انڈیا میں توہینِ مذہب کیخلاف قانون!

0
36

الطاف حسین جنجوعہ
ِ

عزیز ہندوستان دُنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کے ساتھ ساتھ تنوع میں اتحادUnity in diversityکی

عظیم مثال ہے۔یہاں پر مختلف مذاہب، عقائد، نظریات رکھنے والے لوگ آباد ہیں، ہزاروں زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔ جغرافیائی اورموسمی اعتبار سے بھی تنوع ہے۔ کہیں بلند وبالا پہاڑ ہیں تو کہیں سینکڑوں کلومیٹر طویل میدان،کہیں سرسبزہ تو کہیں ریگستان، کہیںبرف باری تو کہیں تڑپتی دھوپ، خشک سالی تو کہیں سیلاب ۔مختصر یہ کہ آپ کوہندوستان میں ہررنگ، نسل، ذات، مذہب، عقیدہ، زبان، بولی بولنے والے لوگ ملیں گے اور قدرتی طور پرپہاڑ، گلیشیئر، سمندر، جھیلیں، دریا، سرسبز میدان، ریگستان سب کچھ ملے گا۔ اِسی فطری تنوع کو مد نظر رکھتے ہوئے ہندوستان کو ایک سیکولر ملک قرار دیاگیا۔ آئین ِ ہند میں آرٹیکل 25تا28مذہب کی آزادی دی گئی ہے تو وہیں آرٹیکل19کے تحت اظہار ِ رائے کی آزادی ہے لیکن اکثر وبیشترحق اظہارِ رائے کا غلط

استعمال دوسروں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے لئے ہوتا رتاہے۔

https://www.livelaw.in/
19ویں صدی میں برصغیر میں انگریزوں کے رائج قوانین کے مرہون منت ہیں۔ تقسیم ہند سے تقریباً ایک صدی قبل 1860 میں انگریزوں نے مذہبی نوعیت کے بڑھتے ہوئے مذہبی جرائم کے سبب دفعہ 295، 296 اور 298 کے نام سے تین نئے قوانین انڈین ضابطہ تعزیرات میں شامل کیے تھے۔تعزیرات ِ ہند یعنی انڈین پینل کوڈ میں باب نمبر15دفعہ295سے لیکر298تک توہین ِ مذہب سے متعلق جرائم کی بات کرتا ہے۔ ان کے تحت کسی عبادت گاہ کی بے حرمتی کرنا، مذہبی تقریب میں خلل ڈالنا اور مذہبی جذبات کو دانستہ طور پر مجروح کرنا جرم قرار دیا گیا تھا۔انگریزوں کے بنائے گئے یہ قوانین کسی مخصوص مذہب کے لیے مختص نہیں تھے اور نہ ہی ان میں سے کسی قانون میں موت کی سزا متعین کی گئی تھی۔اب نئے فوجداری قانون بھارتیہ نہائے سنہیتا(بی این ایس)میں باب نمبر 16کے تحت دفعہ298تا302اِن جرائم کو من وعن شامل کیاگیاہے۔ دفعہ295Aتعزیرات ِ ہند جو،اب 299(بی این ایس) کے مطابق ’’ جو کوئی بھارت کے شہریوں کے کسی طبقے کے مذہبی جذبات کی بے حرمتی کی عمداًاور بدنیتی سے بذریعہ الفاظ خواہ کہے گئے یا تحریری یا اشاروں سے یا واضح اظہار سے یادیگر طور اس طبقے کے مذہب یا مذہبی اعتقاد کی بے حرمتی کرے یا بے حرمتی کا اقدام کرے اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی تین سال تک کی سزائے قیدیا جرمانہ کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔ دفعہ295تعزیرات ِ ہند اور اب 298 کے مطابق :جوکوئی کسی عبادت گاہ یا کسی ایسی چیز کو جسے اشخاص کا کوئی طبقہ متبرک سمجھتا ہو، تباہ کرے، نقصان پہنچائے یا ناپاک کرے اس نیت سے کہ اس سے اشخاص کے کسی طبقے کے مذہب کی توہین ہو یا یہ جانتے ہوئے کہ اشخاص کے کسی طبقے میں سے ایسی بربادی، نقصان یا ناپاکی کو اپنے مذہب کی توہین سمجھے جانے کا امکان ہے، اسے دونوں میں میں سے کسی بھی قسم کی دو سال تک کی سزاقید یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔دفعہ298تعزیراِ ت ہند اور اب 302بی این ایس: جو کوئی کسی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی بالعمدنیت سے اس شخص کی سماعت میں کوئی لفظ کہے یا کوئی آواز نکالے یا اس شخص کی بصارت میں کوئی اشارہ کرے یا کوئی چیز رکھے، اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی ایک سال تک کی سزائے قیدیا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
297آئی پی سی اب 301بی این ایس: جوکوئی کسی شخص کے جذبات کو مجروح کرنے یا کسی شخص کے مذہب کی توہین کی نیت سے یا یہ علم ہوتے ہوئے کہ کسی شخص کے جذبات کے مجروح ہونے یا کسی شخص کے مذہب کی توہین کا امکان ہے، کسی عبادت گاہ یا مزار میں یا کسی ایسی جگہ میں جو آخری رسوم کی انجام دہی کے لئے یا مردوں کے مدفن کے طور پر رکھی گئی ہو، مداخلت بے جاکرے یا کسی انسانی لانش کی بے عزتی کرے یا آخری رسوم کی انجام دہی کے لئے اکھٹے ہونے والے کسی شخص کو پریشان کرے، اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی ایک سال تک کی سزائے قید یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔انڈیا میں توہین ِ رسالت ؐ سے متعلق اعلیحدہ یا مخصوص کوئی کوڈیفائیڈ لاء یعنی ضابطہ قانون موجود نہیں، ایسی صورت میں متذکرہ بالا دفعات کے تحت ہی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ مذہب، نسل، جائے پیدائش، سکونت ، زان وغیرہ کی بناء پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی بڑھانے اور موافقت کے قیام میں مضرت رساں افعال کرنے کیلئے دفعہ153Aتعزیرات ِ ہند جو اب دفعہ196بھارتیہ نہیا سنہیتا(بی این ایس)ہے، کا بھی اطلاق کیاجاسکتا ہے جس میں درج ہے (الف)’’بذریعہ الفاظ، خواہ کہے گئے یا تحریری یا بذریعہ اشارات یا واضح اظہار یا دیگر طور پر مذہب، نسل، جائے پیدائش، سکونت، زبان ، ذات پات یا فرقے یا کسی بھی دیگر بناء پر مختلف مذہبی، لسانی، یا علاقائی گروہوں یا ذاتوں یا فرقوں کے درمیان ناموافقت یا دشمنی نفرت یا بدظنی کے جذبات بڑھائے یا بڑھانے کا اقدام کرے یا: (ب) کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرے جو مختلف مذہبی ، نسلی، لسانی یا علاقائی گروہوں یا ذاتوں یا فرقوں کے درمیان موافقت کے قیام میں مضرت رساں ہو یا جس سے عافیت نامہ میں خلل واقع ہو یا واقع ہونے کا امکان ہو؛یا (ج) کوئی مشق، نقل وحرکت ، ڈِرل یا دیگر ایسی سرگرمی اس ارادے سے منظم کرے کہ ایسی سرگرمی میں حصہ لینے والے کسی مذہبی ، نسلی، لسانی یا علاقائی گروہوں یا ذات یا فرقے کے خلاف قوت مجرمانہ یا تشدد کا استعمال کریں یا استعمال کی تربیت پائیں، یہ جانتے ہوئے کہ ایسی سرگرمی میں حصہ لینے والوں کی نسبت یہ امکان ہے کہ وہ قوت مجرمانہ یا تشدد کا استعمال کریں گے یا استعمال کی تربیت پائیں گے یا اس ارادے سے ایسی سرگرمی میں حصہ لے، قوت مجرمانہ یاتشدد کا استعمال کرے یا استعمال کی تربیت پائے یا یہ جانتے ہوئے کہ ایسی سرگرمی میں حصہ لینے والے کی نسبت یہ امکان ہے کہ وہ قوت مجرمانہ یا تشدد کا استعمال کریں گے اور ایسی سرگرمی سے کسی بھی وجہ سے ایسی مذہبی، نسلی، لسانی یا علاقائی گروہ یا ذات یا فرقے کے افراد کے درمیان خوف یا خطرہ یا عدم تحفظ کا احساس پیدا ہویا پیدا ہونے کا امکان ہو، اسے تین سال تک کی سزائے قید یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائین گی۔ اس میں مزید ذکر ہے کہ (2)جوکوئی ضمن (1)مصرحہ جرم کا ارتکاب کسی عبادت گاہ یا کسی ایسے مجمع میں کرے جومذہبی عبادت کر رہا ہویا مذہبی رسوم انجام دے رہاہو، اسے پانچ سال تک کی سزا قیددی جائے گی اور وہ جرمانے کا مستوجب بھی ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کہیں پر کوئی مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کامرتکب ہوتا ہے، جس کا ذکر متذکرہ بالا دفعات میں کیاگیا ہے، تو اُس کے خلاف کارروائی کے لئے کیا کریں۔بھارتیہ ناگرگ سورکشا سنہیتا(BNSS-2023)جوکہ پہلے ضابطہ فوجداری1973تھا، میں اِس حوالے سے تفصیلی طریقہ کار درج ہے۔ دفعہ173کے تحت اِس میں پولیس کے پاس شکایت تحریری یازبانی درج کرائی جاسکتی ہے، اگر ایس ایچ او اِس پر کارروائی نہیں کرتا تو متاثرہ شخص سنیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس(ایس ایس پی)کے پاس رجوع کر سکتا ہے،اگر پھر بھی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی، تو متاثرہ شخص جوڈیشل مجسٹریٹ کے پاس کارروائی کے لئے درخواست دے سکتا ہے۔
اگر توہین ِ مذہب کا مرتکب شخص ملک کی کسی دوسری ریاست، مرکزی زیر انتظام علاقہ یا ضلع میںرہتا ہے اور اُس کے کسی مجرمانہ فعل سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی تومتاثرہ شخص مقامی سطح پر متعلقہ پولیس تھانہ میں 173(1)’زیرو ایف آئی آر‘بھی درج کراسکتے ہیں،ایسی صورت میں ایف آئی آر آپ نے مقامی تھانے میں لگے گی، لیکن اِس کو تحقیقات کے لئے فارورڈ اُس متعلقہ تھانہ کو کیاجائے گا، جہاں ملزم رہائش رکھتاہے۔ اگر کسی شخص نے توہین ِ مذہب متعلق سوشل میڈیا پر کوئی ویڈیو اپلوڈ کی اور وہ ویڈیو آپ نے علاقہ میں دیکھی گئی، اُس سے امن وامان کی صورتحال پیدا ہوئی توایسی صورت میں مقامی پولیس تھانے کے پاس بھی ایف آئی آر درج کرنے اور تحقیقات کا اختیار ہے۔ اس کے علاوہ اخبارات میں بیان یا مضمون توہین ِ مذہب متعلق شائع ہواجو آپ کے علاقے میں پڑھاگیا اور اُس سے امن وامان میں خلل پڑا تو بھی مقامی متعلقہ تھانہ کے پاس کارروائی کا اختیار ہے۔ بطور ایک ذمہ دار بھارتی شہری کا ثبوت دیتے ہوئے ایکدوسرے کے مذہبی جذبات وعقائد کا احترام کرنا ہمارا فرض ہے اورمرتکب شخص یا اشخاص کیخلاف قانونی چارہ جوئی کے لئے حاصل آئینی وقانونی اختیارکا استعمال کرنا چاہئے۔ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے صرف نفرت ، عداوت ، دشمنی، بدظنی، اختلات اور کشیدگی جنم لیتی ہے ۔وطن ِ عزیز ہندوستان میں آپسی بھائی چارہ، مذہبی رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، یگانگت ، یکجہتی واتحاد کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں اپنے اخلاق اور کردار کو معیاری کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ،اسی سے ہم دوسروں کو متاثر کرسکتے ہیں۔
7006541602

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا