مونیکا
لنکرنسر، راجستھان
ملک کی ترقی میں جن سیکٹروں کا سب سے اہم رول ہے ان میں سڑک بھی ایک اہم ستون ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جس علاقے یا گاؤں میں سڑکیں ٹوٹی پھوٹی اور خستہ حال ہوں وہاں ترقی کا تصور ہی ادھورا رہے گا۔ یعنی جس علاقے یا گاؤں میں سڑکوں کی حالت اچھی نہیں ہے وہاں ترقی کی رفتار دیگر علاقوں کے مقابلے سست ہوگی۔ سرمایہ کاری، جسے معیشت کی سب سے بڑی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے، اس ترقی یافتہ سڑک پر منحصر ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مرکزی اور تمام ریاستی حکومتوں نے اس پر خصوصی توجہ دی ہے۔قومی شاہراہوں کے ساتھ ساتھ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت گاؤں کی سڑکوں کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے۔ لیکن راجستھان کے راج پورہ ہڈان گاؤں جیسے ملک کے بہت سے دور دراز دیہی علاقے ہیں جو سڑکوں کی خراب حالت کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں ابھی بھی پیچھے ہیں۔اس حوالے سے 45 سالہ تیوارام کا کہنا ہے کہ کچی سڑک کی وجہ سے راج پورہ ہڈان میں ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ریاستی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی کوئی بس گاؤں نہیں آتی ہے۔ ضلع ہیڈکوارٹر یا کسی اور شہر جانے کے لیے لوگوں کو گاؤں سے تین کلومیٹر دور مین روڈ پر پیدل جانا پڑتا ہے۔ سڑک اتنی کچی اور دھول سے بھری ہوئی ہے کہ اگر کوئی پرائیویٹ گاڑی گاؤں میں آتی ہے تو آس پاس کا سارا علاقہ دھول سے بھر جاتا ہے۔ بارش کا موسم ابھی شروع ہوا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس سڑک کی کیا حالت ہو گی؟ تیوارام کا کہنا ہے کہ کچی سڑکوں کی وجہ سے نہ صرف گاؤں کی معاشی ترقی ہی نہیں رک گئی ہے بلکہ یہاں کا سماجی ماحول بھی متاثر ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی لڑکوں کے رشتے اس خستہ حال سڑک کی بنیاد پر ٹوٹ گئے۔ لڑکی کے والدین یہ کہہ کر رشتہ توڑ دیتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو اس گاؤں میں کہیں بھی جانے میں تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بارش کے موسم میں راج پورہ ہڈان کا دیگر علاقوں سے رابطہ تقریباً منقطع ہو جاتا ہے کیونکہ اس دوران کوئی بھی گاڑی کا مالک یہاں آنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ یہاں کئی مکانات پکے تو بن گئے لیکن سڑک ابھی تک کچی ہی رہ گئی۔
راج پورہ ہڈان ضلع بیکانیر سے 90 کلومیٹر اور بلاک لنکرنسر سے 18 کلومیٹر دور ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اس گاؤں کی آبادی تقریباً 1863 ہے۔ اس درج فہرست ذات کی اکثریت والے گاؤں کے زیادہ تر مردزراعت یا بیکانیر اور اس کے آس پاس کے شہروں میں یومیہ مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ جس کے لیے انہیں روزانہ بس پکڑنی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے 35 سالہ راجکنور کا کہنا ہے کہ انہیں کام کے لیے روزانہ بس پکڑنی پڑتی ہے۔ جو پچھلے گاؤں سے چلتی ہے۔ وہ بس ہمیشہ مسافروں سے بھری رہتی ہے۔ جب وہ بس کنڈکٹر سے راجپورہ سے شہر کے لیے بس چلانے کے لیے کہتے ہیں تو اس کا جواب ہوتا ہے، ”پہلے گاؤں کی سڑک بنواؤ، پھر بس چلانے کی بات کرو کیونکہ تمہارے گاؤں کی سڑک اتنی خستہ حال ہے کہ وہاں سے اتنے مسافر نہیں ہیں جتنی بس کی مرمت میں پیسے خرچ ہو جائنگے۔“ 30 سالہ چیترام کا کہنا ہے کہ مشکل کی سب سے بڑی وجہ تقریباً دو ہزار کی آبادی والے اس گاؤں میں پکی سڑک کا نہ ہونا ہے۔ تقریباً 6 سال قبل اس سڑک کو پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت بنایا گیا تھا، لیکن اس کے بعد اس کی کبھی مرمت نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے یہ سڑک آہستہ آہستہ ناقابل رسائی ہوتی گئی۔ گاؤں کے ایک 26 سالہ معذور شخص بنارام کالو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی دونوں ٹانگوں میں پولیو کا شکار ہے۔ اسے حکومت سے ہاتھ سے چلنے والی سائیکل مل گئی ہے لیکن سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے وہ اسے کہیں جانے کے لیے استعمال کرنے کے قابل نہیں ہے۔ بارش کے موسم میں وہ تقریباً اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں کیونکہ ان دنوں سڑک کی حالت اتنی خراب ہو چکی ہے کہ عام آدمی کے لیے اس پر چلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے، ایسے میں وہ کہاں سے اس پر چلنے کی ہمت کر سکتے ہیں۔
یہاں کی خستہ حال سڑک نے نہ صرف ترقی بلکہ نوعمر لڑکیوں کی تعلیم اور گاؤں کی خواتین کی صحت کو بھی متاثر کیا ہے۔ 22 سالہ سدھا کہتی ہیں کہ خراب سڑکوں کی وجہ سے اکثر لڑکیاں 12ویں کے بعد پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں کیونکہ انہیں کالج جانے کے لیے مین روڈ تک پیدل جانا پڑتا ہے۔ والدین وہاں اکیلے جانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ گاؤں کی سڑکیں بہتر ہو جائیں تو نقل و حمل کی سہولتیں آسان ہو جائیں گی اور ٹرانسپورٹ کی بسیں گاؤں کے اندر پہنچ سکیں گی۔ وہ بتاتی ہیں کہ گاؤں کے معاشی طور پر خوشحال گھروں کے خاندان لڑکیوں کو کالج اور گھر واپس لانے کے لیے مین روڈ تک بائیک کا استعمال کرتے ہیں، لیکن ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لڑکیاں بارہویں کے بعد پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں۔ خستہ حال سڑک کی وجہ سے خواتین کی صحت کے بارے میں بات کرتے ہوئے گاؤں کی ایک آشا ورکر سنتوش کا کہنا ہے کہ حکومت نے خواتین کو ڈیلیوری کے لیے اسپتال لے جانے کے لیے ایمبولینس کی بہتر سہولت فراہم کی ہے، لیکن گاؤں کی ٹوٹی پھوٹی سڑک اسے اور مشکل بنا دیتی ہے۔ کئی بار ایمبولینس گاڑیاں گاؤں پہنچنے سے پہلے ہی خراب ہو جاتی ہیں۔ اکثر ایسی خواتین کو پرائیویٹ گاڑیوں کے ذریعے ہسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ ان گاڑیوں کے مالکان اس کے لیے بہت زیادہ کرایہ وصول کرتے ہیں۔ جس سے معاشی طور پر کمزور خاندان اور بھی غریب ہوجاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ غریب گھرانوں کی زیادہ تر خواتین ان مشکلات سے بچنے کے لیے ڈیلیوری کے آخری مہینے میں اپنے گھر جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے آشا ورکر کو اپنے ریکارڈ کو برقرار رکھنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
ایک اور دیہاتی بھیرو کا کہنا ہے کہ گاؤں میں پانی کا بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں کھارا پانی ملتا ہے جو نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کے لیے بھی پینے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اس کے لیے بلاک سے پانی کا ٹینکر منگوانا پڑتا ہے، جس کے لیے ٹینکر مالکان 800 سے 1000 روپے وصول کرتے ہیں۔لیکن ٹوٹی ہوئی سڑک کی وجہ سے ٹینکر میں آدھے سے زیادہ پانی باہر نکل جاتا ہے۔ جہاں اس سے پانی کا ضیاع ہوتا ہے، وہیں گاؤں والوں کو اکثر دوبارہ پانی حاصل کرنے کے لیے اضافی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنچایت نے کئی بار بلاک اور ضلع ہیڈکوارٹر کو سڑک کی تعمیر کے لیے درخواست دی ہے، لیکن ابھی تک اس کے حکم کا انتظار ہے۔ بھیرو کا کہنا ہے کہ اگر اس بارش کے موسم سے پہلے گاؤں کی سڑک کی مرمت نہیں کی گئی تو راج پورہ ہڈان دیگر قریبی دیہاتوں کے مقابلے میں مزید پیچھے رہ جائے گا۔ کسان اپنی فصلوں کو منڈی تک لے جانے کے لیے سڑکوں کے بہتر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف پھل اور سبزیاں دیہات میں وقت پر نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی موسلادھار بارش نے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ یہی نہیں اس خستہ حال سڑک نے لڑکیوں کی تعلیم اور لوگوں کی صحت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔بہرحال، پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت ملک کے دیہی علاقوں میں سڑکوں کی حالت بہتر کی گئی ہے۔ اس کے تحت اب تک چھ لاکھ 80 ہزار کلومیٹر سے زیادہ دیہی سڑکیں تعمیر کی جا چکی ہیں۔تعمیر کے ٹینڈر کے تحت کام مکمل ہونے کے بعد پانچ سال تک سڑک کے تعمیراتی کاموں کی باقاعدہ دیکھ بھال بھی شامل ہے۔ جس کے بعد اسے پنچایتی راج اداروں کو منتقل کر دیا جاتا ہے جو اس کی تعمیر اور دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں۔ ایسے میں ضروری ہو گیا ہے کہ راج پورہ ہڈن گاؤں کی سڑک جلد دوبارہ بنائی جائے تاکہ اس گاؤں کو بھی ترقی سے جوڑا جا سکے۔ (چرخہ فیچرس)