رفیع الدین راز کی غزلیہ شاعری غالبؔ کی زمین میں (’’بربساطِ غالب کی روشنی میں)

0
31

ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ

رفیع الدین رازؔ کا اصل نام مرزا رفیع الدین بیگ ہے اور رازؔ تخلص رکھتے ہیں۔ ان کی پیدائش صوبۂ بہار کے شہر بیگو سرائے کے محلہ پوکھریہ میں 21اپریل 1938کو ہوئی۔ ان کے والد محترم فرید الدین بیگ کا تعلق شہر دربھنگہ سے تھا جب کہ ان کی والدہ ہاجرہ بیگم بیگوسرائے کی رہنے والی تھیں۔ زندگی کے نشیب و فراز کے دوران موصوف نے کراچی سے نیویارک (امریکہ) تک کا سفر کیا ۔ فی الحال وہ نیویارک میں مقیم ہیں۔
رفیع الدین رازؔ عصر حاضر کے مایہ ناز شاعر ہیں۔ اپنی شاعری میں اکثر نیا تجربہ کرتے رہتے ہیں۔ زیادہ مطالعہ کتاب ’’بربساط غالب‘‘غالب کی زمین میں تحریر کی گئی 200غزلوں کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے اپنا مسودہ سنجئے کمار کندن کے حوالے کیا ۔ سنجئے کمار کندن بھی اردو کے ایک اچھے شاعرہیں۔ اس کتاب کو شائع کرنے کی ذمہ داری سنجئے کمار کندن کے سر تھی جسے انہوں نے بہ حسن و خوبی مکمل کیا۔
مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ ایسے شاعر ہیں جنہوںنے اردو غزل گوئی میں اپنا الگ مقام بنایا۔ اردو شاعری میں غالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھینک دی۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑ ا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جابجا ملتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھرپور کوشش کی اور ان کے تخیل کی بلندی اور شوخی فکر کا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔
غالبؔ کی انہی خاص فکری نسبت کے سبب رفیع الدین راز ان کے مصرعوں پر غزلیں کہنے لگے۔ ’’بربساطِ غالب‘‘ کے پیش لفظ میں موصوف لکھتے ہیں کہ آنے والے دس پندرہ برسوں میں غالب کے مصرعوں پر پچاس سے زیادہ غزلیں ہوگئیں۔ دوستوں نے اس کی تعداد کو ایک سو تک بڑھانے کا مشورہ دیا سو میں وقتاً فوقتاً غالب کی زمینوں میں غزلیں کہنے لگا اور یہ تعداد ایک سو سے تجاوز کر گئی ۔

https://www.rekhta.org/

اس تعداد کو ڈیڑھ سو تک لانے کی کوشش میں دو سو غزلیں ہوگئیں۔ جی تو چاہ رہا تھا کہ ان غزلوں پر چار چھ مہینے اور صرف کروں لیکن میں عمر کی جس منزل پر ہوں اس کا تقاضا ہے کہ جو کام ہاتھ میں ہے اسے جلد سے جلد نمٹا لیا جائے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ غالب سے نہ موازنہ مقصود تھا نہ مقابلہ کیوں کہ:
کھلتا ہے روز ایک نیا بابِ آگہی
چونکا رہا ہے فکر کو غالبؔ کا فن ہنوز
غالبؔسے ایک عقیدت برسوں پہلے بھی تھی آج بھی ہے اور ان شاء اللہ عمر بھر رہے گی۔
رفیع الدین رازؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں میں جن لطیف احساسات و جذبات اور انمول تجربات و مشاہدات کا بیان ہوتا ہے۔ ان کی غزل کلاسیکل عاشقانہ روایات کی جدید تعبیر ہے۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں معنوی رنگ وروپ کو بھی اک نئے انداز سے جلا بخشی ہے۔ ان کے کلام میں جذبہ کی تاثیر، احساس کی تپش ، مشاہدہ کی صداقت اور اظہار بیان کی تازگی و شگفتگی موجود ہے۔
رفیع راز کی غزلوں میں ہمارے عصر کی بے شمار دل خراش تصویریں موجود ہیں۔ ان کے ہاں حسن و عشق سے وابستہ درد و الم، تنہائی و اداسی، جذباتی نشیب و فراز اور انتظار کے رنگ کے علاوہ ماحولیاتی انتشار ، طبقاتی کش مکش ، سماجی گھٹن ، اندیشہ ہائے مستقبل ، زندگی کے تقریباً سارے ہلکے اور گہرے رنگ موجود ہونے کے باوجود کہیں واضح بلند آہنگ مزاحمتی رویہ نہیں ہے۔ اپنی غزلوں کے ذریعہ انہوں نے گل و بلبل کی روایت کے آگے بے بسی کا اظہار کرنے کی بجائے عقل ، شعور و ادراک کی بات کی ہے۔ احساس کی شدت نے انہیں درد وکرب سے آشنا رکھا ہے جس کا اظہار ان کی غزلوں میں جابجا ملتا ہے۔ان کے غزلیہ اشعار کسی بھی حساس ذہن کو جھنجھوڑنے کا کام کرتے ہیں چند اشعار ملاحظہ کریں:
مری ذات کا فسانہ، مرے عہد کی کہانی
کوئی چاہتا ہے سننا تو سنے مری زبانی
٭٭
مری بے چہرگی اکثر کہا کرتی ہے یہ مجھ سے
کبھی پل گھر کو آئینہ بھی خود سے آشنا ہوتا
٭٭
انسان بیچ دیتا ہے اپنے ضمیر کو
یا اُس کا یہ ضمیر بھی بردہ فروش ہے
غالبؔ کا مصرع ہے: ’’نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا‘‘
اس زمین میں رفیع الدین راز کہتے ہیں:
ہوگیا تبدیل اک اک زاویہ تصویر کا
خوش گماں ہم کیا ہوئے در کھل گیا تاثیر کا
کیا سنائوں حال اپنی آنکھ کی توقیر کا
میرا جو بھی خواب ہے وہ عکس ہے تعبیر کا
غالب کہتے ہیں: ’’ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‘‘
اس زمین میں رفیع الدین راز کہتے ہیں:
صلہ پیہم ریاضت کا ہمیں کچھ تو ملا ہوتا
خدا سے گر نہ ہو پایا تھا خود سے رابطہ ہوتا
نگاہوں پر مری، باطن بھی میرا کھل گیا ہوتا
مقابل تھا جو شیشہ کاش وہ شیشہ نما ہوتا
زندگی کی عملی دوڑ دھوپ میں رفیع الدین راز صاحب کی زندگی کا ایک بڑا حصہ پتھریلی سڑکوں پر گزرا ۔ ان کی زندگی مسلسل جدوجہد میں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شعری دامن میں مشاہدات و تجربات کا خزانہ موجود ہے۔ اس کا اظہار ان کے کلام میں بیشتر جگہوں پر ملتا ہے۔ وہ گرد و پیش کے سیاسی ، سماجی ، معاشی ، معاشرتی ، اخلاقی اور جمالیاتی حالات پر بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہیں ۔ راز صاحب کا اسلوبیاتی معیار ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتا ہے ۔ اس سلسلے میں وہ مصلحت سے کام نہیں لیتے ہیں بلکہ حقیقت بیانی کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کے دلی جذبات کی ترجمانی میں چند اشعار ملاحظہ کریں:
کب تک میں چھانتا رہوں یوں در بہ در کی خاک
بتلا بھی دے مجھے مری مٹی کہا کیا ہے
٭٭
سامنے ہر پل نصابِ زیست ہے لیکن ہنوز
پڑھ رہا ہوں اور کچھ لکھا ہوا کچھ اور ہے
٭٭
ہماری روح پر کندہ ہے جلتے دشت کا منظر
وہ دن تم نے کہاں دیکھے جو دن ہم نے گزارے ہیں
غالبؔ اپنے منفرد انداز میں کہتے ہیں: ’’یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا‘‘
اس زمین میں رفیع الدین راز کہتے ہیں:
مرے دُکھ پہ بات ہوتی، مرا غم شمار ہوتا
تو نہ زخم پھول بنتے، نہ میں مشک بار ہوتا
مرے نخلِ ذات پر ہے کڑی دھوپ کی عنایت
نہ یہ میرے سر پہ ہوتی ، نہ میں سایہ دار ہوتا
غالبؔ کا مشہور مصرع ہے: ’’درد منت کشِ دوا نہ ہوا‘‘
اسی طرز میں رفیع الدین راز کہتے ہیں:
رُو بہ رُو آئینے کے رہ کر بھی
خود سے ملنے کا حوصلہ نہ ہوا
التجا کرتے کرتے تھک گئی عقل
قلب پھر بھی شعور کا نہ ہوا
غالبؔ کا ایک فلسفیانہ مصرع ہے: ’’نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا‘‘
اسی انداز میں رفیع الدین را ز کہتے ہیں:
خذف ہوتا، گہر ہوتا، خدا جانے میں کیا ہوتا
مرے ہونے نہ ہونے کا اگر مجھ کو پتا ہوتا
نہ ہوتا بے گھری کا شوق اس دل کی تو دنیا میں
نہ میرے نقشِ پا ہوتے نہ کوئی راستہ ہوتا
رفیع الدین راز نے اپنے عہد کے مسائل کا بیان نہایت سلیقہ مندی اور درد آمیزی سے کیا ہے۔ اس سے غزل کی موضوعاتی رنگا رنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے غزل میں آفاقی اور کائناتی مسائل کو بھی جگہ دی ہے۔جس طرح ایک ستار بجانے والا جب اپنے سرگم میں محو ہوجاتا ہے تب اس کی انگلیاں زخمی بھی ہوجاتی تو اس کا احساس اسے نہیں ہوتا۔ اسی طرح رازؔ صاحب کے اشعار دل کے نہاں خانوںمیں سرگم چھیڑنے کا کام کرتے ہیں۔ رازؔ کہتے ہیں:
کھول بھی دے اب نگاہوں پر طلسمِ کائنات
ان ستاروں سے ہمیں تو کب تلک بہلائے گا
٭٭
تخلیقِ کائنات کا محور ہے میری ذات
فطرت کی ایک ایک ادا ہے مرے لیے
٭٭
وارث ہوں کائنات کا روزِ ازل سے میں
اس بزمِ حرفِ کن کی فضا ہے مرے لیے
غالبؔ کہتے ہیں: ’’ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب‘‘
اس زمین میں رفیع الدین راز کہتے ہیں:
روشن ہے آج بھی مری آنکھوں میں آفتاب
تلوار میری ٹوٹی ہے۔ ہمت نہیں جناب
لازم تھا امتحاں مرا، شاید اِسی لیے
بخشا گیا ہے زیست کو اُلجھا ہوا نصاب
غالبؔ اپنے مخصوص انداز میں کہتے ہیں: ’’جی خو ش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر‘‘
رازؔ صاحب اس انداز میں کہتے ہیں:
حیراں نہیں تھا شانوں پہ کہسار دیکھ کر
میں خوش ہوا تھا بارِ گراں بار دیکھ کر
گردِ سفر میں چھپ گئے مریخ و مشتری
حیراں ہوں اپنے پائوں کی رفتار دیکھ کر
غالب ؔ کامعروف مصرع: ’’آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک‘‘
رازؔ صاحب کہتے ہیں:
ہم گنہ گار ہیں عنوانِ دگر ہونے تک
عیب تو عیب ہی رہتا ہے ہنر ہونے تک
لوگ مر جاتے ہیں تب بابِ اثر کھلتا ہے
ہم بھی زندہ ہیں دعائوں میں اثر ہونے تک
رفیع الدین راز کو اپنے مقام و مرتبے کا احساس ہے۔ اس لیے انہوں نے غالب جیسے بے مثال ولاجواب شاعر کی زمین میں اشعار کہنے کی کامیاب کوشش کی۔اس فن میں اپنی ہنر مندی کا احساس دلایا ۔ ان کے یہاں جذبہ ہی نہیں احساس بھی ہے جس کا وہ عمدہ تخلیقی اظہار اپنی غزلیہ شاعری میں کرتے ہیں۔ غالب کی زمین میں کہے گئے چند اشعار مثا ل کے طور پر ملاحظہ کریں:
غالبؔکا اندازِ بیاں: ’’سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں‘‘
اس انداز کو اپناتے ہوئے راز صاحب کے چند اشعار:
خواہشیں حسرت میں ڈھل کر جب پریشاں ہوگئیں
آرزوئیں خواب سے دست و گریباں ہوگئیں
ایسا لگتا ہے کہ کچھ نامعتبر سچائیاں
معتبر ہوتی گئیں اور جزوِ ایماں ہوگئیں
غالب کا مصرع: ’’رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو‘‘
اس مصرع طر ح پر رفیع الدین راز کے اشعار:
آگ رقصاں ہو، مگر اُس جا دھواں کوئی نہ ہو
زخم چاہے دل پہ جتنے ہوں عیاں کوئی نہ ہو
جس طرح مجبور ہوکر میں نے سی لی ہے زباں
سامنے اولاد کے یوں بے زباں کوئی نہ ہو
غالبؔ جیسے عظیم المرتبت شاعر کے زمین میں دو سو غزلیں کہنا کوئی آسان کام نہیں ۔ اسے عصر حاضر کے ’’دیدئہ خوش خواب‘‘ والے رفیع الدین راز نے مکمل کرکے دکھایا ہے۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ موصوف مختلف اور منفرد نوعیت کے غزل گو ہیں۔ بڑی ہنر مندی سے رازؔ صاحب نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کے لئے یقینا وہ دلی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اپنے اس منفرد کام کے لئے وہ اردو شعر وادب کی دنیا میں لمبے عرصے تک یاد کئے جائیں گے۔
٭٭٭
Dr. Ahsan Alam
Ahmad Complex, Al-Hira Public School
Moh: Raham Khan, P.O. Lalbagh, Darbhanga- 846004
Mob: 9431414808

https://lazawal.com/?cat=18#google_vignette

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا