا کمزور نہیں ہوا ہوگا ملک شام سے لاکھوں مسلمانوں کا دوسرے ممالک کو ہجرت کرنا یہ بھی انسانی تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے اس سے پہلے جب کہیں مسلمانوں پر ظلم ہوتا تو مسلمانوں کو یہ امید ہوتی تھی عرب ممالک ان کی مدد کریں گے مگر آج عرب ممالک ہی سب سے زیادہ مصیبت زدہ ہیں جب ان ممالک کا یہ حال ہے تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیںجن ممالک میں مسلمان اقلیت ہیں ہیںوہاں ان پر کس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہوگا چین کے صوبے الغور میں مسلمانوں پر کئی برسوں سے ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیںاور میانمار میں تو ظلم کی انتہا ہم سب نے دیکھی انسانی آنکھیں ان مظالم کو دیکھ نہیں سکتیں مسلمان اس بات کو مان لے مسلمان آج دنیا میں تمام قوموں سے کمزور قوم بن چکی ہے جو ایسا نہ سمجھے وہ خود بھی دھوکہ کھا رہا ہے اور دوسروں کو بھی دھوکہ دے رہا ہے مسلمانوں کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ وہ اپنی آواز بھی نہیں اٹھا سکتا اگر اس نے عالمی سطح پر ہیومن رائٹ یا ایمنسٹی انٹر نیشنل یا یو ین او سے مداخلت کی کوشش کی نو اس پر ملک سے غداری اور بغاوت کا الزام لگا دیا جاتا ہے یہ ایک ملک کے مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے تمام دنیا کے مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہئے آج ہمیں علم کی ضرورت ہے اور علم کے ذریعہ ہی دوسری قوموں پر غلبہ حاصل کیا جا سکتا ہے جس طرح اسلام کی شروعات میں مسلمانوں نے علم کو مضبوطی سے تھاما تھا مسلمانوں کی ایجادات سے دنیا کے لوگوں کو فائدہ پہنچا تھا دنیا کے ہر شعبے میں مسلمان آگے تھے اس لئے وہ دنیا پر غالب آئے جب مسلمانوں نے سائنس کو چھوڑ دیا تو ایجادات بھی چھوٹ گئیں دوسری قومیں آگے بڑھتی گئیں اور رفتہ رفتہ ہم پر غالب ہوگئیں خلیفہ ثانی عمر فاروق ؓ 638 میں فاتحانہ طور پر یروشلم میں داخل ہوئے تھے اس کے بعد فلسطین مسلمانوں کے قبضہ میں رہا بارہویں صدی میں دوبارہ مسیحوں نے قبضہ کر لیا جو 88 سال تک ان کے پاس رہا اس قبضہ کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187 میں ختم کیا بظاہر یہ کامیابی ایک دن کی جنگ مطین میں حاصل ہوئی 2 جولائی 1187 کی کامیابی جوش کی نہیںتھی بلکہ تیاری کا نتیجہ تھی اس ایک دن کی فتح کے لئے سلطان صلاح الدین کئی سال تک غیر معمولی محنت کرتے رہے یہاں تک کہ ان فوجی طاقت لاطینی صلیبیوں کے برابر ہوگئی تھی مورخین نے اعتراف کیا ہے مسلمانوں نے جب فرینک کے قبضہ سے واپس لیا توانھوں نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ نہایت شرافت کا معاملہ کیا مسیحوں نے جب یروشلم پر قبضہ کیا تھا جب وہاں کے باشندوں کے ساتھ وحشیانہ طور پر قتل عام کیا تھا اور آزادانہ طور پر لوگوں کا خون بہایا تھا سلطان صلا ح الدین ایوبی نے بیت لمقدس کس طرح حاصل کیا اور کتنی محنت کرنی پڑ ی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوگا ہماری قیادت اور رہنمائوں کے بارے میں بھی کچھ جا نیے اگسٹ 1969 میں یروشلم میں آتش زنی کا واقعہ پیش آیا تھا اس کے بعد ساری دنیا میں مسلمانوں کی طرف سے اس کے خلاف احتجاج کیا گیا ایک احتجاج کی مثال بڑی عجیب ہے 29 اگسٹ کی شام کو ایک ہی تاریخ ایک ہی مقصد کے لئے مسلمانوں کے دو الگ الگ جلسے کئے گئے دونوں کا مقام دہلی کی جامع مسجد کے قریب آزاد پارک تھا ایک جلسہ شام کو پانچ بجے تھا اور دو سرا جلسہ شب ساڑھے نو بجے تھا دونوں جلسوں میں اپنے اپنے حلقہ کے لوگ تھے دونوں جلسوں میں اسرائیل کے خلاف پر جوش تقریریں ہوئیں جس کا مختصر خلاصہ یہ تھا اے عربو متحد ہو کر اسرائیل کا مقابلہ کرو اس قسم کا احتجاج یا اس قسم کا جلسہ کس کام کا جہاں احتجاج کرنے والے ہی متحد نہیں ہیں اور نہ ہی اس کا احساس ہے اور نہ اس قسم کے جلسوں میں شریک ہونے والوں کو احساس ہے اور دوسروں کو متحد ہونے کی بات کر رہے ہیںجب تک ہم میں اتحاد نہیں ہوتا جب تک ہم اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا نہیں کرتے او جب تک ہم سامنے والی قوم کا مقابلہ کرنے کی طاقت پیدا نہیں کرتے تب تک اللہ تعالی کی مدد و نصرت ہمیں ملنے والی نہیں ہے آج دنیا میںمسلمانوں کے تقریبا تمام حلقوں میں یہ بات کہی جاتی ہے مسلمان دنیا کی تمام قوموں میں افضل اور برتر ہے جب ہم افضل اور برتر ہیں تو دنیا میں مسلمان اس قدر ذلیل کیوں ہو رہے ہیں دنیا کے ہر خطے میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے نسل کشی کی جا رہی ہے کیا یہ ان لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ہے جو اب بھی یہ کہتے ہیں مسلمانوں سے کوئی ٹکر نہیں لے سکتاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان آج دنیا میں سب سے کمزور قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی گذار رہے ہیں مگر اس بات کو دنیا میںزیادہ تر مسلمان قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں وہی پرانے مسلمان حکمرانوں اور بادشاہوں کو یاد کر کے اپنے آپ کو بہادر قوم سمجھ رہے ہیں مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈر , قائد اور دانشور یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں ہیں کہ وہ بنیادی وجہ کیا ہے جو مسلمان ہر طرف ظلم کا شکار ہو رہے ہیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا کا 90 فیصد علاقہ مسلمانوں نے پہلے چار پانچ صدیوںمیں فتح کر لیا تھا اس کے بعد مسلمانوں نے ہزار سالوں تک اپنے کو فتح کرتے رہے آپس میں لڑتے رہے اغیار کو فتح کرنا ان کے لئے مشکل ہو گیا علم فلسفہ سائنس ایجادات کی 90فیصدتاریخ بھی ان ابتدائی چار پانچ سو سالوں کی ہی ہے اس کے بعد ہزار سال تک مسلمانوں نے جنگوں کے سوا کچھ نہیں کیا آج افغانستان,عراق,شام,لیبیا اور پاکستان میں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں مسلمان مسلمان کو فتح کر رہا ہے عالم اسلام ہزار سال سے کوئی چیز تیار نہیں کر سکے معمولی سائیکل, کٹر اور پنسل ہم دوسری قوموں کے بنائے ہوئے استعمال کرتے ہیں اغیار کے ساو نڈ سسٹم پر اذان دے کر اور لا دینوں کے جائے نمازپر سجدہ کر کے ہم کافروں اورلادینوں کی بربادی کی دعا کرتے ہیں یہودیوں کی ادویات کھاتے ہیںہمیں کوئی شرم نہیں آتی نصرانیوں کا گولہ بارود استعمال کرتے ہیں ہمار سر شرم سے نہیں جھک جاتا اورہم اسلام کے غلبہ کے خواب دیکھتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے پچھلے پانچ سو سالوں میں مسلمان اسلام دشمن قوتوں کے خلاف کوئی بڑی جنگ نہیں جیت سکے پانچ صدیوں سے صرف ہم مار کھا رہے ہیں پہلی جنگ عظیم سے پہلے پورا عرب ایک تھا یورپ نے بارہ ملکوں میں تقسیم کیا اور دنیا کی بہادر فوم دیکھتی رہ گئی ہم اگر جنگجو تھے یا ہمیں جنگجو ہی بننا تھا تو کم سے کم دنیا میں سب پر بھاری پڑ گئے ہوتے جنگوں میں پرفیکٹ ہوگئے ہوتے اور دنیا کے ہر ہھتیار پر میک بائی مسلم کی مہر لگ گئی ہوتی اور دنیا کی بہادر ترین فوج تیار کر لئے ہوتے اگر ایسا کرتے تو آج اس طرح مار نہیں کھا رہے ہوتے ہماری تعلیم کا یہ حال ہے جو قوم اپنے آپ کو تعلیم یافتہ کہتی ہے دنیا کی ٹاپ 100 یونیورسٹیوں میںکسی ایک بھی اسلامی دنیا کی یونیورسٹی کا نام نہیں ہے اور ہمارے ملک میں سچر کمیٹی نے ہماری اصلیت کھول کر رکھ دی پوری اسلامی دنیا کی ریسرچ صرف امریکہ کے ایک شہربوسٹن کی ریسرچ کا ایک فیصد بھی نہیں ہے یہ بات تو آپ سب جانتے ہیں پوری دنیا کے مسلمان اپنے علاج کے لئے امریکہ اور یورپ جاتے ہیں مسلمان گذرے پانچ سو سالوں میں کوئی فلسفہ کوئی اچھا کھیل کوئی اچھی کتاب دنیا کو نہیں دے سکے ہم نے پانچ سو سالوں میںقرآن مجید کی اشاعت کے لئے سیاہی اور کاغذ اور پرنٹنگ مشین بنائی ہوتی تو ہماری عزت رہ جاتی مگر یہ بھی اغیار نے ہی بنائی ہے خانہ کعبہ کا غلاف بھی اٹلی سے تیار ہو کر آتا ہے ہم حرمین شریف کے ساونذ سسٹم بھی یہودیوں سے خریدتے ہیںآب زم زم بھی غیر ملکی کمپنیاں نکالتی ہیں انسانوں کی بھلائی اور فائدے کی تمام چیزیںدوسری قوموں کی ایجاد کردہ ہیں اور ہم استعمال کر رہے ہیں جس دن یورپ اور امریکہ اسلامی ملکوں کو موٹر گاڑیاں اور ہوائی جہازاور کمپیوٹر دینا بند کر دیں گے وہاں کی عوام گھروں سے باہرنہیں نکل سکیں گے یہ ہماری حقیقت آپ ان نوجوانوں کے نعرے سن لیں جو دسویں کا امتحان پاس نہیں کر سکا جسے پیش لگانا بھی نہیں آتا اور اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتا اپنے والد کی مزدوری کے بغیر ان کے گھر کا چولہا نہیں جلتا ان کے نعرے ہوں گے پوری دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرایا جائے اور اغیار کو نیست نابود کرنا چاہتے ہیںان علماء کرام کی تقریریں بھی سن لیںجو اپنے مائک کی تار ٹھیک نہیں کر سکتے دنیا پر غالب آنے کی بات کرتے ہیں مسلمان ابھی تک اپنے استنجا خانے صاف رکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے آج تک ابن کیمیہ , غالیاور روم سے آگے نہیں بڑھ سکے ابن ہشام اور ابن اسحاق بھی ہم کو آکسفورڈکے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں جس طرح ہم جذباتی لوگوں کی تقریریں سنتے ہیں ان تقریروں سے ایسے لگتا ہے اب اگر مسلمان جاگ جائیں تو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیں گے در حقیقت یہ سب صرف نوجوانوں اور معصوم مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے ہمارے ملک میں ہم نے اس طرح کی تقریریں سنی ہیں عراق پر حملے سے پہلے کی جاتی تھیں عراق پر حملہ ہوا تو ہندوستان سے مسلمان عراق پہنچ جائیں گے یہ بات 1990 کی تھی اور لوگوں کو امید تھی ہو سکتا ہو ویسا ہو مگر آج کے ماحول میں اس طرح کی بات نہ کہی جا سکتی ہے اور نہ کوئی یقین کرے گا آج کے ماحول میں اگر کوئی بات کرے گا تو طالبان یا داعش کے ساتھ تعلق کے شبہ میں گرفتار کر لیا جائے گا اس وقت مسلمانوں کو تقاریر کرنے کی کچھ حد تک آزادی تھی بابری مسجد کی شہادت سے پہلے تقریبا لوگوں کو یہی یقین تھا بابری مسجد شہید نہیں ہوگی اگر شہید کر دی گئی تو عرب ممالک ہندوستان کو پٹرول نہیں دیں گے یہ سب قیاس ثابت ہوا ہماری لیڈرشپ مسلمانوں کو گمراہ کر رہی ہے اس طرح کا ذہن صرف ہمارے ملک میں نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس طرح دیکھنے کو ملتا ہے مصر کے فوجی جمال عبدالناصراور دوسرے لوگ کہتے تھے عرب اسرائیل کو سمندر میں پھینک دیں گے اس کے بعد کر نل معمرقذافی ایٹم بم خرید کر اسرایئل کے اوپر گرا کر ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتے تھے شاید کوئی بازار میں ملنی والی چیز ہوتی تو وہ ضرور خریدتے انھیں کسی نے ایٹم بم نہیں دیا اور کرنل معمر قذافی خود بم کا شکار ہوگئے دنیا کے مسلمان آج بھی اپنے آپ کوطاقتور قوم سمجھتے ہیں جبکہ سچائی یہ ہے آج دنیا میں تمام قوموں میں سب سے کمزور قوم بن چکی ہے ہمارے ملک کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں موجودہ دور میں ایک مثال کافی ہے یہاں مسلمانوں کی قیمت جانورں سے سستی ہے دنیا کے بیشتر ممالک میں مسلمان دوسری قوموں کے رحم و کرم پر زندہ ہیںاس کے باوجود بھی مسلمان کو فخر ہے اپنے برتر ہونے کا یہ کس بنا پر اپنی برتری سمجھتے ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آتایہاں یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ مذہب اور قوم الگ الگ ہیں اسلام تمام مذاہب میں برتر ہے مگر اس کے ماننے والے برتر نہیں ہیںپچھلے ہزار سالوں میں مسلمانوں نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا جس کی تعریف کی جائے جس کی بنا کہا جائے یہ برتر قوم ہے اس کے باوجود مسلمان دوسروں کو حقارت سے دیکھتے ہیںاس سوچ سے مسلمانوں کو باہر نکلنا ہوگا اور یہی سوچ مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روک رہی ہے آج کا مسلمان جھوٹی شان اور گھمنڈ میں مبتلا ہے اگر اسے سچائی دکھائی جائے تو وہ قبول نہیں کرے گا بلکہ اس کا مخالف بن جائے گا حتی کے اسے معاشرے میں ذلیل بھی کرنے سے باز نہیں آئے گا نئی ریسرچ اور تحقیق تو چھوڑیے آج مسلمانوں کے پاس جو قیمتی سرمایہ ہے وہی اگر لوگوں میں پہنچاتے تو ان کی نجات ہو سکتی تھی اور ہوسکتی ہے جو ذمہ داری ان پر عائد کی گئی ہے د عوت دین کی ذمہ داری ہر اس فرد پر عائد ہوتی ہے جس نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا ہے آج مسلمانوں میں جدید تعلیم کی طرف آگے بڑھنے کے لئے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور لوگوں میں بیداری لانے کی ضرورت ہے
٭٭٭