نگینہ ناز منصور ساکھرکرنگینہ ناز منصور ساکھرکرنوی ممبئی 9769600126

0
71

۰۰۰
نہ جانے کیوں مگر آج مجھے نیند ہی نہیں آرہی ہے۔ جب بھی آنکھ بند کرتا ہوں تمہارا پیارا سا چہرہ نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ آج سولا سال بیت گئے مگر تم آج بھی اُتنی ہی خوبصورت لگتی ہو جتنی تب لگتی تھی۔۔۔۔ لگوگی بھی کیوں نہیں اتنے سالوں میں تمہیں دیکھا جو نہیں ہے ۔ مجھے تمہاری وہی شکل یاد ہے۔۔۔ تمہارا وہ خوبصورت انداز سے بالوں کو جھٹکنا۔۔۔ وہ کھڑکیوں سے مجھے دیکھنا۔۔۔ وہ تمہارا  دلنشی اندازِ بیاں ۔۔۔۔تم پڑھی لکھی اور مارڈن سوچ والی لڑکی تھی۔ بائک اور  کار چلانا تمہاری ہابی تھی۔۔۔۔۔ندیم اپنی خیال و یاد کو آگے لے جاتا کہ موذن نے نماز کی دعوت دی اور صبح کی امد کا اعلان کردیا۔ وہ اُٹھ کر مسجد کی جانب چل پڑا۔ آج وہ ساری رات سو نہیں پایا تھا۔ یادوں کے دریچوں سے آج رخسار نے گھونگھٹ اُٹھایا تھا۔ چاہئے جتنے ہی سال بیت جائیں یادوں کے دریچے ایک اک کر کبھی نہ کبھی کُھل ہی جاتے ہیں۔ (ندیم ایک مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھنے والا لڑکا تھا۔ اُنکا گھر ہمیشہ خوشیوں سے بھرا رہتا ۔ وہ دو ہی بھائی تھے، امی اور ابو زندگی سکون سے گذر رہی تھی کہ اچانک ابو کی فیکٹری میں اک حادثہ پیش آیا جس سے ندیم کے والد کی اانکھوں کی روشنی جاتی رہی دھیرے دھیرے اُنکے گھر کی خوشیاں غریبی اور بے روزگاری کی بھیٹ چڑھ گئی۔۔۔۔۔ ندیم اور امی، ابو کی مہ داری اب بھیا پر آگئی تھی۔۔۔ مگر بھیا تو اپنی ساری ذ مہ داریوں کو اپنانے کے بجائے اپنی معشوقہ کی بانہوں میں پناہ گزین ہونا چاہتے تھے اور انکا یہ رویہ اُنکی یہ چاہت امی اور ابو کو ناگوارا گذری کے گھر کی ان حالتوں میں اپنی ذمہ اریوں کو سمجھنے کے بجائے انھیں عشق سوجھ رہا ہے ۔ سارے ہی ان کے اس عشق کے خلاف ہوگئے تھے۔ انکی دلی حالت سے کسی کو کوئی مطلب نہیں رہ گیا تھا۔ بندیشیں اور ڈانٹ بھیا کے حصہ میں آنے لگی۔۔۔  ندیم بچپن سے ہی غریبی اور بھیا کی بے چارگی دیکھ دیکھ کر ہی بڑے ہوئے۔ اس لئے عشق کے نام سے انھیں چڑھ ہوگئی تھی، دلربا چُڑیل لگنے لگی اور محبت  بھوت پریت سے کم نہیں۔ بڑھتے بڑھتے صرف پڑھائی ہی اُن کے سوچوں میں ہوتی سب کی ڈانٹ ڈپٹ اور کوششوں سے بھیا اب راڈ سدھارے اپنی ساری ذمہ داریوں کو پُورا کرنے کے چکر میں محبوبہ ہاتھوں سے پھسل گئی اور اسکی شادی کئی اور ہوگئی۔۔۔ ندیم کے دماغ میں بھیا کی ناکام محبت کا اثر کچھ اسطرح ہوا کے محبت کے نام سے نفرت ہو گئی اور لڑکیوں سے چڑ۔۔۔ اپنا سارا دھیان پڑھائی پر لگا دیا۔ بھیا کی کوشش اور خود کی محنت رنگ لائیں اور ندیم نے انجینئرنگ میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور جاب کی تلاش میں بمبئی کا رخ کیا۔ مشکلیں اور رُکاوٹیں ہر کامیابی کا حصہ ہیں۔ اپنی کڑی  محنت اور ضد نے انھیں ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیا اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے ۔ ـ  ـ’’ یہ تھے ہمارے ندیم صاحب‘‘)۔ نماز سے آکر ندیم نے چائے کی پیالی ہاتھوں میں اُٹھائی اور بالکنی میں آ کھڑے ہوئے۔۔ پڑوس میں ہی شادی کا منڈپ لگا ہوا تھا، ہر طرف گہماگہمی تھی۔ ندیم نے ہاتھوں سے پیالی میز پر رکھی اور آرام کڑسی پر بیٹھ گئے۔۔۔بیٹھ کیا گئے مانوں لیٹ گئے ،  ایک ٹھنڈی آہ! بھری اور سوچوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ایسے ہی ایک خوبصورت دن تھا۔ ندیم کے ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ صاف نظر آنے لگی تھی۔۔۔اُسکی سوچیں مانوں چہرے سے ٹپک رہی تھی۔۔۔۔ ندیم کو اپنے دوست کامران کی شادی کا وہ منظر یاد آرہا تھا۔ سارے دوست بڑے دنوں بعد ملے تھے اس لئے ایک دوسرے سے مل کر خوش ہورہے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے نئے اور پرانےتجربات مشترک کررہے تھے۔ پُرانی باتوں کو یاد کر کر کے مزے لے رہے تھے۔  دوسری جانب کچھ لڑکیاں بھی مہندی کی رسم کا حصہ بنی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں مہندی سے نقش و نگاری کررہی تھی۔ سارے لڑکے کبھی لڑکیوں کو تو لڑکیاں کبھی اُنکو دیکھ رہی تھی۔ یہ شادی کا ماحول بھی عجیب ہوتا ہے مانو چھیڑ چھاڑ اور ہنسی مذاق کی پرمیشن مل جاتی ہے۔ میرا دھیان ان سب میں کہاں، میں نے ہلکی نظر اُن لڑکیوں پر ڈالی بھی تھی مگر کچھ خاص مجھے اُن لڑکیوں میں لگا نہیں تھا۔ شادی کی گہما گہمی ختم ہوئی تو میں واپس ممبئی چلا گیا۔ آفس کے فون کی رنگ ہورہی تھی۔ فون پر میرے گھر کا نمبر فلیش ہورہا تھا میں نے کال رسیو کیا ـ ۔ ’’ہیلو ۔۔۔ندیم کی آواز میں خوشی جھلک رہی تھی لگا امی کا فون ہوگا۔۔۔۔۔۔مگر سامنے سے ایک  اجنبی مگر پیاری سی آواز نے سلام کیا وعلیکم السلام کہہ کے میں نے پوچھا تھا۔ جی کون بول رہی ہیں، سامنے سے صرف اتنا جواب I Love you   ندیم اور فون ڈسکنیکٹ ہوگیا۔ میں حیران تھا کہ بھلا یہ کون ہوسکتا ہے جو ہمارے ہی فون سے ہمیں ’’ I Love You ‘‘ کہے  اور  ہمیں اسکا نام اور پتہ بھی معلوم نہ ہو اور پھر حیران کُن بات یہ بھی تھی کہ سامنے سے کوئی لڑکی اظہارِ محبت کرے۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے سر جھٹک کر کام میں  دل لگانے کی کوشش کی مگر اپنی سوچوں سے پریشان ہوکر میں نے اپنے گھر فو ن لگایا ، امی سے بات ہی کی اشاروں اشاروں میں کس کے آنے اور کال کے بارے میں انکوائری بھی کی مگر بے سود کچھ سمجھ نہ آیا۔  آخر تنگ آکر میں نے سوچنا چھوڑ دیا، ویسے بھی لڑکیوں کے بارے میں سوچنا میری طبعیت کی گوارہ کب تھا۔ اتوار کی چھٹی پر میں پھر اپنے گھر گیا۔۔۔۔۔۔۔اُس دن کامران کے گھر نے ایک Get-to-gather پارٹی رکھی تھی، اپنے قریبی دوستوں اور رشتداروں کے لئے۔۔۔ ہم سب پھر وہی اکٹھا ہوئے۔۔۔۔۔۔ ساری لڑکیاں ایک طرف جمع تھی پر تم سب سے منفرد نظر آرہی تھی، کچھ زیادہ ہی مارڈن پہناوا، اسٹائل میں نے دیکھا تھا تم بار بار مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی گڑ بر میں تم نے اک چٹ میرے ہاتھوں میں تھمائی اور بھاگ گئی  میں نے وہ چٹ چپکے سے اپنی جیب میں رکھ دی یہ دیکھتے ہوئے کے کوئی مجھے دیکھ تو نہیں رہا۔ جب کچھ وقت بعد میں نے اُسے پڑھا تو اس میں ’’ I Love You‘‘  لکھا اور دوسرے دن ملنے کا کہا تھا۔۔۔۔۔ میں حیران تھا اور غصہ بھی کہ یہ طور طریقہ مجھے سخت نا پسند تھا۔ تمہیں مل کر تمہیں سمجھا سکوں اس غرض سے میں تم سے ملا تھا تم کو سمجھانے کی کوشش کی تھی، کہاں تھا تم سے کہ میں ان سب بے تکانہ باتوں کے سخت خلاف ہوں اور ہماری مالی حالت بھی اس قابل نہیں ہے کہ تم جیسی مارڈن لڑکی ہمارے گھر ایڈجیسٹ ہوسکے اور میں چلا آیا۔  پر تم نے میرے خیالوں کو اپنے اوپر حاوی کرلیا تھا، یہ تمہاری حد سے زیادہ سوچنے کی وجہ سے تھا یہ خیالی عشق مجھے پتہ نہیں پر تم دیوانگی کی حد سے گذرنے لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلے مہینے میں پھر چھٹی پر گھر آیا تو دوستوں نے بتایا کہ تم نے اپنی ضد اور دیوانگی میں اپنی کلائی کاٹ لی تھی! میں حیران تھا کہ ہم دونوں کے بیچ ایسا کچھ بھی نہیں تھا کہ تم یہ سب کر گذرو۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تم سے مل کر بات کرنے کی ٹھانی دوست سے تمہارے گھر کا پتہ لیا اور سوچا کہ ایک  بار مل کر اس معاملے کو رفع دفع کردوں ، پتہ دیکھ کر کے میں حیران تھا تم ممبئی سے ہی تعلق رکھتی تھی تمہارا نمبر لیکر میں واپس ممبئی لوٹ آیا۔ ایک اتوار میں نے تمہیں کال کیا اور ملنے کا وقت معین کیا ، تم ملنے  آئی اچھی دیکھ رہی تھی تم پر میرے دل میں تمہاری خوبصورتی نے کوئی دستک نہیں دی۔ میں نے تمہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی اور تم نے مجھے ، ۔۔۔۔ تم اپنی کوششوں سے ہار کر اور میں اپنی کوششوں سے ناکام دونوں اپنے اپنے گھروں کا لوٹ آئے، دن مہینوں اور سالوں میں بیت گئے۔۔۔۔۔ میری منگنی ہوگئی اور شادی بھی۔۔۔۔۔  تم سے اکثر باتیں ہوتی فون پر اک دو بار اُس دوران ہم ملے بھی تھے۔ میں نے تمہیں تب بھی سمجھایا کے اب تو سمجھ جائو کے میں تمہارے لئے نہیں ہوں پر تمہاری ضد نے تمہیں خود کر بنا دیا تھا۔ مجھے پتہ چلا کے تم نے پھر اپنی کلائی کاٹ لی ہے۔ میں تم سے ملنے تمہارے گھر گیا۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری امی۔۔۔۔۔۔ بہن سب سے ملاقات کی اور انھیں بتایا کے میرا ایسا کوئی منشا نہیں کہ میں تمہیں دھوکے میں رکھوں۔ میں نے تم سے مل کر سمجھانا چاہا، تمہاری امی سے بھی بات کی تم نے اپنی کلائی پر ـ’’ N‘‘ لکھنے کی کوشش کی تھی اور اپنی دیوانگی کا اظہار کیا تھا، میں تمہیں سمجھا سمجھا کر تھک گیا تھا، تم ٹھیک ہونے کے بعد مجھے کال کرتی۔۔۔۔۔ اور تم کہیں پھر کچھ کر نہ بیٹھو اس لئے میں تم سے باتیں کرتا۔ تم مجھ سے ملنے آتی اور نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے تمہاری مرضی کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑتے ۔ پر پھر بھی مجھے تم سے محبت نہیں ہوئی، تمہاری بے انتہا محبت کو سمجھ تو سکتا تھا مگر اُسے قبول نہیں کر پایا، شاید اس لئے بھی کہ تم ایک مارڈن گھرانے سے تعلق رکھتی تھی یہ شاید میرے امی ابو کی صحیح دیکھ بھال نہ کر سکو، اِنکی عزت نہ کر سکو، گائوں میں انکے ساتھ نہ رہ سکو۔۔۔۔۔۔۔اور اس پہ میری غریبی کے میں تم کو وہ سب عیش و آرام نہیں دے سکتا تھا۔ جس کی تم عادی تھی اور حقدار بھی، تمہاری محبت کو میں آج بھی سلام کرتا ہوں۔ تم سے محبت مجھے آج بھی نہیں ہے۔ مگر تم میری یادوں میں اب بھی ایک خاص مقام رکھتی ہو۔ تم نے شادی کر لی تھی اب تم مجھ سے نہیں ملتی اور نہ ہی مجھے پتہ ہے کہ تم کہاں ہو، اور کیسی ہو پر دُعا کرتا ہوں تم مزاجی خدا کے ساتھ خوش رہو۔۔۔۔۔ ۔۔شاید تم مجھے اب بھی بھلا نہیں پائی ہوگی۔۔۔یا کہ تم نے مجھے بھلا دیا ہو، بے وفا کہہ کر،،، یا کہ بے درد کہہ کر تم اپنے درد کوبھلا کر اپنی نئی زندگی کو خوشی خوشی گلے لگا لیا ہوگا۔ مگر تم کبھی جان بھی نہیں پائوگی کے تم میرے خیالوں میں آج بھی آتی ہو پتہ نہیں کس حق سے تم میری تنہائیوں میں اپنی باتوں کو دہراتی ہو، جب بھی یاد وں کے دریچوں پہ دستک ہوتی ہے سب پہلے اُس دریچے سے تمہارا چہرہ ہی جھانکتا ہے، ویسے ہی جیسے پہلی بار ملی تھی۔دو ننھے ننھے ہاتھوں نے ندیم کے گالوں کو چھوا تو اسکی سوچوں کا سلسلہ ٹوٹا اس نے آنکھ کھول کر بڑے پیار سے اپنی بیٹی کو دیکھا اور اُسے گودی میں اُٹھا کر گلے سے لگایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یادوں کی دنیا میں جو کچھ بھی ہو پر اب میری دنیا تو یہی ہے میری بیٹی رُخسار۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچتے ہوئے ندیم کے ہونٹوں پر ایک پُرسکون مُسکان اُبھر آئی۔۔۔’’ پہلی محبت کا اثر میں نے ہر شب دیکھا ہےکے وقت بے وقت یاد آتی ہے اُس دیوانی کی‘‘

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا