26 اکتوبر 1947: یومِ الحاق کشمیر و ہندوستان کا پسِ منظر

0
55

مضمون نگار:- پرویز مانوس

26 اکتوبر 1947 کا دن تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ دن تھا جب ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کیا اور ایک نئے سیاسی و جغرافیائی دور کا آغاز ہوا۔ اس معاہدے کے تحت کشمیر ہندوستان کا حصہ بن گیا، اور اسی دن کو یوم الحاق کشمیر و ہند کے طور پر منایا جاتا ہے۔

تاریخی پس منظر

https://en.wikipedia.org/wiki/Hari_Singh

برطانوی ہندوستان کی تقسیم کے وقت، 565 سے زیادہ ریاستیں تھیں جنہیں خودمختاری دی گئی تھی کہ وہ ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کریں یا آزاد رہیں۔ مہاراجہ ہری سنگھ، جو جموں و کشمیر کے حکمراں تھے، ایک مشکل صورتحال میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کریں یا پھر اپنی ریاست کو ایک آزاد ملک کے طور پر برقرار رکھیں۔

 

 

 

 

مہاراجہ نے ابتدا میں دونوں ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ریاست کو ایک آزاد مملکت کے طور پر قائم رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا، اور اسی غرض سے ہندوستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ معاہدات کیے تاکہ دونوں ممالک کے ساتھ تجارتی اور دیگر معاملات میں توازن برقرار رہے۔

قبائلی حملہ اور مہاراجہ کی پوزیشن

اکتوبر 1947 میں حالات تیزی سے بدل گئے جب پاکستانی قبائلی جنگجو اور فوج نے کشمیر پر حملہ کر دیا۔ اس وقت مہاراجہ کی حکومت کمزور تھی، اور ان کی فوج قبائلی حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ قبائلی حملے کا مقصد یہ تھا کہ ریاست کو زبردستی پاکستان میں شامل کیا جائے۔

مہاراجہ کو فوری مدد کی ضرورت تھی، اور اسی دباؤ کے تحت انہوں نے ہندوستان سے مدد طلب کی۔ ہندوستانی حکومت نے اس شرط پر فوجی مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا کہ مہاراجہ ہری سنگھ ہندوستان کے ساتھ الحاق کریں گے۔

معاہدہ الحاق

26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ایک خط لکھا جس میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کی درخواست کی گئی۔ مہاراجہ نے اس خط میں اپنی ریاست کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور پاکستانی حملے کی سنگینی کا ذکر کیا۔ اس خط میں انہوں نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی خواہش ظاہر کی تاکہ ان کی ریاست کو بیرونی حملوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔

مہاراجہ کا یہ خط ہندوستان کے لیے ایک قانونی بنیاد فراہم کرتا تھا تاکہ وہ اپنی فوج کو کشمیر میں بھیج کر وہاں کے حالات کو کنٹرول میں لے سکے۔ یہ الحاق عارضی طور پر اس وقت تک ہونا تھا جب تک ریاست کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع نہ مل جاتا۔

معاہدہ الحاق پر جموں میں دستخط ہوئے، اور اس معاہدے کے تحت کشمیر نے ہندوستان کی فوجی، مواصلاتی، اور خارجہ امور میں ہندوستانی حکومت کی سرپرستی قبول کی۔ اس معاہدے کے بعد ہندوستان نے اپنی فوج کو کشمیر بھیجا، جس کے بعد پاکستانی حملہ آوروں کو پسپا کیا گیا۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا خط اور ہندوستان کا موقف

مہاراجہ کے خط کے جواب میں، ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایک خط لکھا جس میں انہوں نے مہاراجہ کی درخواست قبول کر لی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر میں امن قائم ہونے کے بعد ریاست کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس وقت ہندوستانی قیادت، خصوصاً جواہر لال نہرو، نے بھی اسی مؤقف کو اپنایا تھا کہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا جائے گا۔

پاکستان کا موقف

پاکستان نے مہاراجہ کے اس فیصلے کو کبھی قبول نہیں کیا اور اس معاہدے کو متنازع قرار دیا۔ پاکستانی قیادت کا مؤقف تھا کہ چونکہ کشمیر کی اکثریتی آبادی مسلمان تھی، اس لیے ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان نے مہاراجہ کے اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ کشمیر کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دیا جائے۔

یومِ الحاق کا پس منظر

26 اکتوبر کا دن ہر سال یوم الحاق کشمیر و ہند کے طور پر منایا جاتا ہے، کیونکہ یہ وہ دن ہے جب کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ اپنا سیاسی اور آئینی تعلق قائم کیا۔ اس دن کی اہمیت ہندوستان کے لیے نہ صرف ایک تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ یہ ریاست جموں و کشمیر کے ہندوستانی آئین کا حصہ بننے کا آغاز بھی تھا۔

یوم الحاق کا قانونی اور آئینی پہلو

معاہدہ الحاق کی حیثیت آج بھی قانونی اور آئینی طور پر اہم ہے۔ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تھی، جو بعد میں 2019 میں ختم کی گئی۔ اس کے بعد سے کشمیر مکمل طور پر ہندوستان کا آئینی حصہ بن گیا، اور اگست 2019 کے بعد کشمر ترقی کی راہ پر پوری طرح گامزن ہے، 2023 میں کشمر G20 کی میزبانی کا حصہ بھی بنا_

معاہدہ الحاق کی قانونی حیثیت کے حوالے سے بھارت کا مؤقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی مرضی اور قانونی اختیارات کے تحت ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا تھا، جسے نہ صرف ہندوستانی حکومت نے قبول کیا بلکہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا۔

کشمیر کی عوامی رائے

کشمیر کے عوام کے لیے یہ دن متنازع رہا ہے۔ کشمیری عوام کی ایک بڑی تعداد اس دن کو اپنی ریاست کی خودمختاری اور آزادی کے خاتمے کے طور پر دیکھتی ہے۔ الحاق کے بعد سے کشمیر میں ہندوستانی حکومت کے خلاف تحریکیں جاری رہی ہیں، اور کشمیر کا مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے۔

بہت سے کشمیری عوام کا مؤقف ہے کہ انہیں اس وقت آزادی یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا موقع نہیں دیا گیا اور ان کی مرضی کے خلاف کشمیر کو ہندوستان میں ضم کیا گیا۔ اس لیے، یوم الحاق کا جشن جہاں ایک طبقہ مناتا ہے، وہیں کشمیر میں اس دن کے حوالے سے اختلافی رائے بھی موجود ہے۔

موجودہ صورتحال

یوم الحاق کے بعد سے کشمیر کی صورتحال نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ 2019 میں ہندوستان نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا، جس کے بعد سے کشمیر میں سیاسی اور عوامی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ پاکستان نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی اور اس کو عالمی سطح پر اٹھایا، جبکہ ہندوستانی حکومت کا مؤقف ہے کہ کشمیر اب ہندوستان کا لازمی حصہ ہے اور وہاں کے حالات بہتر ہو رہے ہیں_
جموں و کشمیر کے الحاق میں شیخ محمد عبداللہ کا کردار:-

شیخ محمد عبداللہ کا الحاق جموں و کشمیر میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ وہ ریاست کے ایک بڑے سیاسی رہنما تھے اور جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کی نمائندگی کرتے تھے۔ ان کا کردار اس وقت مزید اہمیت اختیار کر گیا جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ریاست کے الحاق کا معاملہ سامنے آیا۔

شیخ محمد عبداللہ کا پس منظر:-

شیخ محمد عبداللہ نے 1930 کی دہائی میں کشمیری عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی تھی۔ وہ ریاست کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے بانی تھے، جس کا بنیادی مقصد ریاست میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت کے خلاف عوامی تحریک چلانا تھا تاکہ کشمیری عوام کے حقوق کو بحال کیا جا سکے۔ شیخ عبداللہ کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کا کشمیری عوام، خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ قریبی تعلق اور ان کی جدوجہد تھی۔

الحاق کا وقت اور شیخ عبداللہ کا مؤقف:-

جب 1947 میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ سامنے آیا، تو شیخ محمد عبداللہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے حق میں اپنا موقف واضح کیا۔ ان کا خیال تھا کہ جموں و کشمیر کی ترقی، سیکولرزم اور جمہوریت کا تحفظ ہندوستان کے ساتھ الحاق میں مضمر ہے۔

شیخ عبداللہ کے مطابق، پاکستان ایک مذہبی ریاست کے طور پر اُبھر رہا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ کشمیر، جو مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا مسکن ہے، وہاں کے عوام کے لیے ایک سیکولر ملک زیادہ موزوں ہوگا۔ اس کے برعکس، وہ سمجھتے تھے کہ اگر کشمیر پاکستان میں شامل ہوتا ہے تو اس کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونے کا امکان زیادہ ہوگا، جس سے کشمیر کی متنوع آبادی کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔

مہاراجہ ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ کے تعلقات:-

مہاراجہ ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ کے درمیان تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے تھے۔ شیخ عبداللہ مہاراجہ کی حکومت کو جابر اور عوام مخالف سمجھتے تھے اور ہمیشہ اس کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ تاہم، جب پاکستان کی طرف سے قبائلی حملہ ہوا اور ریاست کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا، تو مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا، جسے شیخ عبداللہ نے بھرپور حمایت دی۔

شیخ عبداللہ اور جواہر لال نہرو:-

شیخ عبداللہ اور ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کے درمیان قریبی تعلقات تھے۔ نہرو خود بھی کشمیری تھے اور وہ شیخ عبداللہ کی عوامی حمایت اور ان کے سیاسی مؤقف کی قدر کرتے تھے۔ شیخ عبداللہ نے نہرو کو یقین دلایا کہ وہ کشمیر کے عوام کو ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری نظام میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ جب مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا، تو شیخ عبداللہ نے نہرو اور ہندوستانی حکومت کے ساتھ مل کر اس فیصلے کی حمایت کی اور ریاست کے الحاق کو مستحکم کرنے میں مدد کی_
شیخ عبداللہ کی حکمرانی اور الحاق کا تحفظ:-
الحاق کے بعد، شیخ محمد عبداللہ کو ریاست جموں و کشمیر کا وزیراعظم مقرر کیا گیا، اور انہیں ریاست کے عوام کی نمائندگی کرنے کا موقع ملا۔ شیخ عبداللہ نے ریاست میں اصلاحات کا آغاز کیا اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ تعلق مضبوط رہے_
تاہم، شیخ عبداللہ کی حیثیت متنازعہ رہی۔ انہوں نے بار بار کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی بات کی، جو ہندوستانی قیادت کے لیے مشکلات کا باعث بننے لگا۔ نتیجتاً، 1953 میں انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور قید کیا گیا۔ شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے بعد ریاست میں ہندوستانی حکومت کے کنٹرول کو مزید تقویت ملی_
مختصر یہ کہ شیخ محمد عبداللہ کا کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق میں کلیدی کردار تھا۔ ان کی حمایت اور سیاسی بصیرت نے اس اہم فیصلے کو ممکن بنایا۔ وہ کشمیر کو ایک سیکولر اور جمہوری ہندوستان کا حصہ بنانا چاہتے تھے تاکہ ریاست کے عوام کی بہتری ہو سکے۔ تاہم، ان کی شخصیت اور ان کے نظریات میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں آئیں، اور بعد میں وہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے حامی بن گئے_
شیخ عبداللہ کے کردار کو کشمیر کی تاریخ میں نہایت اہمیت دی جاتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف الحاق کے عمل میں اہم کردار ادا کیا بلکہ ریاست کی سیاست اور عوامی تحریک میں بھی ان کا اثر و رسوخ ہمیشہ قائم رہا_

آزاد بستی نٹی پورہ ویسٹ
موبائل نمبر9419463487

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا