’’ کام والی ماسی ‘‘ ایک دن نہ آئے تو گھر کا سارا نظام بگڑ جا تا ہے

0
0
قیصر محمود عراقی
ہمارے معاشرے کا ایک ایسا کر دار جس نے آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کو ایک خاص مقام تک پہنچا دیا ہے اور وہ کردار ہے ’’کام کر نے والی ماسی‘‘، ماسی ہو یا کام کر نے والی باجی دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ ماسی کے بغیر گھر کا سارا نظام بگڑ جا تا ہے ، اس لئے انہیں خوش رکھنے کے لئے ان کے بڑے نخرے سہنے پڑتے ہیں ۔ ہر دوسرے دن یہ مالکن کو کہینگی کہ مالکن آج بہت تھکی ہو ئی ہوں اس لئے کپڑے نہیں دھو ئو نگی ، آج باتھ روم صاف کر نے کا موڈ نہیں کل دیکھونگی ، اس کے ساتھ گا ہے بگاہے کوئی نہ کوئی چھوٹی موٹی فرمائش کر نا اور جب چاہا کام سے چھُٹی کر لینا ان کے معمولات میں شامل ہیں ۔ کسی بھی نئے گھر میں کام کر نے سے قبل ماسیاں ہر کام کے الگ الگ پیسہ بتاتی ہیں ،گھر کی صفائی ، برتن دھونا ،کپڑے دھونا یعنی ہر ایک کام کے علیحدہ علیحدہ پیسے مقرر ہو تے ہیں ۔ گھر میں کوئی چھوٹا موٹا فنکشن ہو تو اس کے الگ پیسے وصو ل کر تی ہیں ۔
ماسی صرف گھر کی صفائی اور جھاڑ پونچھ ہی نہیں کرتی بلکہ اپنی ڈیوٹی کے علاوہ خوشی خوشی دوسرے کام بھی کر دیتی ہے ۔ مثلا ً مالکن یا اسی کی بہو، بیٹی کے سر میں درد ہو رہا ہو تو اس کا سر بھی دبا دیتی ہے اور بالوں میں تیل لگا کر کنگھی بھی پھیر دیتی ہے ، بازار سے سودا سلف بھی لا دیتی ہے ،پُرانی ماسیاں ہر لحاظ سے بہت اچھی ہو تی تھیں مگر ان میں صرف ایک ہی قدر مشترک تھی کہ وہ ایک گھر کی باتیں دوسرے گھر اور دوسرے گھر کی باتیں تیسرے گھر ضرور بتاتی تھیں ۔ اب تو گھروں میں کام کر نا بھی ایک پیشہ بن گیا ہے جسے بہت سے گھرانوں نے آمدنی کا ذریعہ بنا لیا ہے ، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ ایک خاندانی پیشہ بنتا جا رہا ہے ۔ پہلے یہ کام عمر رسید ہ عورتیں کر تیں تھیں تا ہم اب نوجوان عورتوں نے یہ کام سنبھال لیا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر ایسی عورتوں کے ساتھ دو تین تیرہ سے سولہ سال کی لڑکیا ں بھی ہو تی ہیں جو مل کر کام کر تی ہیں ۔ گھر میں کام کر نے کے لئے عورتوں کو ملازم رکھنا ایک رواج بن گیا ہے اور یہ رواج ہماری مجبوری بنتا جا رہا ہے ، ویسے بھی ہماری عورتیں بہت نازک مزاج ہو گئی ہیں اب ان بے چاریوں سے گھر کا کام کاج نہیں ہو پا تا ۔
وہ زمانے گئے جب عورتیں سارا سارا دن کام میں جٹی رہتی تھیں ، پھونکیں مار مار کے چولہے جلانے ، ڈنڈے مار مار کے کپڑے دھونے سے لیکر نمک اور مر چیں ہاون دستہ سے خود پیسا کر تی تھیں، ان سارے کاموں کو نپٹانے کے بعد بھی جو وقت بچ جا تا تو سلائی مشین لے کر بیٹھ جا تیں اور سلائی کڑھائی کا کام کرتی تھیں، اور ایک آج کے مشینی دور میں ہر کام آسان ہو گیا ہے ، کپڑے دھونے کے لئے واشنگ مشین ، کپڑے سکھانے کے لئے ڈرائر ، چولہا جلانے کے لئے دیا سلائی ، مرچ مصالحے کو ٹنے کی بجائے اب یہ ساری چیزیں کُٹی کُٹائی بازار سے مل جا تی ہیں ، اب تو ماسیوں کا گھروں میں بڑا عمل دخل ہے ، ان کے دیئے ہو ئے مشوروں پر عمل بھی کیا جا تا ہے ۔ دوسرے شعبوں کی طرح ان ماسیوں اور باجیوں میں بھی ہر طرح کی عورتیں موجود ہیں ، اچھی اور بُری ذہنیت رکھنے والی سب ان میں شامل ہیں ، اچھی عورت اپنا کام ایمانداری اور خوش اسلوبی  سے کر تی ہے جبکہ بُری اور جرائم پیشہ عورتوں کی تو جہ کام کر نے کے ساتھ ساتھ کام دکھانے پر لگی رہتی ہیں ، وہ اسی تاک میں رہتی ہیں کہ کب موقع ملے اور کب وہ گھر کا قیمتی سامان لے کر غائب ہو جا ئے ۔ ڈاکہ زنی کے اکثر واقعات میں ایسی ہی عورتیں ڈاکوئوں کی سہولت کار ہو تی ہیں ، جس گھر میں وہ کام کر تی ہیں اس گھر کے اندر کا حدود اربعہ اور تمام اطلاعات اپنے ساتھی ڈاکوئوں تک پہنچا تی ہیں ، کہ کس وقت گھر میںمرد موجود نہیں ہو تے ، کس دن گھر والوں کو شادی بیاہ پر جا نا ہے ، گھر کی قیمتی اشیا کون سی جگہ پڑی ہیں اور پھر وہاں پر ڈاکہ پڑجاتا ہے یا پھر چوری ہو جا تی ہے ۔ آئے دن ایسے واقعات ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں لیکن ان واقعات کا ہمارے اوپر اثر نہیں ہو تا ۔ خدا کے لئے کسی کو گھر کے کام پر لگانا ہے تو سب سے پہلے اس کی انکوائری کر لیں ، اس کا اصلی شناخت کارڈ دیکھیں اور اس کی فوٹو کاپی اپنے پاس محفوظ کر لی جا ئے تو ایسے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے ۔
ماضی کی نسبت اب حالات بہت تبدیل ہو گئے ہیں سب سے بڑی تبدیلی جو آئی ہے وہ’’ مہنگائی‘‘ہے جس نے ہر طرف ڈیرے ڈالے ہو ئے ہیں ۔ امیر لوگ کہتے ہیں کہ وہ مشکل سے گزارہ کر رہے ہیں ، اس صورت میں اگر محنت کشوں کی طرف نظر دوڑائی جا ئے تو پھر ان غریبوں کا اللہ ہی حافظ ہے جو صبح سویرے اپنے بچوں کی روٹی کے لئے گھر سے نکلتے ہیں اور شام کو اتنے پیسے کما کر لاتے ہیں جس سے ان کا صرف ایک دن ہی گذرتا ہے ۔ کام والی ماسیوں کی بھی یہی حال ہے جو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے تمام دن لوگوں کے گھروں میں کام کر تی ہیں ، مہنگائی کے باعث اگر ماسیاں زیادہ تنخواہ کا اصرار کر یں تو انہیں یہ کہا جا تا ہے کہ تھوڑا سے کام کے تم اتنے پیسے مانگ رہی ہو لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ تین چار ہزار میں ان ماسیوں کو پورے مہینے کے اخراجات پورے کر نا ہے ۔ ماسیوں میں اکثریت ایسی ماسیوں کی بھی ہے جن کے شوہر نکھٹو ہو تے ہیں اور تمام دن گھر میں فارغ بیٹھے رہتے ہیں یا پھر نشے کے عادی ہو تے ہیں ، ان کی بیویاں جو کما کر لا تی ہیں وہ ان سے چھین لیتے ہیں جس کے بعد بیوی اور بچے منھ تکتے رہ جا تے ہیں ، یہ بھی حقیقت ہے کہ ماسی اب بہت مشکل سے ملتی ہے ، جس کی بہت سے وجوہات ہیں پہلی وجہ ماسیوں کی گروپ بندی ہو نا جس کے تحت ایک محلے میں صرف اس گروپ کی عورت ہی کام کر سکتی ہے اور دوسری وجہ پرو پگنڈہ ہے جس کے تحت ایک ماسی اپنی ہی ساتھی کو کسی مالکن کے خلاف بھڑکا دیتی ہے کہ اس کے گھر کام نہ کر نا وہ کام بہت کر واتی ہے اور وقت پر پیسے بھی نہیں دیتی جس کی وجہہ سے ماسی ایک دن کام کر نے بعد ہی اس مالکن کو جواب دے دیتی ہے یا اگلے دن آتی ہی نہیں ۔
بہرحال اب بھی ایسی ماسیاں موجود ہیں جس گھر میں کام کر تی اس گھر کو اپنا گھر اور اس گھر کے بچوں کو اپنے بچے سمجھتی ہیں ۔
کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ، کولکاتا ۔۵۸
Mob: 6291697668
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا