بہارمیں سیلاب:آخر اس مرض کی دوا کیا ہے!

0
31

٭

پروفیسر مشتاق احمد

موبائل:9431414586
 [email protected]

 

ہمارے پڑوسی ملک نیپال کے مشرقی اور وسطی حصے میں جب کبھی شدید بارش ہوتی ہے تو نہ صرف نیپال

کے کئی اضلاع سیلاب کی زد میں آجاتے ہیں بلکہ وطنِ عزیز ہندوستان کی ریاست بہار کے شمالی حصے میں بھی اس کی تباہی دیکھنے کو ملتی ہے اور یہ سلسلہ گذشتہ ایک صدی سے چل رہا ہے۔مرکزی حکومت کی جانب سے نصف صدی سے یہ کوشش ہو رہی ہے کہ

https://state.bihar.gov.in/

پڑوسی ملک نیپال کے ساتھ اس مسئلہ پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جائے تاکہ نیپال میں شدید بارش کی وجہ سے جو تباہی ریاست بہار میں ہوتی ہے اس پر روک لگائی جا سکے۔مگر یہ مسئلہ ہنوز برقرار ہے۔ واضح ہو کہ آزادی کے فوراً بعد 1950ء میں نیپال کے ساتھ اس مسئلہ پر گفت وشنید کے لئے بہار کی راجدھانی پٹنہ میں پانچ روزہ اجلاس ہوا تھا اور اس اجلاس میں دونوں ملک نے یہ طے کیا تھا کہ چوں کہ نیپال میں ہر سال شدید بارش ہوتی ہے اور وہ پانی ندیوں کے ذریعہ ہندوستان کی کوسی ندی کے سطح آب میں اضافہ کرتا ہے اور نتیجہ ہے کہ شمالی بہار کے درجنوں اضلاع سیلاب سے دوچار ہوتے ہیں لہٰذا بیر پور میں دریا پر بیراج کی تعمیر ہوئی اور اس میں 56دروازے بنائے گئے تاکہ نیپال سے آنے والی ندیوں کے پانی کو روکا جا سکے اور آہستہ آہستہ کھولا جائے تاکہ شمالی بہار کی کوسی ندی کے سطح آب میں اچانک اضافہ نہ ہو اور کوسی کے آس پاس کی آبادی کو سیلاب سے بچایا جا سکے۔ماضی میں اسی نسخے کو اپنایا جاتا رہا لیکن ہر دو چار سال کے بعد شمالی بہار کی کوسی ندی کے سطح آب میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے سیلاب کا قہر برپا ہوتا رہا ہے۔اس سال بھی نیپال کے کاٹھمنڈو کے گردو نواح میں شدید بارش ہوئی اور جس کی وجہ سے نیپال میں بھی سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور لینڈ سلائڈ کا سلسلہ جاری ہے جس سے مزید تباہی ہو سکتی ہے۔ لیکن سب سے بڑا خطرہ شمالی بہار کے تقریباً بارہ اضلاع میں ہے کہ 1968کے بعد پہلی بار بیراج کے تمام56دروازے کھول دئیے گئے ہیں جس کی وجہ سے شمالی بہار کی کوسی اور گنڈک ندیوںکے سطح آب میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیاہے۔ نتیجہ ہے کہ اب ان دونوں ندیوں کا پانی آبادی والے علاقے میں پھیل گیاہے ۔ کئی باندھ ٹوٹ گئے ہیں ، بیر پور اور بالمیکی نگر کے دروازے بھی کھولے گئے ہیں تاکہ پانی جومیں طغیانی ہے وہ کم ہو سکے اور سیلاب کی تباہی بھی رک سکے مگر ایسا نہیں ہو پا رہاہے اس لئے حکومت بہار نے بارہ اضلاع میں سیلاب کے خطرے کا الرٹ جاری کیا ہے ان میں بھوجپور، سارن، پٹنہ،سمستی پور، بیگوسرائے، مونگیر، بھاگلپور،سپول، سہرسہ، مدھوبنی اور مدھے پورہ میں صورتحال دگرگوں ہے کہ ان اضلاع کے کئی حصوں میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے ۔چوں کہ ان علاقوں میں بارش بھی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے بھی ندیوں میں پانی بڑھ رہاہے ، بالخصوص کوسی ، گنڈک، بوڑھی گنڈک، کملا بلان، باگمتی اور گنگا ندیوں میں بھی پانی کی سطحیں خطرے کے نشان کو عبور کرگئی ہیں جو ریاست بہار کے مذکورہ اضلاع کے لئے باعثِ فکر مندی ہے ۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ گذشتہ نصف صدی سے سیلاب کے مسائل پر دونوں ممالک کے درمیان وقتاً فوقتاً اجلاس ہوتے رہتے ہیں اور کئی بار اس طرح کی خبریں عام ہوئی ہیں کہ دونوں ممالک نے یہ طے کیا ہے کہ اب نیپال میں جب کبھی شدید بارش ہوگی تو اس کو روکنے کے لئے سائنسی ترکیب اپنائی جائے گی بلکہ اس پانی سے بجلی پیدا کرنے کے صنعت کو فروغ دیا جائے گا ۔ مگر تلخ سچائی یہ ہے کہ ہند اور نیپال کے درمیان اب تک جو بھی گفت وشنید ہوئی ہے وہ کاغذ تک ہی محدود ہے جس کا نتیجہ ہے کہ اس کا خمیازہ ہر سال شمالی بہار کے درجنوں اضلاع سیلاب کی زد میں آتے ہیں اور بالخصوص کوسی ندی کے گرد ونواح کی آبادی کو خسارہ عظیم پہنچتا ہے۔اس سال بھی کوسی ندی کے سطح آب میں جس برق رفتاری سے اضافہ ہوا ہے اور کوسی علاقے کی بڑی آبادی سیلاب سے متاثر ہوئی ہے ، درجنوں افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر اونچی جگہوں پر پناہ لے رہے ہیں۔ ان کے جانوروں کی حالت بد تر ہے کہ وہ اپنے جانوروں کے ساتھ ندیوں کے باندھوں پر پناہ لئے ہوئے ہیں۔گرچہ حکومت کی جانب سے راحت کاری کا اعلان کیا گیاہے اور سرکاری عملے ان تک پہنچ رہے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سرکار کی راحت کاری ان کے لئے وقتی عافیت کا سامان تو ہو سکتا ہے لیکن اگر واقعی شمالی بہار کے متاثرہ اضلاع کو سیلاب سے ہمیشہ کے لئے نجات دلانا ہے تو کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کر نا ہوگا کہ صرف گفت وشنید اوراجلاس سے مسئلے کا حل نہیں ہو پائے گا کیوں کہ گذشتہ نصف صدی سے یہ سلسلہ جاری ہے لیکن اس مرض کا علاج نہیں ہو پایا ہے ۔اس وقت چوں کہ مرکز اور ریاست بہار دونوں جگہ قومی جمہوری اتحاد کی حکومت ہے اس لئے اگر ریاستی حکومت مرکز ی حکومت پر کوئی دبائو بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو ممکن ہے کہ یہ دیرینہ مسئلہ حل ہو سکے اور نیپال کے پانی کا مصرف جدید تکنیکی عمل کی بدولت بجلی پیدا کرنے کی سبیل پیدا ہو سکے۔اگر ایسا معاہدہ ہوتا ہے تو نیپال کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی اس کا فائدہ مل سکتاہے کہ کوسی ندی کے پانی کا استعمال زراعت کے ساتھ ساتھ بجلی پیدا کرنے میں ہوگا اور آج جن علاقوں میں سیلاب کی تباہی دیکھنے کو مل رہی ہے ان علاقوں میں خوشحالی آسکتی ہے۔ مگرشرط یہ ہے کہ اس کے لئے حکومت ہند اور نیپال کو بہت سنجیدگی سے غوروفکر کرنا ہوگا کہ شدید بارش اورسیلاب کی وجہ سے دونوں ملکوں کی بڑی آبادی کو تباہیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔بالخصوص شمالی بہار میں سیلاب کی وجہ سے لاکھوں کی آبادی ہر سال بے گھر ہوتی ہے اور ہزاروں افراد اپنی زمین جائداد سے محروم ہو جاتے ہیں کہ سیلاب اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتاہے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
واضح ہو کہ ایک دہائی پہلے بھی اسی طرح کی تباہی ہوئی تھی اور شمالی بہار کے سیمانچل یعنی سپول، سہرسہ، پورنیہ، کٹیہار وغیرہ اضلاع میں لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے تھے اور سرکاری راحت کاری کے باوجود آج تک متاثرہ علاقے میں ہزاروں خاندان بے گھر ہو کر دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ایسے حالات میں اس بار جس برق رفتاری سے کوسی اور گنڈک کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹی چھوٹی ندیوں میں سیلاب کی طغیانی میں اضافہ ہو رہاہے اس سے خطرہ بڑھ گیا ہے کہ اس بار بھی لاکھوں افراد سیلاب سے متاثر ہوں گے اور ریاست میں ان کی باز آباد کاری کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوگا۔مقامِ شکر ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے سیلاب متاثرین کے لئے نہ صرف راحت کاری بلکہ ان کو مالی امداد پہنچانے کے لئے بھی فوراً اقدام اٹھائے ہیں اور سیلاب متاثرہ علاقے کا بہ نفسِ نفیس دورہ کر رہے ہیں ۔ اسی سلسلے میں گذشتہ کل وزیر اعلیٰ دربھنگہ آئے تھے اور انہوں نے دربھنگہ کمشنری کے سرکاری عملوں کے ساتھ میٹنگ بھی کی اور سیلاب متاثرین سے بھی ملاقات کی۔انہوں نے ریاست کے تقریباً چار لاکھ سینتیس ہزار سیلاب متاثرہ خاندان کو فی کس سات ہزار روپے کی امداد بھی متاثرین کے بینک کھاتوں میں ٹرانسفر کیا ہے جو تقریباً تین سو سات کروڑ سے زائد کی خطیر رقم ہے۔ان کے اس عمل کی چہار طرف تعریف ہو رہی ہے کہ انہو ںنے اس بار سیلاب متاثرین کے تئیں فعالیت ہی نہیں دکھائی ہے بلکہ ان کی باز آبادکاری کے سامان بھی مہیا کرائے ہیں۔

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا