قرآن کی تلاوت اور ہماری روایتی نفسیات

0
191
علیزے نجف
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے اس مہینے کی برکت و عظمت سے ہر کوئی واقف یے، اس مہینے میں نیکیوں کی بہار ہوتی ہے ، اسی کے حصول کے لئے اس  مہینے میں ہم عبادت کا خاص اہتمام کرتے ہیں، فرائض کے ساتھ نوافل بھی اس کا حصہ ہوتی ہیں،   قرآن کی تلاوت کا بھی ہم عام دنوں سے کہیں زیادہ کرتے ہیں۔ قرآن کے حوالے سے ہمارے یہاں یہ نظریہ ایک روایت کی شکل اختیار کر گیا ہے وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ مرتبہ قرآن مکمل کرنا ہے اس کے لئے آپس میں ایک مسابقت کا سا ماحول ہوتا ہے جو کہ کچھ برا نہیں، بیشک قرآن تمام مسلمانوں کے لئے ایک دستور حیات کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اسے پڑھ کر اللہ سے موعودہ ثواب کو طلب کرتا ہے بیشک اللہ بہت مہربان ہے وہ نیک نیتی کے ساتھ بندے کی کی جانے والی کوششوں کا صلہ کبھی ضائع نہیں ہونے دیتا۔ لیکن فکر کا پہلو یہ ہے کہ قران کو محض تلاوت تک محدود کرنا کہاں تک صحیح ہے؟
قرآن کی تلاوت کے حوالے سے ایک باشعور ذہن میں جو سوال سب سے پہلے آتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کے نزول کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا یہ محض بابرکت لفظوں کا مجموعہ ہے اسے دستور حیات خوش الحانی سے پڑھنے کی وجہ سے قرار دیا گیا ہے یا یہ اپنے مفاہیم اور اس میں بیان کردہ تعلیماتِ کے اعتبار سے دستور حیات کہلاتا ہے، یہ یہ سوال عام مسلمان کے ذہن میں بھی ہونا چاہئے، کیوں کہ دنیا کا کوئی بھی قانونی و عائلی دستور محض خوبصورت لفظوں کا مجموعہ تو نہیں ہوتا  کہ جسے سمجھے بغیر پڑھ کراس کے فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہو اس کے ذریعے نظام حیات چلایا جاتا ہو، یقیناً ایسا نہیں ہے تو قرآن جو کہ اپنی مستحکم تعلیمات کے اعتبار سے رہتی دنیا تک کے لئے دستور حیات کی حیثیت رکھتا ہے اس پہ غور و فکر کی ضرورت کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔  قرآن میں اللہ اپنے بندوں سے مخاطب ہے اس نے اس میں نہ صرف اپنے حدود و قیود کو واضح کیا ہے بلکہ انذار و تبشیر بھی کی ہے حیات بعد الممات میں وقوع پزیر ہونے والے حقائق کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے جو کہ پردہئ￿  غیب میں ہے اس تک دنیا کی کوئی سائنس نہیں پہنچ سکتی۔   ان سب کچھ کو تفصیل سے سمجھنے کے لئے اول تو عربی زبان کا علم رکھنا ضروری ہے اگر یہ ممکن نہیں تو پھر اس کا ترجمہ اس زبان میں پڑھنا ہوگا جس سے کہ ہم بخوبی واقف ہیں ذرا غور کیجئے کہ ہم اس کتاب کو کب تک اور کہاں تک دلچسپی کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں جس کی زبان سے ہم نابلد ہیں ہم اسے شاید ایک بار بھی پڑھنے کو ترجیح نہ دیں لیکن قرآن کی حیثیت عام کتابوں سے مستثنی ہے اس کے ساتھ عقیدت اور ثواب کے حصول کے جذبات وابستہ ہیں اس لئے لوگ اسے عقیدت کے ساتھ ثواب کے حصول کے لئے مسلسل پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں،  لیکن یہ قرآن کا جزوی فائدہ ہے بلکل ایسے ہی جیسے ہم رواں دواں سمندر سے چند چلو پانی لے کر مزید کی طلب سے بیفکر ہو جائیں۔ یہ ہماری تنگ نظری ہوگی اس سے کوئی سمندر کی وسعت کے تنگ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا،  قرآن دراصل انسان کی فکر اور ذکر کی نفسیات کو مخاطب کرتا ہے، وہ زندگی سے جڑی محکم سچائیوں کی ترجمانی کرتا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ ہماری اصل کیا ہے؟ اور ہمارا مرجع کیا ہے؟ بحیثیت انسان کے ہماری حدود و قیود کیا ہیں یہ سب کچھ جاننے و سمجھنے کے لیے ہمیں محض تلاوت قرآن پاک تک محدود رہنے کے بجائے اس کے مفاہیم کو سمجھنے کی جستجو کرنی ہو گی۔
بات رمضان المبارک میں تلاوت قرآن سے متعلق عام رویے کی ہو رہی تھی بیشک قرآن کی تلاوت سے ثواب کی آرزو  رکھنا اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی جستجو کرنا ایک مستحسن عمل ہے،  لیکن ہم اس سے قرآن کے نزول کے اصل مقصد کو پورا نہیں کر سکتے اس لئے ہمیں اپنے اس رویے پہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔  سب سے پہلے ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن کے اس پیغام کو سمجھنے کی جدوجہد کریں جو کہ اس میں پنہاں ہے، یہ ترجمہئ￿  قرآن کے پڑھنے سے ہی ممکن ہے قرآن مردوں کو بخشوانے سے زیادہ زندوں کو زندگی دینے کے لئے نازل کیا گیا ہے۔ اس لئے روز کئی پارے کی جلدی جلدی تلاوت کر کے اس کو ختم کرنے کے بجائے قرآن کے ایک مخصوص حصے کی تلاوت کریں ساتھ ہی حسب استطاعت قرآن میں بیان کردہ تعلیماتِ اور اس کے خوبصورت لفظوں کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے ترجمہ پڑھنے کو ترجیح دیں اپنی فہم کے ذریعے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی عملی زندگی میں اسے شامل کرنے کی جدوجہد کریں اس کے لئے سادہ ترجمہ کے ساتھ تفسیر سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ ایک دن بہت زیادہ پڑھ کر تھک کر چھوڑ دینے سے بہتر ہے کہ روز تھوڑا تھوڑا پڑھیں اور سمجھیں۔  قرآن کی آیات  اپنے اندر تہہ در تہہ معنویت رکھتی ہیں یوں جیسے ہم سمندر میں اتر رہے ہوں جہاں ہر قدم ایک نئی دنیا سے آشنا کراتا ہے، مثال کے طور پہ اگر ہم کسی خوبصورت وادی کے درمیان سے ٹرین سے گزریں اس وقت اگرچہ ہم اس کی خوبصورتی کو دیکھتے ہیں لیکن سرسری طور پہ، اس کی خوبصورتی سے ہم زیاد محظوظ  نہیں ہو پاتے، اس کے برعکس جب ہم  آہستہ رفتار سے پیدل چلتے ہوئے اس وادی سے گزرتے ہیں تو اس کی خوبصورتی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے، ہر قدم پہ ایک نئے احساس کا گمان ہوتا ہے، ہر منظر آنکھوں کے راستے دل میں نقش ہونے لگتا ہے، جتنا ہم اس کے سحر کو محسوس کرتے ہیں احساس کی دنیا میں نئے نئے انکشافات ہوتے جاتے ہیں۔ جب دنیا کا ایک معمولی سا حسن اس قدر گہرائی رکھتا ہے تو پھر اس کا خالق جو کہ احسن الخالقین ہے اس کے نازل کردہ الفاظ کیسے معنویت سے خالی ہو سکتے ہیں۔
قرآن پہ مستقل غور و فکر کرنے سے اس کے اسرار و رموز انسان پہ کھلتے ہیں ، دوسرے اللہ سے توفیق مانگتے رہنا چاہئے کہ وہ ہمارے دلوں کو قرآن کے اصل اسرار و رموز کو سمجھنے کے لئے کھول دے، اور ہمارے دل میں اپنی رضا کی سچی طلب پیدا کردے۔ اکثر لوگ اس تجربے کا ذکر کرتے ہیں کہ ہم نے جب قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی بار بار کوشش کی،  شروع شروع میں محسوس ہوا کہ اس میں مختلف قوموں کا ذکر کیا گیا ہے، نماز ،روزے زکوٰ?، صدقات اور حج کے ساتھ کچھ عائلی و عوامی زندگی کے قوانین وغیرہ بیان کئے گئے ہیں، جس میں بیشتر باتیں تو ہمیں ازبر ہیں بیشک ہم اسے سمجھ رہے ہیں
لیکن مستقل کوشش کرتے رہنے سے ایک لمحہ ایسا آیا کہ یوں لگنے لگا کہ گویا یہ آیت میرے لئے ہی اتری ہے جیسے خدا براہ راست مجھ سے بات کر رہا ہے، قرآن کی تعلیمات سے ذاتی ربط پیدا ہونے لگا۔ بیشک یہ سچ ہے کہ قرآن سے ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق فیض حاصل کرتا ہے، جوں جوں ہم اپنی طلب و پیاس کو بڑھاتے جاتے ہیں خدا ہمارے سینوں کو کھولتا جاتا ہے، ہر انسان کو اتنا ہی ملتا ہے جتنی وہ کوشش کرتا ہے، قرآن ہم سب پہ فرض کیا گیا ہے جیسے کہ روزے، نماز،  زکوۃ، حج فرض کئے گئے ہیں اور اس فرض کی ادائیگی کرتے ہوئے کبھی ہم اس کی روح اور اس کی حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
قرآن بنی اسماعیل پہ نازل ہوا ان کی زبان عربی تھی اس لئے اللہ نے ان کو ان کی زبان میں مخاطب کیا ہے، ذرا سوچئے اگر اللہ نے کسی دوسری زبان میں قرآن کو نازل کیا ہوتا تو کیا اس وقت لوگ اس پہ ایمان لاتے وہ تو فوراً یہ بات کہہ دیتے کہ ہم اس کو کیسے مان لیں جو کہ ہماری سمجھ سے باہر ہے اس میں کیا لکھا ہے اس کو سمجھے بغیر ہم اس کی حقانیت پہ کیسے ایمان لے آئیں۔ بیشک ہم بحیثیت مسلمان کے اس کتاب کو پڑھے بغیر اس کے من جانب اللہ ہونے پہ یقین رکھتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اب اس کو سمجھنے کی ضرورت نہیں رہی، یہ ماننا کیسا ماننا ہے جس کی حقیقت سے ہم خود بیخبر ہیں محض عقیدت کے ساتھ نہ ہی ایمان کی حفاظت کی جا سکتی ہے نہ ہی اس کے تقاضے پورے کئے جا سکتے ہیں۔
اس رمضان المبارک کے موقع پہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ اس کا ترجمہ پڑھنے کا بھی اہتمام کریں خواہ ایک صفحہ ہی سہی، کوئی خاص مدت کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے اس عادت کو اپنے معمول میں شامل کر لیں، ہو سکتا ہے شروع شروع میں آپ کو یہ محسوس ہو کہ اس میں فلاں فلاں قوم اور کفار، یہود و نصاری اور مشرکین کی بات کی جا رہی ہے اس میں میرے لئے کیا ہے اللہ نے تمثیل اور واقعات کی روشنی میں اپنی سنت کو بیان کیا ہے۔ اس سنت کا تعلق پورے نوع انسانی سے ہے۔ ہمیں اور آپ سب کو اللہ سے ثواب پانے کی حرص ہے تو اطمینان رکھیں قرآن کا ترجمہ پڑھنے پر  اللہ بیشمار ثواب سے نوازتا ہے۔ اس کے علاوہ علماء یا اسلامک اسکالر کے قرآن فہمی لیکچرز بھی سننے کا اہتمام کرنا چاہئے  یہ ہم روزمرہ کے معمولات انجام دیتے ہوئے بھی بآسانی سن سکتے ہیں اس طرح اللہ کی معرفت کے دروازے کھلتے ہیں، اس دنیا کی حقیقت کو سمجھنے اور واقعات و معاملات کو احسن طریقے سے انجام دینے میں مدد ملتی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا