’’افسو س ! ہم جیسے رمضان میں داخل ہو تے ہیں ویسے ہی نکل آتے ہیں ‘‘

0
251

 

 

 

 

قیصر محمود عراقی

الحمد اللہ ! ہمارے درمیان رمضان المبارک اپنی عظمتوں و بر کتوں کے ساتھ سایہ فگن ہے ۔ یقینا اس ماہ مبارک کی فضیلیتوں ، عظمتوں اور بر کتوں کا کیا کہنا کہ جس مہینے کا ایک ایک لمحہ اپنے اندر خیر ہی خیر لیئے ہو ئے ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہِ مقدس کے روزوں کو ایمان والوں کے لئے فرض قرار دیتے ہو ئے اعلان فر ما دیا’’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیئے گئے ، جس طرح پہلے کے لوگوں پر فرض کیئے گئے تھے ، تا کہ تم پر ہیز گار بن جا ئو ‘‘ ۔ رمضان پورے معاشرے کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے اور ایک ساز گار اجتمائی ماحول بنا دینے کا سبب بنتا ہے ۔ یہ نیکیوں کے موسم ِ بہار کی طرح پورے معاشرے میں ایک خاص طرح کی پاکیزگی اور بھلائی کے رنگ بکھیر دیتا ہے ، اللہ کے گھر ، اللہ کے کلام کی دلکش آوازوں سے گونج اٹھتے ہیں ۔ اللہ کے بندے اللہ کے لئے اپنے دلوں اور جیبوں کو کھول دیتے ہیں ، معاشرے میں خیر و برکت کا اثر ہر صاحب دل کو محسوس ہو نے لگتا ہے اور اس کے اثر سے بھلائیوں اور خیر کو فروغ ملتا چلا جا تا ہے ۔
قارئین محترم ! مسلم معاشرے میں کئی طرح کے افراد پا ئے جا رہے ہیں ، کچھ وہ ہیں جو حقیقت اسلام سے اچھی طرح آگا ہ ہیں ، رمضان کی اہمیت سمجھتے ہیں ، روزہ اسی مثالی طریقے سے رکھتے ہیں جو ان کی روح ہے ،فوائد سمیٹتے ہیں ، یہ اسلامی معاشرے کی کریم ہیں مگر قلیل ہیں ۔ اکثریت ایسے مسلمانوں کی ہے جو رمضان میں روزے کا اہتمام تو کر تے ہیں لیکن اس کی روح سے نا آشنا ہیں اور فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق بھوک اور پیاس کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے ، نہ رب کی رضا ، نہ تر بیت ، نہ جنت ، نہ بے حد و حساب اجر اور نہ گناہوں کی معافی ۔ آج کتنے انسان ہو نگے جو روزہ رکھ کر اپنا احتساب کر تے ہو نگے ، جائزہ لیتے ہو نگے کہ کتنے اعضا ء کا روزہ ہے ؟ محض بھوک پیاس ہے یا واقعی آنکھوں ، کانوں ، زبان اور ہر عضونے روزہ رکھا ہے ، کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں روزوں سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو تا اور کتنے ہی قیام کر نے والے ہیں جنہیں رت جگے کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ ایسے کون لوگ ہیں ذرا جائزہ تو لیں ، روزہ رکھا ، جھوٹ نہ چھوڑا ، جھوٹی قسمیں کھا کھا کر مال بیچا ، رمضان آیا تو مال کی قیمت بڑھا دی ، نا جائز منافع خوری شروع کر دی ، عید آ رہی ہے خرچ بڑھ جا ئے گا تو دودھ میں پانی ملا دیا ، اچھا دکھا کر گلا سڑا پھل تھیلے میں ڈال کر دے دیا ، ملازمت کے اوقات میں ڈنڈی ماری ، روزے رکھ کر خیانت کے مرتکب ہو گئے ، رشوت کے ریٹ بڑھا دیئے یہ اور اس طرح کے سارے افعال جھوٹ کی قسمیں ہیں جو روزے کے اجر کو چاٹ جا نے والی ہے ، سیر بھر اجر کمایا ، من بھر گناہ کر لیئے ، اس لئے روزہ رکھ کر احتساب ضروری ہے کہ اجر حاصل ہو رہا ہے یا ضائع ہو رہا ہے ۔ یہ احتساب ہر طبقہ زندگی کے افراد کے کئے ضروری ہے ، عورت ہے یا مرد ، استاد ہو یا علماء ، تاجر ہو یا ڈاکٹر ، حکومتی اہلکار ، عدلیہ ، سیاست داں ، کسان یا مزدور سب اپنے اپنے کام اور اپنے اپنے دیانت داری پر نظر ڈالیں اور جائزہ لیں کہ روزہ کتنا درست ہے ۔
عملاً کیا ہو تا ہے ، یہ دل کا ایک درد ہے جسے بیان کر تے ہو ئے دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ دنیا میں ہی دیکھیں کیا حالت ہے ، ہر سال ہر رمضان میں ہم جیسے رمضان میں داخل ہو تے ہیں ویسے ہی نکل آتے ہیں ، نہ قلبی کیفیت بدلتی ہے ، نہ اخلاق ، نہ کر دار ، نہ ذاتی زندگی میں تبدیلی ، نہ اقوام کی حالت میں تغیر ، قرآن پڑھ رہے ہیں ، حاملِ قران ہیں لیکن کافروں کے غلام ہیں ، ذلت و مسکنت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے ۔ آج خوف ِ خدا سے عاری ہمارے تاجر دکاندار ماہ مبارک کے احترام کو بالا ئے طاق رکھ کر ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی بے چارے خریداروں اور صارفین کو حسبِ عادت الٹی چھُری سے ذبح کر نے میں مصروف ہیں ۔ رحمتوں اور فضیلتوں کے اس با بر کت مہینہ میں مذہب کے نام پر جو منڈی لگی ہو تی ہے ، اس کے فروخت کے اس نظام کے گذشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ، کیسے کیسے لوگ کیسے کیسے روپ دھار کر محفل ،سجائے بیٹھے ہو تے ہیں ، کہنے کو رمضان المبارک کی کرامات کا ورد کر تے ہیں اصل میں دنیا فروش ڈیرہ جمائے ہو ئے ہیں ، بہروپیئے اسلامی تاریخ پر لیکچر دے رہے ہیں ، بے علم قرآن پاک کے آفاقی پیغام پر وعظ دے رہے ہیں ، جو کل تک فیشن کیئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے اب دوپٹے ، چادریں اور ٹوپیاں پہن کر نیکو کار بنے بیٹھے ہیں اور یہ سب کچھ ایسے فخر سے ہو رہا ہے کہ جیسے اسلام کی بیش قیمت خدمت سر انجام دی جا رہی ہو۔ یہ جو کچھ بھی دکھا یا جا رہا ہے اس کا اسلام یا روح پرو ری سے کوئی تعلق نہیں ۔ آج کا انسان دکھوں کا ستایا ہوا ہے ، بے سکونی، بد امنی ، ڈیپریشن اور طرح طرح کے ذہنی امراض میں گھرا ہو ا ہے ، انسانیت نے ربانی چشمہ ہدایت سے منھ موڑ کر دنیا کو نفسانیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ، مادیت پر ستی ، مفاد پر ستی اور شہرت و دولت کی بھوک نے اعلیٰ اقدار تباہ کر دی ہیں انسان انسان کا دشمن بن گیا ہے ، حسد اور شر نے سکون بر باد کر دیا ہے ۔ آج نفسانیت اور خود غرضی کے ان پجاریوں کو پہلے سے کہیں زیادہ اسلام کے نظامِ تر بیت کی ضرورت ہے ۔ آج انسانیت پیاسی بھی ہے اور ضرورت مند بھی کہ آپ حیات لے کر کوئی اس کے پاس جا ئے ، اندھیروں میں بھٹکے ہو ئے اللہ کے بندوں تک اللہ کانورانی کلام اور پاکیزہ احکام سنائے۔
الغرض رمضان المبارک ایک مثالی مہینہ بن سکتا ہے اگر امتِ مسلماں اس مہینے کو کس شان و شوکت اور آب و تاب کے ساتھ گذارے کہ یہ شہادت حق کا نمونہ بن جا ئے ، دیکھنے والے سر کی آنکھوں سے دیکھیں کہ ایک ماہ کی تر بیت پا کر کیسی آب و تاب والا انسان اُٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ دیکھنے والے یہ بھی دیکھیں کہ ہر طرف ایک پاکیزہ فضا ہے ، ہر طرف نورانیت ہے ، محبت ہے ، ذکر ہیں ، دعائیں ہیں ، قرآن پڑھا جا رہا ہے ،، سچائی ہے ، امانت اور دیانت ہے ، قتل و غارت ، چوری چکاری ، لڑائی ، مار کٹائی ، گالم گلوچ ، شہو ت و بے حیائی سب کچھ یکسر بند ہو گیا ہے ، امن کا دور دورہ ہے ، پاکیزہ فضائیں ہیں ، معطر ہوائیں ہیں ، انسانی ہمدردی اور اخوت کی اعلیٰ مثالیں ہیں ، افطار کرائی جا رہی ہے ، کوئی بھوکا نہیں ، کوئی مجبور نہیں ، فطرہ و زکوۃ دیا جا رہا ہے ۔ کپڑے اور راشن تقسیم ہو رہے ہیں ، محبتیں بانٹی جا رہی ہیں ۔ کیا رمضان ہے ، کیا اس کی روح ہے ، کیا اعلیٰ تصور ہے ، کاش ہم یہ عملی مثالیں رمضان کے علاوہ باقی دنوں میں بھی قائم کر ،سکیں ۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا