وقف ترمیمی بل 2024حکومت کی بدنیتی اوراس کے خطرناک ارادوں کا عکاس: مسلم پرسنل لا بورڈ

0
88

یواین آئی

نئی دہلی؍؍وقف ترمیمی بل کے خلاف ایک پرہجوم مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدرجمعیۃعلماء ہند اور مسلم پرسنل لابورڈ کے نائب صدر مولانا ارشدمدنی نے اعادہ کیا کہ ترمیمی بل وقف کے تعلق سے لایاجارہاہے یہ نہ صرف غیر آئینی،غیر جمہوری اورغیر منصفانہ ہے بلکہ وقف ایکٹ میں کی جانے والی مجوزہ ترامیم آئین ہند سے حاصل مذہبی آزادی کے بھی خلاف اور آئین ہند کے دفعات 15-14 اور25کی خلاف ورزی ہے۔
آج یہاں وقف ترمیمی بل 2024کے تناظرمیں جمعیۃعلماء ہند اورمسلم پرسنل لاء بورڈکی طرف سے منعقد ہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ بھی مذہبی معاملات میں مداخلت ہے جو مسلمانوں کو ہر گزمنظورنہیں ہے، اس لئے کہ ترمیمات کی آڑمیں بل کے ذریعہ ملک کے مسلمانوں کو اس عظیم ورثہ سے محروم کردینے کی کوشش ہورہی ہے جو ان کے آباء واجدادملت کے غریب وناداراورضروتمندلوگوں کی امدادکے لئے وقف کی شکل میں چھوڑگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم مذہبی شخصیتوں سے کسی طرح کا صلاح ومشورہ کئے اورمسلمانوں کو اعتمادمیں لئے بغیربل میں ترمیمات کی گئی ہیں جبکہ وقف ایک خالص مذہبی اورشرعی معاملہ ہے،کیونکہ ایک بار وقف کا اطلاق ہونے کے بعد واقف جائیدادموقوفہ کا مالک نہیں رہتاہے،بلکہ وہ جائیداداللہ کی ملکیت میں منتقل ہوجاتی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ترمیمی بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیاگیاکہ اس سے کام کاج میں شفافیت آئے گی اورمسلم معاشرہ کے کمزوراورضرورتمندافرادکو فائدہ پہنچے گا، لیکن ترمیمات کی اب جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کو دیکھ کر بجاطورپر کہا جاسکتاہے کہ یہ بل حکومت کی بدنیتی اوراس کے خطرناک عزائم کا ثبوت ہے، اس لئے اگر یہ بل پاس ہوگیاتونہ صرف ملک بھرمیں واقع وقف جائیدادوں کا تحفظ خطرہ میں پڑسکتاہے بلکہ نئے تنازعات کا ایک دہانہ بھی کھل جائے گا اور ان مسجدوں،مقبروں، عمارتوں، امام باڑوں اورزمینوں کی حیثیت مشکوک بنادی جائے گی جو وقف ہیں یاجو وقف اراضی پر واقع ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندومذہبی مقامات کی دیکھ بھال اورتحفظ کے لئے جو شرائن بورڈ تشکیل دیا گیا اس کے لئے صاف طورپر یہ وضاحت موجودہے کہ جین، سکھ یابودھ اس کے ممبرنہیں ہوں گے، انہوں نے سوال کیا کہ اگر جین، سکھ اوربودھ شرائن بورڈکے ممبرنہیں ہوسکتے تو وقف بورڈمیں غیر مسلموں کی نامزدگی اورتقرری کو کس طرح درست ٹھہرایاجاسکتاہے،؟جبکہ جین اور بدھ ہندوومذہب سے الگ نہیں سمجھاجاتابلکہ انہیں ایک الگ فرقہ تصورکیا جاتاہے، چنانچہ اگر شرائن بورڈمیں ہندوہوتے ہوئے بھی ایک فرقہ ہونے کی بنیادپر ان کی شراکت نہیں ہوسکتی تو وقف بورڈوں میں غیرمسلموں کی نامزدگی اورتقرری کو لازمی کیوں کیا جارہاہے؟۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے وقف ترمیمی بل کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام اہم مسلم تنظیمیں اور ادارے لوک سبھا میں پیش کیے گئے نئے مجوزہ وقف ترمیمی بل کو وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف املاک کو تباہ کرنے اور ان پر قبضہ کرنے کی کھلی سازش قرار دیتے ہیں۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اقدامات سے باز آجائے اور بل واپس لے۔انہوں نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے ذریعہ مسلمانوں کا درد پیش کر رہے ہیں۔ آپ سے (میڈیا) سے امید ہے کہ اس درد کو عوام تک پہنچائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اصلاح کا دعوی کرتی ہے لیکن قابضین کی سزا کو ختم یا کم کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کے خلاف قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہر طریقے کو اختیار کریں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ دوسری اقلیتوں کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کریں گے۔
مجوزہ بل میں نہ صرف وقف کی تعریف، سرپرست کی حیثیت اور وقف بورڈ کے اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے بلکہ پہلی بار سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ارکان کی تعداد بڑھانے کے نام پر غیر مسلموں کو کو بھی اس میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس سے قبل سنٹرل وقف کونسل میں ایک غیر مسلم رکن کو رکھا جا سکتا تھا، منظور شدہ بل میں یہ تعداد 13 تک ہو سکتی ہے، جس میں سے دو کا ہونا لازمی ہے۔ اسی طرح اس سے قبل وقف بورڈ کا چیئرمین صرف غیر مسلم ہوسکتا تھا لیکن منظور شدہ بل میں یہ تعداد 7 تک ہوسکتی ہے جب کہ بل کے مطابق دو کی ضرورت ہوگی۔ یہ تجویز آئین کے سیکشن 26 سے براہ راست متصادم ہے، جو اقلیتوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مذہبی اور ثقافتی ادارے قائم کریں بلکہ انہیں اپنے انداز میں چلا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ملک کی کئی ریاستوں میں ہندوؤں کے اوقاف کے انتظام اور تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ارکان اور انچارج ہندو عقائد کی پیروی کریں۔ اسی طرح گرودوارہ پلاننگ کمیٹی کے ارکان بھی لازمی طور پر سکھ برادری سے ہوں گے۔ اسی طرح پہلے وقف بورڈ کے ارکان کا انتخاب کیا جاتا تھا، اب انہیں نامزد کیا جائے گا۔ اسی طرح منظور شدہ بل نے وقف بورڈ کے امیدواروں کے لیے مسلمان ہونے کی شرط کو ہٹا دیا ہے۔ موجودہ وقف ایکٹ کے تحت ریاستی حکومت وقف بورڈ کے ذریعہ سفارش کردہ دو افراد میں سے کسی ایک کو نامزد کرسکتی تھی، جو ڈپٹی سکریٹری کے عہدے سے نیچے نہیں ہونا چاہئے، لیکن اب وقف بورڈ کے ذریعہ سفارش کئے جانے کی شرط کو ہٹا دیا گیا ہے اور اب سیکرٹری کی شرط ختم کر دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ امیدوار سیکرٹری کے عہدے سے کم نہ ہو۔ یہ ترامیم واضح طور پر سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے اختیارات کو کم کرتی ہیں اور حکومتی مداخلت کی راہ ہموار کرتی ہیں۔
مولانا رحمانی نے کہا کہ مجوزہ وقف بل حکومت کے لیے جائیداد پر قبضہ کرنے کی راہ بھی ہموار کرتا ہے۔ اگر کوئی جائیداد حکومت کے قبضے میں ہے تو اس کا فیصلہ کرنے کا مجموعی اختیار بھی کلکٹر کو منتقل کردیا گیا ہے۔ کلکٹر کے فیصلے کے بعد وہ ریونیو ریکارڈ درست کرائے گا اور حکومت وقف بورڈ سے اس جائیداد کو اپنے ریکارڈ سے حذف کرنے کو کہے گی۔
اسی طرح اگر وقف املاک پر کوئی تنازعہ تھا تو اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی وقف بورڈ کے ذمہ تھا جو پہلے وقف ٹریبونل کے ذریعے اس کا فیصلہ کرواتا تھا، اب وقف ٹریبونل کا یہ اختیار بھی وقف بورڈ کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ مجوزہ بل میں کلکٹر۔ موجودہ وقف ایکٹ میں کسی بھی تنازعہ کو ایک سال کے اندر وقف ٹریبونل کے سامنے لانا ضروری تھا، اس کے بعد کسی بھی تنازع کی سماعت نہیں ہوگی۔ اب یہ شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔ منظور شدہ بل میں کلکٹر اور سرکاری انتظامیہ کو سمجھے جانے والے اختیارات دیے گئے ہیں۔ آج جب کلکٹر کے حکم پر مسلمانوں کی زمینوں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں تو وقف املاک کے بارے میں ان کے رویہ پر کیسے اعتبار کیا جائے؟
مجوزہ بل میں انڈومنٹ ایکٹ 1995 کے سیکشن 40 کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ سیکشن وقف بورڈ کے دائرہ کار، حدود اور اختیارات کا تعین کرتا ہے، جس کے تحت وقف رجسٹریشن، وقف املاک کی حیثیت وغیرہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اب یہ تمام اختیارات کلکٹر کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح وقف بورڈ کے سروے کمشنر کو نامزد کرنے کا اختیار بھی ختم کردیا گیا ہے۔ منظور شدہ بل میں یہ ذمہ داری بھی کلکٹر کو سونپی گئی ہے۔
محفوظ استعمال کی شق کو اجازت شدہ بل سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اوقاف کے اسلامی قانون میں اسے ایک اہم مقام حاصل ہے۔ جسے وقف ایکٹ 1995 میں بھی اہمیت دی گئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ وقف کے استعمال کی جگہ (مسجد، مزار یا قبرستان) جو عرصہ دراز سے زیر استعمال ہے اسے بھی وقف تسلیم کیا جائے گا، چاہے وہ وقف کے طور پر رجسٹرڈ ہی کیوں نہ ہو۔ اسے ہٹانا نہ صرف وقف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ فرقہ پرست عناصر کو وقف املاک پر قبضہ کرنے کا ہتھیار بھی فراہم کرے گا۔ اس طرح اگر ایسی مساجد، مدارس، درگاہیں اور قبرستان صدیوں سے زیر استعمال ہیں، اگر ان کا اندراج ملک کے ریونیو ریکارڈ میں نہ کیا جائے تو ان پر مقدمات، جھگڑوں اور ناجائز قبضوں کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
مجوزہ بل میں وقف کے لیے ایک مضحکہ خیز شرط عائد کی گئی ہے کہ اسے کم از کم پچھلے پانچ سال سے اسلام پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ یہ تجویز ہندوستان کی بنیادی اخلاقیات اور روح کے بھی خلاف ہے۔ جبکہ موجودہ ایکٹ کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کی طرف سے کسی بھی جائیداد کا رضاکارانہ عطیہ خواہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ، کسی بھی مقصد کے لیے جسے مسلم قانون کے تحت مذہبی یا خیراتی عمل کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، ایک مذہبی یا خیراتی عمل ہے۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کوئی شخص اسلام پر عمل کر رہا ہے یا نہیں اس کی سند کون دے گا؟
آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ، جمعیۃ علماء ہند، جماعت اسلامی ہند، مرکزی جمعیت اہل حدیث اور تمام دینی و مذہبی تنظیموں نے کہا ہے کہ یہ بل وقف املاک کو تباہ کرنے اور ان پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے لایا ہے، اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے اور حکومت سے فوری طور پر واپس لینے مطالبہ کیا۔اس پریس کانفرنس میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی، سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند و نائب صدر بورڈ،امیر مرکزی کمیٹی اہل حدیث و نائب صدر بورڈ ، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس موجود تھے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا