فروغ شمع تو باقی رہے گا صبح محشر تک
مگرمحفل توپروانوں سیخالی ہوتی جاتی ہے
دنیا رفتہ رفتہ ارباب علم و تقویٰ سے خالی ہوتی جا رہی ہے ؛ گزشتہ چند سالوں میں ہمارے ہاتھوں رہا سہا ذخیرہ بھی جاتا رہا اور ہم تہی دست ہوگئے ؛ جس پر جس قدر بھی غم کیا جائے کم ہے اور وقت مقررہ پر ہر ذی روح کو جانا ہی ہے۔ "کل نفس ذائقۃ الموت” ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ؛ جس سے فرار ناممکن ہے۔ "اینماتکونوا یدرککم الموت ولوکنتم فی بروج مشیدۃ”۔ حضرت اقدس مولانا قاری و مقری احمداللّٰہ قاسمی صاحب بھاگلپوری بھی اسّی سال کی عمر میں امت کو فیوض و برکات سے مالا مال فرما کر اپنے پروردگار سے جا ملے۔انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
چراغ لاکھوں ہیں لیکن کسی کے اٹھتے ہی
برائے نام بھی محفل میں روشنی نہ رہی
حضرت قاری صاحب کا حادثہ وفات بالکل ایسا ہے ؛ جیسے تجوید و قرآء ت کے روشن افق پر اچانک ایک آفتاب غروب ہوگیا ہو ؛ اس آفتاب عالمِ تاب کے غروب ہونے سے نہ صرف اہل جامعہ (ڈابھیل) سوگوار ہیں بلکہ عالم اسلام غمگین و حزین اور بحر اَلم میں غرقاب نظر آرہا ہے ؛ یہ سانحہ ملت اسلامیہ کے لیے ایک کرب انگیز اور دردناک حادثہ ہے ؛ جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے ؛ حضرت والا نے تجوید و قرآء ت کی تعلیم پر تاحیات غیر معمولی محنت و توجہ فرمائی اور ملک گیر سطح سے اوپر اٹھ کر اپنے محبین و مخلصین کے ذریعہ وسیع پیمانے پر تجوید و قرآء ت کے لیے عملی کوششیں فرمائیں ؛ جامعہ ڈابھیل کے آپ صدرالقرائ تھے ؛ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل وہ مرکز علم و عرفاں ہے کہ جہاں انقلاب آفریں قائد اور دنیائے تفسیر کے اپنی مثال آپ مفسر شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیراحمد عثمانی صاحب اور حضرت العلام سید بدر عالم میرٹھی صاحب اور فخر مفخر اکابر دیوبند اور علوم کشمیری کے امین حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب جن کا اپنے عہد میں عالم افق پر ایک شہرہ ھا جیسے آفتاب و ماہتاب ضوفشاں رہے ؛ یہ انہی جیسے روشن ضمیر انسانوں کے اخلاص و عمل کا نتیجہ ہے کہ جامعہ ڈابھیل قرآن و سنت کے علوم کی ترویج و اشاعت میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ حضرات اکابر فرد واحد ہونے کے باوجود ایک بھرپور ادارہ اور مؤثر تحریک تھے ؛ اسی جامعہ کی مسند تدریس پر قرآن و حدیث کے انوار سے ہزاروں انسانوں کے قلوب کو معمور کرنے والے یہ مردان عزیمت برصغیر میں اعلائے کلمتہ اللّٰہ کی جدوجہد میں ایسے درخشاں ابواب ترتیب دے گئے کہ آنے والی نسلیں ان ہی کے نقوش قدم سے آثار پاسکیں گی ؛ بطور خاص حجتہ اللّٰہ فی الارض امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری جنہوں نے پانچ سال تک علم حدیث کی بے مثال خدمات انجام دیں ؛ مفتی ابولبابہ شاہ منصور کے الفاظ میں کہ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل وہ تاریخ ساز مدرسہ ہے کہ جہاں علامہ انورشاہ کشمیری اور علامہ شبیراحمدعثمانی دارالعلوم دیوبند سے مستفید ہونے کے بعد طلبہ کے قافلہ کے ساتھ فروکش ہوگئے تھے اور ایک عام مدرسہ کو ان حضرات کے قدم میمنت لزوم نے دارالعلوم دیوبند ثانی بنا دیا اور اسی مدرسہ میں ان حضرات کے زیر سایہ محدث عصر حضرت بنوی? نے سند فراغ حاصل کی۔ بلاشبہ اس قافلہ علم و عمل کی ایک اہم کڑی ہمارے فقید مبجل و معظم حضرت قاری و مقری احمد اللّٰہ قاسمی صاحب بھی تھے ؛ حضرت والا اپنے عہد کے قرآن کریم کے نامور خدمت گاروں میں سے ایک تھے ؛ فن تجوید و قرآء ت کے حوالے سے آپ کی خدمات پر خوب لکھا جا سکتا ہے اور لکھا بھی جا رہا ہے ؛ حضرت والا سے میری باقاعدگی سے ملاقات نہ ہوسکی جس کا مجھے قلق رہے گا۔ البتہ سنہ 2018ئ میں مفکر ملت حضرت مولانا عبداللّٰہ صاحب کاپودروی کی حیات و خدمات سے معنون جامعہ فلاح دارین ترکیسر کے زیر انتظام احاطہ جامعہ میں عظیم الشان سیمینار ہوا تھا ؛ جس میں راقم الحروف کی بحیثیت مقالہ نگار و اہل قلم حاضری ہوئی تھی کہ موقع پر حضرت قاری احمداللّٰہ قاسمی صاحب بھی تشریف فرما ہوئے تھے ؛ قریب سے حضرت قاری صاحبکے دیدار و زیارت کا شرف حاصل ہوا تھا ؛ مدرسہ کی زندگی سے میرا تعلق قدیم ہے قدرت نے علماء و صلحاء کی میرے دل میں بے پناہ عقیدت و محبت رکھ دی ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی کسی عالم فاضل کا سانحہ ارتحال پیش آتا ہے ؛ یادرفتگاں کے عنوان سے کچھ نہ کچھ لکھنے کی اپنی سی کوشش رہتی ہے ؛ بطور خاص قرآن کریم کے خدمت گاروں کا تذکرہ کرنا اپنی سعادت سمجھتا ہوں اور اس حوالے سے حضرت والا کی خدمات بدر کامل کی طرح ہویدا ہیں ؛ آپ کے انتقال پْر ملال پر بذریعہ سوشل میڈیا حضرت والا کے محبین و متعلقین کی تحریری اور صوتی ترسیلات دیکھنے سننے کو مل رہی ہیں اور حضرت والا کی خدمات اور انمول خوبیاں علم میں آ رہی ہیں جن کو دیکھ سن کر بے ساختہ یہ شعر ورد زباں ہو جاتا ہے کہ
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیراں ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
لاریب حضرت والا کی خدمات جلیلہ تجوید و قرآء ت کے خدمتگاروں کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ذیل میں دو شاگردانِ حضرت کے قیمتی اقتباسات ذکر کیے جاتے ہیں۔ حضرت مولانا مفتی غیاث محی الدین صاحب حیدر آبادی حفظہ اللّٰہ کی مندرجہ ذیل قیمتی باتیں جو کہ انہوں نے اپنے استاذ مکرم کے سانحہ ارتحال کے موقع پر ارشاد فرمائیں دل کو چھو گئیں دل نے گواہی دی کیوں نہ ان کو مضمون کا حصہ بنا لیا جائے میرے نزدیک تجوید و قرآء ت کے شائقین کے لیے ان میں بڑا اہم پیغام بھی ہے اور ان کی صلاحیتوں کو فن کے تئیں مہمیز دینے والی بھی ہیں۔ فرمایا کہ "میں حضرت الاستاذ قاری احمداللّٰہ صاحب کا شاگرد ہوں میں نے تقریبًا سات سال حضرت قاری صاحب کے پاس علم قرآء ت حاصل کیا اور قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل رہا ؛ چھٹیوں میں دو مہینے بھی میں نے حضرت کے گھر جاکر تعلیم حاصل کی ؛ چھٹیوں کے باوجود حضرت والا طلبہ کی ایک بڑی تعداد اپنے ساتھ لے جا کر دن رات محنت کرتے تھے ؛ حضرت ایسے عاشق زار تھے قرآن مجید کے کہ پورا دن قرآن کریم پڑھاتے رہتے تھے ؛ تہجد سے آپ کی سعبہ و عشرہ کی کلاس شروع ہوتی تھی ؛ چاہے موسم سرما ہو یا گرما یا پھر برسات ؛ جامعہ سے حضرت کا مکان کافی دور تھا اس کے باوجود حضرت والا بر وقت کلاس میں پہنچ جاتے تھے اور تقربیًا فجر کی اذان سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے حضرت کا سبق شروع ہوجاتا تھا ؛ پابندی سے اس قدر دروس چلتے تھے کہ عصر کے بعد بھی حضرت پڑھاتے تھے ؛ فجر کے بعد حضرت کی چہل قدمی کی عادت تھی ؛ اس میں بھی دو طلبہ ہوتے تھے ایک قرآن کریم سناتا تھا اس کا ختم ہوتے ہی دوسرا بچہ قرآن کریم سناتا تھا ؛ اپنے گھر سے دوبارہ جب مدرسہ جاتے جامعہ کی اپنی درسگاہ جاتے تھے تو اس وقت بھی حضرت کے ساتھ ایک طالب علم قرآن کریم راہ چلتے ہوئے سناتا تھا ؛ دوپہر کے کھانے کے وقت بھی حضرت دسترخوان پر ہوتے تو اس وقت بھی ایک طالب علم قرآن کریم سناتا تھا ؛ قیلولہ کے وقت تک حضرت قرآن کریم سنتے تھے ؛ پھر ظہر کی نماز کے بعد بھی حضرت کا معمول تھا اور پھر جامعہ کی درسگاہ جانے تک پھر ایک طالب علم سناتا ہوتا تھا عصر کی نماز کے بعد بھی قرآن کریم سنتے تھے ؛ عصر کے بعد مجھے بھی ایک مرتبہ موقع ملا مغرب سے پہلے بیس منٹ کا وقت مجھے دیا گیا تھا گھنٹی بجتے ہی آجانے کے لیے ؛ تقریبًا تین ماہ اس طریقے سے حضرت کو میں قرآن کریم سناتا رہا ؛ مغرب کے بعد اور عشاء کے بعد یہاں تک کے طعام کے وقت اور سوتے وقت بھی حضرت قرآن کریم سنتے تھے۔ جب آنکھ لگنے والی ہوتی تو حضرت کہتے کہ اب چلے جاؤ جن کا اوڑھنا بچھونا قرآن کریم سننا سنانا تھا۔ حضرت اپنے فن کے اس قدر ماہر تھے سینکڑوں طلبہ نے آپ سے علم حاصل کیا اور دنیا بھر میں سبعہ و عشرہ کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آخری وقت میں حضرت نے خواتین میں بھی تعلیم کا سلسلہ شروع کردیا تھا ؛ بے شمار خواتین نے حضرت سے قراء ت سبعہ و عشرہ کی تکمیل کی ؛ جہاں بھی جاتے قرآن کریم کو صحت و تجوید کے ساتھ پڑھنے کی تلقین فرماتے ؛ اہل مدارس سے ان کو شکوہ تھا کہ ان کے مدارس میں ہر قسم کے شعبہ جات ہوتے ہیں۔ لیکن قرآئت کے لیے مستقل کوئی شعبہ نہیں ہوتا اور مجود کو بلا کر علم قراء ت بحیثیت فن کے نہیں پڑھاتے۔ حضرت کی کئی کتابیں ہیں اور خصوصًا عربی میں بھی کتابیں ہیں۔ "النشر فی القراء ت العشر” پر بھی حضرت نے خاشیہ لکھا ہے اور بہت سارے سلستہ الاسناد کو حضرت نے دوبارہ تحقیق کرکے اس کے اندر جس قسم کا نقص اور جس قسم کا سقم پایا گیا اس کو بھی حضرت نے واضح کیا ہے بیس سے زائد حضرت کی کتابیں ہیں ؛ چھوٹے بچوں کے لیے بھی حضرت نے کتابیں لکھی ہوئی ہیں۔ بہرحال حضرت ایک شخصیت تھے ایسے لوگ دنیا میں بہت ہوں گے کہ جو فن تو پڑھاتے ہیں ؛ لیکن جنہوں نے ساری زندگی فن کے لیے وقف کر دی ہو ویسے افراد نہیں ملتے ہیں ؛ پانچ دہائیاں حضرت کی جامعہ ڈابھیل میں گزرگئیں قرآن کریم کے تدریس میں ؛ ایک سال دارالعلوم دیوبند میں بھی حضرت نے علم قراء ت پڑھایا ؛ ان کے ہی شاگرد ہیں حضرت مولانا قاری عبدالرؤف صاحب بلند شہری ؛ اکل کوا میں تقریبًا چھ سات قراء ہیں وہ بھی حضرت ہی کے شاگرد ہیں ؛ جہاں جہاں بھی شعبہ قراء ت چلتا ہے حضرت ہی کی نگرانی میں چل رہا ہے دنیا بھر کے ممالک کے اندر چاہے وہ ساؤتھ افریقہ ہو یا فیجی ہو یا برازیل یا یو کے ہو۔ وہاں کے سارے ہی مدارس میں تعلیم دینے والے قراء حضرت ہی کے شاگرد ہیں حضرت نے اپنی زندگی میں ایک مستقل ایسا جامعہ بھی قائم کیا جو تقریبًا تئیس ایکڑ آراضی پر ہے۔ جس کا نام ہے "جامعۃ القرآئۃ” یعنی یہ قرآئت کے نام سے پہلا ایسا جامعہ ہے کہ ہندوستان کے اندر بلکہ برصغیر میں جہاں پر قرآء ت کے نام سے جامعہ قائم کیا اور پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ وہاں پر قرآن کی تعلیم ہوتی ہے حضرت اس کے سرپرست تھے ؛ معمولی سے بیمار تھے ؛ چلتے پھرتے تھے ؛ اچانک ناک سے خون نکلا ؛ ہلکا سا دل کا دورہ آیا پھر صحت اچھی ہوگئی لیکن رات کے آدھے حصے میں حضرت پھر تکلیف سے دوچار ہوئے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا۔ 29 رجب المرجب 1445ھ مطابق 10 فروری 2024ء صبح سوا نو بجے آپ کا وصال ہوگیا” حضرت مولانا ابو سعد چارولیہ حفظہ اللّٰہ کو ہم نے ان کی نگاراشات سے ہی جانا ہے۔ ماشائ اللّٰہ قدرت نے انشاء کا اچھا اور پاکیزہ ذوق بخشا ہے آں موصوف کا قلم لکھتا ہی نہیں بلکہ صفحہ قرطاس پر علم و ادب کے جواہر بکھیرتا رہتا ہے۔ اللّٰہم زد فزد آں موصوف کے قلم سے بھی بڑا قیمتی سانحہ ارتحال صادر ہوا ؛ جو "حرف حرف جوئے خون ہے”۔ حضرت قاری صاحب? کی تیمار داری کے موقع پر ملاقات کے دورانیہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنے قیمتی کالم میں ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ "بات تعلیم کی نکل آئی تو یکدم متفکر ہوگئے ابتدائی درجات کی تعلیم میں مہارت اور عربیت میں پختگی کی ضرورت پر زور دیا اور ساتھ ہی ہمیں نصیحت فرمائی چونکہ حضرت کے پیروں کی رگ بلاک (مسدود) ہونے کی وجہ سے انگوٹھا سوکھ کر کالا ہوچکا تھا اور اسی کا آپریشن تھا ؛ اس لیے راقم نے عرض کیا حضرت دعا فرمائیں کہ ہم اساتذہ بلاک نہ ہوجائیں ہم بلاک ہوگئے تو نیچے طلبہ میں خون نہیں پہنچے گا۔ رگیں سوکھ جائیں گی حضرت! اس پر حضرت کا تبسم باقاعدہ ہنسی میں تبدیل ہوگیا اور فرمایا بالکل صحیح کہا۔ ہم تو اساتذہ سے کہتے ہیں کہ مکتب سے ہی عربی زبان سکھانا شروع کر دو ؛ جب ساری زبانیں سیکھتے ہیں ؛ تو عربی کیوں نہیں سیکھیں گے۔ عرض کیا کہ حضرت آپ کے شاگرد قاری حمزہ سورتی سلمہ نے اپنے مکاتب میں اس کی شروعات کر دی ہے خوش ہوکر فرمانے لگے کہ جو "بدّھو” ہوتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ اور جو "زیادہ سمجھ دار” ہوتے ہیں ؛ ان کے بھیجے میں بات ہی نہیں گھستی۔ پھر سرد آہ بھر کر فرمانے لگے۔ دیکھو! ایک بات لے کر جاؤ! گاؤں گاؤں گھومو! اور مسلمانوں کو مکتب کے ذریعے قرآن پاک سے جوڑو! اس کے سوا عزت کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ نوجوان فضلائ کو اس جانب خصوصی طور پر متوجہ کرو ان کی ذہن سازی کرو کہ مرتے دم تک قرآن کریم کی خدمت میں لگے رہیں”۔ مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت والا کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں جو رجال کار تیار ہوئے وہ میدان عمل میں اپنے استاذ مکرم کے فکر و فن کے عملی ترجمان ثابت ہوئے ہیں ؛ خدا کرے ان کا یہ ذوق علم اور شوق فن سدا بہار رہے بجا کہا ہے شاعر نے کہ
استاذ وہ ہے جو شاگرد کو استاذ بنا دے
شاگرد وہ ہے جو استاذ کی عظمت کو چار چاند لگادے
بالاختصار! مجموعی طور پر حضرت قاری صاحب بڑی خوبیوں کے انسان تھے سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اللّٰہ والے تھے تقویٰ و پرہیزگاری کے وصف سے ان کا چہرہ روشن رہتا تھا اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ان کی زیارت کرکے قلب و روح کو تسکین ہوتی تھی ؛ انہیں دیکھ کر خدا یاد آتا تھا ؛ وہ بالکل اس حدیث کا مصدق تھے جو حضرت عبداللّٰہ بن عباس سے منقول ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللّٰہ کی خدمت اقدس میں عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ کون سا ہمن شیں بہتر ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص جس کو دیکھ کر خدا یاد آئے اور جس کی گفتگو سے تمہارے علم میں زیادتی ہو اور جس کے عمل سے تمہیں آخرت کا خیال آئے۔ حضرت قاری صاحب کی گرانقدر تعلیمات کی اشاعت اور سنت و شریعت سے ہم آہنگ زندگی ہی ہم چھوٹوں کی طرف سے حضرت والا کے لیے خراج عقیدت ہے۔ دعا ہے اللّٰہ تعالٰی حضرت والا کی جدوجہد کو قبول فرمائے اور اپنی شایان شان بدلہ عطا کرے امید ہے کہ حضرت کے تلامذہ ان کے مشن کو اسی طرح جاری و ساری رکھیں گے ؛ جس طرح ان کی زندگی میں یہ کام چل رہا تھا اور جس کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر رکھی تھی۔
آخری بات : ہمارے یہاں جامعہ ضیاء العلوم پونچھ جموں و کشمیر میں جامعہ ڈابھیل کے فاضل اساتذہ کرام تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ؛ جن میں حضرت مولانا ریاض احمد میر ضیائی صاحب اور قاری جمیل احمد ضیائی صاحب کو براہ راست حضرت قاری صاحب سے پڑھنے کی سعادت حاصل رہی ہے اور قاری اخلاق احمد ضیائی صاحب کو بالواسطہ پڑھنے کی سعادت حاصل رہی ہے ؛ غرضیکہ ضیاء العلوم کا جامعہ ڈابھیل سے قدیم تعلق ہے ؛ حضرت والا کے انتقال پر ملال پر جامعہ میں ہر طرف غم کی لہر دوڑ گئی ؛ جامعہ میں مسنون ایصال ثواب کے ساتھ ختم بخاری کے اجلاس میں بھی دعا کا اہتمام رہا ؛ خدا رحمت کند ؛ بہ ہرحال اب میں اس مقام پر پہنچا ہوں کہ جہاں یہ تذکرہ ختم کیا جا سکتا ہے اس رائے کے ساتھ یہ راہرو قلم رخصت ہوا چاہتا ہے کہ حضرت قاری صاحب? کی حیات و خدمات اس قابل ہیں کہ ان کو قلم بند کیا جائے ان کے تلامذہ کو چاہیے کہ وہ اس کا اہتمام فرمائیں بلکہ ان کی حیات و خدمات پر سیمینار ہوں اہل زبان و قلم کو متوجہ کیا جائے مقالات و مضامین پر مشتمل خصوصی دستاویزات منصہ شہود پر لائی جائیں ؛ رسائل و جرائد میں مضامین لکھ کر خصوصی ضمیمے شائع کیے جائیں ؛ میرے خیال سے کسی کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے اس سے بہتر اقدام کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔
خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
خادم التدریس جامعہ ضیائالعلوم پونچھ جموں و کشمیر