غیر جانبداری حق سے اغماض اور باطل کی حمایت ہے

0
400

 

 

 

محمد امین اللہ

;اللّٰہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے۔ وخلقنکم ازواجہ۔ ہم نے ہر چیز کو نر اور مادہ کی صورت جوڑے کی شکل میں پیدا کیا۔رات دن ، سردی گرمی ، تلخ شیریں ، زمین و آسمان ، صبح وشام ، مشرق و مغرب ، میٹھا اور کھرا پانی۔زمین کی مٹی کو زرخیز اور پتھریلی بنایا اس کے دونوں حصوں میں کاشت ہوتی ہے۔ مگر زمین کا ایک بڑا حصہ صحرائی اور بنجر بھی ہے۔ صحرا میں تو کہیں کہیں نخلستان بھی ہوتے ہیں مگر بنجر زمین پر کاشت نہیں ہوتی۔ موضوع انسانوں میں غیرجانبدار طبقے سے ہے۔ مردوں میں اک جو اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتے انہیں نا مرد کہتے ہیں اور جو عورت اس صفت
سے عاری ہوتی ہے اسے بانجھ کہتے ہیں۔ مگر اللّٰہ انسان کو مخنث اور مخنثات بھی پیدا کرتا ہے۔ مگر جدید دور میں تبدیلیء جنس کی وبا بھی موجود ہے۔دراصل یہ کشمکش حق وباطل جو ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گا جو خود کو غیر جانبدار بنا لیتے ہیں دراصل وہ تیسری جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ نرا دنیا پرست ، بزدل ، اور بے حس طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔انسان کو اللّٰہ نے اک دل دیا ہے۔ جو دکھ درد ، خوشی اور راحت محسوس کرتاہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے چہار اطراف خلق خدا پر ظلم و جبر ہو ، نا انصافی اور استحصال ہو، اللّٰہ کی نافرمانی ہو رہی ہو۔ انسانی قدروں کی پامالی ہو، اور وہ اس تمام حالات کو بچشم خود دیکھ کر تماشائی بنا رہے۔ مجھے اس موقع پر برسوں پہلے لاہور آئین کے رسالے میں شائع ہونے والا غیر جانبداری پر مضمون میسر ہے اس کو من و عن تحریر کر رہا ہوں جو قاری کے سامنے اس غیر جانبداری کا پردہ چاک کر دے گا۔ اگر آپ غیر جانبدار ہیں تو آپ غلطی پر ہیں۔ غیر جانبدار ہمیشہ غلطی پر ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ حق کے ساتھ نہیں ہوتے۔غیر جانبداری نہ دین کا حصہ ہے نہ عاقبت کی راہ۔ نہ نجات کا پروانہ نہ سلامتی کی سند۔نہ ڈھال نہ تلوار ، نہ عمل نہ ردعمل ، نہ
راستہ نہ منزل ، نہ حل نہ علاج۔ نہ کل نہ آج۔ غیر جانبداری بے حس ہونے کا مظاہرہ ، لا تعلق ہونے کا اعلان ، بے بہرہ ہونے کا ثبوت ، ایمان کی ضد ایقان کی نفی۔ یوں باطل کی پہلی فتح اور ابلیس کی آخری چال کہ جو غیر جانبدار ہوا وہ اس کے سامنے سے ہٹ گیا۔ اور وہی تو تماشا بنا جس نے آج تماشائی بننا قبول کیا۔ خود کو خدا پرست کہا اور غیر جانبدار رہے ، تو کلمہ کس چیز کا پڑھا ، شہادت کس بات کی دی۔ نیکی اور بدی کے درمیان کھلی کشمکش ہو تو غیر جانبداری سے بڑا کوئی فریب نہیں ہو سکتا ، وہ کشمکش جس کے نتائج سب کے لیے ہوں اس کا وجود بھی سب کے لیے ہوتا ہے۔ کیا کوئی ایسا انسان دیکھا ہے جس کے گھر میں آگ لگی ہو اور وہ غیر جانبدار ہو۔بستی میں سیلاب کا ریلا داخل ہوتا ہے تو ریت کی دیوار غیر جانبدار ہوتی ہے۔ پشتے اور بند کبھی غیر جانبدار نہیں ہوتے۔ یہ کارزارِ حیات ہے یہاں موت صرف غیر جانبدار ہے زندگی نہیں۔ افراد غیر جانبدار ہوں تو معاشرے پر قہر ٹوٹ پڑتا ہے۔ انسانوں
کا وزن حق کے پلڑے میں نہ ہو تو یہ پلڑا بہت اونچا اثھ جاتاہے اور نیچے صرف باطل کا پلڑا رہتا ہے۔ تب راج بدی کا ہوتا ہے اور تاج ظالم پہنتے ہیں۔ دیکھنے والوں کے لئے یہ گھڑی قیامت کی گھڑی ہوتی ہے۔ جس کا آغاز فرد کی غیر جانبداری سے ہوتا ہے اور تکمیل معاشرے کی تذلیل پر ہوتی ہے۔ غیر جانبداری شروع سے آخر تک صرف اور صرف خسارے کا سودا ہے۔ جس کے
وجود سے بدی کو کوئی خطرہ نہ ہو اس کے حق میں نیکی کیا گواہی دے گی۔ یہ بات اللّٰہ کو قطعی نا پسند ہے۔ اب ہم قصص القرآن سے غیر جانبدار لوگوں کا حشر دیکھتے ہیں قرآن کریم میں اصحابِ سبت سنیچر والوں کا ذکر ہے جو ممانعت
کے باوجود ہفتے کے دن زیادہ مچھلیاں پکڑنے کے لئے جمعہ والے دن ساحل سمندر پر بڑے بڑے گڑھے کھود دیا کرتے تھے اور چڑھتے سمندر کے پانی سے جب مچھلیاں اس میں آکر پھنس جاتیں تو سنیچر کے دن نکال لیتے اور یہ جواز پیش کرتے کہ ہم نے شکار نہیں کیا۔ نیک لوگوں میں دو گروہ تھا اک ان کو منا کرتا کہ ایسا نہ کرو یہ اللّٰہ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ دوسرے نیک لوگ غیر جانبدار ہو گئے اللّٰہ نے نا فرمان اور غیر جانبدار نیکو کاروں دونوں کو سور اور بندر بنا کر ہلاک کر دیا۔ براء پھیلتی ہی ہے غیر جانبدار لوگوں کی غیر جانبداری سے کیونکہ یہ اکثریت میں ہوتے ہیں۔ ظالم تو قلیل تعداد میں ہوتے ہیں مگر غیر جانبداروں
کی وجہ سے ان کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے۔
اگر نیکی بے زبان ہو جائے اور شرافت معذور ہو جائے تو معاشرے پر رذالت غالب آ جاتی ہے۔ آج کی جدید دنیا گلوبل ویلج میں بدل چکی ہے بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پوری دنیا انسان کے ہتھیلیوں پر موجود ہے۔ اک فرد اپنے
جدید ترین ٹیکنالوجی اور موبائل فون کے ذریعے پوری دنیا کو دیکھ رہا ہے۔ شرق تا غرب لمحوں میں اک دوسرے سے باخبر ہو جاتا ہے۔ کوئی واقع کوئی حادثہ پلک جھپکتے دنیا کا ہر انسان دیکھ اور سن سکتا ہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل کی درندگی اور غزہ پر ہونے والے مظالم پر اس کا پتھر دل نہ پگھلے اور وہ غیر جانبدار رہے، اس ظلم اور بربریت کے خلاف آواز نہ بلند کرے۔ اگر اقوام متحدہ ، امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک اسرائیل کے حامی و مددگار ہیں تو کیا مگر عوام کے دلوں میں ابھی انسانیت تو زندہ ہے۔ تبھی تو لاکھوں کی تعداد میں مرد و عورت بچے بوڑھے جوان ان مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل
جارحیت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ 57 مسلم ممالک کے حکمران یا تو غیر جانبدار ہو گئے ہیں یا پھر بے غیرت بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ عرب ممالک در پردہ اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں اس حالت میں ان کو مسلمان کہنا تو درکنار انسان
بھی کہنا جائز نہیں ہے۔ بے حسی کا زہر پی کر لوگ کب کے سو چکے۔ پتھروں کے اس نگر میں آدمی مت ڈھونڈیئے۔
جب کہ اللّٰہ نے انسان کو درد دل کے واسطے پیدا کیا ہے۔ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں۔اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو میری امت کے معاملات سے دور رہے وہ مجھ میں سی نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا۔آپ نے فرمایا مسلمان جسد واحد کے مانند ہے۔اس بے حسی اور دنیا پرستی نے مسلمانوں کو پوری دنیا میں رسوا کر دیا ہے۔مسلماں آج بھی دنیا میں بے پندار ہے آقا۔ذلیل وخوار ہے مست مئے اغیار ہے آقا۔جو دیکھو مرد عیسائی تو عورت ہندویانی سی۔یہ اپنی وضع میں بے حیا بے زار ہے آقا۔
بھلا کر نس قرآنی یہودی و نصرانی۔
شیاطین زمانہ کا یہ پیرو کار ہے آقا۔
نہ جانے کتنی ذاتوں مسلکوں فرقوں گروہوں میں۔ یہ منقسم منتشر نا ہنجار ہے آقا۔ بھلا کر آپ کی بخشی ہوئی تیغ ہلالی کو۔ یہ دشمنوں سے مانگتا تلوار ہے آقا۔
اقوام متحدہ جو دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کو امن و سلامتی دینے کے لئے بنایا گیا اور انسانی حقوق کی ضمانت کا منشور
رکھتا ہے یہ ادارہ امریکہ اور چار بڑی ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کی پاؤ کی جوتی ہے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ ادارہ
اسرائیل کی لونڈی ہے جس کے قبضے میں عالمی معیشت کی شہ رگ ہے۔جب مسلمانوں اور غریب ممالک میں یہود ونصاریٰ اوراہل ہنود یا بڑی طاقتوں کی جانب سے جارحیت ہوتی ہے تو یہ غیر جانبداری کا مکروہ کردار ادا کرتا ہے۔ چاہے کشمیر ہو فلسطین ،برما شام سب جگہ یہ جارح قوتوں کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔
ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں 75 کروڑ مسلمان آباد ہیں مگر آج ان جمہوری ملکوں کے جمہوری انتخابات میں مسلمانوں کیاکثریت اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرتی جس کی وجہ سے دو مسلم ممالک پاکستان اور بنگلہ دیش میں بد عنوان اور عوام کا استحصال کرنے والے ہی بار بار منتخب ہوکر آ جاتے ہیں اور عوام کی معیشت ، تعلیم ، صحت ، غربت ، عدل و انصاف اور زندگیک ی بنیادی ضروریات پوری ہونے کے بجائے دن بدن بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری اور
جرائم کا بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں بی جے پی کی فسطائیت اور متعصبانہ جارحیت جو مسلمانوں اور دیگر
اقلیتوں کو برباد کرنے کے درپے ہے وہ بھی اک بڑی تعداد کی بے حسی اور جانبداری اور آپسی اختلافات کی وجہ سے ہے مسلماناور نچلی ذاتوں کے ہندو تو چوتھے درجے کے شہری بنا دیئے گئے ہیں۔ جس کا جسٹس سچر کمیشن کی رپورٹ میں شائع ہوا تھا۔ اس میں سابقہ ادوار کی کانگریس حکومت کا بھی متعصبانہ اور مجرمانہ کردار رہا ہے۔ بھارت کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرنے کے باوجود وہاں کی عوام کو مسلسل ظلم اور جارحیت کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اس اٹوٹ انگ کے اک اک انگ کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ حکمران طبقات چانکیاء پالیسی کے تحت مسائل حل کرنے کے بجائے ہر روز ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں تاکہ عوام روٹی
کپڑا مکان اور زندگی کی بنیادی ضروریات زندگی میں الجھی رہے اور یہ چین سے حکمرانی کرتے رہیں۔ اگر کہیں سے کوئی آواز اٹھے تو اس کو لاٹھی گولی سے دبا دیتے ہیں۔
حاکموں نے اک نیا فرمان جاری کر دیا۔
آج سے آب و ہوا میں تازگی مت ڈھونڈیئے۔ گزشتہ نصف صدی سے زائد امریکی طاغوت ، برطانیہ اور اس کے حواریوں کی جانب سے پوری مسلم دنیا میں کہیں براہ راست اور کہیں در پردہ عسکری جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔ افغانستان میں روسی افواج کی فوجی مداخلت اور اس کی پسپائی کے بعد
جس میں پاکستان ، عرب دنیا امریکی امداد سے مجاہدین کی سرپرستی کی گئی اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ امریکہ روس کو
شکست دلوا کر خود کو واحد سپر پاور بننا چاہتا تھا۔ یہ ہوا بھی کہ افغانستان سے روسی پسپائی اور روس کا شیرازہ بکھرنے کے
بعد امریکہ کے بش سینیر نے براہ راست اعلان کیا کہ اب دنیا کو تہزیبوں کی جنگ کا سامنا ہے جس میں ایک طرف شدت پسند اسلام اور دوسری جانب ترقی پسند دنیا ہوگی اور امریکہ اس کی سالاری کرے گا۔ اور دیکھتے دیکھتے 9/11 کے خود ساختہ واقع کے بعد چند گھنٹوں میں بش سینیر نے Crusade یعنی صلیبی جنگ کا آغاز کردیا اور اسامہ بن لادن کے حوالگی کا غیر منصفانہ مطالبہ شروع کردیا اور پوری دنیا کو دھمکی دے ڈالی کہ اس جنگ میں جو ملک امریکہ کے ساتھ نہیں وہ امریکہ کا دشمن ہے اور امریکہ
اس کے خلاف بھی حملہ آور ہوگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ افغانستان میں قائم طالبان کی تسلیم شدہ حکومت جو ابھی اپنے پیروں پر کھڑی
بھی نہیں ہو سکی تھی پوری قوت سے چڑھ دوڑا اور پوری دنیا امریکہ کی حمایت میں کھڑی ہو گئی۔ پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا اور وہ کچھ چند سالوں میں ہو گیا کہ جس کے تصور سے تاتاریوں کی سفاکیت بھی شرما گئی۔ عراق کے خلاف تباہ کن ہتھیاروں کے نام نہاد جھوٹے پروپگنڈے کے بعد اس پر چڑھائی کی گئی اور آج یہ ملک لاکھوں مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد اب تک خانہ جنگی کا شکار ہے اور امریکہ ، برطانیہ اس کی تیل کی دولت سے اپنے خزانے بھر رہے ہیں۔ لیبیا ، شام ، صومالیہ ، چیچنیا داغستان ، فلسطین ، فی الحال غزہ کی تباہی ، برما میں نہتے مسلمانوں کا قتل عام اور لاکھوں برمی مسلمانوں کی ہجرت اور ناقابل برداشت بنگلہ دیش کے کیمپوں میں ان کی زندگی ہر جگہ مظلومیت کی اک ناقابل بیان ظلم و جبر کی داستان ہے مگر وہی مسلمان حکمرانوں اور عوام کی مجموعی غیر جانبداری اور بے حسی ہے جس نے ہر طرف تباہی اور بر بادی پھیلا دی ہے۔ یہی کہانی ،
سقوط غرناطہ ، بغداد ، بنگالہ ، دکن ، ڈھاکہ کے وقت کی تھی کہ اک طرف اک مسلم ملک کافروں اور مشرکوں کے ہاتھوں برباد ہو رہا تھا اور باقی مسلمان ممالک ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی صورت تماشائی بنے ہوئے تھے۔ یہی حالت آج فلسطین ، غزہ ، شام ، مسلمان افریکن ممالک اور بھارت کے سب سے بڑی مسلم اقلیت کے خلاف ہونے والی یہود ونصاریٰ اور اہل ہنود کے اتحاد خبیثہ
کی جارحیت کے دیکھنے پر آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہنا اور غیر جانبداری کا بزدلانہ اظہار کرنا جرم عظیم کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
اپنی تہذیب کی لاش پہ رونے والا بھی کوئی نہیں۔
سب کے ہونٹوں پہ ہے یہ صدا اب یہ میت اٹھائے گا کون۔
عرب دنیا اسرائیل کے سامنے اک ممیاتی بکری بن چکی ہے ، مصر ، متحدہ عرب امارات اردن، ترکی ، سوڈان، مراکش براہ راست اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں ، سعودی عرب کرنے ہی والا تھا کہ غزہ کے غیور حماس کے ابابیلوں نے اسرائیل اک نا قابل شکست عالمی طاقت ہے کا غرور خاک میں ملا دیا اس بعد سعودی عرب کا اسرائیل سے دوستی کرنے کا اعلان
بیچ راستے میں خیمہ ڈال کر بیٹھا ہوا ہے۔ پاکستان جو آء ایم ایف کا غلام ہے وہ بھلا یہ کیسے جسارت کرے گا کہ امریکہ یورپی
یونین جو براہ راست اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شامل ہیں فلسطینیوں کی عسکری مدد کرے ، ایران حسب سابق طفل تسلیوں سے کام چلا رہا ہے۔ اور باقی مسلمان ممالک بھی فی الحال غزہ میں حماس کی شکست کے منتظر ہیں وہ اس لئے کہ اگر حماس یہ جنگ جیت گئے حالانکہ فتح انہیں کو ملنے والی ہے تو ان کی آمریت اور بادشاہت کا کیا بنے گا۔ اس ہوشی مجاہدین قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے براہ راست اس جہاد میں غزہ کے مجاہدین کے ساتھ شامل ہیں۔بہر حال سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کے ذریعے کچھ
امدادی کارروائیاں جاری ہیں جس کے راستے میں مصر سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ غزہ تک رسائی کا واحد راستہ رفع کابارڈر ہے جو مصر کی اجازت سے مشروط ہے جو بند ہے۔ عالمی ادارے اور اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل سب کے سب بے بسی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ فی الحال مسلمانوں کی مذہبی جماعتیں اپنے مسلکی بالا دستی کی آپسی جنگ میں مصروف ہیں ، اور سب سے بڑی جماعت تبلیغی جماعت تو اپنے بنا سے ہی غیر جانبداری کا سنگی مجسمہ ہے۔ ایسے ہی اک بڑی تعداد بخارا کی مسجدمیں ختم بخآری کے اجتماع میں موجود تھی جب زار کی فوجیں بخارا میں داخل ہو چکی تھیں اور مسجد میں ہی یہ بے معصوم اللّٰہوالی فاختائیں قربان گاہ پر جھٹکا کر دی گئیں۔
بیچ کر تلوار خرید لئے مصلح تو نے۔
بیٹیاں لٹتی رہیں تم دعا کرتے رہے۔
مصلحت کوش میری فطرت پاکیزہ نہ تھی۔
قول انشاء کو کبھی حکم الہٰی نہ کہا۔
گر یہی خطا ہے میری تو خطا کار ہوں میں۔میں نے شمشیر فروشوں کو
سپاہی نہ کہا۔
لیکن راکھ میں دبی جذبہ ایمانی کی چنگاریاں کہیں شعلہ کہیں آتش فشاں بن کر دشمنان اسلام پر برق تپاں کی طرح گر رہی ہیں اور اقبال کی طرح ہم اور ہمارے جیسے اہل ایمان پر امید ہیں کہ۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنے کشت ویراں سے۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا