بہاؤ کا رچاؤ (مجموعہ کلام)مصنف حاشر افنان

0
81

۰۰۰
مبصر اشرف اشہر
۰۰۰
شاعری دنیائے ادب میں ہمیشہ سے ایک موثر وسیلہ اظہارِ خیال کی حثیت رکھتی ہے۔ یہاں شاعر انتخابِ الفاظ اور طریقہ ترسیل و پیشکش کا پابند ہوتا ہے۔ اگر الفاظ کی نشست و برخواست میں ذرا سی بھی کوتاہی ہوجائے تو بلند سے بلند تر مضمون بے جان ہو کر رہ جاتا ہے۔ جب اردو ادب کا شاعری سرمایہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو کم و بیش ہر خاص و عام شاعر ابتدائی دور ہمیں غزل میں طبع آزمائی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ زیر نظر مجموعہ کلام "بہاؤ” ریاست جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر حاشر افنان کی شعری تخلیق ہے جس میں حمدیہ ، نعتیہ غزلیہ، قطعہ بند اور نظمیہ شاعری کے بہترین نمونے ملتے ہیں جو ان کے تخلیقی قد کا تعین کرنے کے لئے کافی ہیں۔
تو آئے زیرِ نظر مجموعہ کلام کا ایک تاثراتی اجمالی جائزہ لیتے ہیں۔
مجموعے کا انتساب حاشر افنان نے اپنے والدین کے نام کیا اور اپنے ہی شعر سے اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی۔
جنگ لڑتا ہوں میں ہواؤں سے
صرف ماں باپ کی دعاؤں سے
مجموعے کا پیش لفظ شکیل شفائی نے لکھا ہے جس میں وہ انکشاف کرتے ہیں کہ” اس میں کوئی شک نہیں کہ حاشر شعری تجربوں کی راہ پر نو وارد ہیں۔ لہذ ان کے فکر و فن میں مزید استواری کا امکان موجود ہے۔تاہم وہ نئی نسل کے شعری منظر نامے میں اپنی انفرادیت، شائستگی، دروں بینی اور روایت سے پیوستگی مگر بے خوف شاعرانہ اظہار پر اصرار کی وجہ سے نمایاں ہیں۔”
میرا خیال ہے کہ حاشر افنان کئی وجوہ سیاپنی معنویت منوانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ایک تو وہ سنگلاخ زمینوں سے اجتناب برتے ہوئے زرخیز کیاروں پر اکتفا کر کے شعری تخلیق کی کاشت کرتے ہیں دوسرے فرسودہ مضامین کو چھوڑ کر نئے اور اچھوتے خیالات کو حوالہء قرطاس کرنے میں گامزن ہیں۔
"بہاؤ” کے سرِ ورق پر ریاست جموں و کشمیر کے بین الاقوامی شہرت یافتہ کہنہ مشق شاعر و ڈراما نویس جناب اشرف عادل کچھ اس طرح اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ ” حاشر افنان ریاست جموں و کشمیر کے ادبی افق پر ایک درخشندہ ستارے کی طرح اپنی روشنی بکھیرنے میں محو ہیں۔ انھونے بہت کم عرصے میں یہاں کے ادبی منظر نامے میں اپنی شناخت قائم کر لی اور یہ افنان کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے منفرد لب و لہجے ڈھائی مصرعی شاعری سے موسوم ہوئے۔ حاشر بہت کم عرصے میں اپنے شعری سفر میں راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں”
حاشر افنان حسبِ روایت اپنے مجموعے کی ابتدا حمد باری تعالی سے کرتے ہیں جو کہ حمدیہ شاعری کا بہترین نمونہ ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے
رحمتوں سے نوازنے والے
وحشتوں سے نکالتا ہے تو
یاد کرتے ہیں دل سے جو تجھ کو
ان کو راحت میں ڈالتا ہے تو
حمد کے بعد روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے عقیدت کا اظہار حاشر افنان مجموعے میں سات نعتیہ کلام شامل کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ اگر چہ نعتیہ شاعری قدرے مشکل ہے اور ابتدائی دور میں بہت کم لوگ نعتِ پاک تخلیق کرنے کا حوصلہ کرتے ہیں۔ تاہم حاشر افنان کسی حد تک لسانی پیچ و خم اور نعتیہ اسرار و رموز کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے عقیدت کا اظہار کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ چند اشعار بطورِ نمونہ پیش ہیں۔
کرتا ہے ان کا غیر بھی چرچا جہان میں
میرے نبی کا رتبہ ہے اعلی جہان میں
جس کے بھی دل میں ہوگی محبت رسول کی
مل جائے گی اسے بھی شفاعت رسول کی
مذکورہ دونوں اشعار سے عیاں ہوتا ہے کہ حاشر افنان نعتیہ کلام لکھتے وقت اردو زبان کے لسانی برتاؤ کا خیال رکھتے ہوئے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ نعتیہ کلام کے بعد مجموعے میں تین منقبات بحضور امام حسین? عالی مقام اور خلیفہ چہارم حضرت علی? کے حوالے سے شامل کر لئے گئے جس کی نظیر اردو ادب میں بہت کم ملتی ہے۔ تو آئے ہم بھی چند اشعار سے محظوظ ہو جاتے ہیں
مقتدا میرا حسین ہے
میرا رہنما حسین ہے
پہلا عشق ہے مرا نبی
اور دوسرا حسین ہے
پیر تو باطنی علی مولا
کر میری رہبری علی مولا
اس کے بعد حصہ غزل کی ابتدا ہوتی ہے۔ جس میں ستر 70 غزلیں شامل ہیں۔ مجموعے کی پہلی غزل کا مطلع قاری کو حاشر افنان کی شعری حس اور تخلیقی جہان کا پتا دیتا ہے۔ بطورِ نمونہ چند اشعار پیش کر رہا ہوں
جنت سے کم حسین نہیں گلستاں مرا
کشمیر اس کا نام یہی سائباں مرا
دشمن کی کیا مجال کہ دیکھے گا اس طرف
یہ سر زمین میری ہے اور آسماں مرا
ان اشعار میں حاشر افان کی حب الوطنی عیاں ہے۔ دنیا میں جتنے بھی ادیب اور شاعر آئے ہیں کم و بیش ہر کسی کے ہاں اپنے وطن اور مٹی سے محبت کا اظہار کسی نہ کسی صورت میں ضرور ملتا ہے تو کیسے ممکن تھا کہ حاشر افنان کا کلام اس خوبی سے عاری ہوتا۔
شاعری لطیف احساسات اور جذبات کا خوبصورت اظہار ہے۔ بات غزل کی ہو اور حسن و عشق کا ذکر نہ ہو تو یہ کیسے ممکن ہے۔ بہاؤ کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حاشر افنان کے یہاں حسن و عشق کے قصے، عاشق و معشوق کے نازک معاملات اور راز و نیاز کی باتیں بھی خوب ملتی ہیں۔ اس قبیل کے کچھ اشعار آپ کی نذر کرتا ہوں۔
یار کی آنکھ سے برسات ہوا کرتی ہے
جب بچھڑنے کی کبھی بات ہوا کرتی ہے
انتظار آپ کا شب بھر میں کیا کرتا ہوں
آپ کے در پہ مری رات ہوا کرتی ہے
مجھ کو لگتا ہے مرے ساتھ ہے ساری دنیا
جب مری جان مرے ساتھ ہوا کرتی ہے
اکثر لوگوں کا دعوی ہے کہ شاعر کا عاشق ہونا یا عشق کی پر خار راستوں کا مسافر ہونا لازمی ہے۔ لیکن میں اس پر متفق نہیں ہوں۔ ہاں ! بہاؤ کا رچاؤ اور غزلیہ کلام حاشر افنان کے عاشق ہونے پر نہ صرف ایک مستند دال ہے بلکہ موصوف کے زخم خردہ ہونے کی گواہی بھی دیتے ہیں۔
بطورِ نمونہ درج ذیل اشعار ملاحظہ کیجئے
دے گیا بد دعا خدا حافظ
جاتے جاتے کہا خدا حافظ
تجھ کو جانا ہے جا خدا حافظ
میں نہ دوں گا صدا خدا حافظ
جا سپردِ خدا کیا تجھ کو
اور دل سے کہا خدا حافظ
آگے بڑھتے ہوئے قاری کو کچھ اس طرح کے نازک اشعار سے سابقہ پڑتا ہے
محبتوں کا نہ کرنا دعوی میں رو پڑوں گا
یہ سودے بازی نہ مجھ سے کرنا میں رو پڑوں گا
مجھ ایسے درویش کا بھی تونے بھرم نہ رکھا
مجھے اب اپنا کبھی نہ کہنا میں رو پڑوں گا
اے دل سے اترے ہوئے مسافر سلامتی ہو
جو تیرے بارے میں پھر سے سوچا میں رو پڑوں گا
جہاں بہاؤ میں اچھے اور معیاری اشعار کی اچھی خاصی تعداد ہے وہیں لسانی اعتبار اور فنی طور پر کمزور اشعار کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ بطورِ مثال شعر عرض ہے
مجھ ایسے درویش کا بھی تو نے بھرم نہ رکھا
مجھے اب اپنا کبھی نہ کہنا میں رو پڑوں گا۔
مصرع اولا کی ترکیب دیکھے تو اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ اگر موصوف نے عجلت سے کام نہیں لیا ہوتا تو یہ شعر اس سے بہتر سانچے میں پیش کیا جاسکتا تھا۔ آگے بڑھتے ہوئے اس نوعیت کے اور بھی اشعار ملتے ہیں۔ جیسے کہ درج ذیل اشعار ہیں
تونے تو اس فقیر پہ خالی ستم کئے
تیرا تو اس فقیر پہ کوئی کرم نہیں
مذکورہ شعر میں جب "خالی ستم کئے” کی ترکیب آئی ہے تو معاملہ صاف ہوتا ہے کہ معشوق نے عاشق کو سوائے دکھ اور درد یا زخموں کے کچھ نہیں دیا تو دوسرے مصرع میں ” تیرا تو اس فقیر پہ کوئی کرم نہیں” لاحاصل یے۔ یا یوں کہئے کہ قافیہ اور ردیف کی شکم سیری کی کامیاب کوشش ہے۔
مبتلا میں کروں غموں میں تجھے
اور اذیت بھی لا دوا دوں گا
مذکورہ شعر میں الفاظ کی نشست و برخواست پر اگر غور کیا جائے تو شعر کی ساری معنوی سطحیں مصرع اولا میں ہی وا ہوجاتی ہیں۔ دوسرے مصرع میں ازیتوں کی کیفیت بیان کی گئی جو اگر پہلے بیان کی جاتی تو شعر کا تخلیقی سانچہ جاذبِ نظر ہوتا۔ بہاؤ میں غزلوں کے علاوہ نظمیں اور قطعات شامل ہیں۔ بہاؤ حاشر افنان کے شعری بہاؤ کی عکاسی کرتا ہے۔
حصہ نظم میں کل گیارہ نظمیں (پابند اور آزاد) ہیں جن کے عنوان کچھ اس طرح سے ہیں:
جعلی لوگ، مذاق، معراج، رمضان المبارک، سوال، مزدور کی آہ، ماں، غمگسار اور کشمیر قابلِ ذکر ہیں۔
نظم جعلی لوگ میں موصوف انسانی رشتوں کی پائمالی اور انسانیت کی گرتی ہوئی ساخت کا خوبصورت نقشہ کھینچ لیتے ہیں۔ موصوف لوگوں کے بدلتے ہوئے رویوں اور دوغلے پن سے نالاں نظر آتے ہیں۔
ہر رشتہ ہوتا ہے دنیا میں فرضی
اور مکمل ساتھ نہیں رہتا کوئی
پیار محبت کی باتیں سب جھوٹی ہیں
قسمیں وعدے رونا دھونا نقلی ہے
لوگ یہاں بس وقت گزاری کرتے ہیں
جانے والے کیونکر اتنے ماہر ہوتے ہیں ؟
شاطر ہوتے ہیں
نظم "جعلی لوگ”
جب نظم "سوال” کا جائزہ لیتے ہیں تو مطلع سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ جعلی لوگ کا خیال موصوف کے قلب و ذہن پر اس طرح منعکش ہے کہ دونوں نظموں میں معنوی تسلسل نظر آتا ہے۔ دو بند ملاحظہ کیجئے
کوئی ہنسا کے تو کوئی رلا کے جاتا ہے
ہمیشہ کے لئے کوئی نہیں نبھاتا ساتھ
ہر ایک شخص کے جانے کا اک طریقہ ہے
ہر ایک چہرے کے پیچھے اک اور چہرہ ہے
جو پنہاں رہتا ہے !
میں تجھ سے یار فقط اک سوال کرتا ہوں
وہ چند لمحے جو تو نے گزارے ساتھ مرے
وہ سارے وعدے جو تو نے کیے تھے مجھ سے کبھی
وہ سارے خواب جو تو نے مجھے دکھائے تھے
وہ سارے جھوٹے تھے ؟؟؟؟؟
نظم ” سوال”
بہاؤ کا جھکاؤ کسی ایک خیال و مضمون کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ مختلف الخیال مضامین و موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
نظم ” معراج” کا ایک بند کچھ اس طرح ہے۔
کسی بشر نے یا جن نے خدا نہیں دیکھا
فقط حضور کو دیدار کبریائی ہوا
وہ چند لمحوں میں کیا کیا انہیں دکھایا گیا
نبی کو سیر کرائی ہے آسمانوں کی
یہ بات خطہ ء وہم و گماں سے باہر ہے
رسول پاک کو اللہ نے بلایا آج !
کرائی ہے معراج !
جہاں بحضور سرِ ورِ کائنات موصوف اپنے عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں وہیں رمضان المبارک اور اس کی برکتیں سمیٹنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
نظم ” رمضان المبارک”
رحمت کا ماہ آیا،عظمت کا ماہ آیا
اللہ کی طرف سے برکت کا ماہ آیا
روزہ نماز قراں شب بھر کرو عبادت
اٹھو کمر کسو سب ہمت کا ماہ آیا
کچھ دیر کے لئے ہی مہمان آگیا ہے
رمضان آگیا ہے۔
نظموں کے علاوہ بہاؤ میں گیارہ قطعات بھی شامل ہیں جو ہر سطح کے باذوق قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ موصوف کو صنفِ قطعہ پر مکمل دسترس حاصل ہے۔ وہ وسیع مضامین کو چار مصرعوں میں قید کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ چند قطعات بطورِ نمونہ ملاحظہ کیجئے
دل کو میرے توڑ کے اب وہ خوش رہتا ہے
میری دنیا چھوڑ کے اب وہ خوش رہتا ہے
دکھ تو سارے اس نے میرے نام کیے ہیں
سکھ کی چادر اوڑھ کے اب وہ خوش رہتا ہے
حاشر افنان حسن و عشق پیار اور امن کے پہلو بہ پہلو تخیل کی کمان سے طنز کے تیز نشتر بھی چلانا جانتے ہیں۔ ایک قطعہ بطورِ مثال پیش ہے
بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں ہے جن کو
ہائے وہ لوگ بھی استاد بنے پھرتے ہیں
کارِ تضحیک کوئی کارِ جواں مردی نہیں
آپ کیوں وقت کے نقاد بنے پھرتے ہیں
حاشر افنان کے یہاں جدت کے ساتھ ساتھ حدت بھی ہے۔ جہاں ہجر و وصال کے مترنم نغمے ہیں وہیں لمس کی حسین تصویریں بھی تخیل کی دیواروں پر آویزاں ہیں۔
الغرض بہاؤ نو جواں شاعر حاشر افنان کا پہلا مجموعہ کلام ہے جو ایک خوبصورت گلدان کی مانند ہے جس میں مختلف النوع پھول سلیقے سے سجائے گئے ہیں جو قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
بہاؤ کی کتابت جاذبِ نگاہ اور کاغذ معیاری ہے۔ مواد میں اس قدر بہاؤ ہے کہ ہر سطح کے قاری کو اپنے ساتھ بہانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میرے خیال میں ہر باذوق قاری کے لئے ایک خوبصورت تحفہ ہے۔ خواہشمند حضرات کتاب حاصل کرنے کے لئے مصنف سے براہِ راست رابطہ کرسکتے ہیں اور بازار میں بھی دستیاب ہے۔ راقم کی دعا اور آرزو ہے کہ ادبی حلقوں میں عام و خاص سطح پر پذیرائی و مقبولیت بہاؤ کا مقدر ٹھہرے آمین۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا