غزہ کو جینے کا حق عالمی دنیا کی مجرمانہ خاموشی

0
60

۰۰۰
سید واصف اقبال گیلانی
۰۰۰
7 اکتوبر 2023 کو غزہ میں فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے سلسلے میں ایک نیا باب شروع ہوا۔ حالیہ حملے نہ صرف بے گناہ زندگیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ علاقے میں پھیلتی ہوئی انسانیت سوز صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔

https://www.aljazeera.com/tag/gaza/
غزہ کے تنازع کا تاریخی پس منظر پیچیدہ اور دردناک ہے، جو کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ اس تنازع کی جڑیں 1948 میں موجود ہیں، جب اسرائیل کی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی غزہ کی پٹی کی تشکیل ہوئی۔ یہ واقعہ فلسطینیوں کے لیے ایک بڑی تباہی کا باعث بنا، جسے وہ "نکبہ” یعنی "مصیبت” کے نام سے یاد کرتے ہیں1948 میں جب اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تو تقریباً 750,000 فلسطینی اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد غزہ کی پٹی میں پناہ گزین بنی۔ غزہ کی پٹی، جو کہ ایک چھوٹی سی سرزمین ہے، اس وقت فلسطینی مہاجرین کا مرکز بن گئی۔ اس وقت سے لے کر آج تک غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں کی زندگی مختلف چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کرتی رہی ہے۔نکبہ نے فلسطینی مہاجرین پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ بے گھر ہونے کے بعد، فلسطینیوں نے نہ صرف اپنی زمینیں کھوئیں بلکہ اپنی ثقافت اور شناخت بھی کھو دی۔ یہ لوگ مختلف ممالک میں پناہ گزین بن گئے، جبکہ بہت سے لوگ غزہ میں ہی رہ گئے۔ ان مہاجرین نے اپنی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ہمیشہ اس حقیقت سے متاثر رہے کہ ان کے آباؤ اجداد نے اپنی زمینیں کھو دی ہیں۔1967 میں عرب-اسرائیل جنگ کے بعد، اسرائیل نے غزہ اور مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ فلسطینیوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز تھا، جس میں انہوں نے مزاحمت کا آغاز کیا۔ 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوجیں نکال لیں، لیکن اس کے بعد بھی وہاں کی صورت حال بہتر نہیں ہوئی۔ 2006 میں حماس نے انتخابات جیتے اور 2007 میں غزہ پر کنٹرول حاصل کر لیا۔اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر ناکہ بندی شروع کر دی، جس نے وہاں انسانی بحران کو مزید بڑھا دیا۔ کئی سالوں تک جاری رہنے والی جنگوں اور حملوں نے ہزاروں فلسطینیوں کی جانیں لیں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔یہ تنازع آج بھی جاری ہے، اور عالمی برادری بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے، جس کی وجہ سے یہ تنازع ایک طویل مدتی بحران بن چکا ہے۔غزہ کا تنازع نہ صرف تاریخ بلکہ انسانی حقوق، سیاسی مفادات اور عالمی تعلقات کے پیچیدہ تانے بانے کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ لوگ امن اور سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔حالیہ بڑھتے ہوئے تنازعات اور ان کے اثرات نے دنیا بھر میں توجہ حاصل کی ہے، خاص طور پر 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد جو اسرائیل نے حماس سے جنگ کے نام پر جو تشدد کا پہاڈ ا?م انسانوں پر توڈا۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک فوجی تصادم تھا بلکہ اس نے انسانی زندگیوں، سماجی نفسیات، اور عالمی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔7 اکتوبر کو اج ہی کے دن اک سال پہلے، اسرائیل نے غزہ پر بھرپور فوجی کارروائی کا آغاز کیا، جس کا مقصد اپنی سیکیورٹی کو بحال کرنا نہیں تھا بلکہ اسرائیلی حکومت نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ حماس کی فوجی صلاحیتوں کو ختم کرنے کے نام پر بزرگوں’ عورتوں اور بچوں کے ختم کریگا۔ اس دوران، اسرائیل نے فضائی حملوں، زمینی کارروائیوں، اور ناکہ بندی کے ذریعے غزہ کی پٹی پر دباؤ بڑھایا۔ اس حکمت عملی کا مقصد دنیاں کو یہ پیغام دینا تھا کہ ایسے حملے ناقابل برداشت ہیں اور ان کے نتائج سنگین ہوں گے۔اس حملے اور اس کے بعد ہونے والی جنگ نے شہریوں میں شدید صدمہ پیدا کیا ہے۔ بہت سے لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہیں اور ان کی روزمرہ زندگی متاثر ہوئی ہے۔ بچوں میں خاص طور پر ذہنی دباؤ بڑھ گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ خوفزدہ ہیں کہ کہیں ان کے گھر بھی نشانہ نہ بن جائیں۔ یہ صورت حال نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر بھی معاشرے میں ایک خوفناک تبدیلی لا رہی ہے۔اس بحران نے نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع کیا بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بھی باعث بنا۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ جنگی جرائم کی تحقیقات کی جائیں تاکہ ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔یہ تمام واقعات ایک بڑے انسانی بحران کی نشاندہی کرتے ہیں جو کہ نہ صرف غزہ بلکہ پورے خطے میں امن و سکون کو متاثر کر رہے ہیں۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے اور دونوں قومیں امن کے ساتھ رہ سکیں۔غزہ میں انسانی بحران ایک سنگین صورت حال کی عکاسی کرتا ہے، جہاں جنگ اور تنازع نے انسانی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ یہ بحران نہ صرف شہری ہلاکتوں کی شکل میں نظر آتا ہے بلکہ بنیادی ضروریات کی کمی اور بے گھر ہونے کے مسائل بھی اس میں شامل ہیں۔حالیہ جنگ کے دوران، غزہ میں شہری ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے خاندان ایسے ہیں جو اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں، اور ان کی زندگیوں میں ایک گہرا صدمہ موجود ہے۔ میدان سے آنے والی کہانیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کس طرح لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں، جبکہ ان کے ارد گرد تباہی کا منظر موجود ہے۔
جنگ کی شدت نے غزہ کی آبادی کو بے گھر ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے رہائشیوں کو جنوبی غزہ کی طرف منتقل ہونے کا حکم دیا، لیکن بہت سے لوگ یا تو منتقل ہونے سے قاصر تھے یا پھر اس عمل سے خوفزدہ تھے۔ بے گھر ہونے والے خاندانوں کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جیسے کہ محفوظ مقامات تک پہنچنا، خوراک اور پانی کی عدم دستیابی، اور بنیادی طبی سہولیات کی کمی۔ بے گھر ہونے کے بعد، لوگوں کو نہ صرف اپنی زندگیوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں اپنے بچوں کی حفاظت کا بھی خیال رکھنا پڑا۔غزہ میں بنیادی ضروریات تک رسائی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ جنگ کے نتیجے میں پانی، خوراک، اور طبی سہولیات کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔ بہت سے خاندان ایسے ہیں جنہیں پانی اور خوراک حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ طبی سہولیات بھی شدید دباؤ کا شکار ہیں؛ ہسپتالوں میں زخمیوں کا علاج کرنے کے لیے وسائل کم پڑ گئے ہیں۔ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو روزانہ کی بنیاد پر نئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ وہ زخمیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔غزہ میں جاری تنازع کے بین الاقوامی ردعمل اور ذمہ داریوں کا جائزہ لینا اہم ہے، کیونکہ یہ مسئلہ عالمی سطح پر انسانی حقوق، سیاسی مفادات، اور بین الاقوامی قانون کے تناظر میں بہت زیادہ توجہ طلب ہے۔ غزہ کے عوام کو فوری مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس بحران سے نکل سکیں اور اپنی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کر سکیں۔مختلف ممالک کا غزہ کے تنازع پر موقف مختلف ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی ہے، جبکہ یورپی ممالک اور عرب ریاستیں فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتی ہیں۔ امریکہ نے اسرائیل کے حق میں بیان دیا کہ وہ اپنی خودمختاری کا دفاع کرنے کا حق رکھتا ہے، جبکہ دوسری طرف کئی عرب ممالک نے اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس تنازع میں صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن عملی طور پر کوئی مؤثر اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے۔
جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف اور انسانی حقوق کی تنظیمیں متحرک ہیں۔ ان تنظیموں نے غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی کو جنگی جرائم قرار دینے کی کوششیں کی ہیں۔ شواہد جمع کیے جا رہے ہیں، جن میں فوجی کارروائیوں کے دوران ہونے والی ہلاکتیں اور شہریوں کے خلاف ہونے والے مظالم شامل ہیں۔ اس سلسلے میں، انسانی حقوق کی تنظیمیں ان افراد کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے کام کر رہی ہیں جو ان جرائم میں ملوث ہیں۔سوشل میڈیا نے اس تنازع میں عوامی رائے کو تشکیل دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ مختلف پلیٹ فارمز پر لوگوں نے اپنی آواز بلند کی ہے، جس سے عالمی برادری کو اس بحران کے بارے میں آگاہی ملی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز اور تصاویر نے لوگوں کو متاثر کیا ہے اور انہیں اس بات کا احساس دلایا ہے کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنے میں بھی مدد فراہم کی ہے، جس سے عالمی سطح پر دباؤ بڑھا ہے کہ ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔یہ تمام عوامل ایک پیچیدہ صورت حال پیدا کرتے ہیں جہاں بین الاقوامی برادری کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانی جانوں کا ضیاع روکا جا سکے اور امن قائم کیا جا سکے۔ غزہ کا بحران ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے، اور اس کا حل تلاش کرنا نہایت ضروری ہے۔اسرائیلی فوج نے حالیہ تنازع کے دوران مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے حملوں کی شدت اور رفتار کو بڑھایا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فوج نے ہزاروں افراد کو ہدف بنانے کے لیے AI ٹیکنالوجی کا استعمال کیا، جس میں سوشل میڈیا پروفائلز، نگرانی، اور دیگر ڈیٹا شامل ہیں۔ یہ نظام ہدف کی شناخت کرتا ہے اور اگر کسی شخص کا "کِل ایبل” ہونے کا نمبر ایک خاص حد سے تجاوز کر جائے تو اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کی ٹیکنالوجی نے جنگ کی رفتار کو انسانی صلاحیتوں سے کہیں زیادہ تیز کر دیا ہے، جس سے شہریوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔غزہ میں ہونے والے حملوں کے دوران شہریوں کو نشانہ بنانے کے ظالمانہ معملات بھی سامنے آئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے غیر جنگجوؤں پر حملے کیے ہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں بے گناہ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے، جیسے کہ ہسپتال، سکول، اور رہائشی عمارتیں۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت شہری آبادی کو نشانہ بنانا ممنوع ہے، اور اس قسم کی کارروائیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔
سوشل میڈیا نے اس تنازع کے دوران فوجی طرز عمل کی دستاویزات جمع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے پوسٹ کردہ تصاویر اور ویڈیوز نے ان کی کارروائیوں کی نوعیت کو بے نقاب کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود مواد نے نہ صرف عالمی برادری کی توجہ حاصل کی بلکہ اس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی اجاگر کیا۔یہ تمام عوامل ایک بڑے انسانی بحران کی نشاندہی کرتے ہیں جو نہ صرف غزہ بلکہ پورے خطے میں امن و سکون کو متاثر کر رہے ہیں۔ عالمی برادری کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانی جانوں کا ضیاع روکا جا سکے اور ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔ غزہ کا بحران ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔
غزہ میں جاری تنازع کے دوران، انسانی کہانیاں اور تجربات اس بحران کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔ صحافیوں، متاثرین، اور عورتوں کی شمولیت نے اس جنگ کے اثرات کو مزید گہرا کیا ہے۔جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کرنا ایک انتہائی خطرناک اور مشکل کام ہے۔ صحافیوں کو نہ صرف اپنی جان کا خطرہ ہوتا ہے بلکہ انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی دستاویزات جمع کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک صحافی نے بتایا کہ "جب میں بمباری کے بعد جائے وقوع پر پہنچا، تو مجھے لگا جیسے میں ایک اجتماعی قبر پر کھڑا ہوں۔

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا