یادیں ماضی کا ائینہ: مانو کے معزز وائس چانسلر جناب پروفیسر سید عین الحسن صاحب کے زبانی 

0
24
 از قلم سیدہ سفینہ
حیدراباد: مولانا ازاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ایک انتہائی محترم شخصیت معزز وائس چانسلر جناب پروفیسر سید عین الحسن صاحب کا ایک بہت ہی خاص انٹرویو جو ان کی زندگی کی اس خوبصورت دور کے بارے میں ہے جب معزز وائس چانسلر جناب حسن صاحب اسکول میں تھے
سید عین الحسن صاحب:
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی میں فارسی اینڈ سینٹرل ایشین اسٹڈیز اسکول آف لینگوئج، لٹریچر اینڈ کلچر اسٹڈیز کے سابق پروفیسر ہیں ۔ انہیں 36 سال سے زائد عرصے تک تدریس اور تحقیق کا تجربہ ہے، اور انہوں نے کشمیر یونیورسٹی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور کاٹن کالج اسٹیٹ یونیورسٹی کے لیے کورسز ڈیزائن کیے ہیں ۔ انہوں نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں افغان ریسورس سنٹر کا آغاز کرکے بند افغان تعلقات کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہیں 2017 میں پریزیڈنٹ آف انڈیا ۔سرٹیفکیٹ آف آنر ایوارڈ سے نوازا گیا
لہذا سید عین الحسن صاحب نے انٹرویو میں پوچھے جانے والے سوالوں کا جوا بات دینے کے لیے پر احساس شیر سے کیا اغاز”یادیں ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا” اور ان سے جب ان کے سکول کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اپنی تعلیمی سفر کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے اپنی بارہویں تک کی تعلیم یو پی بورڈ سے حاصل کی ہے میرا اسکول نیشنل انٹر کالج وارانسی ہے یہ اسکول میرے لیے صرف تعلیم کا مرکز نہیں تھا بلکہ میری زندگی کی خوبصورت یادوں کا نام ہے اپنے سکول کے وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا اسکول گھر سے دو کلومیٹر فاصلے پر تھا اور اکثر وقت کبھی پیدل جایا کرتے تھے تو کبھی سائیکل سے اسکول جایا کرتے تھے اور جب لنچ کا وقت 40 منٹ کے لیے وقفہ ملتا تھا تو وہاں زیادہ تر وقت اپنے سکول میں ہی گزارا کرتے تھے گھر نہیں جایا کرتے تھے کیونکہ ان کو اسکول میں بھی اپنا سا لگتا تھا اور وہ اسکول میں زیادہ وقت دیا کرتے تھے اور اس کے وقت کو اچھے سے استعمال کرتے تھے کچھ سیکھنے کے لیے ۔اور
1975 کا ایک یادگار واقعہ یاد کرتے ہوئے جناب پروفیسر سید عین الحسن صاحب نے بتایا کہ ہمیں اس وقت ایک سیاسی مضمون لکھا تھا میں نے جو خبریں ‌ سے شائع ہوا تھا جس میں میں نے جے پرکاش نارائن اور دیگر سیاسی شخصیت کا ذکر کیا گیا تھا اور یہ مضمون اس وقت کے نوجوانی کا جوش اور شوق تھا لیکن اس نے اسکول میں کافی ہلچل مچا دیا اور اس کیوجہ سے پرنسپل سر نے ان کے والد کو بلایا اور اس میگزین میں سے 2 پیج نکلنے کو بتایا گیا ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم سب نوجوانوں میں سیاست اور تحقیق کا جنون تھا اس لیے ایسا مراسل نگار میں لکھنا اچھا خیال تھا
اپنے سکول کے دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کچھ خاص دوستوں کا نام بھی لیا جن میں عبدالقیوم اور شکیل جمیل اور بھی بہت سارے شامل ہیں اور ان کو ہمیشہ اپنے دوست اور ان کے ساتھ گزارا ہوا ہر واقع یاد اتا ہے اور پھر ٹیچرز سے متعلق سوالوں کے جواب میں بتایا کہ وہ اپنی پوری زندگی میں اپنے استاذہ احترام کرتے رہیں اور ان کو اپنے اسکول کے وقت کے جن میں سارے ٹیچر کا نام اور ان کے سبجیکٹ سب یاد ہیں جن میں سید جمیل صاحب اکنامکس کی ٹیچر تھے اور کہتے تھے ہم تمہیں کم پڑھائیں گے تم ہمیں زیادہ پڑھانا ” اور اس طرح سے اسی طریقے سے انہوں نے اور سب ٹیچرز کے بھی نام لیے جیسے یہ اشفاق سر مظہر الدین سر پرنسپل سر عبدالقیوم سر تیری سر میتھمیٹکس کے ٹیچر تھے اور بھی شامل ہیں
شرارت کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نویں جماعت کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا جہاں انہیں بائیو کے کلاس میں میڈک لانے کا حکم دیا گیا تو ان کے دوست اور انہوں نے پورا ایک پورا بورا بھر کر میڈک کیمرہ جماعت میں لا دیا اور جب حکم ملا کہ اپ لوگ دکھائیں میڈک تو ان لوگوں نے پورا برا کھول کر میڈک کمرہ میں گرا دیا ۔اور کلاس میں ہنگامہ ہنگامہ کھڑا ہو گیا یہ واقعہ یاد اتے ہی شیطانی ہے جس کو یاد کرتے چہرے پر مسکراہٹ ا جاتا ہے
اور انہوں نے اپنے پسندیدہ سبجیکٹ مضمون کو خاص مضمون کو پڑھنا یا ان کو کسی دائرہ میں رہنا پسند نہیں تھا انہوں نے ہمیشہ مختلف مضمون کو اپنا پسندیدہ مضمون بنایا جن میں انہوں نے نام لیا پٹری ہسٹری سویلیزیشن فکشن ناول ڈراما اور بھی شامل ہیں
اور ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا اپ نے سوچ رکھا تھا کہ وہ وائس چانسلر بنیں گے تو انہوں نے کہا نہیں میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا میرا خواب ائی اے ایس افیسر بننا تھا جب یہ نہ ہو سکا تو پھر انہوں نے انہوں نے پوری کوشش کی اور وائس چانسلر بنے
اور اس طرح سے انٹرویو کا اخری سوال پوچھا کہ اپ کے سکول کے دنوں کتنے پاکٹ منی ملتے تھے اور کیا اپ اس سے مطمئن تھے تو انہوں نے اس پر جواب دیا کہ پیسوں سے کبھی کوئی مطمئن نہیں ہوتا ہے کبھی ہاں مگر میں نے ہمیشہ اپنی والدہ سے جیب خرچ لیتا تھا کیونکہ میں اپنی والدہ سے لیتے وقت مجھے کوئی پیسوں سے متعلق سوالات جوابات نہیں ہوتے تھے اور اسی کے ساتھ انہوں نے بتایا کہ جب وہ مانو کے ایک بار ا رہے تھے تو ان کی والدہ کا صحت صحیح نہیں تھا مگر انہیں مانو انا تھا تو وہاں ا گئے اور جیسے ہی وہ ائیں انہیں خبر ملی کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور یہ ان کے لیے گہرا دکھ ہے کہ وہ اپنی والدہ کے اخری لمحات میں ان کے ساتھ نہیں تھے
اس خصوصی انٹرویو کے اختتام پر، سید عین الحسن صاحب کی زندگی کے وہ خوبصورت اور بے مثال لمحات ہمارے سامنے آتے ہیں جو نہ صرف ان کی شخصیت کا آئینہ ہیں بلکہ علم، دوستی اور استاد کے احترام کی اہمیت کا درس بھی دیتے ہیں۔ اسکول کے دنوں کی شرارتیں اور دوستوں کے ساتھ گزرے لمحے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ زندگی کا ہر مرحلہ ہمیں نئی راہوں کی طرف لے جاتا ہے، اور یہی سفر ہمیں کامیابی اور عظمت کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔
سید عین الحسن صاحب کی کہانی محض ایک وائس چانسلر کی نہیں، بلکہ ایک ایسے انسان کی ہے جو زندگی کی ہر اونچ نیچ سے گزر کر، اپنی تعلیم اور تہذیب کی بنیاد پر ایک قابل احترام مقام تک پہنچا۔ اپنے والدین کا ذکر کرتے ہوئے، خاص طور پر والدہ کی محبت اور جدائی کے لمحات بیان کرتے وقت، دل پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ وہ دکھ جو ماں کے آخری لمحوں میں ان کے ساتھ نہ ہونے کا تھا، ہر دل کو چھو جاتا ہے۔
جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:
"ماں کی دعا نہ ہو تو بیٹا کامیاب نہیں ہوتا
زندگی کی دھوپ میں سایہ شجر کا ماں ہے”
یہ الفاظ سید عین الحسن صاحب کی زندگی کے اس درد بھرے لمحے کو اور بھی گہرا کرتے ہیں، جب وہ اپنی والدہ کی دعا سے مرحوم رہ گئے۔
آخر میں، یہ انٹرویو ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ علم، اخلاق اور انسانیت کی جڑیں ہمیشہ مضبوط ہونی چاہئیں۔ ماضی کی یادیں ہمیں صرف واپس نہیں لے جاتیں بلکہ ہمیں آگے بڑھنے کی تحریک بھی دیتی ہیں۔
آخر میں، اس انٹرویو کو لکھنے اور پیش کرنے کا اعزاز سفینہ بانو بانو، کو حاصل ہوا ہے، اور میں اپنی اس کاوش پر فخر محسوس کرتی ہوں کہ میں نے ایسی شخصیت کے خیالات اور یادیں آپ سب کے ساتھ شیئر کیں، جو نہ صرف ایک قابل احترام وائس چانسلر ہیں بلکہ ایک مخلص اور سچے انسان بھی ہیں۔۔
مولانا ازاد نیشنل اردو یونیورسٹی بی اے جنرلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن کی طالبہ

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا