اور اب ‘ووٹ جہاد’مسلمانوں کیخلاف’ایک اورسازشی نظریہ

0
109

جاوید جمال الدین

ملک میں ‘ لوجہاد،لینڈجہاد کے بعد اب ‘ ووٹ جہاد’ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے ،جوکہ مسمانوں کے خلاف ایک اور

سازشی نظریہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے،اوت یہ شوشہ اور کسی نے نہیں بلکہ مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیوندر فڑنویس نے چھوڑا ہے

https://eci.gov.in/

،انہوں نے اپنے عہدہ کا پاس بھی نہیں رکھا،بلکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نتیش رانے جیسے ‘چھٹ بھیا’ لیڈروں کو کیسے حوصلہ ملتا یے،جو اپنے والد کی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔اگر 2014 کے بعد ایک سری جائزہ لیا جائے تو یہ انکشاف ہوگا کہ ایسے بیانات انتخابات کے دوران ہی دیئے جاتے ہیں۔ہریانہ میں آخری دور کی پولنگ سے پہلے یتی نرسنگھانند،نتیش رانے وغیرہ کو بے لگام اور بے زبان چھوڑ دیا جاتا ہے اور خود فڑنویس بھی پیچھے نہیں رہتے ،جبکہ ایکناتھ شندے بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں ،جنہوں نے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ممبئی کے قریب کلیان شہر میں حاجی ملنگ رح کا معاملہ اٹھایاتھا۔
دراصل لوک سبھا انتخابات میں مہاراشٹر میں بی جے پی کو سخت پسپائی ہوئی اور موجودہ حکومت کے خلاف عوام کی ناراضگی کئی جائزوں میں کھل کر سامنے آئی ہے ،اس لیے وقتاً فوقتاً اس طرح کے بیانات دیئے جاتے ہیں یادکوائے جاتے ہیں۔فڑنویس کے ذریعہ ’ووٹ جہاد‘ سے متعلق دیے گئے بیان پر تنازعہ پیدا ہونالازمی ہے۔اس بیان پر سخت ردعمل سامنے ہیں اور اسے چناوی حربہ بھی قرار دیا جارہا ہے۔ شیوسینا (یو بی ٹی) رکن پارلیمنٹ سنجے راوت نے فڑنویس کے اس بیان پر حملہ اور رخ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کو توڑنا چاہتے ہیں۔سنجے راوت نے ذرائع ابلاغ کے استفسار پر ’ووٹ جہاد‘ سے متعلق سوال کے جواب میں فڑنویس کے سامنے ہی ایک تلخ سوال رکھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’کیا ہوتا ہے ووٹ جہاد؟ اس ملک کا شہری مسلمان، جین، ہندو، پارسی سب ہیں۔ سبھی ووٹ کرتے ہیں۔ اگر وہ بی جے پی کو ووٹ کرتے ہیں تو ٹھیک ہے؟ ووٹ جہاد کی بات ہے تو اپ (بی جے پی) مسلم خواتین کے لیے تین طلاق کا قانون کیوں لائے؟ اپ کو دیگر سماج کے لوگ ووٹ دیتے ہیں تو اپ کیا کہیں گے۔‘سنجے راوت اتنے پر ہی خاموش نہیں ہوئے، انھوں نے مزید وضاحت کی کہ ’’مہاراشٹر میں گجرات کے لوگ بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں تو اپ کیا کہیں گے؟ کیا یہ کہیں گے کہ یہ گجراتیوں کا ووٹ جہاد ہے؟ فڑنویس جیسے لوگ ملک کو توڑنا چاہتے ہیں۔ یہ گاندھی جی کا ملک ہے۔ اس طرح کا بیان جو دے رہے ہیں، یہ سب ان کے دماغ کاکوڑا کرکٹ ہے۔‘‘
واضح رہے کہ فڑنویس نے انتخابی حکمت عملی کے تحت اس قسم کا بیان دیا ہے۔ ‘لوجہاد’ کی اصطلاح دو الگ الگ مذاہب کے لڑکے لڑکی کی شادی کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے،جسے ہم سلاموفوبک کہ سکتے ہیں،لیکن یہ ایک سازشی نظریہ ہے۔ جس کو ہندوتوا نظریہ کے حامیوں نے ایجاد کیا۔ان انتہا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو اپنے پیار کے جال میں پھنسا کر انھیں مسلمان کرکے شادیاں کر رہے ہیں،جس کا مقصد ملک میں ہندوؤں کی آبادی کا توازن بگاڑنا ہے۔اس کا سلسلہ 2000 کے عشرے میں شروع ہوا۔ اس سلسلہ نومبر 2009 میں،کیرالاکے ڈی جی پی جیکب پنوز نے کہا کہ ایسی کوئی تنظیم نہیں ہے جس کے ممبروں نے کیرالا میں لڑکیوں کو اپنی محبت کا لالچ میں مذہب تبدیلی کے ارادے سے اپنی طرف راغب کیا. انھوں نے کیرالہ ہائی کورٹ کو بتایا کہ انھیں موصول ہونے والی 18 میں سے 3 اطلاعات نے رجحان کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات پیدا کیا ہے۔ تاہم، تحقیقات کے ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کی وجہ سے تحقیقات جاری رہی. دسمبر 2009 میں، جسٹس کے ٹی۔ شنکرن نے پنوز کی رپورٹ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، انھوں نے ایک کیس ڈائری سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ زبردستی مذہبی تبدیلیوں کے اشارے مل رہے ہیں اور یہ پولیس رپورٹس سے واضح ہے کہ کِسی خاص مقصد کے لیے خواتین کو "کچھ فائدے” سے مذہب تبدیل کرنے کی "اجتماعی کوشش” کی جارہی ہے۔ عدالت نے "لوجہاد” مقدمات کے دو ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چار سالوں میں اس طرح کے تین ہزار اور چار ہزار کے درمیان مذہبی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے دسمبر 2009 میں اس معاملے کی تحقیقات پر روک لگاتے ہوئے دو ملزموں کو راحت دی تھی۔ اور پولیس تفتیش پر تنقید کی تھی.پنسوس کے اس بیان کہ "لو جہاد” کے وجود کے لیے کوئی حتمی ثبوت نہیں مل سکے ہیں کے بعد جسٹس ایم ایس نمبیار نے اس تفتیش کو بند کر دیا تھا۔
کرناٹک کی حکومت نے 2010 میں کہا تھا کہ اگرچہ بہت ساری خواتین نے اسلام قبول کیا تھا، لیکن انھیں اس بات پر راضی کرنے کی کوئی منظم کوشش نہیں کی گئی تھی۔2012 میں، مبینہ لو جہاد کے بارے میں دو سال کی تحقیقات کے بعد، کیرالہ پولیس نے اس کو "کوئی حقیقت نہیں مہم” قرار دیا۔پولیس مسلم تنظیموں کے جعلی پوسٹرز ملی جو نوجوانوں کو لالچ اور خواتین کو پھنسانے کے لیے رقم کی پیش کش کرتے تھے۔اترپردیش پولیس کو ستمبر 2014 میں لوجہاد کے چھ میں سے پانچ اہم مقدمات میں کوشش یا زبردستی مذہب تبدیل کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا. پولیس نے کہا کہ بے ایمان مردوں کے ذریعہ فریب کاری واردات کے وَقفے وَقفے سے ھونے والے مقدمات کسی وسیع تر سازش کا ثبوت نہیں ہیں۔
2017 میں، کیرالہ ہائی کورٹ کے اس فیصلیکے بعد کہ ایک ہندو عورت کی مسلمان مرد سے شادی لوجہاد کی بنیاد پر غلط ہے،دراصل اس معاملہ میں مسلمان شوہر کے ذریعہ ہندوستان کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی،جہاں عدالت کے ذریعہ این آئی اے سے "غیر جانبدارانہ اور آزادانہ” شواہد کی بنا پر درخواست کی گئی، عدالت نے این آئی اے کو لو جہاد کی طرز پر قائم اسی طرح کے تمام معاملات کی تحقیقات کرنے کی ہدایت کی۔
این آئی اے نے اس سے قبل عدالت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
یہ خیال سب سے پہلے 2009 میں ہندوستان میں قومی توجہ کا مرکز بنا، اس میں کیرالہ اور کرناٹک میں بڑے پیمانے پر مذہبی تبدیلیوں کے دعوے شامل تھے، لیکن بعد میں یہ دعوے پورے ہندوستان اور اس سے آگے پاکستان اور برطانیہ میں پھیل چکے ہیں۔
سال 2020ء میں مرکزی حکومت کے مملکتی وزیر داخلہ جی کشن ریڈی نے فروری میں لوک سبھا میں بیان دیا کہ لو جہاد کی اصطلاح کی کوئی تعریف قانون میں نہیں دی گئی ہے اور اس سے متعلق کسی بھی مرکزی ایجنسی نے کوئی بھی معاملے کی اطلاع نہیں دی ہے۔
حال میں یوپی کے بریلی میں ایک جج نے ’لو جہاد‘ تھیوری کی حمایت کی،اور مسلم نوجوان کو عمر قید کی سزاسنادی ہے۔اس معاملے میں لڑکی کے اپنی گواہی سے دستبردار ہونے کے باوجود عدالت نے عمر قید کا فیصلہ سنایا۔ ۹۱? ستمبر کو لڑکی نے بتایا تھا کہ اس کی پچھلی گواہی جھوٹی تھی اور دائیں بازو کی جماعتیں اس کے والدین پر دباو? ڈال رہی تھیں۔ واضح رہے کہ جج دیواکر ۲۲۰۲ء میں وارانسی میں گیان واپی مسجد کے سروے کی اجازت دینے کیلئے بھی جانے جاتے ہیں۔بریلی، اتر پردیش کی ایک عدالت کے جج نے ایک ۵۲ سالہ نوجوان اور اس کے والد کو ایک ۰۲ سالہ لڑکی کو زبردستی اسلام قبول کروانے اور ہندو شناخت اختیار کرتے ہوئے اس سے شادی کرنے کا مجرم قرار دیا اور انہیں بالترتیب عمر قید اور ۲ سال قید کی سزا سنائی۔ اس کیس میں لڑکی کے اپنی گواہی سے دستبردار ہونے کے باوجود عدالت نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔ ۹۱ ستمبر کو لڑکی نے بتایا کہ اس کی پچھلی گواہی جھوٹی تھی اور دائیں بازو کی جماعتیں اس کے والدین پر دباوڈال رہی تھیں۔ لیکن عدالت نے لڑکی کے بیان میں تبدیلی کو ملزم کے اثر ورسوخ سے منسوب کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔فاسٹ ٹریک عدالت میں جج روی کمار دیواکر نے کہا کہ یہ شخص ’’لو جہاد‘‘ کا مجرم ہے۔ جج کے مطابق، لو جہاد، بنگلہ دیش اور پاکستان میں اس طرح کے معاملات کی طرز پر ملک کو کمزور کرنے کے مذموم ارادے سے کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے جج نے مسلمان بستیوں کو پاکستان کہہ دیا تھا اور سپریم کورٹ نے سخت رخ اختیار کیا۔یہ مرض عدلیہ میں پھیلنا تشویش ناک امر ہے۔
ابھی یہ ‘لوجہاد’ اور لینڈ جہادکاشوشہ ہندوستان کی سیاست اور سماجی تانے بانے میں 2014ء سے ابھرنے والا ایک سازشی نظریہ ہے جس کی رو سے ہندوستانی مسلمان زمینوں کو جائز و ناجائز طریقوں سے زمینیں ہتھیا رہے ہیں اور ان پر ذاتی ملکیت بھی قائم کر رہے ہیں اور مساجد بھی تعمیر کر رہے ہیں۔یہ الزام مختلف وقتوں پر ملک کے پارلیمنٹ میں بھی ابھرا ہے، یہ ریاستی اسمبلیوں میں مباحثوں کا حصہ بھی بنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی جلسوں میں تقاریر کا بھی حصہ بنا ہے۔ اس الزام کی مدد سے سیاست دانوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ ہندوستان میں ایک اقلیتی فرقہ توسیع پسندی اور مذہبی نشر و اشاعت کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقوں کا استعمال کر رہا ہے جب کہ ملک کا امن پسند اکثریتی فرقہ خطرے میں ہے۔ اس دعوے کو مختلف مواقع پر تحقیق کے ذریعے لو جہاد کی طرح پروپیگنڈا ثابت بھی کیا جا چکا ہے۔مشرقی دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیمان پرویش صاحب سنگھ نے دہلی کے لیفٹنٹ گورنر انیل بیجل کو 54 غیر قانونی تعمیرات کی فہرست جولائی 2019ئ￿ میں سونپی تھی جس میں دعوٰی کیا گیا تھا کہ دہلی میں، خصوصًا مشرقی دہلی کے علاقے میں عوامی مقامات پر مساجد اور قبرستان بنائے جا رہے ہیں۔ تاہم دہلی اقلیتی کمیشن کے رکن اویس سلطان کی قیادت میں ایک تحقیقاتی کمیٹی نے اوائل اگست 2019ء میں تحقیق کر کے یہ ثابت کیا کہ مساجد، مزارات، قبرستان اور مدارس پر مشتمل زمینی قبضے کی پیش کردہ فہرست غیر ذمے دارانہ اور غیر سنجیدہ انداز میں تیار کی گئی ہے کہ تاکہ سماجی ماحول کو خراب کیا جا سکے۔ رپورٹ میں رکن پارلیمان کے دعووں کو خارج کر دیا گیا اور یہ دعوٰی کیا گیا کہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے کافی گنجائش موجود ہے کیونکہ انھوں نے "ایک مخصوص فرقے کو نشانہ بنایا تاکہ دہلی میں فرقہ وارانہ بد امنی پھیلے۔” یہ رپورٹ دہلی کے لیفٹنٹ گورنر کو بھی پیش کی گئی تھی۔
حال میں ان دونوں سے ہٹ کر’ ووٹ بینک ‘کاشوشہ چھوڑا گیا ہے،جیسا کہ پہلے ذکر کیاگیا ہے کہ اس کے موجد اور کوئی نہیں سینئر بی جے پی لیڈر دیویندر فڑنویس ہیں جوکہ ریاست میں نائب وزیراعلی بھی ہیں۔ گزشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں ’ووٹ جہاد‘ کا تذکرہ کیا تھا۔ انھوں نے لوک سبھا انتخاب میں مہاراشٹر کے اندر بی جے پی کی خراب کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مسلمانوں کیچندافراد کو لگتا ہے کہ ہماری تعداد بھلے ہی کم ہو، لیکن ہم منظم ووٹنگ کر کے ہندوتوا طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں۔‘‘ مسلم طبقہ کے ذریعہ منظم ووٹنگ کیے جانے کو ہی انھوں نے اشاروں میں ’ووٹ جہاد‘ قرار دیا تھا۔
نائب وزیراعلیٰ اور بی جے پی لیڈر دیویندرفرنویس کے ذریعہ ووٹ جہاد کا شوشہ چھوڑے جانے پر کانگریس پارٹی کی جانب سے ان پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے نے کہا کہ نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ جیسے ا?ئینی عہدے پر فائز ہونے کے باوجود ایک سماج کو نشانہ بنانے پر دیویندر فرنویس کو مستعفی ہوجانا چاہئے۔
خیال رہے کہ لوک سبھا کے انتخابات میں جمہوریت پسند عوام، اقلیتی طبقے اور خصوصاً مسلمانوں نے جس طرح متحد ہو کر فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف ووٹ کیا اور ان کے دانت کھٹے کئے تھے، اس کا درد اج تک وہ طاقتیں بھلا نہیں پائی ہیں۔ واضح رہے کہ لوک سبھا انتخابات میں مہا وکاس اگھاڑی کے امیدوار وں کو اکثریت ووٹ ملنے کے سبب بی جیپی جس کے مہاراشٹر سے گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں ۳۲ اراکین پارلیمان چن کر ائے تھے وہ اس مرتبہ محض ۹ ایم پی پر سمٹ گئی ہے۔ بی جے پی کے اسی مخالف ووٹوں کو دیویندر فرنویس ’ووٹ جہاد‘ قرار دے رہے ہیں۔
نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے والا بیان دیا تھا اور بی جیپی کے خلاف دیئے گئے ووٹوں کو ’ ووٹ جہاد ‘کا نام دیا ہے۔ انہوں نے کہا تھاکہ ’’ لوک سبھا الیکشن میں ’ووٹ جہاد‘ دکھائی دیا۔ متحدہ طور پر ووٹ ڈال کر ہندوتوا وادیوں کو ہرایاجاسکتاہے۔
کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے نے کہا کہ ’’دیویندر فرنویس ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ بھی ہیں۔ ایسے ائینی عہدے پر فائز ہونے والے شخص کو کھلے عام کسی مخصوص سماج کو نشانہ بنانا اور اسے برا بھلا کہنا ائین کے خلاف ہے۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ دیویندر فرنویس کوعوام سے معافی مانگنا چاہئے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا چاہئے۔
اس ضمن میں قانو ن ساز اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر وجے وڈیٹیوار نے کہا کہ’’بی جے پی کو جہاد، ہندو/ مسلمان، بھارت /پاکستان، مندر اور مسجد ان کا استعمال کرتے ہوئے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے والے بیان دینے ہی پڑتے ہیں۔ اس کے بغیر انہیں ووٹ نہیں ملیں گے۔ اگر اس طرح کی اشتعال انگیزی وہ نہیں کریں گے تو ان کے امیدواروں کے ضمانت تک ضبط ہو جائیں گے۔ اپوزیشن لیڈر نے مسلمانوں کی ستائش کی کہ انہوں نے صبر و تحمل سے کام لیا اور اشتعال دلانے کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ وجے وڈیٹیو وار نے اقلیتی فرقے کو صبر کی تلقین ہے۔

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا