درندے ابھی زندہ ہیں!

0
199

وطن عزیز میں اس وقت جہاں کلکتہ معاملے کو لیکر احتجاج ہو رہے ہیں ،وہیں ملک کے عوام میں ایک خوف بھی ہے کہ نہ جانے ایسے حادثات اور سانحات اور کتنے دیکھنے پڑیں گے۔حال ہی میں نئے فوجداری قوانین کے لاگو ہونے کے بعد یہ امید جتائی جا رہی تھی کہ ایسے معاملات اور مظالم ڈھانے والوں کو سخت اور کڑی سزائیں ملیں گی اور ہمارا سماج ایسے جرائم اور جرائم پیشہ افراد سے پاک ہوگا۔ہمیں اپنے وطن کے آئین اور قوانین پر مکمل بھروسہ ہے اور امید ہے کہ ایسے مظالم ڈھانے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گااور ہونا بھی چاہئے۔ایک جانب پورا ملک اس وقت کلکتہ کی اس متاثرہ کے لئے انصاف کی گوہار لگا رہا ہے تو دوسری جانب ایسے واقعات آج بھی سامنے آر ہے ہیں جہاں بنت حوا کی عصمت تار تار ہو رہی ہے اور نہ صرف اس کی عصمت دری ہو رہی ہے بالکہ اس کی جان کا خاتمہ بھی ہو رہا ہے ۔جموں وکشمیر کے ضلع کٹھوعہ کے رسانہ علاقہ سے چند سال قبل سامنے آئے دلدوز سانحہ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا،ملک میں نئے قوانین بنائے گئے تاکہ خواتین کے تئیں سماج کی اس وحشیانہ سوچ پر قابو پایا جا سکے ۔ایسے واقعات کو انجام دینے والے سماج مخالف عناصر کی ملک اور دنیا بھر میں تھو تھو ہوئی لیکن اس سب کے بعد بھی سماج میں ایسے بے حس موجود ہیں جو اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہے ہیں ۔چند روز قبل کلکتہ میں دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا جہاں ایک بے گناہ خاتون کو نشانہ بنایا گیا ۔اتنا ہی نہی بالکہ ہر آئے روز ملک کے دیگر حصوں سے بھی ایسی خبریں منظر عام پر آر ہی ہیں جہاں بنت حوا کی عصمت تار تار کرنے کے بعد اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔اس واقع کے بعد ملک میںایک بحث چھڑ گئی جہاں سماج کا درد رکھنے والے ایسے واقعات کو انجام دینے والے سماج مخالف عناصر کے لئے پھانسی کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ماضی میں ایسا دیکھا گیا ہے کہ ایسے واقعات کے سامنے آنے کے چند روز بعد یہ بحث ختم ہو جاتی ہے اور بیچاری متاثرہ انصاف کی منتظر رہ جاتی ہیں ۔ایک وقت گزرنے کے بعد جب کوئی نیا واقعہ سامنے آتا ہے پھر سماج کا خون گرم ہو جاتا ہے اور چند روز کیلئے سوشل میڈیا پر بحث چھڑ جاتی ہے کہ ایسے حوس کے پوجاریوں کو سزائے موت دی جائے ،سر عام پھانسی دی جائے ۔ایک جانب ملک میں بیٹی بچائو، بیٹی پڑھائو کے نعرے خوب بلند ہو رہے ہیں تاکہ بیٹی کی پڑھائی لکھائی کے ساتھ ساتھ بیٹی کو تحفظ بھی ملے لیکن بیٹیوں کو تحفظ ملنا کوسوںدور دکھتا ہے کیونکہ ان کی عصمت کے ساتھ کھیلنے والوں کے دلوں میں کسی چیز اور قانون نام کا خوف ہی نہیں اور انہیں کسی بیٹی کی عصمت کے ساتھ کھیلنا یوں آسان نظر آتا ہے جیسے انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں ۔ حکومتی سطح پر خواتین کے تئیں بڑھتے جرائم کو روکنے کیلئے سخت سزا اور بروقت سزا کے پیش نظر اقدام کئے جانے چاہئے تاکہ معصوم کلیوں کو ان ناپاک عزائم والے عناصر کا شکار نہ بننا پڑے اور ایسی حرکات کو انجام دینے والوں کے ناپاک عزائم کو پست کیا جا سکے ۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا