0
56

 

 

نگینہ ناز منصور ساکھرکر

 

نوی ممبئی

9769600126

 

  • اپنے تھکے نڈھال جسم کو جوں توں کر کے مانو خود کو ہی دھکیلتی میں کسی طرح اپنے آپ کواپنے گھر سے دور لے ہی آئی۔ میری ہی طرح اور کئی ادھیڑ عمر تو ضعیف العمر باغیچے کے کسی نہ کسی بینچ پر بیٹھے تھے ۔میں نے بھی اپنے آپ کو ایک کونے والی بنچ پر ٹکا لیا ۔پر آج سکون کی سانس ہی نہیں لے پا رہی تھی ۔اُکھڑ اُکھڑ کر آنے والی ان سانسوں کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتے کرتے کئی بار سوچا کہ یہی ایک آخری سانس لے ہی لوں تو اچھا ہو۔۔۔۔یہاں بیٹھے کئی لوگ شاید یہی سوچتے ہونگے۔۔۔تبھی تو اپنی بوڑھی ہڈیوں کو کھینچ کر یہاں لے آتے ہیں اور خاموش خلائوں میں سوچتے رہتے ہیں کہ زندگی کے ان اُتار چڑھائو میں وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں کہاں کم پڑ گئے۔۔ہر ایک کی زندگی پلٹوں تو شاید ایک نئی کہانی ملے ۔۔۔میں نے بھی خلائوں میں اپنے سوالوں کے جواب تلاشنے شروع کر دئے ۔۔۔ڈوبتے سورج کی خوبصورتی آج دل کو اور بھی اندھیرا کر رہی تھی ۔۔۔۔آج ایک سوال تھا جو میرے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح کچوٹیں لگا رہا تھا۔۔سائیس سائیس کرتی ہوائیں دماغ میں طوفان کئے ہوئے تھی ۔آنکھوں پر پلکیں تھی کہ جھپکنا بھول گئی تھی ۔۔۔۔پتھرائی سی جا رہی تھی ۔آج میری بیٹی نے کچھ سوال کئے تھے۔’’سارا دن کیا کرتے ہو آپ ؟‘‘۔کتنا سادہ سا سوال تھا۔۔کوئی بھی پوچھ سکتا تھا یہ سوال۔۔۔۔ پر لہجہ ہی بتا سکتا ہے کہ سوال میں وزن کتنا ہے ۔۔میں بھی اس سوال کا جواب تلاشنے یہاں آئی ہوں ۔۔یہ سوال آج مجھے بڑا قیمتی لگا ۔۔۔لگا جیسے ہر اسکول اور کلاس میں اسکا جواب سکھایا جانا چاہئے۔۔۔۔۔ جب سورج کی کرنیں اپنی روشنی زمین پر بھی نہیں پھیلاتی ۔۔۔۔میں تب جاگتی ہوں اسلئے نہیں کہ مجھے نیند نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔۔اسلئے کہ تم سب کو جگا سکوں ،تم سب کیلئے دودھ ناشتہ تیار کر سکوں ۔تمہیں ٹیفن دیکر اسکول ،کالج بھیج سکوں ۔۔۔۔تمہاری تعلیمی ذمہ داری ہماری ہے اسلئے نہیں کہ کل کما کر ہمیں پالو گے بلکہ اسلئے کہ تم اپنی زندگی سنوار سکو۔۔۔۔۔۔۔تم سب کو باری باری الگ الگ وقت میں جگانا ،کھلانا ،نہلانا،اسکول بھیجنا کبھی اپنے ناشتے اور اپنے ملگنجے کپڑوں پر دھیان نہیں دیا۔۔۔۔ میری بیٹی کا یہ سوال اس بات پر تھا کہ میں اکثر اسے کچھ نا کچھ کام کہتی رہتی ہوں ،کالج سے آکر جب وہ اپنا وقت اپنے حساب سے بِتانا چاہتی ہے تب میں کسی نا کسی کام کیلئے اسے آواز دے دیتی ہوں ۔۔۔۔تو بیٹا رانی میں یہ کام تمہیں اسلئے نہیں کہتی ہوں کہ مجھے یہ کرنا نہیں آتا یا اسے کرنے کی اب مجھ میں طاقت نہیں ۔۔۔۔۔ ان چھوٹے چھوٹے کاموں کو تم سے کروا کر میں تمہیں آنے والی زندگی کی مشکلات سے لڑنے کے قابل بنانا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔چاہے جتنا پڑھ لکھ لو ،چاہے جتنا کما لو پھر بھی گھر اور اسکا چولہا چو کہ کسی لڑکی کی زندگی سے کبھی نہیں گیا ۔میری دانٹ تمہیں اچھی نہیں لگتی مگر ایک وقت ہوگا جب ان باتوں کو تم سمجھنے لگو گی تو تمہیں میری یہ ڈانٹ یاد آئے گی ۔۔۔۔۔ زندگی کے سفر کو ماں ،بابا کے بناء جب طے کرو گی تو جانو گی کہ یہ سفر ان کے بناء کتنا مشکل ہے ۔۔۔۔تم نے پوچھا تھا نہ کہ ’جب ہماری ساری ضرورتیں پوری نہیں کر سکتے تھے تو پیدا ہی کیوں کیا تھا ؟‘ہم نے تو نہیں کہا تھا کہ پیدا کرو !تب کسی نے میری ڈب ڈباتی آنکھوں کو نہیں دیکھا ۔۔۔۔ یہ آنکھیں تب ہی روئی تھی جب بچوں کیلئے رب قدوس کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر روئی تھیں ۔۔۔۔یہ آنکھیں تب ہی روئی تھیں جب تم پیدا ہوئی تھی اور تب بھی روئی تھی جب پہلی بار ممی کہہ کر مجھے بلایا تھا ۔۔۔۔۔۔تب بھی آنسو بہائے تھے ۔ جب اسکول گئی تب بھی جب پہلا نتیجہ نکلا تھا مگر آج جتنا درر پہلے ان آنکھوں کو کبھی نہیں ہوا ۔مڈل کلاس فیملی میں کھانا اورپہننا سے آگے کی آسائشیں بچوں کے ایجوکیشن کے نام پر ہی ختم ہو جاتی ہیں ۔ تمہاری بد نصیبی کہ تم لوگ مِڈل کلاس فیملی میں پیدا ہو ئے ۔ خود کی بیماری ہو یا نیا جوڑا کبھی اُس پہ نظر نہ ڈال کر تم لوگوں کی بڑھتی ضرورتوں کے لئے کاٹ کسر کرتی تمہاری ماں آج تمہیں دکھائی نہیں دیتی ۔۔۔۔۔ وہ جو تمہارے بابا رات کو تھکے ہارے آتے ہیں اور کبھی کبھی  نیند میں بھی کراہتے ہیں ۔۔۔دن بھر کی محنت کر کے جن کی ٹانگوں میں درد بڑھ گیا ہے۔۔۔۔۔ جن کے کاندھے ذمہ داری کہ بوجھ سے اور بھی جھک گئے ہیں ۔ وہ اس لئے اپنی ہمت سے زیادہ محنت نہیں کرتے کہ انہیں آرام اچھا نہیں لگتا ۔ وہ اس لئے کرتے ہیں کہ ان کی تھوڑی اور محنت سے تمہارے لئے اور آسائشیں خرید سکیں ۔ سچ کہتے ہو تم لوگ یہ تو سب ماں باپ کرتے ہیں ۔ ہم نے کیا تو کیا کیا ہے ۔ ہاں۔۔۔! آج تمہارے پائوں لکڑی کی پہیوں والی گاڑی سے اُوپر آگئے ہیں ۔ تو تمہیں اس کی اہمیت کا احساس نہیں ۔ ۔۔۔۔ ماں باپ بچوں کے لئے ایک ایسے مضبوط قلعے کی مانند ہوتے ہیں جس کے اندر بچے خود کو شہزادے سمجھتے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اس قلعے کا ایک بھی ستون ہلا تو قلعہ مسمار ہو جاتا ہے ۔ تمہیں لگتا ہو گا کہ اب ہم بڑے ہو گئے ہیں ہمیں اپنے قدموں پر چلنا آگیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اب ہمیں رہنمائی کی کیا ضرورت ۔۔مگر بیٹا جی بالوں میں چاندی اُتر آئے یا پیروں میں لرکھڑاہٹ، پیٹ کا درد ہو یا ہلکی سی کھانسی ماں ہی یاد آتی ہے ۔۔۔۔بابا کی شفقت بھری تھپتھپاٹ جو سکون دیتی ہے نہ وہ کسی ڈاکٹر کی دوائی میں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم بھی ایک عمر کو پہنچ گئے ہیں مگر آج بھی جب ٹھیس لگتی ہے تو اماں ہی یاد آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب کسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں تو ابو یاد آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم جو اپنی ضروروتوں اور آسائشوں کے لئے لڑتے ہونا ۔ یہ جو دنیا کی خوبصورتی تمہیں ریجھاتی ہے یہ جو رنگین شامیں اور مال کی قیمتی اشیا تمہیں اپنی طرف کھنچتی ہیں ۔۔۔ یہ ساری خوبصورتی اسی دنیا کی دین ہے ۔۔۔۔۔۔۔ قدرت نے انہیں ساری رعنائیوں کو دیکھنے اور مشکلوں کو سمجھنے اور اس کی حمد و ثناء کے لئے تمہیں اس دنیا میں بھیجا ہے ۔۔۔۔۔ اگر یہ سب دیکھا کر تمہیں پوچھا جاتا کہ اب دنیا میں جانا چاہتے ہو آپ بنا دیری کہ آجاتے ۔ اس لئے آپ سے پوچھ کر آپ کو پیدا نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔ زندگی سمجھ میں آتے آتے ہمیں بھی کئی سال لگ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ہم اپنا تجربہ آپ کے ساتھ اس لئے بانٹتے ہیں تاکہ آپ اس سے آگے آنے والی کٹھنائیوں میں ناکام نہ ہوں ۔ اپنی بات جتانے کے لئے نہیں بچوں کو آزادی سے اپنے خیالات پیش کرنے کی اجازت دی ۔۔۔اس لئے نہیں کہ ہم پر سوال اُٹھائو اس لئے دی ہے کہ کوئی الجھن باقی نہ رہے ۔۔۔۔۔۔۔آزادی کپڑوں کے فیشن کا نام نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آزادی فراٹے دار انگریزی کا نام نہیں ۔ آزادی بدتمیزی کا نام نہیں۔۔۔ آزادی کا مطلب شاید آج کی جنریشن سمجھ ہی نہیں پائی ۔ یہ کیا کم ہے کہ ہم نے وقیانوسی طریقہ سے آپ کو تعلیم کے بجائے گھر کی چار دیواری میں بند نہیں کیا ۔۔یہ کیا کم ہے کہ ہم نے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم اور ڈگریاں اپنے بچوں کو دی ۔۔۔۔کھیتی باڑی تک محدود نہیں رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں بیٹھا ہر شخص نا جانے کس کس سوال کا جواب کھوج رہا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔سورج نے بھی تھک کر کرنیں سمیٹ لیں ۔۔۔۔۔وہ بھی سارا دن ہم سب کی الجھنیں دیکھ دیکھ کر تھک گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی چل پڑی شاید آج تمہیں اپنے سوال کا جواب آسانی سے دے سکوں ۔۔۔شائد کہ کوئی بات لگ جائے تیرے دل کو اتنی سی سمجھ رکھ لو اتنی سی حیا رکھ لو ۰۰۰۰۰۰

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا