سلم بستیوں میں بھی تعلیم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے

0
40

 

 

دھیرج گجر

جے پور، راجستھان

راجستھان حکومت جلد ہی ریاست کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی خالی آسامیوں کو بھرنے کا عمل شروع کرنے جا رہی ہے۔ راجستھان کے سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ریاست میں مختلف کیڈرز کی کل 3,70,873 آسامیوں میں سے تقریباً 1 لاکھ 25 ہزار آسامیاں خالی ہیں۔ اس عمل سے ریاست کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ آج بھی ریاست کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں تعلیم کا شعلہ پوری طرح سے روشن نہیں ہوا ہے۔ ان میں دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں کی کچی (سلم)بستیاں بھی شامل ہیں۔ وہاں رہنے والے بچوں خصوصاً نوعمر لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں ملتے ہیں۔جے پور، جو گلابی شہر کے نام سے مشہور ہے، نہ صرف راجستھان کا دارالحکومت ہے بلکہ اسے ریاست کا دل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے تاریخی ورثے کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید ترقی کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا ایک اور رخ بھی ہے اور وہ ہے شہر کی کچی آبادیاں۔ جہاں مکینوں کو بنیادی سہولیات تک رسائی میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں تعلیم ایک اہم مسئلہ ہے۔ جہاں سکول کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے نئی نسل تعلیم سے محروم ہو رہی ہے۔

https://www.charkha.org/

 بابا رام دیو نگر ایسی ہی ایک کچی بستی کی مثال ہے۔ یہاں رہنے والی 16 سالہ گیتا کا کہنا ہے کہ کالونی میں کوئی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے وہ کبھی اسکول نہیں جا پائی۔ کالونی کے باہر دوسری طرف گورنمنٹ سکول ہے، اس تک پہنچنے کے لیے مصروف مین روڈ کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ لیکن والدین یومیہ مزدوری کرتے ہیں اور صبح سویرے کام پر نکل جاتے ہیں۔ ایسے میں اسے سکول لے جانے والا کوئی نہیں تھا۔ جب وہ بڑی ہوئی تو اس کے والد نے اسے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنے کا کہہ کر اسکول جانے نہیں دیا۔ جبکہ اس کے چھوٹے بہن بھائی بھی دن بھر سکول نہیں جاتے اور کھیلتے ہیں۔17 سالہ انجلی بتاتی ہے کہ پانچویں جماعت تک اس کے والد اسے اسکول چھوڑ دیتے تھے لیکن اس کے بعد اسے بھی گھر کے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنے کا کہہ کر اسکول جانا چھڑوا دیا گیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ نہ صرف وہ اور گیتا بلکہ اس کالونی میں رہنے والی تقریباً تمام لڑکیاں یا تو کبھی اسکول نہیں جا پائیں یا پھر ایسی ہی وجوہات کی وجہ سے پانچویں جماعت سے آگے کی تعلیم حاصل نہیں کر پائیں۔ انجلی کہتی ہیں کہ یہاں کے خاندانوں میں تعلیم کے تئیں کوئی خاص جوش نہیں ہے اور جب لڑکیوں کی تعلیم کی بات آتی ہے تو معاملہ اور بھی کم ہو جاتا ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے نوعمر لڑکیاں اپنے حقوق کو سمجھنے سے بھی محروم ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ جنسی ہراسانی، بچپن کی شادی اور گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔

وہ کہتی ہے کہ اگر کالونی کے اندر اسکول کھول دیا جائے تو بہت سی لڑکیوں کا پڑھنے کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔47 سالہ راجیش کالبیلیا کا کہنا ہے کہ ”ہم یومیہ اجرت والے مزدور ہیں، ہم روزانہ کام پر جاتے ہیں، ایسے میں بچوں کو تعلیم دینے کا خیال کہاں سے آئے گا؟“ وہ کہتے ہیں کہ میرے پانچ بچے ہیں۔ صبح سویرے گھر سے نکلنے کے بعد، بڑی بیٹی، جس کی عمر 11 سال ہے، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اگر وہ اسکول جائے گی تو ان چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ ان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے تئیں اس کالونی کے خاندانوں کی سوچ بہت منفی ہے۔ لڑکیوں کوپرایا سمجھا جاتا ہے اور انہیں تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سے سماجی اور معاشی حالات کی وجہ سے بھی چھوٹے بچوں کو سکول بھیجنے کی بجائے کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ راجیش کے مطابق اس کالونی میں کئی خاندان بانس سے بنی اشیاء تیار کرتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے اپنے ساتھ کام کرنا سکھاتے ہیں تاکہ یہ ہنر اگلی نسل تک پہنچایا جا سکے۔

 

 

 

جے پور میں واقع اس کچی بستی کی آبادی 500 سے زیادہ ہے۔ نیو آتش مارکیٹ میٹرو اسٹیشن سے تھوڑے فاصلے پر واقع اس کالونی میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والی کمیونٹیز کی اکثریت ہے۔ جس میں لوہار، جوگی، کالبیلیا، میراسی، اسکریپ ورکرز، فقیروں، ڈھول بجانے والوں اور یومیہ اجرت والے مزدوروں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہاں رہنے والے تمام خاندان تقریباً 20 سے 12 سال قبل راجستھان کے مختلف دور دراز دیہی علاقوں سے بہتر روزگار کی تلاش میں نقل مکانی کر کے آئے  ہیں۔ ان میں سے کچھ خاندان مستقل طور پر یہاں آباد ہو گئے ہیں جبکہ کچھ موسم کے مطابق ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ یہاں پینے کے صاف پانی سمیت دیگر بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر نوعمر لڑکیوں کی تعلیم اور صحت پر پڑتا ہے۔ یہاں کی زیادہ تر لڑکیاں غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں بوجھ اور کسی اور کی دولت سمجھنے کا رجحان بھی ان کی مجموعی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ اس کالونی میں رہنے والی 16 سالہ لڑکی سانچی کا کہنا ہے کہ اکثر گھروں میں لڑکیوں کو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کے نام پر ان کی تعلیم سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو پڑھائی کی بجائے گھریلو کام سیکھنے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہاں لڑکیوں کی 16 سال کی عمر میں شادی ہونا عام بات ہے۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق راجستھان میں خواندگی کی شرح 66.11 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس میں مردوں میں خواندگی کی شرح 79.19 فیصد جبکہ خواتین کی شرح خواندگی تقریباً 52.12 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ یہ تعداد پچھلے 13 سالوں میں بڑھ چکی ہے۔ جے پور، اپنی سیاحت اور ثقافت کے ساتھ، تعلیم کے میدان میں بھی اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کئی یونیورسٹیاں قائم ہیں، جہاں نہ صرف راجستھان بلکہ ملک کی دیگر ریاستوں سے بھی بڑی تعداد میں طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ لیکن اسی جے پور میں بابا رام دیو نگر جیسے کچی بستیوں والے علاقوں کے بچے غربت اور دیگر وجوہات کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں۔ ایسے میں انہیں تعلیم سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ بہتر انفراسٹرکچر، معیاری تعلیم اور والدین کی تربیت جیسے اقدامات کے ذریعے اس میں بہتری ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گھر سے اسکول کا کم از کم فاصلہ نوعمر لڑکیوں کو اسکول لانے اور ان کے تعلیم حاصل کرنے کے خواب کو پورا کرنے میں ایک اہم کڑی ثابت ہوسکتا ہے۔ درحقیقت تعلیم ہر بچے کا حق ہے اور بابا رام دیو نگر اور اس جیسی دیگر کچی آبادیوں کے بچوں کے اس حق کو یقینی بنانے کے لیے موثر پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے معاشرے اور سماجی تنظیموں کوبھی آگے آکر اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ (چرخہ فیچرس)

https://lazawal.com/?cat=

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا