قیصر محمود عراقی
آج امت مسلمہ کے خون سے دھرتی کا سینہ سرخ اور مظلومین کی میتوں سے قبروں بلکہ اجتماعی قبروں کا ایک جنگل وجود میں آگیا ہے۔ یہود وہنود اور صہیونی وصلیبی ساہوکاروں نے اپنا کاروبار خوب چمکالیا ہے، اسلحہ ان کا بکتا ہے اور مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان ہی کا خون گرتا ہے، سودی کاروبار کے ذریعے عالم اسلام کو ان ساہوکاروں نے یرغمال بنارکھا ہے۔ آج امت مسلمہ اپنی اصل سے کٹ گئی ہے اور سراب کے پیچھے دوڑ رہی ہے، اس جدید دنیا کے اندر آج بھی انسانیت سسک رہی ہے، انسان اپنے ہی جیسے انسانوں پر ظلم کررہا ہے، ایک دوسرے پر بازی لے جانے اور فتح کرنے کے عزائم جاری ہیں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہیں ، عالم اسلام کے بیشتر ممالک میں موت کا رقص جاری ہے، دنیا میں اگر کہیں جنگ جاری ہے تو اسلامی ممالک میں، کسی جگہ ظلم وستم ہورہا ہے تو بھی اسلامی ممالک پر یا پھر کسی خطے میں آباد مسلمانوں پر، بم دھماکے اگر کہیں ہورہے ہیں تو اسلامی ممالک میں ہورہے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو لوگ مارے جارہے ہیں وہ بھی مسلمان ہیں۔ جنگ زدہ ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کرنے پر مجبور ہونے والے بھی مسلمان ہیں، آج مسلمان در بدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ، ذلیل وخوار ہورہے ہیں، موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں، عالم اسلام جل رہا ہے، حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ مسلمان اپنی اس بے کسی ،بے چارگی اور قوموں کے درمیان اپنے اس مقام پر پریشان ہیں، کئی ایک نسلیں اس جور وستم اور جبر وظلم کا شکار ہوچکی ہیں مگر اندھیری رات ہے جس کی قسمت میں صبح کا اجالا نہیں ہے۔
اسلام دشمن طاقتیں متحدہوکر ایک عرصے امت مسلمہ کے خلاف خفیہ اور اعلانیہ سینہ سپر ہیں ، امت کے انتشار اور تفرقے سے اسلام مخالف طاقتوں کو نپٹنے اور اپنا ایجنڈا پورا کرنے کا موقع ملتا رہا ، سامراج کل کی طرح آج بھی اطراف سے مسلمانوں کے خلاف کھڑا ہے لیکن افسوس اب اتحاد ، یکجہتی اور اخوت کا وہ سبق بھول گئے جو ہمارا خاصا اور پہچان تھا۔ جو قوم ایک وقت اپنے اتحاد واتفاق کی بنیاد پر کبھی سیسہ پلائی دیوار تھی اور وقت کے قیصر وکسریٰ کے غرور کو خاک میں ملانے کی طاقت رکھتی تھی آج وہ قوم مسلکی جھگڑوں میں الجھ کر اپنا مقام ، اپنی طاقت اور اپنا وزن کھوتی جارہی ہے، مسلکوں ، فرقوں اور طبقوں میں ریزہ ریزہ ہوتی جارہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر چہار سمت سے اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کے خلاف ان کی بربادیوں کے منصوبیں بنارہے ہیں، قرآن پاک کی بے حرمتی کی جارہی ہے ، نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخیاں کی جارہی ہیں، مسجدوں اور مدرسوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، حق بولنے والے عالم اور علما کوحراست میں لیا جارہا ہے لیکن مسلمان اپنے دشمنوںکی چال اور مختلف حربوں سے بے نیاز مسلکی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ جس وجہ سے ان کی طاقت کافور ہورہی ہے اور دشمنوں کی تمنا پوری ہورہی ہے۔ دانشورانِ ملت مسلمانوں کو چیخ چیخ کر آگاہ کررہے ہیں کہ مسلمانو!حالات کو سمجھو، آپس میں اتحاد پیدا کرولیکن اس کا اثر یہ ہورہا ہے کہ دن بدن انتشار وافتراق بڑھتا جارہا ہے، مسلکی جنون میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اگرچہ ہر مسلک کا اسلام ایک ہے، قرآن ایک ہے، رسول ایک ہے، سب کا سود وزیاں ایک ہے لیکن مسلکی مسلمان ایک نہیں ، ان کو قرآن کا حکم عزیز نہیں ، ان کو رسول ﷺکی ہدایت پسند نہیں ، ان کو تو مفاد پرست مولویوں کو بنایا ہوا اپنا خودساختہ مسلک پسند ہے، وہ بھی وہ مسلک جس کی عمر ڈیڑھ دو سو سال سے زیادہ نہیں ہے۔ جن لوگوں کو قرآن وسنت کی اساس پر متحد ومنظم ہونا چاہئے تھا وہ مسلکوں میں بٹ کر کہیں شیعہ سنی کے نام پر ، کہیں دیوبندی اور بریلوی کے نام پر اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کا خون بہارہے ہیں ، اور یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ کچھ جاہل اور مسلکی مولوی اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ مسجدوں کے منبروں سے باہمی اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں، ان مولویوں نے اپنے خودساختہ مسلک کو دین وشریعت کا درزہ دیکر مسلمان مولوی ہی کو کافر ٹھہرارہے ہیں، مسجدوں کے گیٹ پر اپنے اپنے مسلک کی تختی لگاکر مسجدوں کو الگ کیا جارہا ہے۔ آج ہم نہ صرف دیگر مذاہب سے فکری وعملی طور پر برسرِ پیکار ہیں بلکہ خود توحید ورسالت پر مبنی ایک کلمہ کے اقرار کے باوجود مذہبی ومسلکی اور گروہی خانہ جنگیوں کا شکار ہیں۔
قارئین محترم! تاریخ اٹھاکر دیکھیں ، اختلاف ہی کی وجہ سے قوموں اور ملکوں کو بڑے بڑے نقصان اٹھا نا پڑے ہیں، اختلاف ہی کی وجہ سے مسلمان ممالک پستی اور ذلت کا شکار ہیں ، غربت ، مہنگائی، بدامنی ، لاقانونیت ، بے روزگاری ، جہالت ، انتقام ، لوٹ مار، ڈاکہ ، اغوا، قتل وغارت جیسے موذی امراض مسلمانوں میں باہمی اختلافات ہی کا نتیجہ ہے۔ آج مسلمانوں کو محبت ، امن ، بھائی چارگی اور ملی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ آج جس طرح مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری پر سارے مسلکی مولوی ایک پلیٹ فارم پر آکر ان کی رہائی کی مانگ کررہے ہیںکاش یہ مولوی حضرات ایک اللہ کے فرامین ، نبی کی شریعت اور قرآن پاک کی تعلیمات کی بنیاد پر ایک ہوتے تو کسی میں اتنی جرآت نہ ہوتی کہ کل کلاں کوئی مسلمانوں کے امام کے گریباں میں ہاتھ ڈالتا اور اپنی حراست میں لے لیتا۔ قسم خدا کی جس دن ہمارے یہ مسلکی قائد ، رہنما ، امام اور مولوی حضرات اللہ ، رسول اور قرآن کی تعلیمات کی طرف لوٹ آئینگے اس دن ہر طرف اتحاد واتفاق کی بہاریں عام ہوجائینگی کیونکہ امت کے اندر نفرت کی بیج مسلک کے نام پر جتنا ان مولویوں نے بویا ہے اتنا کسی دوسرے مذاہب والوں نے کبھی نہیں بویا ، مسلک کے نام پر امت کو مسجدوں سے جتنا دور ان مسلکی اور جاہل مولویوں نے کیا ہے اتنا دور مسجدسے تو مسجد ڈھانے والوں نے بھی نہیں کیا، لیکن آج جب ان مولویوں پر پڑی ہے تو اب ہر مساجد سے ، اجتماعات سے ، جلسوں سے اور کانفرنسز سے اتحاد کی بات کی جارہی ہے، مسلمانوں کو اختلافات بھلا کر متحد ہونے کیلئے کہا جارہا ہے، کیونکہ دشمن آج مسلمانوں پر حاوی ہے ، مسلمانوں کو مٹانے کے در پے ہے، مسجدوں اور مدرسوں پر بلڈوزر چلایا جارہا ہے، رام کے نام پر مسجدیں چھینیں جارہی ہیں، حکومت سے لیکر ایک عام انتہاپسند ہندوبھی مسلمانوں کے خلاف اتر آیا ہے، یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان یہاں سے چلے جائیں اور اگر یہاں رہیں تو ہمارے رام جی کا نام انہیں جپنا ہوگا۔ ان حالات میں مولویوں کی یہ کوشش کہ امت بلا امتیاز مسلک وملت ایک ہوجائیں اور دشمنوں سے برسرِ پیکار ہوجائیں ، تو میں ان مولویوں سے کہتا ہوں کہ آپ صرف ہندوستان کے مسلمان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو بھی متحد کرلیں گے تب بھی دشمنوں سے لوہا نہیں لے سکتے، اس وقت جب تک آپ اور امت مسلمہ ایک اللہ کے فرامین پر ، ایک رسولﷺ کی شریعت پر اور ایک قرآن کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ۔ جس دن بٹے ہوئے آپ اور بٹے ہوئے مسلمان مسلک کے خول سے نکل خالص اسلام پر (جو کہ اللہ کا پسندیدہ دین ہے)نبی ﷺکی شریعت اور قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیگی تو اس دن ایک ارب تیس کروڑمسلمانوں کو آپس میں متحد ہونے کی ضرورت نہیں پڑیگی، بلکہ دشمنوں سے اقتدار حاصل کرنے کے لئے اور اپنا حق حاصل کرنے کیلئے تین سو تیرہ ہی کافی ہونگے، کیونکہ کامیابی اتحادِ دین میں ہے اتحادِ دنیا میں نہیں۔
آخر میں امت مسلمہ کو یہ بتاتا چلوںکہ مسلمانوں کا اتحاد وہ برکت اورنعمت جس سے امت اپنا کھویا ہوا شاندار ماضی حاصل کرسکتا ہے، انشاء اللہ وہ وقت ضرور آئیگا جب مسلمان اتحاد ویکجہتی کی ریشمی ڈوری میں بندھے ہونگے، جس روز ہم مسلمان کی توجہ اور نگاہوں کا مرکز مدینے والے کا بن جائیگااس روز ہم لوگ انشاء اللہ صحیح بلکہ قابل رشک راہ کے مسافر بن جائینگے۔ ہم چاہیں تو اتحاد ویکجہتی اور خود کو ممتاز بنانے کیلئے قرآن کی ہدایات اور تعلیمات سے اپنی انفرادی واجتماعی زندگیوں کو منور اور قابلِ رشک بناسکتے ہیں۔ قرآن سمجھ کر پڑھنے اور پڑھ کر ہدایت لینے کا ذریعہ ہے اس لئے قرآن وحدیث کو مقدم وبالا رکھ کر ہم آج بھی اتحاد ویکجہتی کی دولت سے مالا مال ہوسکتے ہیں۔ یقینا جس روز ہم مسلمانوں نے خود کو پوری طرح اسلامی تعلیمات کے تابع کرلیا اس دن ہماری ترقی اور کمال کے دور کا سورج طلوع ہوجائیگا۔ کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668