’این آئی اے پر لگام کس لیں گے‘

0
346

قلم دوات اور سیب والوں نے بھاجپا کو راہداری فراہم کی: عمر عبداللہ
یواین آئی

کپوارہنیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے سرحدی ضلع کپوارہ کے لولاب علاقے مین چناوی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے لوک سبھا انتخابات کو ریاست کی خصوصی پوزیشن دفعہ 370اور 35Aکے ساتھ مشروط قرار دیا۔انہوںنے پی ڈی پی اور پی سی پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ قلم دوات ہو یا سیب والے، دونوں نے بی جے پی کو خصوصی پوزیشن پر حملے کرنے کی راہداری فراہم کی۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعرات کو سرحدی ضلع کپوارہ کے لولاب علاقے میں بھاری چناوی جلسے سے خطاب کے دوران لوک سبھا انتخابات کو ریاست کی خصوصی پوزیشن دفعہ 370اور 35Aکے ساتھ مشروط قرار دیا۔عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر کی پہچان ، شناخت اور خصوصی پوزیشن پر حملے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اس لئے آنے والے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات نہ صرف تعمیر و ترقی کیلئے ہونگے، نہ صرف روزگار کیلئے ہونگے، نہ صرف امن اور بھائی چارے کیلئے ہونگے بلکہ یہ الیکشن خصوصی طور پر ہمارے دفعہ370اور دفعہ35اے کو پچانے کیلئے الیکشن ہونگے۔انہوں نے کہا کہ سچائی یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس کے سوا اور کوئی بھی جماعت دفعہ35اے کو دفاع اور دفعہ370کی مضبوطی کی اہل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ قلم دوات کے نشان والی جماعت ہو یا سیب کے نشان والی، ان دونوں نے بھاجپا کو ریاست کی خصوصی پوزیشن پر حملے کرنے کی راہداری فراہم کی۔ ان دونوں جماعتوں نے صرف اپنی کرسی کو ترجیح دی اور ریاست کے مفادات کا سودا کیا۔ انہوں نے کہا کہ سیب کے نشان والی جماعت کے سربراہ نے وزارت میں اچھا قلمدان نہ ملنے پر احتجاج کیا اور دفتر نہیں گئے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ موصوف نے کبھی بحیثیت وزیر دفعہ35اے اوردفعہ370پر کئے جارہے حملوں پر بات نہیں کی، کبھی اس کیخلاف دفتر نہ جاکر احتجاج نہیں کیا، موصوف نے کبھی دفتر نہ جاکر بے روزگاری کیخلاف احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی دیگر عوامی معاملات پربات کی۔ موصوف نے اگر احتجاج کیا تو صرف اور صرف اپنی کرسی کیلئے کیا۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ ”محبوبہ مفتی کہتی ہے کہ عمر عبداللہ این ڈی اے میں شامل تھے، جی ہاں !محبوبہ جی میں این ڈی اے میں تھا، میں نے اُس این ڈی اے میں تھا جس کی سربراہی اٹل بہاری واجپائی کررہے تھے، جس اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کیساتھ دوستی کی، جس اٹل بہاری واجپائی نے کرناہ میں اپنی تقریر میں کہا کہ ہم دوست بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں، وہ اٹل بہاری واجپائی جس نے انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کے دائرے میں ہمارے مسئلے حل کرنے کی بات کی،میں اُس این ڈی اے کا حصہ تھا جس نے حریت کیساتھ بات کی، میں اُس این ڈی اے کا حصہ تھا جس میں ملک کی تمام سیکولر جماعتیں شامل تھیں، میں نے آپ کی طرح مودی کی این ڈی اے میں کیساتھ ہاتھ نہیں ملایا جس نے گذشتہ5سال کے دورا ن ہماری ریاست کی خصوصی پوزیشن پر مسلسل حملے کئے، جس نے ہمارے کشمیری نوجوان کو ریاست کے باہر نشانہ بنایا ، میں آپ کی طرح اُس بھاجپا حکومت کا حصہ نہیں تھا جس نے پورے ملک میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کا قافیہ حیات تنگ کررکھا ہے، محبوبہ جی دوسروں پر الزامات عائد کرنے سے قبل اچھا ہوگا آپ اپنا محاسبہ کریں کہ آپ نے بھاجپا کیساتھ مل کر ریاست کو کس تباہی اور بربادی کی نذر کردیا۔“ کشمیرنیوز سروس کے مطابق عمر عبداللہ نے کہا جو لوگ آج کہتے ہیں کہ وہ دفعہ370کو بچائیں گے پچھلے پانچ سال میں دیکھئے انہوں نے کیا کیا؟۔ جی ایس ٹی کا قانون لگاکر ریاست کی مالی خودمختاری سلب کردی، فوڈ سیکورٹی ایکٹ، سرفیسی ایکٹ اور دیگر قوانین عائد کرکے خصوصی پوزیشن کو زبردست نقصان پہنچایا۔این سی نائب صدر کا کہنا تھا کہ ”ہم نے سابق حکومت کے دوران امن پیدا کیا، ہم نے یہاں کے نوجوانوں کو بندوقوں سے دور رکھا، آج حال دیکھئے ،پڑھے لکھے ہمارے نوجوان بندوق اُٹھا رہے ہیں، یہ 2014کے بعد کی تبدیلی ہے، جب پہلے مودی آئے اور پھر مفتی سعید آئے، ان لوگوں نے اس ریاست کے امن وامان کے ماحول کو تہس نہس کیا اور انہیں ذرا سا بھی افسوس نہیں، ذرا سی بھی ہمدردی نہیں۔ ہمارے لوگ مر مٹ گئے، ہمارے قبرستان بھرے اور اُس کا جواب کیا؟ پیلٹ گن، ٹیئر گیس، پاوا شل، گولیاں۔جب ہم نے محبوبہ مفتی صاحبہ سے کہا ذرا ہمدردی کیجئے، اُس کا جواب کیا ملا ’ یہ کیا دودھ لانے گئے تھے ، یہ کیا ٹافی لانے گئے تھے؟یہ حملہ کریں گے تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا‘۔ مجھے آج بھی محبوبہ مفتی کے یہ الفاظ یاد ہیں جب انہوں نے کہا کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کیلئے ہوتے ہیں لیکن جو ہمارے وردی والے ہیں اُن کی بندوقیں دکھانے کیلئے نہیں استعمال کرنے کیلئے بھی ہوتی ہیں۔ اور آج موصوفہ مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہیں ،آج ہمدردی، آج افسوس، آج کہتی ہیں کہ میں ریاست کیلئے ہر کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہوں۔خبردار !میں لوگوں کو مگرمچھ کے آنسوﺅں سے خبردار کرتا ہوں“۔عمر عبداللہ نے کہا کہ 2015کے بعد کتنے ہزار نوجوانوں کو پرانے کیسوں میں پھنسایا جارہاہے، بے شمار نوجوانوں پر پی ایس اے عائد کیا گیا، کتنے نوجوانوں کو ریاست کے باہر جیلوں میں بھیجا گیا۔انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کی حکومت آئی تو ہم ان سب کیسوں کا جائزہ لیکر اُن کو معاف کرنا شروع کریں گے۔یہ سب سختیاں محبوبہ مفتی کی حکومت کی دین ہیں۔عمر عبداللہ نے کہا کہ محبوبہ مفتی آئے روز این آئی اے کی کارروائی کیخلاف بیان بازی کررہی ہیں لیکن محبوبہ مفتی یہ نہیں کہتی ہیں کہ یہ سارے کیس اُن کے ہی دورِ حکومت میں لگے۔جس کیس کے تحت میرواعظ عمر فاروق کو تنگ طلب کیا جارہا ہے، جس کیس کے تحت شبیر احمد شاہ اور محمد یاسین ملک بند ہیں ، اُن کی اجازت کس نے دی ؟محبوبہ مفتی آج کس بات پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہیں؟جب آپ کی حکومت میں یہ سب کیس دائر ہورہے تھے تب آپ نے منہ نہیں کھولا۔ انہوں نے کہا کہ میرے دورِ حکومت میں این آئی اے نے صرف ایک کارروائی کی اور اُس میں بھی سرحد پار سے گھر واپس لوٹ رہا کپوارہ کا لیاقت باعزت بری ہوا۔ لیاقت کو یو پی کی پولیس نے گرفتار کرکے ملی ٹنٹ جتلایا اور دلی پولیس کے حوالے کردیا اور اُسے تہاڑ جیل بھیجنے کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔ میں نے دلی میں این آئی اے کے ذریعے اُس کی تحقیقات کروائی اور اُسے بے گناہ ثابت کروایا۔ اور اتفاق سے لیاقت صاحب اس جلسے میں موجود ہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کی حکومت آئی تو ہم این آئی اے کی سختیوں پر بریک لگادیںگے اور میں نے پہلے ہی وعدہ کیا ہے کہ نیشنل کانفرنس کی حکومت بنی تو ہم پبلک سیفٹی ایکٹ کو قانون کی کتاب سے مٹا دیں گے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ 2014کی طرح غلطی نہیں دہرانا اور ایسے عناصر کو ہر حال میں ناکام بنانا ہے جو ہماری شناخت اور ہماری پہنچان کے در پے ہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ہم نے لولاب کو سیاحتی نقشے پر لانے کیلئے کام شروع کیا تھا لیکن پی ڈی پی کی حکومت آئی اور سب کچھ دھرا کا دھرا ہی رہ گیا۔اس دوران جلسے سے پارٹی کے سٹیٹ سکریٹری چودھری محمد رمضان، صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، شمالی زون صدر و نامزد اُمیدوار ایڈوکیٹ محمد اکبر لون، سینئر لیڈر و سابق ایم پی شریف الدین شارق،ضلع صدر کپوارہ قیصر جمشید لون اور سلام الدین بجا ڑنے بھی خطابات کئے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا