مشتاق احمد ملک
منڈی پونچھ
کسی نے سچ کہا ہے ’’مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی ‘‘بے روزگاری بھی ایک لعنت ہے جو اپنے ساتھ دوسری بہت سی مصیبتیں لے کر آتی ہے۔ بے روزگاری، مفلسی، بھوک اور بیماری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان کا اثر ایک طرف تو بے روزگار شخص اور کنبے کے تمام افراد کی جہالت، بد حالی اور پریشانی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، دوسری طرف بے روزگاری اور غریبی کی وجہ سے طرح طرح کی اخلاقی اور سماجی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی طرح بیروزگاری کا مسئلہ بھی ہمارے ملک اور یوٹی جموں و کشمیر کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ہندوستان میں تو یہ مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ آج کروڑوں کی تعداد میں ملک کا تعلیم یافتہ نوجوان ملاذمت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ یہ مسئلہ اچانک نہیں نمودار ہوا، پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔آزادی سے پہلے جب تعلیم عام نہیں تھی تو پڑھے لکھے لوگوں کی کم تعداد کے ساتھ بیروزگاری کا مسئلہ بھی کم تھا۔ لیکن تعلیم کا رجحان جیسے جیسے بڑھتا گیا ویسے ویسے یہ مسئلہ بھی بڑھتا گیا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت کی زبردست کوششوں کے باوجود اس مسئلہ پرآخر قابو نہیں پایا جا سکا ایسا کیوں؟ آج کے دور میں پڑھے لکھے نوجوان تو بہت ہیں لیکن ان کے پاس کسی قسم کا اچھا روزگار نہیں ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل نشے کے اندر مبتلا ہو رہی ہے اور کچھ خودکشی کر کے اپنی جان کو موت کی نیند سلا رہے ہیں۔ بیروزگاری کی وجہ سے کچھ تعلیم یافتہ نوجوان مختلف قسم کے نشوں کے اندر مبتلا ہو رہے ہیں۔ جیسے کے چرس،حفیم،شراب وغیرہ کے مختلف نشوں کے اندر اپنی زندگی کو برباد کر رہے ہیں ۔
یہی حال تعلیم کا بھی ہے۔ آزادی سے پہلے ملک میں صرف پانچ یو نیورسٹیاں تھیں۔ لیکن آج ان کی تعداد میں بہت حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ کالجوں اور اسکولوں کی تعداد میں جو اضافہ ہوا ہے۔ وہ اور بھی کہیں زیادہ ہے۔ نتیجہ یہ کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ہر سال جتنے طلباء پڑھ کر نکلتے ہیں ان میں سے بہت کم نوکریاں حاصل کرتے ہیں ۔ بیشتر نوجوان نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں ہر سال کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے یہ مسئلہ روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔اس صورتحال کی ایک بڑی ذمہ داری موجودہ تعلیمی پالیسی پر بھی ہے۔ ہماری بیشتر تعلیم محض نصابی ہو کر رہ گئی ہے جو کہ عملی زندگی اور مختلف پیشوں میں کوئی فائدہ یا مدد نہیں دیتی ہے۔اسی حوالے سے آج میں آپ کو جموں کے سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے گاؤں سٹیلاں اور ڈوگہیاں کے حالات سے روبرو کراتا ہوں۔یہ ایسا علاقہ ہے جہاں پر بہت کم پڑھے لکھے لوگ ہیں۔جو پڑھے لکھے کچھ نوجوان ہیں وہ بھی آج کے جدید دور میں بھی بے روزگار ہیں۔اس سلسلے میں ایک مقامی شخص شہزاد احمد جن کی عمر تیس سال ہے، یہ ایک غریب لڑکا ہے۔اس نے بتایا کے میرے والد صاحب کی وفات ہو چکی ہے۔ اس وقت میں محض چار سال کا تھا۔ اس کے بعد میری پرورش میرے بڑے بھائیوں نے کی۔ انہوں بارویں جماعت تک مجھے پڑھایا۔ میرا اسکول بھی بہت دور تھا۔ میں اپنے بھائیوں سے اسکول جانے کے لیے کرایا مانگنے سے ڈرتا تھا۔ جب اسکول میں ہفتے کی چھوٹی ہوتی تھی تو میں اپنے کرائے کے خرچے کے لیے دہاڑ ی مزدوری کرتا تھا۔ شہزاد کہتے ہیں کہ میں پڑھائی کے معاملے میں بہت ذہین تھا۔ لیکن قسمت نے ساتھ نہ دیا اس کا خواب تھا کہ میں بہت بڑا ملازم بنوں اور اپنے علاقہ کی تروی کے لیے کام کروںاور اپنے پورے خاندان کا نام بھی روشن کروں ۔ لیکن گھر پر آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے اس کو پڑھائی ادھوری چھوڑنی پڑی کیونکہ اس کے بھائیوں نے شادی کر لی تھی اور وہ الگ رہنے لگے۔ جس کی وجہ سے گھر کا سارا نظام شہزاد کے کندھوں پر آ گیا۔ اسی وجہ سے اس کو اسکول چھوڑنا پڑا۔ آج کل وہ ملک کی مختلف ریاستوں کے اندر جا کر کام کرتا ہے پتھر وغیرہ ڈھونے اور توڑنے پڑتے ہیں سردیوں میں شملہ جا کر مزدوری کرتاہے۔ اس کے علاوہ اُس کے پاس کوئی بھی دوسرا اچھا روزگار نہیں ہے۔ اسی مزدوری پر وہ اپنا گھر چلا رہا ہے ۔
وہیں ایک اور مقامی نوجوان یاسر حمید، جس کی عمر پچیس سال ہے، جو ایک بہت غریب باپ کا بیٹا ہے۔ اس نے گیارہویں جماعت میں اسکول جانا چھوڑ دیاتھا۔ اس وجہ سے کے اُس کے گھر میں اس کے علاوہ کوئی بھی کمانے والا نہیں ہے کیونک اس کے والد صاحب بذرگ ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ میں پڑھنے کا بہت شوق رکھتا ہوں ۔لیکن قسمت نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ پڑھ لکھ کر ایک بحترین ملازم بننا چاہتا تھا اور اپنے علاقے کی خدمت کرنا چاہتا تھا ۔ ساتھ میں اپنے خاندان کا نام بھی روشن کرنا چاہتا تھا۔ لیکن میرے علاوہ میرے گھر میں کوئی بھی کمانے والا نہیں ہے۔ اسی وجہ سے مجھے مجبوراً مزدوری کرنی پڑرہی ہے۔ جس سے میں اپنے گھر کو چلا رہا ہوں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کے کسی کو محنت کر کے روزگار حاصل کرنے میں کتنی مشکلیں آتی ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ میرا سرکار سے یہی کہنا ہے کہ مجھے کوئی اچھا روزگار دیا جائے تا کہ میں اپنے گھر کے اخراجات پورے کر سکوں۔ اگر حکومت مجھے اور خاص کر کے ہمارے پونچھ جمّوں و کشمیر کے نوجوانوں کو کوئی اچھا روزگار دے توہمیں باہر کی ریاستوں اور ملکوں میں مزدوری کرنے نہ جانا پڑے۔ یہاں پر ٹورزم ملازم لگوائے جائیں اور پرائیویٹ کمپنیز کھولی جائیں ۔ساتھ ہی خالی پڑی گورنمنٹ نوکریاں دی جائیں تا کہ آنے والی نسل کو کوئی دشواری پیش نہ آئے۔وہ کہتے ہیں کہ ہم غریب لوگوں پر نظر ثانی کی جائے تا کہ ہم بھی اپنے علاقے کے اندر رہ کر اچھا روزگار کرسکیں۔
اسی تناظر میں مقامی پنچ سلیما اختر کا کہنا ہے کہ ہمارے علاقے میں کسی بھی قسم کا روزگار نہیں ہے۔یہاں کے بہت سارے تعلیم یافتہ نوجوان مزدوری کے لیے ملک کی مختلف ریاستوں کے اندر جا کر کام کرتے ہیںاور اپنے گھروں کو چلاتے ہیں۔بیروزگاری کی وجہ سے ان سب کو تعلیم سے محروم ہونا پڑہ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکار کو چاہیے کے وہ ان تمام تعلیم یافتہ نوجوان کیلئے بہترین اقدامات اٹھائے جس سے وہ اپنے گھر کا نظام اچھے سے چلا سکیں ۔وہ کہتی ہیں کہ بیروزگاری کی وجہ سے نوجوان مختلف قسم کے نشوں کے اندر مبتلا ہو رہے ہیںاور کچھ خودکشی کر کے اپنی زندگیوں کو موت کی گھاٹ اتار رہے ہیں۔ایسے میں حکومت کو ان تمام تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کیلئے اچھے اور بہترین اقدامات کرنے چاہیے ۔حالانکہ حکومت کی جانب سے نوجوانوں کو روزگار کے بہت سے موقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ وہیں دوسری جانب مدرا لون دے کر انہیں روزگار سے جوڑنے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن بیداری اور محکمہ کی لاپرواہی کی وجہ سے نوجوان اس کا فائدہ اٹھا نہیں پا رہے ہیں۔ یہ جہاں بیداری کی کمی کو ظاہر کرتا ہے وہیں دوسری جانب محکمہ کی کمی کو بھی بتاتا ہے۔(چرخہ فیچرس)